• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسم نکاح اور شریعت کی مخالفت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
صاحب تھریڈ: ابن آدم/ 7 مراسلات
تالیف: فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ ﷲ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
ترجمہ تدوین و اضافہ: محمد اختر صدیق
فاضل مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی المصطفی و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔

اما بعد!

پیارے بھائیو: یہ بات تو معروف ہے کہ شادی انبیاء کرام کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

''ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا''
(الرعد:38)

شادی اس وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمت ہو گی جب اس سے ان دینی، دنیوی، ذاتی اور معاشرتی فوائد کا حصول ممکن ہو سکے جن کا شریعت نے ہم سے مطالبہ کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

''تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو، اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے''
(النور:32)

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے۔

اس نعمت کا حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو غیر شرعی امور کے ارتکاب کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ یقینا اس عظیم نعمت کی ناشکری ہو گی کہ اس مبارک اور پر مسرت موقع پر ایسے کام کئے جائیں جو واضح طور پر شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہوں، یا ایسے رسم و رواج پر پیسہ خرچ کیا جائے جن سے نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ ہو اور نہ ہی دینی لحاظ سے یہ عمل سود مند ثابت ہو سکے۔ ایسے اعمال تعلیمات کے منافی تصور ہوں گے چاہے تو ان کا تعلق شادی کے ابتدائی مراحل سے ہو یا پھر یہ آخری لمحات سے متعلق ہوں۔ اس خوشی کے موقع پر ہر مسلمان کو ایسی باتوں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔

اوقات اور علاقوں کے اعتبار سے شادی بیاہوں پر مختلف طور طریقے اپنائے جاتے ہیں اور ان کی شکل بدلتی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان بھائی ان سے باخبر رہتے ہوئے خود بھی شریعت کی پاسداری کرے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان کاموں سے دور رہنے کی تلقین کرتا رہے تاکہ شریعت کا ایک لازمی فریضہ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) بھی سرانجام دیا جا سکے۔

امت اسلامیہ میں ان خلافِ شریعت کاموں کی کثرت کے پیش نظر ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ کے سامنے چند گذارشات رکھی جائیں تاکہ ہمیں ان سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ... آمین۔

جاری ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شادی کا ابتدائی مرحلہ اور شریعت کی مخالفت

ذیل میں ہم ان امور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کا تعلق شادی کے ابتدائی مراحل سے ہے۔ امت اسلامیہ کے لاتعداد افراد ان میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ شریعت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

شادی سے اعراض: کسی شرعی عذر کے بغیر شادی سے پہلوتہی برتنا حقیقت میں اس سنت مطہرہ سے اعراض ہے ۔ شریعت اسلامیہ اپنے متبعین کو اس بات کا درس دیتی ہے کہ وہ سن بلوغت کو پہنچتے ہی شادی کے بندھن میں بندھ جائیں۔ عام طور پر جن اسباب کو بہانہ بنا کر شادی سے بے رغبتی کا اظہار کیا جاتا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

(الف) تکمیل تعلیم کا بہانہ: اکثر نوجوانون مرد اور عورتیں تکمیل تعلیم کو بہانہ بنا کر شادی سے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں جو کہ سراسر خلافِ شریعت عمل ہے۔
ممتاز عالم دین ابن عثیمین سے جب اس آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے شادی جیسی عظیم نعمت سے دور رہتا ہے
تو انہوں نے فرمایا: اس کا یہ عمل پیارے رسول ﷺکی تعلیمات کے بالکل منافی ہے،
بیشک نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی شادی کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو۔

اور ایک جگہ پر آپ کا فرمان ہے: اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو تو وہ ضرور شادی کرے بیشک یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے۔

پھر وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یاد رکھو! شادی میں بیجا تاخیر اس کی کافی ساری مصلحتوں کو ضائع کر دیتی ہے۔ میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں جو کہ عورتوں کے اولیاء ہیں یا خود شادی کے لائق ہیں وہ جلد سے جلد شادی کا اہتمام کریں اور اسی طرح مسلمان بہنوں سے گزارش کروں گا کہ وہ تکمیل تعلیم کو بہانہ بنا کر شادی میں خواہ مخواہ تاخیر نہ کریں۔

(ب) عورتوں کا غیر ضروری علم میں مشغول رہنا: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عورتوں کا ان علوم و فنون میں مشغول رہ کر شادی سے اعراض برتنا جن کی ان کو کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، قابل غور معاملہ ہے۔ میری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب عورت تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کر لے جس سے ان کو پڑھنے لکھنے پر دسترس حاصل ہو جائے تو یہی کافی ہے تاکہ وہ قرآن مجید، کتب تفاسیر، کتب احادیث اور شروحات احادیث سے استفادہ کر سکے۔ ہاں اگر کوئی ایسا علم یا فن جس کی واقعتا عورتوں کو ضرورت ہے تو اس میں وہ مہارت حاصل کر لے بشرطیکہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا علیحدہ انتظام ہو۔ مثال کے طور پر نرسنگ، تدریس وغیرہ۔ (مگر یاد رہے کہ یہ بات بھی شادی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے)۔

(ج)۔ تنگدستی کا بہانہ: بعض لوگ تنگدستی کو بہانہ بنا کر شادی سے پہلوتہی برتتے ہیں۔ یہ عمل بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ آپ پہلے ایک حدیث پڑھ چکے ہیں کہ پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ ضروری شادی کرے ...

بعض بھائی اس حدیث کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس مالی استطاعت نہیں ہے اور وسائل کم ہیں اس لئے ہم شادی کے قریب نہیں جاتے۔ تو ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اکثر علماء کے نزدیک یہاں استطاعت سے مراد بدنی طاقت ہے نہ کہ مالی۔ ہاں وہ شخص جس کے حالات انتہائی مخدوش ہوں، اس کی مالی حالت انتہائی کمزور ہو وہ ضرور اس حدیث کا مصداق ہے۔ اگر واقعتا ایسی صورت حال ہے تو اس کو پھر روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ بدنی طاقت سے مالا مال ہے۔ اور حدیث مبارکہ میں اس کو روزوں کی تلقین کی گئی ہے۔ وہ آدمی جو شادی کے لئے ایک بھاری رقم ہاتھ آنے کا منتظر ہے وہ غلطی پر ہے۔ کتب احادیث میں ایسے صحابہ کرام کی شادیوں کے حالات ملتے ہیں جو مالی طور پر بہت کمزور تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر پیارے رسول ﷺ کی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ اس صحابی کا قصہ بھی معروف ہے جس کے پاس حق مہر دینے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہیں قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد ہے؟ اس نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ ﷺ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اس عورت کو قرآن مجید سکھلاؤ، اسی حق مہر کے عوض میں اس عورت کے ساتھ تمہاری شادی کر رہا ہوں۔ (دیکھئے کتب احادیث)۔

پیارے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی مد نظر رکھنا چاہیئے: تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کرنا اپنے اوپر لازم کر رکھی ہے۔ اللہ کے راستے میں لڑنے والا مجاہد۔ وہ غلام جو آزاد ہونے کے لئے (اپنے مالک) کو پیسوں کی ادائیگی کرنا چاہتا ہو۔ وہ نکاح کرنے والا جو برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ (ترمذی)۔

(د)۔ ذمہ داریوں سے فرار کا بہانہ: بعض افراد بدنی اور مالی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی شادی کے قریب نہیں جاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد انسان ذمہ داریوں میں گھر جاتا ہے۔ جبکہ ہم تو ابھی زندگی سے Enjoy کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو بھائیو! یہ صرف اور صرف شیطانی سوچ ہے۔ پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں: نکاح میری سنت ہے۔ پس جس نے بھی میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
اور یہ بھی فرمایا کہ ''اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو چاہیئے کہ وہ روزے رکھے یہ اس کے لئے (گناہوں سے) ڈھال کا کام دیں گے۔ (متفق علیہ)۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ۔ اس نے تمہارے درمیان ہمدردی قائم کر دی۔ یقینا غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ''۔
(الروم:21)۔

مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ شادی میں ہی سکون، فرحت اور لطف اندوزی ہے جس سے غیر شادی شدہ افراد بالکل محروم ہیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی مناسب ہو گا کہ اکثر اطباء کے کہنے کے مطابق پاک و ہند کے اکثر و بیشتر علاقوں میں شادی کیلئے موزوں ترین عمر یہ ہے:

مردوں کے لئے: 20 سے 25, 24 سال
عورتوں کے لئے: 18, 17سے 23, 22سال۔

اسی لئے تو پیارے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے آپ نے ایک صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
''کہ تم کنواری (نوجوان) عورت سے شادی کرتے تاکہ وہ تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم اس کے ساتھ کھیلتے''۔

یاد رہے کہ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ بیوہ عورت سے شادی نہ کی جائے۔ اسلام نے دوسرے مذاہب کے خلاف بیوہ کیساتھ شادی کی اجازت دی ہے تاکہ اُسے معاشرے میں قابل قدر مقام حاصل ہو سکے۔

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بہنوں اور بیٹیوں کی شادی میں تاخیر: اس اہم مسئلہ میں سعودی عرب کے مفتی رقمطراز ہیں:
(عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے تمام مسلمانوں کے نام)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:

سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اور آپ تمام بھائیوں کو سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کامیاب و کامران لوگوں میں شامل فرمائے۔ (آمین)۔

اللہ جل شانہ نے تمام مسلمانوں پر ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون، حق بات کی تبلیغ اور مصائب میں صبر کی تلقین کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ تمام کام بغیر کسی لالچ اور خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے سرانجام دیئے جائیں۔ مالک کائنات نے مذکورہ امور کا اہتمام کرنے پر دنیا اور آخرت کی کامیابی، فرد سے لے کر معاشرہ اور امت کی فلاح و بہبود کی خوشخبری سنائی ہے۔

مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ بعض لوگ اپنی بیٹیوں، بہنوں وغیرہ کی شادی میں بغیر کسی شرعی عذر کے تاخیر کرتے ہیں۔ جیسے بعض لوگ گھر والوں کی خدمت، وٹہ سٹہ کی شادی کے لئے انتظار، عورت کی دولت سے استفادہ، رشتہ داروں میں اس کی شادی کا انتظار اور دیگر ایسے ہی امور کے لئے اپنی ولیہ کی شادی یا اپنی پسند کے مطابق شادی کے لئے عورت کی رضامندی کو مؤخر کرتے ہیں۔

یاد رکھو! یہ تمام کے تمام ہتھکنڈے خلافِ شریعت ہیں اور اس قسم کے بہانوں سے اپنی ولیہ کی شادی میں تاخیر پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات کے بالکل منافی اور عورتوں پر کھلم کھلا ظلم کے مترادف ہے۔ اللہ جل شانہ کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

''تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں، ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا''۔
(النور:32)

أیامی۔ أیم کی جمع ہے: ہر اس عورت کو أیم کہتے ہیں جس کا خاوند نہ ہو اور ہر اس مرد کو أیم کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو رغبت دلاتے ہوئے ہر آزاد اور غلام کو شادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے فرمایا:

''تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا''۔
(النور:32)۔

پھر انہوں نے فرمایا کہ: امام ترمذی نے پیارے رسول ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے:

''اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا''۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اگرچہ اس میں ... ؟ آپ نے فرمایا: جب تمہارے ہاں کوئی آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو۔ آپ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔

میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور تمام مسلمان بھائیوں کی اصلاح کی دعا کرتا ہوں اور یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو برے اعمال اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے (آمین)۔
دیکھئے (مجلۃ البحوث: 267/2) 1400ھ۔ 1979ء

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
منگنی اور نکاح وغیرہ میں شریعت کی مخالفت

منگیتر کو دیکھنے کی ممانعت: اسلام نے ہر نکاح کرنے والے مرد کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ نکاح سے قبل اپنی منگیتر کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ عمل نکاح کو مزید دلچسپ اور بہتر بناتا ہے۔ پیارے رسول ﷺ نے بھی نکاح کرنے والے مختلف صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ شادی سے قبل اپنی ہونے والی بیوی کو ایک نظر دیکھ لیں۔

آپ ﷺ کے حکم کا ترجمہ ہے: ''اس عورت کو دیکھ لو''۔

ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ نے بعض سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں حدیث نقل کی ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

''تم میں سے جو کوئی کسی عورت کو شادی کا پیغام بھیجنا چاہتا ہو تو اگر وہ اس (عورت) کو دیکھ لے تو کوئی حرج والی بات نہیں اگر چہ اس عورت کو علم نہ ہو سکے''۔

پھر انہوں نے فرمایا: کہ کسی آدمی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس عورت کو دیکھے جس کے ساتھ وہ منگنی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ منگیتر کو دیکھنے کا بہانہ بنا کر کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کرے۔

یاد رہے کہ دیکھنے کی صورت یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنی منگیتر کو ایک نظر اس طرح دیکھ لے کہ اس کو علم نہ ہو سکے یا پھر اس کے گھر والوں کی موجودگی میں ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ رہا آجکل کا طریقہ کار کہ منگنی کا بہانہ بنا کر لڑکے کے عزیز و اقارب کی موجودگی میں لڑکی کو لایا جاتا ہے اور لڑکے کیساتھ بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے یا پھر غیر محرم افراد کی موجودگی میں لڑکی کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تمام کام خلافِ شریعت ہیں۔ کوئی بھی غیرت مند آدمی ان کی اجازت نہیں دے سکتا۔ نہ ہی یہ طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے اور نہ ہی یہ قابل تحسن عمل ہے
(دیکھئے المنظار: ص142, 141)۔

حق مہر میں ناقابل برداشت زیادتی: شیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں کہ حق مہر کا تقرر اور اس کی ادائیگی سنت نبوی ﷺ ہے۔ اس کے مقرر کرنے میں اگر شریعت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تھوڑا ہی مقرر کیا جائے۔ پیارے رسول ﷺ کی پیروی میں ہی کامیابی ہے۔ اس لئے آپ کی شادیوں کو مد نظر رکھا جائے۔ حق مہر جتنا کم اور ادائیگی میں آسان ہو گا اتنا ہی افضل ہو گا۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: ''وہ نکاح بہت ہی بابرکت ہے جو کم سے کم مالیت میں طے پا جائے''۔

ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا ہے۔ پیارے رسول ﷺ پوچھنے لگے کہ تم نے اسے کتنا حق مہر دیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ چار اوقیہ (260 درہم) نبی ﷺ نے فرمایا کہ چار اوقیہ ... گویا کہ تم اس پہاڑ سے چاندی تراشنے لگے ہو۔ ہمارے پاس تمہارے لئے کوئی چیز نہیں ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خبردار عورتوں کے حق مہر میں زیادتی نہ کرو۔ اگر یہ عمل دنیا میں باعث عزت اور آخرت میں تقویٰ کی بنیاد ہوتا تو نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ اس کو اپنانے والے ہوتے۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی بیوی اور اسی طرح اپنی کسی بیٹی کو 12 اوقیہ سے زیادہ حق مہر نہیں دیا۔

پھر وہ فرماتے ہیں: کہ موجودہ وقت میں حق مہر کی ناقابل برداشت زیادتی لاتعداد مردوں اور عورتوں کی شادی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ بعض افراد حق مہر کے اہتمام میں زندگی کے کئی سال گزار دیتے ہیں مگر وہ مطلوبہ اسباب کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

پیشگی زیور کا مطالبہ: پیشگی زیور کا مطالبہ جو لڑکی والوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، شادی میں رکاوٹ کا باعث ہے اور اسلام نے اس طرح کی کوئی رہنمائی نہیں کی۔ لڑکی والوں کی طرف سے بھاری مالیت کے زیور کا مطالبہ لڑکے کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے۔ شاید لوگ اپنی ولیہ کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے یہ اقدام کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اتنی ہی بے اعتباری ہے تو پھر رشتہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی خلافِ شریعت چیز رواج پاتی ہے تو کوئی نہ کوئی سنت ختم ہو جاتی ہے اسی لئے تو زیور کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنی بیویوں کو حق مہر ادا نہیں کرتے جو کہ ایک لازمی چیز تھی۔ اگر عورت اپنی رضامندی سے اس حق سے دستبردار ہو جائے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ اسلام نے تو حق مہر کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔

حق مہر کی زیادتی اور پیشگی زیور کے مطالبہ سے مندرجہ ذیل برائیوں نے جنم لیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری لڑکیوں کے اولیاء پر عائد ہوتی ہے۔

1۔ یہ چیز لاتعداد مردوں اور عورتوں کی شادی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

2۔ لوگ انجام سے بے خوف ہو کر اپنی لڑکی اس شخص سے بیاہ دیتے ہیں جو حق مہر یا زیور زیادہ سے زیادہ ادا کرے۔

3۔ حق مہر اور زیور کی زیادتی کے لئے شادیوں میں تاخیر سے کام لیا جاتا ہے

4۔ اگر میاں اور بیوی میں اختلاف ہو جائے تو میاں بیوی کو طعنے دیتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنا حق مہر یا زیور دیا ہے۔

5۔ اگر میاں اور بیوی میں گزارا ممکن نہ ہو سکے تو آسانی سے علیحدگی نہیں ہوتی کیونکہ شوہر زیور یا حق مہر کی اتنی مقدار کے لئے متفکر رہتا ہے اور وہ بیوی کو بہت زیادہ تنگ کرتا ہے حتی کہ نوبت خاندانی لڑائیوں تک جا پہنچتی ہے۔

ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ اگر لوگ حق مہر میں آسانی پیدا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا پیدا کریں تو معاشرہ میں امن و سکون پیدا ہو جائے اور بیشمار لوگوں کی شادیاں انجام پا جائیں۔ مگر افسوس کہ لوگ حق مہر کے سلسلے میں مقابلہ بازی پر اتر آئے ہیں اور آئے روز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور معلوم نہیں کہ اس کی انتہا کہاں پر ہو گی۔
(دیکھئے الزواج ص 35, 34)۔

منگنی اور سونے کی انگوٹھی: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اکثر لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ منگی اس انگوٹھی کے ساتھ قائم ہے جو لڑکے کو پہنائی جاتی ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ جب تک یہ انگوٹھی لڑکے کے ہاتھ میں ہے تو معاہدہ باقی ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ سونے کی انگوٹھی مردوں کے لئے پہننا حرام ہے چاہے وہ کسی غرض سے پہنی گئی ہو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بیشک نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کی انگلی میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے کھینچ کر اتارا اور دور پھینک دیا اور فرمایا ''تم آگ کا قصد کرتے ہو یہاں تک کہ اسے ہاتھ میں لے لیتے ہو''۔ جب نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے گئے تو مذکورہ صحابی سے کہا گیا کہ انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے کوئی اور ضرورت پوری کر لو۔ اس صحابی نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس انگوٹھی کو نبی کریم ﷺ نے پھینکا ہو میں اسے اٹھا لوں۔ (مسلم شریف)۔

عالم اسلام کے نامور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: منگی کا ذہن بنا کر انگوٹھی کا پہننا کفر کی پیروی ہے کیونکہ یہ عادت مسلمانوں کے اندر عیسائیوں کی طرف سے رواج پا گئی۔ زمانہ قدیم میں ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ دولہا کے لئے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے سرے پر انگوٹھی کو رکھا جاتا اور کہا جاتا (باسم الرب) اللہ کے نام سے۔ پھر اس کو انگشت شہادت کے سرے پر رکھ کر (باسم الابن) بیٹے کے نام سے کہا جاتا۔ پھر اس کو درمیانی انگلی کے سرے پر رکھ کر (باسم روح القدس) روح قدس (جبرئیل) کے نام سے۔ اگر وہ اس کے بعد آمین کہہ دیتا تو پھر اس کو چھوٹی انگلی میں پہنا دیا جاتا اور وہ ہمیشہ اس کو چھوٹی انگلی میں پہنے رکھتا۔
(دیکھئے آداب الزفاف)۔

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
دوران شادی شریعت کی مخالفت

انتہائی قیمتی اور طویل لہنگا: دلہن کو انتہائی قیمتی اور لمبا سا لہنگا پہنانا جس کی مالیت ہزاروں، لاکھوں روپے ہو شریعت کے منافی عمل ہے۔ بعض علاقوں میں اس کی لمبائی اتنی ہوتی ہے کہ دلہن کے علاوہ کئی عورتیں اور بچے اس کو اٹھا کر چلتے ہیں۔ دلہن اس کو پہن کر دولہا اور دیگر لوگوں کے سامنے حاضر ہوتی ہے جہاں دولہا اس کو تحائف وغیرہ پیش کرتا ہے۔ دلہن سے دولہا ہم کلام ہوتا ہے۔ بعض دفعہ دیگر لوگ اس گفتگو میں شامل ہو کر دولہا اور دلہن کو اخلاق سوز مذاق کرتے ہیں یہ عمل شریعت کے بالکل خلاف ہے۔

مسلمان بھائیو! یاد رکھو یہ کفار کی عادت ہے۔ اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فضول خرچی ہے۔ یہ تکبر اور ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

''اور کھاؤ اور پیو، فضول خرچی نہ کرو۔ بیشک وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا''۔
(الاعراف30)۔

دولہا اور دلہن کے لئے اسٹیج کا اہتمام: بعض علاقوں میں تکمیل نکاح کے بعد ایک اسٹیج بنایا جاتا ہے جس کے اوپر دولہا اور دلہن بھری محفل میں رونق افروز ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق سعودی عرب کے مفتی ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

شادی بیاہ میں شریعت کی خلاف ورزیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دولہا اور دلہن کو نمایاں مقام پر بٹھایا جاتا ہے۔ بعض دفعہ دولہا کے رشتہ دار مرد بھی وہاں موجود ہوتے ہیں جن کے سامنے دلہن کا بے حجاب ہونا اور دیگر عورتوں کا نازیبا لباس میں پھرنا کھلی بے غیرتی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور اور صاحب غیرت اس چیز کے خطرات سے بے خبر نہیں ہے۔ یہ عمل پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے جس سے بچنا ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے ضروری ہے۔

عورتوں کا خوشبو لگا کر پھرنا: شادی بیاہوں پر عورتوں کا خوشبو لگا کر پھرنا اور غیر محرم مردوں کے پاس سے گزرنا بھی باعث گناہ ہے کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ عورتوں کا گزر ان تقریبات میں غیر مردوں کے پاس سے نہ ہو۔ پیارے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

''جو عورت خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ یہ خوشبو مردوں تک پہنچ رہی ہو تو وہ (عورت) زانیہ ہے''۔

4۔ عورتوں اور مردوں کا اختلاط: شادی کے موقع پر عورتوں اور مردوں کا اکٹھا ہونا بھی پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے کیونکہ آپ ﷺ کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

''اپنے آپ کو عورتوں کے پاس جانے سے روکو'' ایک آدمی نے سوال کیا کہ دیور کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ''دیور تو موت ہے''۔

ابن عثیمین فرماتے ہیں: اے مسلمان بھائیو! ذرا اس بات کا تصور کرو کہ جب زیب و زینت کیساتھ، زرق برق لباس پہن کر، مکمل آرائش و جمال کئے ہوئے بے حجاب عورتیں بنے سنورے ہوئے مرد، دولہا اور دلہن کی موجودگی میں محفل لگاتے ہیں تو اس وقت کیا حال ہوتا ہے؟ تمام مرد اور عورتیں جیسے ایک دوسرے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر دولہا اور دلہن کو دیکھ دیکھ کر لطف و سرور حاصل کرتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ اگر نیا جوڑا خوبصورت اور مناسب شخصیات کا مالک ہے تو سب ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مرد حضرات دلہن میں اور عورتیں دولہا کی طرف مائل ہو رہی ہوتی ہیں اور اگر وہ دونوں ان کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو سب کے سب ان کے متعلق باتیں بناتے ہیں اور ان کے بارے میں عجیب قسم کا مذاق کرتے ہیں۔

پیارے بھائیو! ایک لمحہ کے لئے سوچیئے کہ اس پرمسرت اور خوشی کے موقع پر کتنی جلد مرد اور عورت بہک سکتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ کوئی نہ کوئی فتنہ جنم لے جو کسی نہ کسی حادثہ کا باعث بن جائے۔ خاص طور پر نوجوان مرد اور عورت اپنی خواہشات پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

اے مسلمان بھائیو! ذرا اس بات کا تصور کرو۔ اس دولہا کی نفسیاتی حالت کیا ہو گی جو اپنے سامنے مکمل آرائش و جمال کے ساتھ موجود دوشیزاؤں کا نظارہ کر رہا ہے۔ اگر اس کی نئی نویلی دلہن خوبصورتی اور کشش کے لحاظ سے بعض عورتوں سے ذرا کم ہے تو ہو سکتا ہے کہ شادی کے پہلے ہی دن اس کی خوشی، دلی قلق اور افسوس میں تبدیل ہو جائے اور وہ یہی سوچتا رہے کہ کاش وہ خوبصورت دوشیزہ میری دلہن ہوتی یا وہ لڑکی میرے عقد میں آتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی حادثہ دلہن کے ساتھ پیش آجائے اور وہ بھی سوچنے لگے کہ کاش وہ مرد میرے مقدر میں ہوتا۔ بعید نہیں کہ یہ لمحہ ان کے درمیان غلط فہمیوں کا سبب بن جائے جس کا انجام بہت بڑے صدمہ کی شکل میں سامنے آئے۔
(دیکھئے کتاب منکرات الازواج)

فوٹو گرافی: ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ بعض لوگ شادی کی تقریبات میں فوٹو گرافی کا اہتمام کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کام کسی خاص مقصد کے لئے کیا جاتا ہے، یا پھر ایسے ہی لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں کوئی بھی ذی شعور آدمی اس کو پسند نہیں کرے گا۔

شاید ہی کوئی ایسا بے غیرت مسلمان ہو جس کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اس کی بیٹی، بہن، بیوی کی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کی جائے۔ کیا کوئی مسلمان ایسا ہے کہ جس کے لئے یہ بات خوشی کا باعث ہو کہ اس کی خوبصورت رشتہ دار عورتوں کی تصاویر کوئی بنائے اور پھر لوگوں کے سامنے ان کو تسکین قلب کے لئے رکھا جائے تاکہ وہ ان میں دلچسپی کا اظہار کریں۔ یا اس کی بد صورت رشتہ دار عورتوں کی تصاویر لوگوں پر پیش کی جائیں تاکہ وہ ان کو اپنے مذاق کا ہدف بنائیں۔

ویڈیو فلم : اسی طرح فوٹو گرافی سے بڑھ کر بے غیرتی ویڈیو فلم کا اہتمام ہے۔ غیر محرم آدمی کو لوگ بلاتے ہیں کہ برائے مہربانی ہماری بہنوں، بیٹیوں کی تصاویر بناؤ۔ ان کے جسم کے ایک ایک حصہ کو مختلف زاویوں سے کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرو۔ ان کی ایک ایک حرکت کو اچھی طرح ملاحظہ کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر ویڈیو کیسٹ میں ریکارڈ کرو تاکہ جب شوق چرائے ہم خود بھی اور کئی دوسرے بے غیرت مل کر اپنی معزز بہنوں بیٹیوں کی حرکات کو دیکھ سکیں اور جب مووی میکر فلم بنا کر فارغ ہوتا ہے تو اس کو بڑی عزت کے ساتھ یہ بے غیرت مسلمان معاوضہ پیش کرتا ہے کہ اس کو قبول کیجئے آپ نے ہماری عورتوں کا اچھی طرح نظارہ کیا ہے۔ یہ آپ کی خدمت کا حق ہے۔

ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا علم ہوا ہے کہ بعض ملکوں میں تو مردوں، عورتوں کی اکٹھی فلم تیاری کی جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل انتہائی بے غیرتی پر مبنی ہے۔ شریعت کا تھوڑا سا بھی علم رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ یہ عمل اسلامی تعلیمات کے سخت خلاف ہے۔

قیمتی جہیز کا ظالمانہ مطالبہ: لڑکے والوںکی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہندوؤں کی رسم ہے وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لئے شادی پر کچھ نہ کچھ جہیز وغیرہ دیتے تھے تاکہ لڑکی اس سامان کے عوض وراثت سے اپنا حصہ مانگنا ترک کر دے۔

مسلمان بھائیو! یہ عورتوں پر ظلم کی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولادوں کے بارہ میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے آدھا ملے گا''
(النسآ:11)

جہاں جہیز لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھنے کا بہانہ ہے وہاں ان کی شادی میں بھی زبردست رکاوٹ ہے۔ غریب اور متوسط گھرانے کے سربراہان اپنی بچیوں کو قابل ذکر جہیز دینے کی قطعاً طاقت نہیں رکھتے جس سے بیشمار لڑکیاں شادی کی نعمت سے محروم ہیں اور اب تو معاملہ اتنی بے حیائی اور ڈھٹائی تک جا پہنچا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے باقاعدہ ایک لسٹ بھیجی جاتی ہے جو کہ انتہائی مہنگی اشیاء (گاڑی، مکان، فریج، موٹر سائیکل، مائیکرو ویو اوون، کراکری، سوٹ کیس، بیڈ اور ملبوسات وغیرہ) پر مشتمل ہوتی ہے۔ یاد رکھو اس کا شریعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی اقدار اتنی پست ہو چکی ہیں کہ لڑکے والے اپنی بہو کو یہ طعنہ دینے سے بھی باز نہیں آتے کہ جاؤ وہی چیزیں استعمال کرو جو اپنے گھر سے لے کر آئی ہو۔ یہ مسلمانوں کا رویہ نہیں ہے۔

یہ تمام پریشانیاں دین سے دوری کی بناء پر ہیں۔ ہم نے اللہ کا حکم جو کہ وراثت کی شکل میں تھا چھوڑ کر اپنی طرف سے شریعت سازی کی تو ایسی مصیبتیں ہمارے پیچھے پڑ گئیں۔

اے بیٹیوں کے والدین اور بہنوں کے بھائیو! یاد رکھو جس لڑکی کو آج تم وراثت سے محروم کر رہے ہو کل روزِ قیامت یہی بیٹی اور بہن دربارِ الٰہی میں تمہیں روک کر کھڑی ہو جائے گی اور جب تک اس کا حق ادا نہیں کرو گے تب تک خلاصی ناممکن ہو گی۔

مسلمان بھائیو! غور سے سن لو۔ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر لڑکی کے ورثاء لڑکے والوں کے مطالبہ کے بغیر کوئی سامان وغیرہ خوشی کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں تو یہ علیحدہ بات ہے۔ اصل میں تو گھر کا خرچہ اور سامان وغیرہ اسلام نے لڑکے کے ذمہ رکھا ہے۔ نکاح میں قبولیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ لڑکا اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ نان و نفقہ، گھریلو اخراجات، بچوں کی ضروریات پورا کرنے کا ذمہ دار ہے۔

یہاں پر ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لڑکی کو جہیز کا سامان دیکر خاموش کرنے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی یا بہن تو ہم سے وراثت کا مطالبہ نہیں کرتی۔ اس نے خوشی سے ہمیں معاف کر دیا ہے۔ کوئی کہتے ہیں کہ اس نے اللہ کے لئے ہمیں معاف کر دیا ہے۔

مسلمان بھائیو! اگر باپ بیٹی سے اور بھائی بہن سے اس لئے تاحیات قطع تعلقی کر لے کہ اس نے وراثت کا حصہ مانگا ہے تو پھر بیچاری بیٹی یا بہن اپنا حصہ معاف نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی! اللہ جل شانہ ایسے حیلوں اور بہانوں کو قبول نہیں کرتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب بخاری شریف میں حیلوں اور بہانوں کو کئی احادیث کے ساتھ ردّ کیا ہے۔

میں اس واقعہ کو قطعاً نہیں بھول سکتا جو میرے روحانی باپ اور مربی محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے جدہ کے ایک پروگرام میں سنایا کہ ایک اللہ کا خوف رکھنے والے آدمی نے جب اپنی بہن کو باپ کی وراثت سے حصہ دینا چاہا تو بہن نے بڑی شدت اور اصرار کے ساتھ انکار کر دیا۔ بھائی نے جب دیکھا کہ بہن کسی طرح ماننے کا نام نہیں لیتی تو اس نے اس کا متعلقہ حصہ بیچ کر پیسے بہن کی خدمت میں پیش کئے جو اس نے پوری رضامندی کے ساتھ وصول کر لئے۔

ہمیں اللہ جل شانہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے وراثت کو کما حقہ تقسیم کرنا چاہیئے اور جہیز کے مطالبہ سے بالکل دستبردار ہو جانا چاہیئے۔ اپنی بیویوں اور عورتوں کے ورثاء کو جہیز کے ظالمانہ مطالبے سے پریشان نہیں کرنا چاہیئے۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں جس نے اللہ کی خاطر کسی چیز کو چھوڑ دیا تو اللہ جل شانہ اس کو اس سے کہیں بہتر عطا کرتا ہیں۔

سہرا اور گانا باندھنا: بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ دولہا اور اس کے کسی رشتہ دار مرد (بھتیجا، بھانجا) کو سہرا باندھا جاتا ہے جو ان کے ماتھوں پر سجا کر آنکھوں کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر دولہا کے دائیں ہاتھ میں کپڑے سے تیار شدہ کڑا نما چیز ڈالی جاتی ہے جسے (گئانا) کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ رسم ہندوؤں کی طرف سے اسلام میں داخل شدہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اس میں کیا حرج ہے۔ ہماری گذارش ہے کہ بہت زیادہ حرج ہے۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر مسلموں کی پیروی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔

پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں

''جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے''۔

اس لئے دشمنان اسلام کے طریقوں کو چھوڑ کر اسلامی طرز زندگی اپنانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
دعوت طعام اور ولیمہ میں شریعت کی خلاف ورزی

فقراء کو نظر انداز کرنا: یہ بات جائز نہیں کہ دعوت طعام میں فقراء کو نظر انداز کر دیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

''ولیمہ کی وہ دعوت بہت ہی بری ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور مساکین کو منع کر دیا جائے اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی
(مسلم)

اور یہ بھی فرمایا:

''صرف مومن آدمی کو ہی دوست بناؤ اور اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلاؤ''

2۔ بہت بڑی بارات کا تصور: عام طور پر لوگ شادیوں میں بارات کو ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں لے کر جاتے ہیں۔ مسلمان بھائیو! اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کو ایک اچھی خاصی تعداد کے لئے کھانا تیار کرنا پڑتا ہے جو ان کے لئے بے فائدہ سا بوجھ ہے۔ اور دوسرا لڑکے والے بھی باراتیوں کو منتقل کرنے کے لئے کئی کئی بسوں اور کاروں کا اہتمام کرتے ہیں جس کے لئے ان کا کافی سارا پیسہ صرف اسی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ شریعت میں اس چیز کا قطعاً کوئی تصور نہیں ہے۔ پیارے رسول ﷺ کی اپنی شادیاں، ان کی پیاری بیٹیوں کے نکاح ہمارے سامنے نمونے کے طور پر موجود ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ نے جب نبی کریم ﷺ کی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو ان کے ساتھ چند افراد موجود تھے۔

فضول خرچی: اللہ تعالیٰ نے 22 آیات میں فضول خرچی کی مذمت کی ہے۔ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:

''وہ لوگ (اللہ کے بندے) خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں''۔
(فرقان:67)

اور فرمایا:

''اے اولاد آدم تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا''۔
(الاعراف:31)

گلوکاروں، رقاصاؤں اور گانے کی کیسٹوں کا اہتمام : ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ شادیوں پر بھاری رقوم کے عوض گلوکاروں، رقاصاؤں اور لاؤڈ سپیکرز کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگرچہ شادی کی رات گیت و اشعار وغیرہ (دف بجا کر) خلافِ شریعت نہیں مگر وہ گانا حرام ہے جو شہوت، زنا اور فتنہ کا باعث ہو۔ شادیوں پر لوگ معروف گلوکاراؤں، رقاصاؤں کو بلا کر عوام الناس کے ایمان کا بیڑہ غرق کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسی محافل، محبت عشق کے گانوں، لہو و لعب اور زنا کی طرف دعوت کا سبب ہیں اور مزید یہ کہ اگر گانا گانے والی کوئی عورت ہو تو شریعت کے ایک اور حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ شریعت نے عورت کو اپنی آواز پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اور ایسی محفلوں میں عورتوں کی آواز لاؤڈ سپیکر پر دور دور تک سنائی دیتی ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی محافل پڑوسیوں کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہیں خصوصاً جب ان کو رات گئے تک جاری رکھا جائے۔

شریعت نے جس گانے وغیرہ کی اجازت دی ہے وہ یہ ہے کہ عورتیں اپنی خاص محفل میں عورت کو رخصت کرنے کی غرض سے اچھے اشعار دف بجا کر پڑھ سکتی ہیں۔ یہ اشعار یا گانا ایسے ہونا چاہیئے کہ جو عشق و محبت کے الفاظ سے خالی ہو۔ فقط فرحت و سرور کے کلمات ہوں کیونکہ دف بجا کر خوشی کا اظہار کرنا حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اور یہ خاص حکم عورتوں کے لئے ہے بشرطیکہ لاؤڈ سپیکر وغیرہ کا استعمال نہ کیا جائے۔ دف سے منع کرنا بے جا سختی ہے جس سے بچنا چاہیئے۔ یاد رہے کہ دف کے ایک طرف چمڑا لگا ہوتا ہے جو ڈھول یا طبلہ سے بالکل مختلف ہے۔
(دیکھئے منکرات الازواج ص 5)۔

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شادی کے بعد شریعت کی مخالفت

شادی کے بعد ہنی مون منانا: شادی کے بعد ہنی مون کی غرض سے مختلف ممالک کا سفر کرنا خصوصاً یورپ (غیر اسلامی ممالک) میں جا کر کئی دن گذرانا بھی کفار کی عادات میں سے ایک بری عادت ہے۔ کیونکہ ان ممالک کی طرف سفر میاں بیوی کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جب انسان بے حیائی، فحاشی، شراب نوشی، سرعام زنا اور عورتوں کے مختصر لباس کا نظارہ کرتا ہے تو وہ اس ماحول سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کی غیرت بھی ختم ہو جائے جو میاں اور بیوی دونوں کے لئے خطرناک ہے۔ اور ممکن ہے کہ وہ دونوں دین اور اخلاق سے ہی دور ہو جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت اس ماحول کو دیکھ کر حیاء کا تاج اتار دے اور بے حیائی کے سیلاب میں بہہ جائے۔

اگر ان کے پاس اللہ کی دی ہوئی اتنی دولت موجود ہے کہ وہ بیرون ملک اپنی شادی کی خوشی منانا چاہیں تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کو لے کر عمرہ یا حج جیسی عظیم نیکی سے سرفراز ہو۔ وہاں اپنی شادی کی کامیابی، میاں بیوی کی زندگی میں برکت اور صالح اولاد کی دعا کرے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حج پڑھنے والا انسان گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ ابھی پیدا ہوا ہے اور فرمایا عمرہ کی ادائیگی پہلے عمرہ تک کے گناہوں کو دھو دیتی ہے۔

جاہلیت کی دعا: بعد از نکاح دولہا اور دلہن کو فقط مذکر اولاد (بیٹے) کی خوشخبری دینا جاہلیت کی رسم ہے۔ ظہور اسلام سے قبل اس رسم کا عام رواج تھا۔ اور غالب گمان یہ ہے کہ اسلام نے اس رسم سے شاید اس لئے منع کر دیا ہے کہ اس عمل کی مخالفت ہو سکے جس پر اسلام سے قبل لوگ عمل پیرا تھے۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر صالح السدلان نے شادی کے بعد رسومات پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف اولادِ نرینہ کے لئے دعا کرنا جبکہ اس میں نہ ہی اللہ کا نام ہو نہ اس کی حمد و ثناء ہو نہ میاں بیوی کے لئے کوئی دعا ہو جبکہ حدیث مبارکہ میں جو دعا ہے وہ میاں اور بیوی دونوں کے لئے یکساں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

بارک اﷲ لک و بارک علیک و جمع بینکما فی الخیر
اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے اور تمہارے اوپر برکتوں کا نزول ہو اور تم دونوں کو اللہ تعالیٰ بھلائی پر جمع کرے۔
(دیکھئے کتاب : احکام الفقیہہ للصداق و ولیمۃ العرس ص: 112)

تالیف: فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
ترجمہ تدوین و اضافہ: محمد اختر صدیق
فاضل مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب۔

ح
 
شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
جزاک اللہ خیر...
میرا ایک سوال ہے کہ..
بارات کے دن (بارات لے کر جانا وغیرہ)کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
دین اسلام میں ”بارات“ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ غالباً ہندوانہ رسم ہے، جو ہندوؤں کے ساتھ رہنے سے برصغیر کے مسلمانوں میں در آئی ہے۔ نکاح یا رخصتی کے لئے لڑکی والوں کے گھر دلہا اپنے قریبی عزیزوں کے ساتھ جاسکتا ہے۔ لیکن جانے والوں کا ”قافلہ“ شان و شوکت کے ساتھ، سجے سجائے جلوس کی صورت میں، ڈھول باجوں کے ساتھ یا ناچتے گاتے ہوئے جانا غیر اسلامی ہے۔ نکاح اور رخصتی (جو ایک ساتھ بھی منعقد ہوسکتا ہے اور الگ الگ بھی) کے لئے کم سے کم افراد جانے چاہئے۔ اس موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے پُر تکلف ضیافت (کھانا کھلانا) کا اہتمام بھی ”غیر ضروری“ ہے۔ اسلام میں شادی کے موقع پر صرف ایک ”ضیافت“ ولیمہ ہے اور اس کا اہتمام رخصتی کے بعد لڑکے والے کرتے ہیں۔ یہ بھی مسنون اور مستحب ہے، فرض نہیں۔ اگر کوئی ولیمہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، تو ولیمہ کے بغیر بھی شادی بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔ ولیمہ کے ”دو بنیادی مقاصد“ ہیں۔ ایک تو شادی کی خوشی کے موقع پر ضیافت کا اہتمام، جیسا کہ ہم دیگر خوشی کے مواقع پر بھی کرتے ہیں۔ دوسرا اس شادی کا ”اعلان“ کرنا کہ ہمارے گھر جو ایک ”نئی خاتون“ مستقلاً رہنے سہنے کے لئے آئی ہے، وہ ”کوئی اور“ نہیں بلکہ صاحب خانہ کی منکوحہ ہے۔ ویسے اسلام میں شادی اور ولیمہ ”بغیر کسی خرچ“ کے بھی ممکن ہے۔ ایک صحابی کا حق مہر یہ مقرر کیا گیا تھا کہ وہ اپنی منکوحہ کو قرآن کا کچھ حصہ سکھلائیں گے (گویا حق مہر پر کچھ خرچ نہیں ہوا)۔ اسی طرح (غالباً) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ولیمہ اس طرح منعقد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی جو چیز ہو، وہ لے کر آجائے۔ چنانچہ مختلف صحابی اپنے اپنے پاس سے ایک ایک ڈش لے کر آگئے اور ایک ہی دسترخوان پر سب نے اس ضیافت کو بطور ولیمہ انجوائے کیا۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top