• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ آرائی !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ آرائی !!!



10891884_497994247005508_721704612856065376_n.jpg


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ


(صحيح بخاري: 3445)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
رسول اللہ ﷺ کے سلسلے میں غلو کرنا >

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح (تعریف ) میں مبالغہ آرائی کرنا

سوال نمبر: 3 - فتوی نمبر:17248

س 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں مبالغہ آرائی کا کیا حکم ہے؟

اورآن جناب قائل کے اس قول کے سلسلے میں کیا مشورہ دیتے ہیں:

(اللہ تعالی کا درود وسلام ہو محمد پر جو دلوں کا علاج، اسکی دواء، جسموں کی عافیت و شفاء ہیں، اورنگاہوں کا نور و روشنی ہیں) اور اس چیز کا وہ اعتقاد بھی رکھتا ہے؟


ج 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں مذکورہ کلام غلواورافراط سے خالی نہیں ہے، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول میں اسکی ممانعت فرمائی ہے: تم لوگ میری شان میں اس طرح مبالغہ آرائی مت کرو، جس طرح کے عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مريم کی شان میں مبالغہ آرائی کی ہے۔ کیونکہ قائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی امراض سے شفاء اور عافیت دینے والا بتایا ہے، اوریہ صرف اللہ تعالی کےساتھہ ہی خاص ہے-

جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا:

ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﺟﺎوﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯﺷﻔﺎ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔

( جلد کا نمبر 1، صفحہ 162)

لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےسلسلے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ مرض سے شفاء دیتے ہیں اللہ تعالی کے ساتھہ شرک ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

بکر ابو زید، عبد العزیزآل شيخ، صالح فوزان، عبد اللہ بن غدیان، عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=10591&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک مومن ہر اس چيز سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالی کو مجبوب ہو اور ہر وہ چيز مومن کو محبوب ہوگی جو اللہ کی قربت کا باعث بنے- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں- امام النبیاء اور خلیل اللہ ہیں، اس لیے ہمیں سب سے زیادہ محبت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے، اللہ تعالی فرماتا ہے:

" کہ دو اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، خاندان کے آدمی، مال جو تم کماتے ہو، تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا-" (التوبہ: 9/24)

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اولاد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں- (صحیح بخاری)

آپ نے یہ بھی فرمایا:

"کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال، اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں" (صحیح مسلم)

اہل ایمان کے لیے یہ خشخبری ہے کہ جو شخص دنیا میں ایمان کے حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے گا قیامت کے دن وہ آپ ہی کے ساتھ ہوگا-

سیدنا انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا " اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک تم اس کے ساتھ ہو جس کے ساتھ تم نے محبت کی- سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ ہمیں اسلام لانے کے بعد کسی بات سے اتنی زیادہ مسرت نہ ہوئی جتنی آپ کے اس فرمان سے ہوئی-
میں اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں آخرت میں انہی کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں نے ان کے برابر اعمال نہیں کیے- (بخاری، مسلم)


حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا تقاضا ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل اور آپ کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کیا جائے، آپ کی یہ شان ہے-

" اور یہ خواہش نفس کی بنا پر منہ سے کوئی بات نہیں نکالتے یہ تو اللہ کا حکم ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے"- (النجم: 53، 3-4)

اس لیے آپ کی محبت اور اتباع شرط ایمان ہے فرمایا:

" کہدو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمہیں دوست رکھے گا"-
( آل عمران: 3/31)


غمی وخوشی میں، تنگی و آسانی میں، جان و مال میں، اولاد و گھربار میں، غرضیکہ دنیا و مافیہا میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو مقدم رکھنا اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ہر شے سے زیادہ محبت اللہ کے رسول ۖ سے نہ ہو-

یہ درست ہے کہ اللہ تعالی نےبہت سی چيزوں کی محبت انسان کے دل میں ڈالی ہے- اگر مخلوق کے دل میں اللہ تعالی محبت نہ ڈالتا تو کوئی بچہ پروان نہ چڑھتا- ماں میں جذبہ ایثار و قربانی اور اپنے بچے سے قریب سے قریب تر ہونے کی تڑپ اور اس کو خوش دیکھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور یہ سب محبت ہی کے کمالات تو ہیں-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کا حق تو یہ ہے کہ ہم ان پر اپنی محبوب ترین چيزوں کو قربان کرکے تسکین قلب اور دل کا سرور محسوس کریں اور دوسری تمام چيزوں کی محبت کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے تابع رکھیں-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مومنین پر مھربان ہیں :

اللہ تعالی نے فرمایا:

" لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے- تمہاری بھلائی نہایت چاہنے والے اور مومنوں پر کمال مہربان اور رحیم ہیں-" (التوبہ: 9/128)

حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار میں راہ اعتدال:

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار میں اور آپ کے اوصاف بیان کرنے میں بے اعتدالی کا شکار ہوجاتے ہيں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی صفات تک کا ذکر کرجاتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں- اور قرآن کریم میں اس چيز کو 'غلو" کہا گیا ہے-

" کہدیجیے اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو-" (المائدہ:5/78)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کی طرف بلایا جائے- غیر اللہ کی بندگی سے لوگوں کو ہٹا کر اللہ کی بندگی پر لگایا جائے- مگر یہ لوگ کفر و شرک کو توحید جانتے ہیں- اور اہل توحید کو گستاخ رسول کہتے ہیں-

یہ سراسر ظلم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو پہچان کر اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو گستاخ رسول کہا جائے اور محبت کے دعوے کو ڈھال بنا کر شرک کو عین اسلام ثابت کیا جائے-

حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی- میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول"- (بخاری)

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا

" میری شادی کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے- دو ننھی بچیاں جنگ بدر میں شہید ہونے والے میرے رشتیداروں کے بارے میں اشعار پڑھ رہی تھیں- بچیوں نے کہا:

" و فینا نبی یعلم ما فی غد"

(اور ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو کل کو ہونے والی بات جانتا ہے-)

آپ نے فرمایا:

" اما ھذا فلا تقو لوہ ما یعلم ما فی غد الااللہ"

( ایسے مت کہو جو کچھ کل ہوگا اس کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا-)

[ سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب الغنا الدف، ح: 1897]


لہذا آپ کی سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ توحید سے محبت کی جائے اور اس طرح کی جائے جس طرح اس مثالی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جسے اللہ تعالی نے رسالت کے لیے چنا- آج بہت سے عشق رسول کے دعویداروں نے ایسی تحریریں سپرد قلم کر رکھی ہیں جن میں بظاہر عشق رسول کے جذبات ابھار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب شئے توحید کی شدید مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی ناپسندیدہ شے شرک کی وکالت کرتے ہوئے اسی کو اصل دین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے-

ہماری دعا ہے کہ اللہ ہم اور آپ سب کو قرآن و سنت پہ صحیح نمونے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اقتباس: غیر اللہ کی پکار کی شرعی حیثیت
از: ڈاکٹر شفیق الرحمن حفظ اللہ
 
Top