محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,787
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کا آخری باب:
رفیق اعلیٰ کی جانب :
ماخوذ از: رحیق المختوم للعلامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ
توضیح و اضافات: حماد چاؤلہ (نائب مدیر المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر)
الوداعی آثار:
(رسول اللہ ﷺ کی رحلت سے پہلے کی علامات):
جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہﷺ کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات (نشانیاں)نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپﷺ اس حیات مستعار(دنیاوی زندگی) کو اور اس جہان فانی کے باشندگان (لوگوں)کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا ً:
· آپﷺنے رمضان ۱۰ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔
· پھر سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَورکرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔
· آپﷺنے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔
· جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔
· آپﷺپر ایام تشریق (ذو الحجہ کی ۱۳،۱۲،۱۱ تاریخ جو حاجی دورانِ حج منی میں گزارتے ہیں )کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) موت کی اطلاع ہے۔
· اوائل صفر ۱۱ھ میں آپﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پرتشریف فرما ہوئے۔ اور فرمایا : میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش )کروگے۔ 1
· ایک روز نصف رات کو آپﷺ بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہلِ بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا: اےقبر والو! تم پر سلام! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں۔ اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔
مرض کا آغاز:
۲۹صفر ۱۱ھ روز دوشنبہ (پیر)کو رسول اللہﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد ِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپﷺنے اسی حالتِ مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳یا ۱۴دن تھی۔
آخری ہفتہ:
رسول اللہﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ (یعنی رسول اللہ ﷺکی خواہش تھی کہ آپ یہ ایام اپنی سب سے محبوب زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس گذاریں ، یہی وجہ تھی کہ آپ سیدہ عائشہ کی باری کے منتظر تھے اور بار بار پوچھتے کہ کل کس کی باری ہے؟) اس سوال سے آپﷺ کا جو مقصود تھا ازواجِ مطہرات اسے سمجھ گئیں۔چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت سیدنا فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات ِمبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا معوذات(سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) اور رسول اللہﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپﷺپر دم کرتی رہتی تھیں۔ اور برکت کی امید میں آپﷺ کا ہاتھ آپﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔
اس وقت آپﷺنے مرض کی شدت میں کچھ کمی محسوس کی۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے - سر پر پٹی معیالی بندھی ہوئی تھی - منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ یہ آخری بیٹھک تھی جو آپﷺ بیٹھے تھے۔ آپﷺنے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فر مایا: لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپﷺ کے قریب آگئے۔ پھر آپﷺ نے جو فرمایا اس میں یہ فرمایا: ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔'' ایک روایت میں ہے کہ ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مسجد بنایا ۔'' 2
(یعنی وہاں وہ سب عبادت کے کام ،رکوع ، سجود کرنا، انبیاء کو پکارنا، اُن سے مدد طلب کرنا، اُن کی قبروں پر جھکنا وغیرہ یہ سب کام کرنے لگے جو صرف عبادت گاہ اور مسجد میں کیے جاتے ہیں اور صرف اللہ کے لیے کیے جاتے ہیں اور چونکہ عبادت بشمول اپنی تمام صورتوں و اقسام کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے اور اللہ ہی کے حکم سے اور اُسی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنا لازم ہے لہٰذا یہود و نصاری اسے غیر اللہ کے لیے انجام دینے لگے جس کی بنا پر رسول اللہ ﷺنے یہود و نصاریٰ کو ملعون(لعنتی) قرار دیا ۔ اور یہاں انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہود و نصاری نے تو یہ اعمالِ عبادت انبیاء علیہم السلام کے لیے کیے تھے جس پر وہ لسانِ صادق المصدوق ﷺسے ملعون قرار دیے گئے تو جو لوگ یہ اعمالِ عبادت انبیاء علیہم السلام سے نچلے اور کم تر درجہ کے لوگوں کے لیے انجام دیں وہ کیا ملعون نہ ہوں گے؟؟؟ اور جو اعمال رکوع ، سجود، جھکنا، نذرو نیاز، ذبح کرنا،قبروں کا طواف کرنا وغیرہ وغیرہ انبیاء علیہم السلام تک کے لیے انجام نہیں دیے جاسکتے وہ کیسے کسی غیر نبی کے جائز ہوسکتے ہیں؟ اگرچہ وہ کتنے ہی پہنچے ہوئے بزرگ ، ولی اللہ ، پیر ،امام ہی کیوں نہ ہوں، ہیں تو غیر نبی ہی ناں جو انبیاء کے مقام تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔)
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا : ''تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔'' 3
پھر آپﷺنے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ''میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مار اہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔''
اس کے بعد آپﷺمنبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نمازپڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عدالت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنھما سے فرمایا :انہیں ادا کردو۔
اس کے بعد انصار (صحابہ)کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا: ''میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے خطاکارسےدرگذر کرنا۔'' ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : '' لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی(ذمہ دار) ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے خطاکاروں سے درگذر کرے۔'' 4
اس کے بعد آپﷺنے فرمایا: '' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے د ے ، یا(وہ) اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔''
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ یہ بات سن کر ابو بکررضی اللہ عنہ رونے لگےاور فرمایا:ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا : اس بوڑھے کو دیکھو ! رسول اللہﷺ تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بوڑھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ ( لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہﷺ تھے۔ اور ابو بکررضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے(کہ اُسی وقت یہ سمجھ گئے تھے رسول اللہﷺ خود اپنی ہی بات کر رہے ہیں)۔ 5
پھر رسول اللہﷺنے فرمایا : مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحبِ احسان ابو بکررضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکررضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکررضی اللہ عنہ کے دروازے کے۔ 6
جاری ہے ---
Last edited: