afrozgulri
مبتدی
- شمولیت
- جون 23، 2019
- پیغامات
- 32
- ری ایکشن اسکور
- 6
- پوائنٹ
- 17
بسم الله الرحمن الرحيم
(اسباب و عوامل)
از قلم : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبرا،ممبئی
إِنَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون]
[يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمِ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا]
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا] وشر الأمور محدثاتها وكلّ محدثة بدعة , وكلّ بدعة ضلالة , وكلّ ضلالة في النار- اَما بعد:
رزق کے لغوی معنی ’’ عطا ‘‘ کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہرعطاکردہ چیزکوکہاجاتاہے۔مال، علم،طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق کے ایک معنی نصیب بھی ہیں۔جو غذا پیٹ میں جائے اس کو بھی رزق کہتے ہیں۔
دینی اصطلاح میں جائز ذرائع سے روزی کمانا رزقِ حلال کہلاتا ہے ۔نا جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال دین کی نظر میںحرام ہے ۔ہمارا پیارا دین ہمیں یہ تاکید فرماتا ہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی طیب و حلال ہو ۔
رزق اللہ تعالٰی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشادہے :" إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ’’ اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘ (الذاریات:58)
اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو کشادہ اور وسیع رزق عطا کرتا ہے، اور بعض لوگوں کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے۔ ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالٰی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے، چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جان دار ہوں، یا ہوا میں اْڑنے والے پرندے ہوں۔ نہ سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جان دار اللہ تعالٰی کی نگاہ سے اوجھل ہیں، اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی بھولتا ہے ۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے، : ’’ ۞ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ . اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔‘‘ (ھود:06)
ہم لوگ رزق صرف کھانے کی چیزوں کو کہتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بل کہ رزق اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہر نعمت کو کہتے ہیں، چاہے وہ صحت ہو، علم ہو، اخلاق ہو، عمل ہو، نیک بیوی اور اولاد ہو، مال ہو، دلی اطمینان ہو، یا پھر امن کی نعمت ہو۔ اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر نعمت پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ’’ إِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو اْنہیں شمار نہیں کرسکتے۔‘‘ (النحل :18 )۔
یہ اللہ تعالٰی کی حکمت ہے، کہ رزق کی تقسیم میں لوگ مختلف ہیں۔
قرآن مجید اور روزی کی کثرت :
قرآ ن مجید نے چند امور ایسے ذکر کئے ہیں جو بذات خود انسانی تربیت کے لیے تعمیر ی درس کی حیثیت رکھتے ہیں ،ایک مقام پر ارشاد فر ماتاہے :
لئن شکرتم لاز یدنکم
اگر تم نے نعمتوں کاشکر ادا کیا( انہیں اپنے صحیح مصرف میں خرچ کیا) تو تمہیں زیادہ نعمتیں عطاکروں گا ۔( ابرہیم :07)
ایک دوسرے مقام پر لوگوں کوتلاش وحصول روزی کی دعوت دیتے ہوئے فرماتاہے :
ہُوَ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فی مَناکِبِہا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِہ
خدا تو وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے خاضع اور خاشع بنادیاہے تاکہ تم اس کی پشت پر چلو پھر و اوراس کے رزق سے کھا ؤ پیو۔ ( ملک :15)
ایک اورمقام پر تقویٰ اورپر ہیز گاری کووسعت رز ق کامعیار بتایا ہے ،ارشاد ہوتاہے :
وَ لَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُری آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّماء ِ وَ الْاٴَرْضِ
یعنی اگرروئے زمین کے لوگ ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں توہم آسمان و زمین کی برکتیں ان کے لیے کھول دیں۔ ( اعراف / 96)
قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے. اللہ تعالی نے جب سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے حکم دیا:
اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَد
لکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے.
(ترمذی: 2155 اور 3319، ابو داؤد: 4700، مسند احمد: 5/317 بالفاظ مختلفة)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد
تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے.
(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)
بعض کو وہ اپنی حکمتِ بالغہ کی وجہ سے زیادہ اور بعض کو کم دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ اور اللہ تعالٰی نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔‘‘ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ"(النحل: 71)
’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔‘أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ"
‘ (الزخرف : 32)۔
کیا آپ کے رب کی رحمت کویہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانئی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہےاور ایک دوسرے سے بلند کیاہےتاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کرلے۔جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔
اِس حقیقت کو سمجھنے کے بعد بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں، نہ کسی سے حسد ہوتا، نہ دشمنی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، نہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ مشقت میں مبتلا کرنا پڑتا ہے، اور نہ رزق کو تلاش کرنے کے لیے غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات توہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیئے کہ کسی کے رزق کی وسعت کبھی انسان کوروزی کی وسعت کے ذریعے آزماتاہے اوربے انتہامال اس کے اختیار میں دے دیتا ہے اورکبھی معیشت کی تنگی کی وجہ سے اس کے صبراستقامت اور پامردی کاامتحان لیناچاہتا ہے اوراس سے ان صفات کو پروان چڑھاتاہے۔
کبھی تو ایسا ہوتاہے کہ مال و دولت کی فراوانی صاحبان مال کے لیے وبال جان بن جاتی ہے اوران سے ہرقسم کاسکھ اور چین چھین لیتی ہے . چنانچہ سور ہ ٴ توبہ کی ۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے :
فَلا تُعْجِبْکَ اٴَمْوالُہُمْ وَ لا اٴَوْلادُھمْ إِنَّما یُریدُ اللَّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ تَزْھقَ اٴَنْفُسُہُمْ وَ ھمْ کافِرُونَ
ان لوگوں کے مال و دولت اوراولاد کی فراوانی تجھے حیران نہ کردے . خداتو یہی چاہتاہے کہ انھیں اس ذریعے سے دنیا وی زندگی میں عذاب دے اوروہ کفر کی حالت میں مریں۔
سورہ ٴ موٴ منون کی آیات.56/55 میں فرمایا گیا ہے :
اٴَ یَحْسَبُونَ اٴَنَّما نُمِدُّھمْ بِہِ مِنْ مالٍ وَ بَنینَ ،نُسارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْراتِ بَلْ لا یَشْعُرُونَ
کیاوہ گمان کرتے ہیں کہ ہم نے جوا نہیں مال و اولاد عطاکی ہے اس لیے ہے کہ ان پراچھائیوں کے درواز ے کھول دیئے ہیں ،ایسانہیں ہے،وہ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔
کائنات کے مالک و خالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اخروی معاملات میں رشد و ہدایت کار فرما ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے' اسی طرح یہ دین اللہ تعالٰی نے اس لیے بھی نازل فرمایا کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللی مالک الملک نے ساری انسانیت کیلیے اسوہ حسنہ قرار دیا' وہ سب سے زیادہ جو دعا اللہ تعالٰی سے کرتے' اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے:
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) تھی‘‘
صحیح البخاری 191/11
کسب معاش کے معاملے میں اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو حیرانی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا' بلکہ کتاب و سنت میں رزق کے حصول کے اسباب کو خوب وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے' اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوتی سے تھام لے اور صحیح انداز میں ان سے استفادہ کرے تو اللہ مالک الملک جو بہت زیادہ رزق عطا فرمانے والے اور بہت زیادہ قوت والے ہیں' لوگوں کیلیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دیں۔ آسمان سے ان پر خیروبرکات نازل فرما دیں اور زمین سے ان کیلیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوائیں۔
قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا باعث ہیں، ہم درج ذیل سطور میں مختصراً کچھ اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر الله تعالیٰ کیطرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے ۔یقینا ہم رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جد وجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کرلیتے ہیں۔ اگر ہم دنیاوی جد وجہد کے ساتھ‘ اِن اسباب کو بھی اختیار کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ، جو ہر شخص کی خواہش ہے ۔
پہلی چیز :
بہترین رزق دینے والے سے رزق مانگو
۱۔ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"
(المائدہ:114)
۲۔ وَإِذَا قُلْتَ: اللهُمَّ ارْزُقْنِي قَالَ اللهُ: قَدْ فَعَلْتُ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تم کہو گے:
اللهُمَّ ارْزُقْنِي
تو اللہ کہے گا:میں نے رزق دینے کا فیصلہ کردیا۔
(شعب الایمان:610، السلسلۃ الصحیحۃ:3336)
دوسری چیز:
رزق کے حصول کے لیے اللہ سے اس کا فضل مانگنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْبُرْجُمِيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: ضَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِهِ يَبْتَغِي عِنْدَهُنَّ طَعَامًا، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ، فَقَالَ: «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ؛ فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ» ، فَأُهْدِيَتْ إِلَيْهِ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ، فَقَالَ: «هَذِهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ»
معجم الكبيرللطبراني:10379
والسلسلة الصحيحة:1543
عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ ﷺ نے کھانا لانے کے لیے (ایک آدمی کو) اپنی ازواج کے پاس بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی کھانا نہ ملا۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی:
اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ،فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، بےشک تیرے سوا اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ کے پاس بھنی ہوئی بکری کا تحفہ لایا گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے اور ہم رحمت کا انتظار کررہے ہیں۔
رزق بھی لکھا ہوا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. ہاں البتہ طلبِ رزق كے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان میں سے اک سعی وکوشش بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے.
(سورۃ الملک: 15)
تیسری چیز :
رزق کے حصول کے لیے استغفار کرنا:
(اللّہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنا):
جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیا جاتا ہے' ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :
" فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا۔ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا۔ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارا "
پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح:10-12)۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ استغفار کے متعلق فرماتے ہیں:
’’استغفار قول و فعل دونوں سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ’استَغفِروا رَبَّکم اِنَّہ کَانَ غَفَّارََا‘
(تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' وہ گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں)
اس ارشاد میں صرف زبان ہی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ زبان اور عمل دونوں کے ساتھ معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عمل کے بغیر فقط زبان سے گناہوں کی معافی طلب کرنا بہت بڑے جھوٹوں کا شیوہ ہے۔
(المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 362)۔
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی' ایک نے قحط سالی کی' دوسرے نے تنگ دستی کی' تیسرے نے اولاد نہ ہونے کی اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن صبیح سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے رو برو قحط سالی کی شکایت کی' تو انہوں نے اس سے فرمایا: اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی' تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔‘‘
تیسرے شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: ’’اللہ تعالٰٰی سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرما دیں۔‘‘ آپ نے اس کو جواب میں تلقین کی: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو۔‘‘
چوتھے شخص نے ان کے سامنے اپنے باغ کی خشک سالی کا شکوہ کیا تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی التجا کرو۔‘‘
(ابن صبیح کہتے ہیں) ہم نے اس سے کہا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ربیع بن صبیح نے ان سے کہا: آپ کے پاس چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا کہ ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرو۔‘‘
(تفسیر الخازن 154/7' روح المعانی 73/29)
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی (میں نے تو انہیں اس بات کا حکم دیا ہے جو بات ربِ رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ہے) سورہ نوح میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
’’ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا ‘‘
’’اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘
(تفسیر القرطبی 303/18' تفسیر الکاشف 192/4' المحرر الوجیز 123/16)
اللہ اکبر! استغفار کے فوائد و ثمرات کتنے عالی شان اور زیادہ ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات (۱۰۔۱۲)، سورۂ ہود کی آیت نمبر (۳)
"وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ،
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معافی کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو،وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان زندگی دےگا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
اور آیت نمبر (۵۲) میں حضرت ہود علیہ السلام کی نصیحت کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
":﴿ وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ ﴾․ (سورہ ہود، آیت:52)
اے میری قوم کے لوگو!تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقریروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو ،تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دےاور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھانے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو۔
میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔
اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ کرنے والوں کیلیے اللہ مالک الملک کی طرف سے (متاع حسن)(اچھا سازوسامان) عطا فرمانے کا وعدہ ہے اور(متاع حسن) عطا کرنے سے مراد جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا' یہ ہے کہ وہ تمہیں تونگری اور فراخی رزق سے نوازیں گے۔
زاد المسیر 75/4
امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ استغفار و توبہ کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں وسعتِ رزق اور خوش حالی سے نوازیں گے اور تمہیں اس طرح عذاب سے نیست و نابود نہ کریں گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو کیا۔‘‘
(تفسیر القرطبی 403/9' تفسیر الطبری 230/15' تفسیر الکاشف 258/2' تفسیر البغوی 373/4' فتح القدیر 695/2' تفسیر القاسمی 63/9)۔
اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ اور وسعتِ رزق میں وہی صلہ اور تعلق ہے جو صلہ و تعلق شرط اور اس کی جزا کے درمیان ہوتا ہے۔ استغفار و توبہ کا ذکر بطور شرط کیا گیا ہے اور فراخی رزق کا بطور جزا اور معلوم ہے کہ جب بھی شرط پائی جاتی ہے جزا کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بھی بندے کی طرف سے استغفار و توبہ ہو گی' رحمٰن و رحیم رب کری کی طرف سے اس کیلیے لازماََ وسعتِ رزق اور خوش حالی ہو گی۔ مشہور مفسر قرآن شیخ محمد امین شنقیطی فرماتے ہیں:
’’ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کرنا فراخی رزق اور تونگری و خوش حالی کا سبب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے استغفار و توبہ کو بطور شرط اور تونگری و خوش حالی کو بطور جزا ذکر فرمایا ہے‘‘
(اضواء البیان 9/3)
امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’ اس آیت میں اور سورۃ ہود کی آیت (وَيَقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی کا سوال کرنے کے ذریعے سے رزق اور بارش طلب کی جاتی ہے۔‘‘
(تفسیر القرطبی 302/18)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اگر تم اللہ تعالٰی کے حضور توبہ کرو' ان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور ان کی اطاعت کرو تو وہ تم پر رزق کی فراوانی فرما دیں گے' آسمان سے بارانِ رحمت نازل فرمائیں گے' زمین سے خیر و برکت اگلوائیں گے' زمین سےکھیتی کو اگائیں گے' جانوروں کا دودھ مہیا فرمائیں گے' تمہیں اموال اور اولاد عطا فرمائیں گے' قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائے گے اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کریں گے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر 449/4)
حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “ من لزم الاستغفار جعل الله له من كل هم فرجا ومن كل ضيق مخرجا ورزقه من حيث لا يحتسب"
جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔” (ابوداؤد:1518/ابن ماجہ : 3819)۔
اس حدیث پاک میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والے کو تین ثمرات و فوائد حاصل ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور ان تین میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ سب سے بڑی قوت و طاقت کے مالک اللہ الرازق اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔
۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں ’’شریعت میں توبہ کا مطلب ہے گناہ کو اس کی قباحت کی وجہ سے چھوڑنا-
اپنی غلطی پر نادم ہونا
آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا
اور جن اعمال کی تلافی ان کے دوبارہ ادا کرنے سے ہو سکے ان کیلیے بقدر استطاعت کوشش کرنا۔
اور جب یہ چاروں باتیں جمع ہو جائیں تو توبہ کی شرائط پوری ہو گئیں۔‘‘
(المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 76)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’علماء نے فرمایا ہے: ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے' اگر اس گناہ کا تعلق صرف بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو' کسی اور آدمی سے اس کا تعلق نہ ہو تو اس گناہ سے توبہ کیلیے حسب ذیل شرائط ہیں:
1۔ اس گناہ کو چھوڑ دے۔
2۔ اس پر نادم ہو۔
3۔ اس بات کا عزم کرے کہ آئندہ اس گناہ کا ارتقاب نہ کرے گا۔
اگر تین شرائط میں سے کوئی شرط بھی مفقود ہو گئی تو اس کی توبہ درست نہیں۔
اور اگر گناہ کا تعلق کسی بندے سے ہو تو اس ست توبہ کیلیے چار شرائط ہیں۔ تین سابقہ شرائط اور چوتھی شرط یہ کہ حق دار کا حق ادا کرے۔ اگر اس کا حق مال کی صورت میں ہے تو یہ مال واپس کرے اور اگر اس پر ایسا الزام تراشا کہ جس کی سزا حد قذف ہو تو حق والے کو موقع فراہم کرے کہ وہ اس پر حد قائم کرے یا اس سے عفوودرگزر کی درخواست کرے' اور اگر اس نے اس کی غیبت کی ہو تو اس سے اس کی معافی طلب کرے۔‘‘
(ریاض الصالحین ص 41/42)
چوتھی چیز:
رزق کی دعا کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
( العنكبوت :17)۔
تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کررہے ہو اور جھوٹی باتیں دل میں گڑھ لیتے ہو۔سنو !جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کررہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! جب میں اپنے رب سے دعا کروں تو کیا کہا کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: کہو
اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي
اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ ہر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے انگوٹھے کو نکال کر باقی چار انگلیوں کو بند کرکے فرمایا: یہ چیزیں تمہاری دنیا و آخرت کو جمع کرنے والی ہیں۔
(صحيح مسلم:2697)۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ نماز فجر سے سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ رزق اور قبولیت والے عمل کی دعا کرتا ہوں۔
(سنن ابن ماجہ:925)
مثلاً حلال و طیب رزق کی دعا مانگنا یہ کہہ کر
"اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ "
اےاللہ! تو مجھے اپنی حلال کردہ چیز کے ذریعے اپنی حرام کردہ چیز سے کافی ہوجا اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ سب سے بےنیاز کردے۔
(جامع ترمذی:3563)
ضرورت کے مطابق رزق مانگنا جیسے
۔" اللهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ بَيْتِي قُوتًا"
اے اللہ! میرے گھر والوں کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
(بخاری:6460/مسند احمد:7173)
پانچویں چیز :
بڑھاپے میں وسیع رزق کی دعا :
. اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمُرِي
اے اللہ! جب میں بوڑھا ہوجاؤں اور میری عمر ختم ہونے لگے تو اپنا رزق مجھ پر وسیع کردے۔
(المعجم الاوسط للطبراني:3611)
چھٹی چیز :
پاکباز زندگی کی خاطر نکاح کرنا
فرمان الٰہی ہے۔
" وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ" [النور:32]۔
تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والاہے۔
محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے۔ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ تعالٰی ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت وفراخی میں بدل دے۔
حدیث میں آتا ہے۔
"ثلاثة حق على الله عونهم المجاهد في سبيل الله والمكاتب الذي يريد الأداء والناكح الذي يريد العفاف"
تین شخص ہیں جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے
مکاتب غلام ،جو ادائیگی کی نیت رکھتاہے۔
نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔
اخرجه النسائي والترمذي 4/134 وقال حديث حسن وابن ماجة2/841 وعبد الرزاق 5/209
ر9542 واحمد 2/251و437 وابن حبان 9/339 والحاكم 2/160و161و217 وابن ابي عاصم الضحاك في الجهاد 1/237 وغيرهم من طريق محمد بن عجلان عن سعيد المقبري عن ابي هريرة مرفوعا....قال الحاكم صحيح على شرط مسلم ووافقه الذهبي ۔
ساتویں چیز :
فضل، رزق اور برکت کی دعا :
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ : كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا : لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ ) .
رواه ابن ماجه ( 257 ) وحسَّنه الألباني في " صحيح ابن ماجه " .
جس کا مطمح نظر آخرت ہو اللہ تعالیٰ اسے مال کے ساتھ ساتھ اس کے سارے معاملات کے لیے کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
وعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ هَمَّهُ : جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ ، وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا هَمَّهُ : جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ ) .
رواه الترمذي ( 2465 ) وأبو داود ( 1668 ) وابن ماجه ( 4105 ) ، وصححه الألباني في " صحيح الترمذي " .
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ) الزخرف/ 36 .
اور جو رحمان کے ذکر سے اعراض کرتا ہے ہم اس کے ساتھ میں شیطان مسلط کردیتے ہیں پس شیطان ان کا برا دوست بن جاتا ہے۔
آپ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ پریشانی یا تکلیف کے موقع پر یہ دعا پڑھے
أ. عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عِنْدَ الْكَرْبِ يَقُولُ : ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ) .
رواه البخاري ( 5985 ) ومسلم ( 2730 ) .
حَ
دَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِيَ عَلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» ، فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا، فَقَالَ:
«اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُكُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ. اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَالنَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالْأَمْنَ يَوْمَ الْحَرْبِ، اللَّهُمَّ عَائِذًا بِكَ مِنْ سُوءِ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ مِنَّا
اے اللہ! تیرےلیے ہی سب قسم کی تعریف ہے، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹنے والا نہیں ہے، جو تو دور کردے اسے کوئی نزدیک کرنے والا نہیں، جسے تو نزدیک کردے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے، جس سے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔اے اللہ! ہم پر اپنی برکات، اپنی رحمت، اپنے فضل اور اپنے رزق کو پھیلا دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے ایسی نعمتیں مانگتا ہوں جو ہمیشہ قائم رہیں نہ (تیری اطاعت میں) حائل ہوں اور نک زائل ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے تنگی کے دن کی نعمت اور جنگ کے دن کے امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! تیری پناہ میں آتا ہوں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔
(الادب المفرد للبخاري:699
وصححہ الالبانی)
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي، وَبَارِكْ لِي فِي رِزقِْي
اے اللہ! میرے گناہ معاف کردے، میرے گھر میں وسعت پیدا کردے اور میرے رزق میں برکت دے۔
(صحيح الجامع الصغير للالباني:1266)۔
آٹھویں چیز :
تقو'ی (اللّہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنا :
اور انہیں اسباب میں سے ایک سبب تقویٰ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۞ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو
(سورۃ الطلاق: 2 اور 3)۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
’’گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا اور اس کیلیے ممنوعہ باتوں کو چھوڑا جاتا ہے اور اسکی تکمیل کی غرض سے کچھ جائز امور کو بھی ترک کیا جاتا ہے۔‘‘
(المفردات فی غریب القران ص531)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
’’اللہ تعالٰی کے اوامرونواہی کی پابندی کرنا۔ اور تقویٰ کے معنے یہ ہیں کہ انسان ایسے کاموں سے بچا رہے جو اللہ تعالٰی کی ناراضی اور عذاب کا سبب ہوں۔‘‘
(تحریر الفاظ التنبیہ ص 322)
امام جرجانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اللہ تعالٰی کی اطاعت و تابعداری کے ذریعے سے اپنے آپ کو ان کے عذاب سے بچانا اور اس مقصد کی خاطر اپنے نفس کو ایسے کام کرنے یا چھوڑنے سے بچائے رکھنا جن کے کرنے یا چھوڑنے سے انسان عذاب کا مستحق ٹھہرے‘‘
(کتاب التعریفات ص 68)
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے تقوی ان امور میں سے ایکہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔
تقوے کے رزق کا سبب ہونے پر کئی آیاتِ کریمہ دلالت کرتی ہیں۔
ان میں سے چند ایک مناسب تفسیر کے ساتھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا‘‘
(سورہ الطلاق آیت 3-2)۔
اس ارشادِ مبارک میں اللہ رب العزت نے بیان فرمایا کہ جس شخص میں تقوے کی صفت پیدا ہو گئی، اللہ تعالٰی اس کو دو نعمتوں سے نوازیں گے۔
پہلی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اس کو ہر غم و مصیبت سے نجات دیں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کو دنیا و آخرت کے ہر غم سے نجات دیں گے۔‘‘
(تفسیر القرطبی 159/18)
حضرت ربیع بن خثیم آیتِ کریمہ کے اس حصے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کیلیے ہر اس بات سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے جو لوگوں کیلیے تنگی اور مشکل کا سبب بنتی ہے۔‘‘
(تفسیر البغوی 357/4 وتفسیر الخازن 108/7).
دوسری نعمت یہ ہے اللہ تعالٰی اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جو کوئی اللہ تعالٰی کے احکام کی تعمیل کر کے اور ان کی طرف سے ممنوعہ باتوں سے دور رہ کر متقی بن جائے، وہ اس کیلیے ہر مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے اور اس کو وہاں سے روزی عطا فرمائیں گے جہاں سے رزق کا ملنا اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر 400/4, زاد المسیر 292/8 وتفسیر الکاشف 120/4)
اللہ اکبر! تقوے کی خیر و برکت کتنی عظیم اور قیمتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’غموں اور دکھوں سے نجات کا نسخہ بتلانے والی قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت کریمہ یہ ہے: وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا‘‘
(تفسیر ابن کثیر 400/4 ، تفسیر ابن مسعود 651/2)
تقوے کے حصولِ رزق کا سبب ہونے کی دوسری دلیل اللہ مالک الملک کا یہ ارشاد گرامی ہے:
"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَهُم بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ "
’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور (برے کاموں کفر اور شرک سے) بچے رہتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کاموں کی سزا میں ان کو دھر پکڑا۔‘‘
(سورہ الاعراف آیت 96)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اگر بستیوں والوں میں دو باتیں یعنی ایمان اور تقویٰ آجائیں تو وہ ان کیلیے ہر طرف سے خیر و برکات کے دروازوں کو کھول دیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ( لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’تو ہم ان کیلیے خیر عام کر دیں اور ہر جانب سے اس کا حاصل کرنا ان کیلیے سہل کر دیں۔‘‘
(تفسیر ابن السعود 253/3)
ایمان و تقویٰ والوں کے لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی کی جانب سے آسمان و زمین سے برکات کے کھولنے کے وعدے میں کتنے ہی لطائف پنہاں ہیں' ان میں سے تین ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ اللہ تعالٰی نے ایمان و تقویٰ والوں کیلیے برکات کے کھولنے کا وعدہ فرمایا ہے' اور لفظ ((البرکات))((لابرکۃ)) کی جمع ہے اور ((البرکۃ)) کی تفسیر کرتے ہوئے امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’کسی چیز پر مداومت اور ہمیشگی‘‘
(تفسیر البغوی 183/2)
اور امام خازن اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ کسی چیز میں خیر الٰہی کا دوام و ثبوت ہے۔‘‘
(تفسیر الخازن 366/2)
اسی طرح ((البرکات)) کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بدلے میں ملنے والا ثمرہ و فائدہ عارضی اور وقتی نہین' یا ایسا نہیں جو شر سے بدل جائے بلکہ وہ دائمی اور ابدی خیر ہے۔
سید محمد رشید رضا نے ایمان و تقویٰ والوں پر نازل ہونے والی برکات کی عمدگی اور خوبی کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’مومنوں پر جو نعمتیں اور برکات نازل کی جاتی ہیں وہ ان پر خوش اور راضی ہوتے ہیں اور اللہ تعالٰی کا شکر کرتے ہیں' خیر کی راہوں میں ان کو استعمال کرتے ہیں' شر و فساد کی جگہوں پر ان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں' نعمتوں اور برکات کے ملنے پر ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی ان پر اپنی نعمتوں میں اضافہ فرماتے ہیں اور آخرت میں انہیں بہترین اجر چطا فرمائیں گے۔‘‘
(تفسیر المنار 25/9)
شیخ ابن عاشور نے ((البرکۃ)) کی تفسیر مین فرمایا ہے:
’’البرکۃ سے مراد وہ عمدہ خیر ہے جس کے استعمال کی بنا پر آخرت میں کچھ مواخذہ نہ ہو گا اور یہ نعمت کی بہترین کیفیت ہے‘‘
(تفسیر التحریر والتنویر 22/9)۔
اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ “برکات” استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہبات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہتسے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سےبہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مرادنباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمانباپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں منجانب الله خیر پائی جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سورۂ الطلاق۲۔۳)
لیکن آپ یہ نہ کہیں کہ رزق تو لکھا ہوا اور محدود ہے لہذا میں حصولِ رزق كے لیے اسباب اختیار نہیں کروں گا کیونکہ یہ تو عجز ودرماندگی ہے اور عقل واحتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ رزق اور دین ودنیا کا فائدہ حاصل کرنے كے لیے کوشش کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے
(ترمذی: 2459، ابن ماجہ: 4260، مسند احمد: 4/124) (کئی محدثین نے اسکو ضعیف کہا ہے)
جس طرح رزق لکھا ہوا اور اسباب كے ساتھ مقدر ہے اسی طرح شادی کا معاملہ بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے میاں بیوی میں سے ہر ایک كے لیے یہ لکھا ہوا ہے كہ اس کی شادی اس سے ھوگی اور اللہ تعالی سے تو آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.
{فتاوی اسلامیه: 3/133}۔
نوویں چیز :
اللہ تعالیٰ پر توکل:
توکل (بھروسہ) کے معنی
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘
(احیاء علوم الدین 259/4)
علامہ مناوی فرماتے ہیں:
’’توکل بندے کے اظہارِ عجز اور جس پر توکل کیا گیا ہے' اس پر مکمل بھروسے کا نام ہے۔‘‘
(فیض القدیر 311/5)
ملا علی قاری ((التوکل علی اللہ حق التوکل)) اللہ تعالٰی پر کماحقہ توکل کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ درحقیقت ہر کام کرنے والے اللہ تعالٰی ہیں۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے تخلیق و رزق' عطا کرنا یا محروم رکھنا' ضررونفع' افلاس و تونگری' بیماری و صحت' موت و زندگی غرضیکہ ہر چیز فقط اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے‘‘
(مرقاۃ المفاتیح 156/9)
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکل علی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾․ (سورہٴ طلاق:3)
“جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت)مقرر کر رکھا ہے۔”
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہوسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ،پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھرتوکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ،وہ اس کو کافی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۳)
عَنْ عُمَرَ بن الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُوا خِمَاصاً وَتَرُوْحُ بِطَاناً»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔
(سنن ترمذي:2344 )' سنن ابن ماجہ 419/2' کتاب الزہد194/4' الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 509/2)۔
اس حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی امت کو خبر دی کہ اللہ تعالٰی پر کماحقہ بھروسہ کرنے والوں کو اسی طرح رزق عطا کیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو رزق مہیا کیا جاتا ہے اور ایسے کیوں نہ ہو؟ اللہ تعالٰی پر توکل کرنے والے نے اس عظیم، منفرد، یکتا اور کائنات کے مالک پر بھروسہ کیا جن کے (كُ۔
یاد رکھیں کہ حصولِ رزق کے لئے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لئے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
دسویں چیز :
رزق کےحصول کے لیے تسبیح کرنا :
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، سَمِعْتُ الصَّقْعَبَ بْنَ زُهَيْرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ........إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ نُوحًاصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ لِابْنِهِ... وَسُبْحانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ، وَبِهَا يُرْزَقُ كُلُّ شَيْءٍ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی نبی نوح ﷺ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
'سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ
پاک ہے اللہ اپنی تعریف کے ساتھ'
کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
(مسند احمد:7101
الادب المفرد للبخاري:548
والسلسلة الصحيحة:134.)
گیارہویں چیز :
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہونا:
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لئے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالاتے ہوئے زندگی گزاریں۔
اسسے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضورمیں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (صحیح الترغیب والترہیب،129/4)۔
بارھویں چیز :
حج اور عمرہ میں متابعت (بار بار حج اور عمرہ ادا کرنا :
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ" (سورة آل عمران:97)
" اور اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج واجب ہے جو راستہ کی طاقت رکھتے ہیں'۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تابعوا بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة،"
پے درپے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (سنن نسائی:( 2630)۔
تیرھویں چیز :
صلہ رحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا):
انہیں اسباب میں سے ایک صلہ رحمی یعنی والدین سے نیکی کرنا اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے
(صحیح بخاری: 5986، صحیح مسلم: 2557)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعت رزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)
حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا “جسے درازیٴ عمر،وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اورشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔” ( مسنداحمد، حدیث:1212)
رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پرہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کاجامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہکیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے ،، اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔
صلہ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس موضوع سے متعلق ‘ حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات موجود ہیں۔
:
چودھویں چیز :
ضرورت کے مطابق رزق مانگنا:
أبي هُرَيْرَةَ رضي اللَّه عنه "اللَّهُمَّ اجْعَلْ رزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتاً"
۔اللهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ بَيْتِي قُوتًا
اے اللہ! میرے گھر والوں کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
أخرجه البخاري، كتاب الرقاق، باب: كيف كان عيش النبي ﷺ وأصحابه، وتخليهم من الدنيا، (8/ 96)، برقم: (6452)./.
(مسند احمد:7173)
پندرھویں چیز :
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا :
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :" قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور تم لوگ (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (سورۂ سبا:39)
احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے فرمایاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
حديث أبي هريرة قال: قال الله تعالى في الحديث القدسي: أنفِقْ يا ابن آدم يُنفَقْ عليك"
اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
( رواه البخاري، كتاب النفقات، باب فضل النفقة على الأهل، 5352/ ابن ماجہ، ح:2123)
مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ ۖ وَاللّـٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِعٌ عَلِـيْمٌ (سورۃ البقرۃ:268)
“شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سےمغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، الله بڑی وسعت والااور بڑا علم والا ہے۔”
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
أنفق يا بلال ولا تخش من ذي العرش إقلالاً".
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سےفرمایا: “اےبلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو”۔ ( مشکوٰة،ح:1885/صححه الشيخ الألباني -رحمه الله-
في (صحيح الجامع) (1512))۔
سولہویں چیز :
طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیخدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگاہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی (کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)
علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میں مشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراءالذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہ علیم﴾․ (سورة البقرة:273)
“اعانت کےاصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑدھوپ نہیں کرسکتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مالتم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔”
سترہویں چیز :
کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نےدیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا
“کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” (بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” ( مسنداحمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)۔
اٹھارہویں چیز :
صاع اور مد میں برکت کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَیْنِ
اے الله! ہمارے لیے ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور ایک برکت کے ساتھ دو برکتیں کر دے
(صحیح مسلم:(1374)3337)۔
انیسویں چیز :
پھلوں میں برکت کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ نے مدینہ منورہ کے لیے دعا کی"
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنا فِیْ مَدِیْنَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا"
اے الله! ہمارے لیے ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔
صحیح مسلم۔(1373)3334۔
بیسویں چیز :
زمین کے پھل پانے کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ نے دعا کی تھی گھر مدینہ منورہ کے پھلوں کے لیے
"اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا مِنْ ثَمَرَاتِ الْاَرْضِ وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا وَصَاعِنَا"
اے الله! ہمیں زمین کے پھلوں کا رزق دے اور ہمارے لیے ہمارے مد اور ہمارے صاع میں برکت عطا فرما
(مسند احمد:14690)۔
اکیسویں چیز :
کھانے پینے کے بعد رزق میں برکت کی دعا کرنا
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَارْزُقْنَا خَیْرًا مِنْهُ
اے الله! ہمیں اس میں برکت دے اور اس سے بہتر رزق عطا فرما۔
(سنن ابن ماجۃ:3322)
اور جسے اللہ تعالیٰ دودھ پینے کو دے تو اسے یوں کہنا چاہیے۔
۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ، وَزِدْنَا مِنْهُ،
”اے اللہ! تو ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور مزید عطا کر“
(سنن ابن ماجۃ:3322)۔
بائیسویں چیز :
الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجرفی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾․(سورة النساء:١٠٠)
“جو کوئی الله کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۔”
ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کیطرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دین قائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔
تیئیسویں چیز :
بیوی کے لئے نفقہ میں فراخی
رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہاری قید میں ہیں تم نے انہیں اللہ کے عہد و پیمان کےساتھ حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ساتھ تم نے ان کی شرم گاہوں کو حلال بنایاہے لہٰذا تم ان کیلئے لباس اور نفقہ کی فراخی رکھو تاکہ اللہ تمہارے لیے رزقوں میں فراخی دے اور تمہارے لیے عمروں میں برکت عطا فرمائے جو تم چاہو گے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کردے گا۔
چوبیسویں چیز :
تقدیر پر راضی رہنا
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو کچھ دیتا ہے اسسے ان کی آزمائش کرتا ہے اگر وہ اپنی قسمت پر راضی ہوجائیں تو ان کی روزی میں برکت عطا فرماتا ہے اور اگر راضی نہ ہوں تو ان کی روزی کو وسیع نہیں کرتا۔
پچیسویں چیز :
صبح سویرے کام شروع کرنا
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: رزق کی تلاش اور حلال کمائی کیلئے صبح سویرے ہی چلے جایا کرو‘ کیونکہ کاموں میں برکت اور کشادگی ہوتی ہے۔ یعنی صبح سویرےحلال کمائی کرنے سے رزق میں برکت پڑتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی کی ہے اے اللہ میری امت کی صبح میں برکت عطا فرما ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا".
أخرجه الطبرانى (8/24 رقم 7277) وأحمد (3/431 رقم 15595) ، والدارمى (2/283 ، رقم 2435) ، وأبو داود (3/35 ، رقم 2606) ، والترمذى (3/517 ، رقم 1212) وقال : حسن . وابن حبان (11/62 ، رقم 4754) . وأخرجه أيضًا : الطيالسى (ص 175 ، رقم 1246) ، والبيهقى (9/151 ، رقم 18237). وصححه الألباني (صحيح سنن ابن ماجه ، رقم 2236).
چھبیسویں چیز :
گرا پڑا لقمہ کھا لینا
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نےکہ جس وقت گرپڑے تمہارا کوئی لقمہ تو اٹھالو اور اس کو پونچھ ڈالو جو کچھ اس میںلگا ہو اور پھر اس کو کھاؤ اور نہ چھوڑو اس کوشیطان کے واسطے۔ فرمایا جو کھاناکھاتے وقت دسترخوان سے گری ہوئی چیز کو کھالے ہمیشہ رزق کی فراخی میں رہتا ہے۔ (طب نبوی ﷺ ص۱۰)۔
ستائیسویں چیز :
نماز قائم کرنا :
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لنَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ (طه': 132).
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يقول الله تعالى : يا ابن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى ، وأسد فقرك ، وإن لم تفعل ملأت صدرك شغلا ولم أسد فقرك " .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (صحیح الترغیب والترہیب،129/4)۔
اٹھائیسویں چیز :
لوگوں سے اچھی تعلقات اوربااخلاق ہونا
اچھے اخلاق کا معنوی اثر کے علاوہ طبیعی لحاظ سے بھی رزق و روزی کے زیادہ ہونے میں اثر انداز ہے کیونکہ جس انسان کا اخلاق اچھا ہو اور متواضع ہو تو سب اسے پسند کرتے ہیں اورا س کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اس طرح اس شخص کے لئے کام کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ،اس کے علاوہ اچھا اخلاق معنوی لحاظ سے بھی رزق میں برکت کا سبب ہے ۔
انتیسویں چیز :
عمل خیر میں سبقت
عمل خیر کی برکت سے اللہ تعالیٰ ناسازگار حالات میں بھی مدد جاری کرتا ہے اور تنگی و مصیبت سے چھٹکارا دے دیتا ہے۔
تیسویں چیز :
استقامت
استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کو روزی عطا فرماتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا "(سورۃ الجن: 16)۔
اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی بتلادو کہ اگر لوگ راہ راست پر جمے رہے تو یقینا ہم انہیں بھت وافر پانی پلاتے۔
"وافر پانی" سے مراد رزق کی فراوانی ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو رزق کا سبب بنایا ہے،بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں پانی کو رزق قرار دیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
" وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ "(سورۃ الجاثیۃ: 5)۔
اور جو کچھ روزی (پانی )اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے اور ہوا کو چلانا اس میں عقل مندوں کے لیے بھت ساری نشانیاں ہیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذاریات:22)
اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب آسمان میں ہے۔
استقامت سے رزق میں برکت ہوتی ہے اس کی ایک بہت ہی واضح دلیل اہل کتاب سے متعلق یہ آیت ہے "
"وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ" (سورۃ المائدہ: 66) ۞
اور اگر یہ لوگ تورات اور انجیل اور ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے ان کے پورے پابند رہتے یعنی استقامت اختیار کرتے تو یہ لوگ اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے،ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ رو ہے اور باقی ان میں کے بہت لوگ فاسق اور بدعمل ہیں "۔
اکتیسویں چیز :
تجارت میں سچائی و راست بازی
اللہ تعالیٰ نے تجارت کے ذریعے حلال طریقے سے غیر کے مال کو کھانے کا حکم دیا اور باطل طریقے سے منع کردیا۔
فرمایا:
« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلاّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كانَ بِكُمْ رَحِيماً»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ، أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا ، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا ، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا ، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا " .
دو یعنی خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک دونوں الگ الگ نہ ہوں اگر دونوں خریدنے وبیچنے والا سچ سچ بول دیں اور اپنی چیز کو واضح کردیں تو ان دونوں کے خریدوفروخت میں برکت عطا کی جاتی ہے اور اگر دونوں جھوٹ بول دیں اور عیب کو چھپالیں تو ان کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔
اسی طرح وہ اعمال جن کی وجہ سے انسان کی رزق و روزی میں کمی ہو جاتی ہے مثلاً
١۔ سستی اوربیکاری،اگر کوئی شخص سست ہواورکسی کسب وکارکے پیچھے نہیں جاتا ہو تو ممکن ہے اس کی زندگی بہت سخت ہوجائے ۔
٢۔اسراف:اگرکوئی خداوند متعالی کی نعمتوں کو اسراف کر کے ضایع کر دے توممکن ہے وہ فقیر ہو جائے ۔
٣۔ زندگی میں نظم نہ ہونا:زندگی کے تمام کاموں میں نظم و انضباط ضروری ہے ،اس لحاظ سے خرچ و مخارج بھی منظم ہونا ضروری ہے اگر کوئی اپنے آمدی سے زیادہ خرچ کرے تو وہ تنگدستی میں مبتلاء ہو سکتا ہے ۔وغیرہ وغیرہ
محترم قارئین کرام ! جس طرح حصولِ رزق کے لئے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم وتعلم میں جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان ومال اور وقت کی قر
بانیاں دیتے ہیں۔۔۔ اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کئے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کریں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ۔
یہ وہ اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ،لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ،انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائےاور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بےکار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالامال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا،اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تونگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نےمجھ سے ارشاد فرمایا کہ “ ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے اورمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔ ” ( فتح الباری، ج:١١ ، ص:٢٣٢ )۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرمائیے اور ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائیے۔ ہمارے رزق و مال میں برکت اور اضافہ فرمائیے۔ آمین یا رب العالمین۔
afrozgulri@gmail.com
Follow us on WhatsApp
Dar Al Zikr
7379499848
30/06/19
Sent from my TA-1053 using Tapatalk
رزق میں برکت کب آئے گی ؟؟
(اسباب و عوامل)
از قلم : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبرا،ممبئی
إِنَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون]
[يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمِ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا]
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا] وشر الأمور محدثاتها وكلّ محدثة بدعة , وكلّ بدعة ضلالة , وكلّ ضلالة في النار- اَما بعد:
رزق کے لغوی معنی ’’ عطا ‘‘ کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہرعطاکردہ چیزکوکہاجاتاہے۔مال، علم،طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق کے ایک معنی نصیب بھی ہیں۔جو غذا پیٹ میں جائے اس کو بھی رزق کہتے ہیں۔
دینی اصطلاح میں جائز ذرائع سے روزی کمانا رزقِ حلال کہلاتا ہے ۔نا جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال دین کی نظر میںحرام ہے ۔ہمارا پیارا دین ہمیں یہ تاکید فرماتا ہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی طیب و حلال ہو ۔
رزق اللہ تعالٰی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشادہے :" إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ’’ اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘ (الذاریات:58)
اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو کشادہ اور وسیع رزق عطا کرتا ہے، اور بعض لوگوں کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے۔ ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالٰی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے، چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جان دار ہوں، یا ہوا میں اْڑنے والے پرندے ہوں۔ نہ سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جان دار اللہ تعالٰی کی نگاہ سے اوجھل ہیں، اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی بھولتا ہے ۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے، : ’’ ۞ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ . اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔‘‘ (ھود:06)
ہم لوگ رزق صرف کھانے کی چیزوں کو کہتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بل کہ رزق اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہر نعمت کو کہتے ہیں، چاہے وہ صحت ہو، علم ہو، اخلاق ہو، عمل ہو، نیک بیوی اور اولاد ہو، مال ہو، دلی اطمینان ہو، یا پھر امن کی نعمت ہو۔ اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر نعمت پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ’’ إِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو اْنہیں شمار نہیں کرسکتے۔‘‘ (النحل :18 )۔
یہ اللہ تعالٰی کی حکمت ہے، کہ رزق کی تقسیم میں لوگ مختلف ہیں۔
قرآن مجید اور روزی کی کثرت :
قرآ ن مجید نے چند امور ایسے ذکر کئے ہیں جو بذات خود انسانی تربیت کے لیے تعمیر ی درس کی حیثیت رکھتے ہیں ،ایک مقام پر ارشاد فر ماتاہے :
لئن شکرتم لاز یدنکم
اگر تم نے نعمتوں کاشکر ادا کیا( انہیں اپنے صحیح مصرف میں خرچ کیا) تو تمہیں زیادہ نعمتیں عطاکروں گا ۔( ابرہیم :07)
ایک دوسرے مقام پر لوگوں کوتلاش وحصول روزی کی دعوت دیتے ہوئے فرماتاہے :
ہُوَ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فی مَناکِبِہا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِہ
خدا تو وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے خاضع اور خاشع بنادیاہے تاکہ تم اس کی پشت پر چلو پھر و اوراس کے رزق سے کھا ؤ پیو۔ ( ملک :15)
ایک اورمقام پر تقویٰ اورپر ہیز گاری کووسعت رز ق کامعیار بتایا ہے ،ارشاد ہوتاہے :
وَ لَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُری آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّماء ِ وَ الْاٴَرْضِ
یعنی اگرروئے زمین کے لوگ ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں توہم آسمان و زمین کی برکتیں ان کے لیے کھول دیں۔ ( اعراف / 96)
قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے. اللہ تعالی نے جب سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے حکم دیا:
اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَد
لکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے.
(ترمذی: 2155 اور 3319، ابو داؤد: 4700، مسند احمد: 5/317 بالفاظ مختلفة)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد
تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے.
(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)
بعض کو وہ اپنی حکمتِ بالغہ کی وجہ سے زیادہ اور بعض کو کم دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ اور اللہ تعالٰی نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔‘‘ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ"(النحل: 71)
’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔‘أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ"
‘ (الزخرف : 32)۔
کیا آپ کے رب کی رحمت کویہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانئی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہےاور ایک دوسرے سے بلند کیاہےتاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کرلے۔جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔
اِس حقیقت کو سمجھنے کے بعد بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں، نہ کسی سے حسد ہوتا، نہ دشمنی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، نہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ مشقت میں مبتلا کرنا پڑتا ہے، اور نہ رزق کو تلاش کرنے کے لیے غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات توہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیئے کہ کسی کے رزق کی وسعت کبھی انسان کوروزی کی وسعت کے ذریعے آزماتاہے اوربے انتہامال اس کے اختیار میں دے دیتا ہے اورکبھی معیشت کی تنگی کی وجہ سے اس کے صبراستقامت اور پامردی کاامتحان لیناچاہتا ہے اوراس سے ان صفات کو پروان چڑھاتاہے۔
کبھی تو ایسا ہوتاہے کہ مال و دولت کی فراوانی صاحبان مال کے لیے وبال جان بن جاتی ہے اوران سے ہرقسم کاسکھ اور چین چھین لیتی ہے . چنانچہ سور ہ ٴ توبہ کی ۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتاہے :
فَلا تُعْجِبْکَ اٴَمْوالُہُمْ وَ لا اٴَوْلادُھمْ إِنَّما یُریدُ اللَّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ تَزْھقَ اٴَنْفُسُہُمْ وَ ھمْ کافِرُونَ
ان لوگوں کے مال و دولت اوراولاد کی فراوانی تجھے حیران نہ کردے . خداتو یہی چاہتاہے کہ انھیں اس ذریعے سے دنیا وی زندگی میں عذاب دے اوروہ کفر کی حالت میں مریں۔
سورہ ٴ موٴ منون کی آیات.56/55 میں فرمایا گیا ہے :
اٴَ یَحْسَبُونَ اٴَنَّما نُمِدُّھمْ بِہِ مِنْ مالٍ وَ بَنینَ ،نُسارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْراتِ بَلْ لا یَشْعُرُونَ
کیاوہ گمان کرتے ہیں کہ ہم نے جوا نہیں مال و اولاد عطاکی ہے اس لیے ہے کہ ان پراچھائیوں کے درواز ے کھول دیئے ہیں ،ایسانہیں ہے،وہ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔
کائنات کے مالک و خالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اخروی معاملات میں رشد و ہدایت کار فرما ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سرفراز و سربلند کرنا ہے' اسی طرح یہ دین اللہ تعالٰی نے اس لیے بھی نازل فرمایا کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللی مالک الملک نے ساری انسانیت کیلیے اسوہ حسنہ قرار دیا' وہ سب سے زیادہ جو دعا اللہ تعالٰی سے کرتے' اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کا سوال ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے:
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) تھی‘‘
صحیح البخاری 191/11
کسب معاش کے معاملے میں اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو حیرانی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا' بلکہ کتاب و سنت میں رزق کے حصول کے اسباب کو خوب وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے' اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوتی سے تھام لے اور صحیح انداز میں ان سے استفادہ کرے تو اللہ مالک الملک جو بہت زیادہ رزق عطا فرمانے والے اور بہت زیادہ قوت والے ہیں' لوگوں کیلیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دیں۔ آسمان سے ان پر خیروبرکات نازل فرما دیں اور زمین سے ان کیلیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوائیں۔
قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا باعث ہیں، ہم درج ذیل سطور میں مختصراً کچھ اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر الله تعالیٰ کیطرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے ۔یقینا ہم رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جد وجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کرلیتے ہیں۔ اگر ہم دنیاوی جد وجہد کے ساتھ‘ اِن اسباب کو بھی اختیار کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ، جو ہر شخص کی خواہش ہے ۔
پہلی چیز :
بہترین رزق دینے والے سے رزق مانگو
۱۔ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"
(المائدہ:114)
۲۔ وَإِذَا قُلْتَ: اللهُمَّ ارْزُقْنِي قَالَ اللهُ: قَدْ فَعَلْتُ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تم کہو گے:
اللهُمَّ ارْزُقْنِي
تو اللہ کہے گا:میں نے رزق دینے کا فیصلہ کردیا۔
(شعب الایمان:610، السلسلۃ الصحیحۃ:3336)
دوسری چیز:
رزق کے حصول کے لیے اللہ سے اس کا فضل مانگنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْبُرْجُمِيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: ضَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِهِ يَبْتَغِي عِنْدَهُنَّ طَعَامًا، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ، فَقَالَ: «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ؛ فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ» ، فَأُهْدِيَتْ إِلَيْهِ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ، فَقَالَ: «هَذِهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ»
معجم الكبيرللطبراني:10379
والسلسلة الصحيحة:1543
عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ ﷺ نے کھانا لانے کے لیے (ایک آدمی کو) اپنی ازواج کے پاس بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی کھانا نہ ملا۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی:
اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ،فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، بےشک تیرے سوا اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ کے پاس بھنی ہوئی بکری کا تحفہ لایا گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے اور ہم رحمت کا انتظار کررہے ہیں۔
رزق بھی لکھا ہوا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. ہاں البتہ طلبِ رزق كے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان میں سے اک سعی وکوشش بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے.
(سورۃ الملک: 15)
تیسری چیز :
رزق کے حصول کے لیے استغفار کرنا:
(اللّہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنا):
جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیا جاتا ہے' ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :
" فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا۔ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا۔ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارا "
پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح:10-12)۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ استغفار کے متعلق فرماتے ہیں:
’’استغفار قول و فعل دونوں سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ’استَغفِروا رَبَّکم اِنَّہ کَانَ غَفَّارََا‘
(تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' وہ گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں)
اس ارشاد میں صرف زبان ہی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ زبان اور عمل دونوں کے ساتھ معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عمل کے بغیر فقط زبان سے گناہوں کی معافی طلب کرنا بہت بڑے جھوٹوں کا شیوہ ہے۔
(المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 362)۔
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی' ایک نے قحط سالی کی' دوسرے نے تنگ دستی کی' تیسرے نے اولاد نہ ہونے کی اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن صبیح سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے رو برو قحط سالی کی شکایت کی' تو انہوں نے اس سے فرمایا: اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی' تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔‘‘
تیسرے شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: ’’اللہ تعالٰٰی سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرما دیں۔‘‘ آپ نے اس کو جواب میں تلقین کی: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو۔‘‘
چوتھے شخص نے ان کے سامنے اپنے باغ کی خشک سالی کا شکوہ کیا تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی التجا کرو۔‘‘
(ابن صبیح کہتے ہیں) ہم نے اس سے کہا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ربیع بن صبیح نے ان سے کہا: آپ کے پاس چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا کہ ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرو۔‘‘
(تفسیر الخازن 154/7' روح المعانی 73/29)
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی (میں نے تو انہیں اس بات کا حکم دیا ہے جو بات ربِ رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ہے) سورہ نوح میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
’’ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا ‘‘
’’اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘
(تفسیر القرطبی 303/18' تفسیر الکاشف 192/4' المحرر الوجیز 123/16)
اللہ اکبر! استغفار کے فوائد و ثمرات کتنے عالی شان اور زیادہ ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات (۱۰۔۱۲)، سورۂ ہود کی آیت نمبر (۳)
"وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ،
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معافی کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو،وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان زندگی دےگا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
اور آیت نمبر (۵۲) میں حضرت ہود علیہ السلام کی نصیحت کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
":﴿ وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ ﴾․ (سورہ ہود، آیت:52)
اے میری قوم کے لوگو!تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقریروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو ،تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دےاور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھانے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو۔
میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔
اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ کرنے والوں کیلیے اللہ مالک الملک کی طرف سے (متاع حسن)(اچھا سازوسامان) عطا فرمانے کا وعدہ ہے اور(متاع حسن) عطا کرنے سے مراد جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا' یہ ہے کہ وہ تمہیں تونگری اور فراخی رزق سے نوازیں گے۔
زاد المسیر 75/4
امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ استغفار و توبہ کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں وسعتِ رزق اور خوش حالی سے نوازیں گے اور تمہیں اس طرح عذاب سے نیست و نابود نہ کریں گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو کیا۔‘‘
(تفسیر القرطبی 403/9' تفسیر الطبری 230/15' تفسیر الکاشف 258/2' تفسیر البغوی 373/4' فتح القدیر 695/2' تفسیر القاسمی 63/9)۔
اس آیت کریمہ میں استغفار و توبہ اور وسعتِ رزق میں وہی صلہ اور تعلق ہے جو صلہ و تعلق شرط اور اس کی جزا کے درمیان ہوتا ہے۔ استغفار و توبہ کا ذکر بطور شرط کیا گیا ہے اور فراخی رزق کا بطور جزا اور معلوم ہے کہ جب بھی شرط پائی جاتی ہے جزا کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بھی بندے کی طرف سے استغفار و توبہ ہو گی' رحمٰن و رحیم رب کری کی طرف سے اس کیلیے لازماََ وسعتِ رزق اور خوش حالی ہو گی۔ مشہور مفسر قرآن شیخ محمد امین شنقیطی فرماتے ہیں:
’’ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کرنا فراخی رزق اور تونگری و خوش حالی کا سبب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے استغفار و توبہ کو بطور شرط اور تونگری و خوش حالی کو بطور جزا ذکر فرمایا ہے‘‘
(اضواء البیان 9/3)
امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’ اس آیت میں اور سورۃ ہود کی آیت (وَيَقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی کا سوال کرنے کے ذریعے سے رزق اور بارش طلب کی جاتی ہے۔‘‘
(تفسیر القرطبی 302/18)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اگر تم اللہ تعالٰی کے حضور توبہ کرو' ان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور ان کی اطاعت کرو تو وہ تم پر رزق کی فراوانی فرما دیں گے' آسمان سے بارانِ رحمت نازل فرمائیں گے' زمین سے خیر و برکت اگلوائیں گے' زمین سےکھیتی کو اگائیں گے' جانوروں کا دودھ مہیا فرمائیں گے' تمہیں اموال اور اولاد عطا فرمائیں گے' قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائے گے اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کریں گے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر 449/4)
حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “ من لزم الاستغفار جعل الله له من كل هم فرجا ومن كل ضيق مخرجا ورزقه من حيث لا يحتسب"
جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔” (ابوداؤد:1518/ابن ماجہ : 3819)۔
اس حدیث پاک میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والے کو تین ثمرات و فوائد حاصل ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور ان تین میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ سب سے بڑی قوت و طاقت کے مالک اللہ الرازق اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔
۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں ’’شریعت میں توبہ کا مطلب ہے گناہ کو اس کی قباحت کی وجہ سے چھوڑنا-
اپنی غلطی پر نادم ہونا
آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا
اور جن اعمال کی تلافی ان کے دوبارہ ادا کرنے سے ہو سکے ان کیلیے بقدر استطاعت کوشش کرنا۔
اور جب یہ چاروں باتیں جمع ہو جائیں تو توبہ کی شرائط پوری ہو گئیں۔‘‘
(المفردات فی غریب القران' مادہ ’’توب‘‘ ص 76)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’علماء نے فرمایا ہے: ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے' اگر اس گناہ کا تعلق صرف بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو' کسی اور آدمی سے اس کا تعلق نہ ہو تو اس گناہ سے توبہ کیلیے حسب ذیل شرائط ہیں:
1۔ اس گناہ کو چھوڑ دے۔
2۔ اس پر نادم ہو۔
3۔ اس بات کا عزم کرے کہ آئندہ اس گناہ کا ارتقاب نہ کرے گا۔
اگر تین شرائط میں سے کوئی شرط بھی مفقود ہو گئی تو اس کی توبہ درست نہیں۔
اور اگر گناہ کا تعلق کسی بندے سے ہو تو اس ست توبہ کیلیے چار شرائط ہیں۔ تین سابقہ شرائط اور چوتھی شرط یہ کہ حق دار کا حق ادا کرے۔ اگر اس کا حق مال کی صورت میں ہے تو یہ مال واپس کرے اور اگر اس پر ایسا الزام تراشا کہ جس کی سزا حد قذف ہو تو حق والے کو موقع فراہم کرے کہ وہ اس پر حد قائم کرے یا اس سے عفوودرگزر کی درخواست کرے' اور اگر اس نے اس کی غیبت کی ہو تو اس سے اس کی معافی طلب کرے۔‘‘
(ریاض الصالحین ص 41/42)
چوتھی چیز:
رزق کی دعا کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
( العنكبوت :17)۔
تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کررہے ہو اور جھوٹی باتیں دل میں گڑھ لیتے ہو۔سنو !جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کررہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! جب میں اپنے رب سے دعا کروں تو کیا کہا کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: کہو
اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي
اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ ہر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے انگوٹھے کو نکال کر باقی چار انگلیوں کو بند کرکے فرمایا: یہ چیزیں تمہاری دنیا و آخرت کو جمع کرنے والی ہیں۔
(صحيح مسلم:2697)۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ نماز فجر سے سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ رزق اور قبولیت والے عمل کی دعا کرتا ہوں۔
(سنن ابن ماجہ:925)
مثلاً حلال و طیب رزق کی دعا مانگنا یہ کہہ کر
"اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ "
اےاللہ! تو مجھے اپنی حلال کردہ چیز کے ذریعے اپنی حرام کردہ چیز سے کافی ہوجا اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ سب سے بےنیاز کردے۔
(جامع ترمذی:3563)
ضرورت کے مطابق رزق مانگنا جیسے
۔" اللهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ بَيْتِي قُوتًا"
اے اللہ! میرے گھر والوں کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
(بخاری:6460/مسند احمد:7173)
پانچویں چیز :
بڑھاپے میں وسیع رزق کی دعا :
. اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمُرِي
اے اللہ! جب میں بوڑھا ہوجاؤں اور میری عمر ختم ہونے لگے تو اپنا رزق مجھ پر وسیع کردے۔
(المعجم الاوسط للطبراني:3611)
چھٹی چیز :
پاکباز زندگی کی خاطر نکاح کرنا
فرمان الٰہی ہے۔
" وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ" [النور:32]۔
تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والاہے۔
محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے۔ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ تعالٰی ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت وفراخی میں بدل دے۔
حدیث میں آتا ہے۔
"ثلاثة حق على الله عونهم المجاهد في سبيل الله والمكاتب الذي يريد الأداء والناكح الذي يريد العفاف"
تین شخص ہیں جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے
مکاتب غلام ،جو ادائیگی کی نیت رکھتاہے۔
نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔
اخرجه النسائي والترمذي 4/134 وقال حديث حسن وابن ماجة2/841 وعبد الرزاق 5/209
ر9542 واحمد 2/251و437 وابن حبان 9/339 والحاكم 2/160و161و217 وابن ابي عاصم الضحاك في الجهاد 1/237 وغيرهم من طريق محمد بن عجلان عن سعيد المقبري عن ابي هريرة مرفوعا....قال الحاكم صحيح على شرط مسلم ووافقه الذهبي ۔
ساتویں چیز :
فضل، رزق اور برکت کی دعا :
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ : كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا : لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ ) .
رواه ابن ماجه ( 257 ) وحسَّنه الألباني في " صحيح ابن ماجه " .
جس کا مطمح نظر آخرت ہو اللہ تعالیٰ اسے مال کے ساتھ ساتھ اس کے سارے معاملات کے لیے کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
وعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ هَمَّهُ : جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ ، وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا هَمَّهُ : جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ ) .
رواه الترمذي ( 2465 ) وأبو داود ( 1668 ) وابن ماجه ( 4105 ) ، وصححه الألباني في " صحيح الترمذي " .
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ) الزخرف/ 36 .
اور جو رحمان کے ذکر سے اعراض کرتا ہے ہم اس کے ساتھ میں شیطان مسلط کردیتے ہیں پس شیطان ان کا برا دوست بن جاتا ہے۔
آپ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ پریشانی یا تکلیف کے موقع پر یہ دعا پڑھے
أ. عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عِنْدَ الْكَرْبِ يَقُولُ : ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ) .
رواه البخاري ( 5985 ) ومسلم ( 2730 ) .
حَ
دَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِيَ عَلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» ، فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا، فَقَالَ:
«اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُكُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ. اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَالنَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالْأَمْنَ يَوْمَ الْحَرْبِ، اللَّهُمَّ عَائِذًا بِكَ مِنْ سُوءِ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ مِنَّا
اے اللہ! تیرےلیے ہی سب قسم کی تعریف ہے، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹنے والا نہیں ہے، جو تو دور کردے اسے کوئی نزدیک کرنے والا نہیں، جسے تو نزدیک کردے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے، جس سے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔اے اللہ! ہم پر اپنی برکات، اپنی رحمت، اپنے فضل اور اپنے رزق کو پھیلا دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے ایسی نعمتیں مانگتا ہوں جو ہمیشہ قائم رہیں نہ (تیری اطاعت میں) حائل ہوں اور نک زائل ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے تنگی کے دن کی نعمت اور جنگ کے دن کے امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! تیری پناہ میں آتا ہوں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔
(الادب المفرد للبخاري:699
وصححہ الالبانی)
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي، وَبَارِكْ لِي فِي رِزقِْي
اے اللہ! میرے گناہ معاف کردے، میرے گھر میں وسعت پیدا کردے اور میرے رزق میں برکت دے۔
(صحيح الجامع الصغير للالباني:1266)۔
آٹھویں چیز :
تقو'ی (اللّہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنا :
اور انہیں اسباب میں سے ایک سبب تقویٰ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۞ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو
(سورۃ الطلاق: 2 اور 3)۔
امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
’’گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا اور اس کیلیے ممنوعہ باتوں کو چھوڑا جاتا ہے اور اسکی تکمیل کی غرض سے کچھ جائز امور کو بھی ترک کیا جاتا ہے۔‘‘
(المفردات فی غریب القران ص531)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
’’اللہ تعالٰی کے اوامرونواہی کی پابندی کرنا۔ اور تقویٰ کے معنے یہ ہیں کہ انسان ایسے کاموں سے بچا رہے جو اللہ تعالٰی کی ناراضی اور عذاب کا سبب ہوں۔‘‘
(تحریر الفاظ التنبیہ ص 322)
امام جرجانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اللہ تعالٰی کی اطاعت و تابعداری کے ذریعے سے اپنے آپ کو ان کے عذاب سے بچانا اور اس مقصد کی خاطر اپنے نفس کو ایسے کام کرنے یا چھوڑنے سے بچائے رکھنا جن کے کرنے یا چھوڑنے سے انسان عذاب کا مستحق ٹھہرے‘‘
(کتاب التعریفات ص 68)
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے تقوی ان امور میں سے ایکہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔
تقوے کے رزق کا سبب ہونے پر کئی آیاتِ کریمہ دلالت کرتی ہیں۔
ان میں سے چند ایک مناسب تفسیر کے ساتھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا‘‘
(سورہ الطلاق آیت 3-2)۔
اس ارشادِ مبارک میں اللہ رب العزت نے بیان فرمایا کہ جس شخص میں تقوے کی صفت پیدا ہو گئی، اللہ تعالٰی اس کو دو نعمتوں سے نوازیں گے۔
پہلی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اس کو ہر غم و مصیبت سے نجات دیں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کو دنیا و آخرت کے ہر غم سے نجات دیں گے۔‘‘
(تفسیر القرطبی 159/18)
حضرت ربیع بن خثیم آیتِ کریمہ کے اس حصے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کیلیے ہر اس بات سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے جو لوگوں کیلیے تنگی اور مشکل کا سبب بنتی ہے۔‘‘
(تفسیر البغوی 357/4 وتفسیر الخازن 108/7).
دوسری نعمت یہ ہے اللہ تعالٰی اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جو کوئی اللہ تعالٰی کے احکام کی تعمیل کر کے اور ان کی طرف سے ممنوعہ باتوں سے دور رہ کر متقی بن جائے، وہ اس کیلیے ہر مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے اور اس کو وہاں سے روزی عطا فرمائیں گے جہاں سے رزق کا ملنا اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر 400/4, زاد المسیر 292/8 وتفسیر الکاشف 120/4)
اللہ اکبر! تقوے کی خیر و برکت کتنی عظیم اور قیمتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’غموں اور دکھوں سے نجات کا نسخہ بتلانے والی قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت کریمہ یہ ہے: وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا‘‘
(تفسیر ابن کثیر 400/4 ، تفسیر ابن مسعود 651/2)
تقوے کے حصولِ رزق کا سبب ہونے کی دوسری دلیل اللہ مالک الملک کا یہ ارشاد گرامی ہے:
"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَهُم بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ "
’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور (برے کاموں کفر اور شرک سے) بچے رہتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کاموں کی سزا میں ان کو دھر پکڑا۔‘‘
(سورہ الاعراف آیت 96)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اگر بستیوں والوں میں دو باتیں یعنی ایمان اور تقویٰ آجائیں تو وہ ان کیلیے ہر طرف سے خیر و برکات کے دروازوں کو کھول دیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ( لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’تو ہم ان کیلیے خیر عام کر دیں اور ہر جانب سے اس کا حاصل کرنا ان کیلیے سہل کر دیں۔‘‘
(تفسیر ابن السعود 253/3)
ایمان و تقویٰ والوں کے لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی کی جانب سے آسمان و زمین سے برکات کے کھولنے کے وعدے میں کتنے ہی لطائف پنہاں ہیں' ان میں سے تین ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ اللہ تعالٰی نے ایمان و تقویٰ والوں کیلیے برکات کے کھولنے کا وعدہ فرمایا ہے' اور لفظ ((البرکات))((لابرکۃ)) کی جمع ہے اور ((البرکۃ)) کی تفسیر کرتے ہوئے امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’کسی چیز پر مداومت اور ہمیشگی‘‘
(تفسیر البغوی 183/2)
اور امام خازن اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ کسی چیز میں خیر الٰہی کا دوام و ثبوت ہے۔‘‘
(تفسیر الخازن 366/2)
اسی طرح ((البرکات)) کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بدلے میں ملنے والا ثمرہ و فائدہ عارضی اور وقتی نہین' یا ایسا نہیں جو شر سے بدل جائے بلکہ وہ دائمی اور ابدی خیر ہے۔
سید محمد رشید رضا نے ایمان و تقویٰ والوں پر نازل ہونے والی برکات کی عمدگی اور خوبی کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’مومنوں پر جو نعمتیں اور برکات نازل کی جاتی ہیں وہ ان پر خوش اور راضی ہوتے ہیں اور اللہ تعالٰی کا شکر کرتے ہیں' خیر کی راہوں میں ان کو استعمال کرتے ہیں' شر و فساد کی جگہوں پر ان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں' نعمتوں اور برکات کے ملنے پر ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالٰی ان پر اپنی نعمتوں میں اضافہ فرماتے ہیں اور آخرت میں انہیں بہترین اجر چطا فرمائیں گے۔‘‘
(تفسیر المنار 25/9)
شیخ ابن عاشور نے ((البرکۃ)) کی تفسیر مین فرمایا ہے:
’’البرکۃ سے مراد وہ عمدہ خیر ہے جس کے استعمال کی بنا پر آخرت میں کچھ مواخذہ نہ ہو گا اور یہ نعمت کی بہترین کیفیت ہے‘‘
(تفسیر التحریر والتنویر 22/9)۔
اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ “برکات” استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہبات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہتسے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سےبہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مرادنباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمانباپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں منجانب الله خیر پائی جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سورۂ الطلاق۲۔۳)
لیکن آپ یہ نہ کہیں کہ رزق تو لکھا ہوا اور محدود ہے لہذا میں حصولِ رزق كے لیے اسباب اختیار نہیں کروں گا کیونکہ یہ تو عجز ودرماندگی ہے اور عقل واحتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ رزق اور دین ودنیا کا فائدہ حاصل کرنے كے لیے کوشش کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے
(ترمذی: 2459، ابن ماجہ: 4260، مسند احمد: 4/124) (کئی محدثین نے اسکو ضعیف کہا ہے)
جس طرح رزق لکھا ہوا اور اسباب كے ساتھ مقدر ہے اسی طرح شادی کا معاملہ بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے میاں بیوی میں سے ہر ایک كے لیے یہ لکھا ہوا ہے كہ اس کی شادی اس سے ھوگی اور اللہ تعالی سے تو آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.
{فتاوی اسلامیه: 3/133}۔
نوویں چیز :
اللہ تعالیٰ پر توکل:
توکل (بھروسہ) کے معنی
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘
(احیاء علوم الدین 259/4)
علامہ مناوی فرماتے ہیں:
’’توکل بندے کے اظہارِ عجز اور جس پر توکل کیا گیا ہے' اس پر مکمل بھروسے کا نام ہے۔‘‘
(فیض القدیر 311/5)
ملا علی قاری ((التوکل علی اللہ حق التوکل)) اللہ تعالٰی پر کماحقہ توکل کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ درحقیقت ہر کام کرنے والے اللہ تعالٰی ہیں۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے تخلیق و رزق' عطا کرنا یا محروم رکھنا' ضررونفع' افلاس و تونگری' بیماری و صحت' موت و زندگی غرضیکہ ہر چیز فقط اللہ تعالٰی کے حکم سے ہے‘‘
(مرقاۃ المفاتیح 156/9)
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکل علی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾․ (سورہٴ طلاق:3)
“جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت)مقرر کر رکھا ہے۔”
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہوسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ،پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھرتوکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ،وہ اس کو کافی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۳)
عَنْ عُمَرَ بن الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُوا خِمَاصاً وَتَرُوْحُ بِطَاناً»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔
(سنن ترمذي:2344 )' سنن ابن ماجہ 419/2' کتاب الزہد194/4' الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 509/2)۔
اس حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی امت کو خبر دی کہ اللہ تعالٰی پر کماحقہ بھروسہ کرنے والوں کو اسی طرح رزق عطا کیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو رزق مہیا کیا جاتا ہے اور ایسے کیوں نہ ہو؟ اللہ تعالٰی پر توکل کرنے والے نے اس عظیم، منفرد، یکتا اور کائنات کے مالک پر بھروسہ کیا جن کے (كُ۔
یاد رکھیں کہ حصولِ رزق کے لئے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لئے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
دسویں چیز :
رزق کےحصول کے لیے تسبیح کرنا :
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، سَمِعْتُ الصَّقْعَبَ بْنَ زُهَيْرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ........إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ نُوحًاصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ لِابْنِهِ... وَسُبْحانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ، وَبِهَا يُرْزَقُ كُلُّ شَيْءٍ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی نبی نوح ﷺ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
'سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ
پاک ہے اللہ اپنی تعریف کے ساتھ'
کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
(مسند احمد:7101
الادب المفرد للبخاري:548
والسلسلة الصحيحة:134.)
گیارہویں چیز :
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہونا:
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لئے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالاتے ہوئے زندگی گزاریں۔
اسسے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضورمیں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (صحیح الترغیب والترہیب،129/4)۔
بارھویں چیز :
حج اور عمرہ میں متابعت (بار بار حج اور عمرہ ادا کرنا :
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ" (سورة آل عمران:97)
" اور اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج واجب ہے جو راستہ کی طاقت رکھتے ہیں'۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تابعوا بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة،"
پے درپے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (سنن نسائی:( 2630)۔
تیرھویں چیز :
صلہ رحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا):
انہیں اسباب میں سے ایک صلہ رحمی یعنی والدین سے نیکی کرنا اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے
(صحیح بخاری: 5986، صحیح مسلم: 2557)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعت رزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)
حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا “جسے درازیٴ عمر،وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اورشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔” ( مسنداحمد، حدیث:1212)
رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پرہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کاجامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہکیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے ،، اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔
صلہ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس موضوع سے متعلق ‘ حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات موجود ہیں۔
:
چودھویں چیز :
ضرورت کے مطابق رزق مانگنا:
أبي هُرَيْرَةَ رضي اللَّه عنه "اللَّهُمَّ اجْعَلْ رزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتاً"
۔اللهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ بَيْتِي قُوتًا
اے اللہ! میرے گھر والوں کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
أخرجه البخاري، كتاب الرقاق، باب: كيف كان عيش النبي ﷺ وأصحابه، وتخليهم من الدنيا، (8/ 96)، برقم: (6452)./.
(مسند احمد:7173)
پندرھویں چیز :
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا :
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :" قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور تم لوگ (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (سورۂ سبا:39)
احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے فرمایاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
حديث أبي هريرة قال: قال الله تعالى في الحديث القدسي: أنفِقْ يا ابن آدم يُنفَقْ عليك"
اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
( رواه البخاري، كتاب النفقات، باب فضل النفقة على الأهل، 5352/ ابن ماجہ، ح:2123)
مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ ۖ وَاللّـٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِعٌ عَلِـيْمٌ (سورۃ البقرۃ:268)
“شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سےمغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، الله بڑی وسعت والااور بڑا علم والا ہے۔”
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
أنفق يا بلال ولا تخش من ذي العرش إقلالاً".
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سےفرمایا: “اےبلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو”۔ ( مشکوٰة،ح:1885/صححه الشيخ الألباني -رحمه الله-
في (صحيح الجامع) (1512))۔
سولہویں چیز :
طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیخدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگاہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی (کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)
علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میں مشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراءالذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہ علیم﴾․ (سورة البقرة:273)
“اعانت کےاصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑدھوپ نہیں کرسکتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مالتم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔”
سترہویں چیز :
کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نےدیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا
“کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” (بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” ( مسنداحمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)۔
اٹھارہویں چیز :
صاع اور مد میں برکت کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَیْنِ
اے الله! ہمارے لیے ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور ایک برکت کے ساتھ دو برکتیں کر دے
(صحیح مسلم:(1374)3337)۔
انیسویں چیز :
پھلوں میں برکت کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ نے مدینہ منورہ کے لیے دعا کی"
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنا فِیْ مَدِیْنَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا"
اے الله! ہمارے لیے ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔
صحیح مسلم۔(1373)3334۔
بیسویں چیز :
زمین کے پھل پانے کی دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ نے دعا کی تھی گھر مدینہ منورہ کے پھلوں کے لیے
"اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا مِنْ ثَمَرَاتِ الْاَرْضِ وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا وَصَاعِنَا"
اے الله! ہمیں زمین کے پھلوں کا رزق دے اور ہمارے لیے ہمارے مد اور ہمارے صاع میں برکت عطا فرما
(مسند احمد:14690)۔
اکیسویں چیز :
کھانے پینے کے بعد رزق میں برکت کی دعا کرنا
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَارْزُقْنَا خَیْرًا مِنْهُ
اے الله! ہمیں اس میں برکت دے اور اس سے بہتر رزق عطا فرما۔
(سنن ابن ماجۃ:3322)
اور جسے اللہ تعالیٰ دودھ پینے کو دے تو اسے یوں کہنا چاہیے۔
۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ، وَزِدْنَا مِنْهُ،
”اے اللہ! تو ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور مزید عطا کر“
(سنن ابن ماجۃ:3322)۔
بائیسویں چیز :
الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجرفی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾․(سورة النساء:١٠٠)
“جو کوئی الله کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۔”
ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کیطرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دین قائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔
تیئیسویں چیز :
بیوی کے لئے نفقہ میں فراخی
رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہاری قید میں ہیں تم نے انہیں اللہ کے عہد و پیمان کےساتھ حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ساتھ تم نے ان کی شرم گاہوں کو حلال بنایاہے لہٰذا تم ان کیلئے لباس اور نفقہ کی فراخی رکھو تاکہ اللہ تمہارے لیے رزقوں میں فراخی دے اور تمہارے لیے عمروں میں برکت عطا فرمائے جو تم چاہو گے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کردے گا۔
چوبیسویں چیز :
تقدیر پر راضی رہنا
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو کچھ دیتا ہے اسسے ان کی آزمائش کرتا ہے اگر وہ اپنی قسمت پر راضی ہوجائیں تو ان کی روزی میں برکت عطا فرماتا ہے اور اگر راضی نہ ہوں تو ان کی روزی کو وسیع نہیں کرتا۔
پچیسویں چیز :
صبح سویرے کام شروع کرنا
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: رزق کی تلاش اور حلال کمائی کیلئے صبح سویرے ہی چلے جایا کرو‘ کیونکہ کاموں میں برکت اور کشادگی ہوتی ہے۔ یعنی صبح سویرےحلال کمائی کرنے سے رزق میں برکت پڑتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی کی ہے اے اللہ میری امت کی صبح میں برکت عطا فرما ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا".
أخرجه الطبرانى (8/24 رقم 7277) وأحمد (3/431 رقم 15595) ، والدارمى (2/283 ، رقم 2435) ، وأبو داود (3/35 ، رقم 2606) ، والترمذى (3/517 ، رقم 1212) وقال : حسن . وابن حبان (11/62 ، رقم 4754) . وأخرجه أيضًا : الطيالسى (ص 175 ، رقم 1246) ، والبيهقى (9/151 ، رقم 18237). وصححه الألباني (صحيح سنن ابن ماجه ، رقم 2236).
چھبیسویں چیز :
گرا پڑا لقمہ کھا لینا
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نےکہ جس وقت گرپڑے تمہارا کوئی لقمہ تو اٹھالو اور اس کو پونچھ ڈالو جو کچھ اس میںلگا ہو اور پھر اس کو کھاؤ اور نہ چھوڑو اس کوشیطان کے واسطے۔ فرمایا جو کھاناکھاتے وقت دسترخوان سے گری ہوئی چیز کو کھالے ہمیشہ رزق کی فراخی میں رہتا ہے۔ (طب نبوی ﷺ ص۱۰)۔
ستائیسویں چیز :
نماز قائم کرنا :
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لنَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ (طه': 132).
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يقول الله تعالى : يا ابن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى ، وأسد فقرك ، وإن لم تفعل ملأت صدرك شغلا ولم أسد فقرك " .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (صحیح الترغیب والترہیب،129/4)۔
اٹھائیسویں چیز :
لوگوں سے اچھی تعلقات اوربااخلاق ہونا
اچھے اخلاق کا معنوی اثر کے علاوہ طبیعی لحاظ سے بھی رزق و روزی کے زیادہ ہونے میں اثر انداز ہے کیونکہ جس انسان کا اخلاق اچھا ہو اور متواضع ہو تو سب اسے پسند کرتے ہیں اورا س کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اس طرح اس شخص کے لئے کام کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ،اس کے علاوہ اچھا اخلاق معنوی لحاظ سے بھی رزق میں برکت کا سبب ہے ۔
انتیسویں چیز :
عمل خیر میں سبقت
عمل خیر کی برکت سے اللہ تعالیٰ ناسازگار حالات میں بھی مدد جاری کرتا ہے اور تنگی و مصیبت سے چھٹکارا دے دیتا ہے۔
تیسویں چیز :
استقامت
استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کو روزی عطا فرماتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا "(سورۃ الجن: 16)۔
اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی بتلادو کہ اگر لوگ راہ راست پر جمے رہے تو یقینا ہم انہیں بھت وافر پانی پلاتے۔
"وافر پانی" سے مراد رزق کی فراوانی ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو رزق کا سبب بنایا ہے،بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں پانی کو رزق قرار دیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
" وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ "(سورۃ الجاثیۃ: 5)۔
اور جو کچھ روزی (پانی )اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے اور ہوا کو چلانا اس میں عقل مندوں کے لیے بھت ساری نشانیاں ہیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذاریات:22)
اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب آسمان میں ہے۔
استقامت سے رزق میں برکت ہوتی ہے اس کی ایک بہت ہی واضح دلیل اہل کتاب سے متعلق یہ آیت ہے "
"وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ" (سورۃ المائدہ: 66) ۞
اور اگر یہ لوگ تورات اور انجیل اور ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے ان کے پورے پابند رہتے یعنی استقامت اختیار کرتے تو یہ لوگ اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے،ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ رو ہے اور باقی ان میں کے بہت لوگ فاسق اور بدعمل ہیں "۔
اکتیسویں چیز :
تجارت میں سچائی و راست بازی
اللہ تعالیٰ نے تجارت کے ذریعے حلال طریقے سے غیر کے مال کو کھانے کا حکم دیا اور باطل طریقے سے منع کردیا۔
فرمایا:
« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلاّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ وَ لا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كانَ بِكُمْ رَحِيماً»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ، أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا ، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا ، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا ، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا " .
دو یعنی خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک دونوں الگ الگ نہ ہوں اگر دونوں خریدنے وبیچنے والا سچ سچ بول دیں اور اپنی چیز کو واضح کردیں تو ان دونوں کے خریدوفروخت میں برکت عطا کی جاتی ہے اور اگر دونوں جھوٹ بول دیں اور عیب کو چھپالیں تو ان کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔
اسی طرح وہ اعمال جن کی وجہ سے انسان کی رزق و روزی میں کمی ہو جاتی ہے مثلاً
١۔ سستی اوربیکاری،اگر کوئی شخص سست ہواورکسی کسب وکارکے پیچھے نہیں جاتا ہو تو ممکن ہے اس کی زندگی بہت سخت ہوجائے ۔
٢۔اسراف:اگرکوئی خداوند متعالی کی نعمتوں کو اسراف کر کے ضایع کر دے توممکن ہے وہ فقیر ہو جائے ۔
٣۔ زندگی میں نظم نہ ہونا:زندگی کے تمام کاموں میں نظم و انضباط ضروری ہے ،اس لحاظ سے خرچ و مخارج بھی منظم ہونا ضروری ہے اگر کوئی اپنے آمدی سے زیادہ خرچ کرے تو وہ تنگدستی میں مبتلاء ہو سکتا ہے ۔وغیرہ وغیرہ
محترم قارئین کرام ! جس طرح حصولِ رزق کے لئے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم وتعلم میں جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان ومال اور وقت کی قر
بانیاں دیتے ہیں۔۔۔ اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کئے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کریں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ ۔
یہ وہ اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ،لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ،انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائےاور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بےکار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالامال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا،اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تونگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نےمجھ سے ارشاد فرمایا کہ “ ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے اورمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔ ” ( فتح الباری، ج:١١ ، ص:٢٣٢ )۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرمائیے اور ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائیے۔ ہمارے رزق و مال میں برکت اور اضافہ فرمائیے۔ آمین یا رب العالمین۔
afrozgulri@gmail.com
Follow us on WhatsApp
Dar Al Zikr
7379499848
30/06/19
Sent from my TA-1053 using Tapatalk
Last edited by a moderator: