کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
رسول اللہ ﷺکی آٹھ شفاعتیں
شفاعتِ نبوی ﷺکے متعلق عقیدۂ اہل سنت والجماعت
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ " اپنی کتاب "عقیدہ واسطیہ" کی شرح میں باب: ’سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے کا بیان اور نبی اکرم ﷺ کی شفاعتوں کا تذکرہ ‘ کے تحت فرماتے ہیں:
مندرجہ بالا عبارت کی شرح میں شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں:جنت کا دروازہ سب سے پہلے محمد رسول اللہﷺ کھلوائیں گے، اور جنت میں سب سے پہلے امت محمدیہ داخل ہوگی، رسول اللہﷺ کو قیامت میں تین شفاعتیں حاصل ہوں گی۔
پہلی شفاعت:
شفاعتِ عظمی ہے ، یہ اہل مؤقف (میدانِ محشر میں جمع تمام انسانوں) کے لیے ہوگی کہ ان میں فیصلہ کیاجائے۔ لوگ اس شفاعت کے لیے پہلے دیگر انبیاء کرام آدم، نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی بن مریم o کے پاس جائیں گے، لیکن وہ انکار کردیں گے، آخرکار یہ شفاعت آپ ﷺ تک آپہنچے گی۔
دوسری شفاعت:
اہل جنت کے متعلق ہوگی کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے۔
مذکورہ بالا دونوں شفاعتیں محمد رسول اللہﷺکے ساتھ خاص ہیں۔
تیسری شفاعت:
مستحقین جہنم کے لیے ہوگی، آپ ﷺ ان کے حق میں شفاعت کریں گے کہ انہیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے اورجو داخل کیے جاچکے ہوں گے ان کے متعلق جہنم سے نکالے جانے کی شفاعت کریں گے۔ اس شفاعت میں انبیاء اور صدیقین وغیرہ بھی آپ ﷺکے شریک ہوں گے۔
امور قیامت کے تذکرے میں شیخ الاسلام " اہل ایمان کے انتہائی اہم امر کو بیان فرمارہے ہیں چناچہ گذشتہ عبارت میں شیخ " نے بیان فرمایا تھا کہ پل صراط کو عبور کرنے اور حقوق ومظالم میں قصاص کے اجراء کے بعد اہل ایمان کو جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی یعنی جنت میں داخلہ اللہ تعالی کے اذن اور جنت کے دروازے کے کھولنے کے بعد ہوگا۔
جنت کا دروازہ سب سے پہلے رسول اللہﷺ کھلوائیں گے
چناچہ شیخ " فرماتے ہیں: (جنت کا دروازہ سب سے پہلے محمد رسول اللہﷺ کھلوائیں گے) جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا انس سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَسْتَفْتِحُ، فَيَقُولُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ: بِكَ أُمِرْتُ، لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ‘‘ (1)
’’ میں جنت کے دروازے کے پاس آؤں گا اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا خازنِ جنت کہے گا: آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا: میں محمد ﷺ ہوں، خازن جنت کہے گا :مجھے آپ ہی کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں ‘‘
اس حدیث میں آپﷺکے شرف وفضل کا اظہار ہورہا ہے۔
جنت میں سب سے پہلے امتِ محمدیہ داخل ہوگی
شیخ " فرماتےہیں: (جنت میں سب سے پہلے امت محمدیہ داخل ہوگی) اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ ‘‘(2)’’ ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ‘‘
نبی کریمﷺ کی بروزقیامت تین خصوصی شفاعتیں ہوں گی
شیخ " فرماتے ہیں: (رسول اللہﷺکو قیامت کے دن تین شفاعتیں حاصل ہوں گی)
"الشفاعۃ"
(شفاعت) کا لغوی معنی وسیلہ ہے، جبکہ عرف عام میں اس کا معنی ہے: کسی دوسرے کے لیے خیر کا سوال کرنا۔
شیخ " اپنے اس قول میں رسول اللہﷺکی ان شفاعتوں کا ذکر فرمارہے ہیں جو آپ ﷺکو قیامت کے دن اللہ تعالی کی اجازت سے حاصل ہوں گی۔ شیخ " نے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف تین شفاعتوں کا ذکر فرمایا ہے جبکہ استقصاء (تحقیق وریسرچ) سے ان کی تعدادآٹھ معلوم ہوتی ہے(3)،لفظ "الشفاعۃ" الشفع (جفت) سے مشتق ہے جو کہ "الوتر"(طاق) کی ضد ہے۔ اس لحاظ سے شافع(شفاعت کرنے والے) کو شافع اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مشفوع لہ (جس کے لیے شفاعت کی جارہی ہے) جو کہ پہلے اکیلا تھا کے سوال کے ساتھ اپنے سوال کو ملادیتا ہے۔
ان میں سے بعض تو صرف آپﷺکے ساتھ خاص ہیں اور بعض ایسی ہیں جو آپﷺاور دیگر انبیاء وصالحین میں مشترک ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
رسول اللہﷺکی آٹھ شفاعتیں
1- پہلی شفاعت:
شفاعتِ عظمی (اور یہی مقام محمود ہے) اس کی تفصیل یہ ہے کہ میدان محشر میں جب لوگوں کا قیام لمبا ہوجائے گا تو لوگ انبیاء کرامؑ کے پاس جائیں گے کہ اللہ تعالی سے سفارش کریں کہ وہ ہمارا حساب لے (تاکہ ہم میدان محشر کی تکلیف سے نجات پاسکیں) تمام انبیاء کرامؑ انکار کردیں گے، یہ لوگ ہمارے نبیﷺکے پاس آئیں گے تو آپﷺ اللہ تعالی کے اذن (اجازت) سے شفاعت فرمائیں گے۔
2- دوسری شفاعت:
یہ شفاعت حساب کے سلسلے کے ختم ہونے کے بعد مستحقین جنت کے متعلق ہوگی کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے۔
3- تیسری شفاعت:
آپ ﷺ اپنے چچا ابوطالب کے لیے تخفیف عذاب کی شفاعت فرمائیں گے، شفاعت کی یہ قسم آپﷺ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اللہ تعالی یہ خبردے چکا ہے کہ کافروں کو کسی کی شفاعت نفع نہیں دے گی، اور نبی کریمﷺ بھی بتاچکے ہیں کہ ان کی شفاعت صرف اہل توحید کے لیے ہوگی۔ اس لیے ابو طالب کے حق میں شفاعت آپﷺکے ساتھ خاص ہے اور وہ بھی صرف ابوطالب کے لیے۔ شفاعت کی یہ تینوں قسمیں ہمارے نبی محمدﷺکے ساتھ خاص ہیں۔
4- چوتھی شفاعت:
اہل توحید میں سے گناہ گار جو جہنم کے مستحق بن چکے ہوں گے ان کے حق میں آپﷺ کی شفاعت کہ انہیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے۔
5- پانچویں شفاعت:
اہل توحید میں سے گناہ گار جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے ان کے حق میں آپﷺکی شفاعت کہ انہیں جہنم سے نکالا جائے۔
6- چھٹی شفاعت:
بعض اہل جنت کے رفع درجات (درجات کی بلندی) کے لیے آپﷺکی شفاعت۔
7- ساتویں شفاعت:
جن لوگوں کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی ان کے حق میں آپﷺکی شفاعت کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے۔ ایک قول کے مطابق یہ لوگ اہل اعراف ہیں(جن کا ذکر سورۂ اعراف میں ہےکہ وہ جنت وجہنم کے درمیان میں ہوں گے)۔
8- آٹھویں شفاعت:
بعض مومنین کے متعلق آپﷺکی شفاعت کے انہیں بلاحساب وعذاب جنت میں داخل کیا جائے جیسا کہ سیدنا عکاشہ بن محصن کے لیے آپﷺنے دعاء فرمائی کہ یہ ان ستر ہزار افراد میں سے ہوجائے جو بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوں گے(جو اللہ تعالی پر توکل کرتے ہیں بدشگونی یا کسی کو اپنے اوپر دم کرنے کو نہیں کہتے)۔
شفاعت کی دو شرائطشفاعت کی ان پانچویں قسموں میں دیگر انبیاء، فرشتے، صدیقین اور شہداء بھی آپ e کے شریک ہیں۔ کیونکہ شرعی دلائل سے یہ شفاعتیں ثابت ہیں، اس لیے اہل سنت والجماعت شفاعت کی ان تمام اقسام کو مانتے ہیں، البتہ شفاعت کے لیے دو شرطیں لازمی ہیں:
پہلی شرط:
شافع (شفاعت کرنے والے) کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ(البقرۃ: 255) ’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے‘
نیز فرمایا:
مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ (یونس: 3) ’ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں ‘
دوسری شرط:
مشفوع لہ (جس کے حق میں شفاعت ہورہی ہے) کے لیے اللہ تعالی کی رضامندی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى(الانبیاء: 28) ’وہ (انبیاء) کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ تعالی خوش ہو‘
مذکورہ بالا دونوں شرطوں کو اللہ تعالی نے اس قول میں جمع فرمادیا ہے کہ:
وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى (النجم: 26)
’’ اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالی اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے ‘‘
شفاعت کے منکرین کا استدلال اور اس کا رد
معتزلہ مومنوں میں سے مرتکب کبیرہ (گناہ) جو مستحق جہنم ہوچکے ہونگے کے متعلق شفاعت یعنی انہیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے اور جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے ان کے جہنم سے نکالے جانے کے متعلق شفاعت کے بارے میں اہل سنت والجماعت کی مخالفت کرتے ہیں (یعنی شفاعت کی پانچویں اور چھٹی قسم کو نہیں مانتے)۔
ان کی حجت اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (المدثر: 48) ’’ انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی ‘‘
مسئلہِ شفاعت کے بارے میں لوگوں کی تین اقسامان کی اس حجت کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے متعلق وارد ہوئی ہے، چناچہ انہیں کسی کی شفاعت نفع نہیں دے گی، البتہ مومنوں کو شفاعت مذکورہ بالا شروط کے مطابق نفع دے گی۔
مسئلہ شفاعت میں لوگ تین اصناف میں منقسم ہیں:
صنف اول:
نصاری، مشرکین، غالی قسم کے صوفی اور قبرپرست۔ یہ لوگ اثبات شفاعت میں غلو کا شکار ہیں اس طرح کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی عنداللہ شفاعت کو دنیاوی بادشاہوں سے کی جانے والی شفاعت کی طرح سمجھتے ہیں چناچہ یہ لوگ غیراللہ سے شفاعت کے طالب ہوتے ہیں، جس طرح کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مشرکین کے متعلق اس بات کی خبردی ہے(4)۔
صنف ثانی:
معتزلہ وخوارج۔ یہ لوگ نفی شفاعت میں غلو کا شکار ہیں، چناچہ یہ لوگ اہل الکبائر (کبیرہ گناہوں کے مرتکبین) کے حق میں نبی کریم ﷺ اور دیگر انبیاء وصالحین وغیرہ کی شفاعت کا انکار کرتے ہیں۔
صنف ثالث:
اہل سنت والجماعت۔ یہ لوگ کتاب وسنت سے ثابت تمام شفاعتوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں اور کتاب وسنت سے ہی ثابت شدہ شروط کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔
حوالہ جات
(1) صحیح مسلم 198
(2) صحیح مسلم 856
(3) اس میں ان قبرپرستوں کا رد ہے جو اہل توحید کو کہتےہیں کہ تم شفاعت رسولﷺکے منکر ہو جیسا کہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب " نے اپنی کتاب "کشف الشبہات" میں فرمایا، حالانکہ ہم تو ایک ہی نہیں بلکہ آٹھ شفاعتوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان شرعی شروط کے ساتھ جو آگے بیان ہوں گی۔ (ط ع)
(4) جیسا کہ فرمایا:
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ (یونس: 18)
’’ اور یہ مشرکین اللہ تعالی کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں کہ جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں اور نہ نفع مگر کہتے یہ ہیں کہ یہ ہمارے اللہ تعالی کے پاس سفارشی ہیں‘‘ (ط ع)