حدیث سے نکلنے والے فوائد و مسائل
نبی کریم ﷺ کی پہلی پیشن گوئی پر غور کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح کر دیا کہ اگر عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا جائے گا تو ایسی بیماریاں پیدا ہوں گیں جن کا نام و نشان کہیں نہ ہوگا اور وہ امت میں اس تیزی سے پھیلیں گی کہ جس طرح رات کی تاریکی۔ آج کے معاشرے میں نکاح سے گریز کیا جا رہا ہے جس کی پاداش میں آج عریانی، فحاشی، علاقہ علاقہ ، شہر شہر میں بے حیائی کے اڈے ، شراب اور جوئے خانے اپنی جنسی تسکین کے لیے ناجائز آلات کا استعمال، ناجائز تعلقات ، ہم جنس پرستی، اغلام بازی، زنا، شراب نوشی، یہ سارے ام الخبائث والے جرائم سرے فہرست ہیں۔ گھر گھر ٹیلی وژن اور عریانی سے لبریز ٹی وی ڈرامے جو نوجوانوں کے کچے ذہن میں شرافت ، دینداری بھرنے کی جگہ بے حیائی اور بے دینی کو اس قدر ڈال دی گئی کہ آج کے معاشرے میں اس گندے خیالات کو روشن خیالی کا نام دے دیا گیا ہے۔ عورتوں کو چار دیواری سے باہر نکال کر دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں میں لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جدید مغربی سوچ اور فکر نے عورت کو یہاں تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا ، یہاں تک کہ ہوٹلوں، ریستورانوں، کلبوں، ناچ گھروں، مارکیٹوں، بازاروں سے لے کر سیاست گاہوں ، سیر گاہوں، تفریح کے پارکوں اور مردوں اور عورتوں کا اختلاط تک پہنچ گیا۔ اب بے حیائی زنا کاری، موبائل فون کے ذریعے سے نکل کر تفریح گاہوں اور زنا کاریوں تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے ایسی ایسی بیماریاں وجود میں آ چکی ہیں جن کی روک تھام صرف اور صرف شرعی تعلیم میں ہی موجود ہے۔ ان زنا کاریوں کی وجہ سے آج کا جو سب سے بڑا مرض ہے وہ ایڈز ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال کے اندر اندر تقریباً ۲۶ لاکھ افراد ایڈز کا شکار ہو چکے ہیں۔
(World Health Organization) W.H.O کے مطابق ۱۹۹۹ء تک ایڈز کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ ۱۲ لاکھ تک پہنچی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے The Muslim Observer, Dec 10-16 Pg:21۔ سائنسی انکشافات قرآن و سنت کی روشنی میں صفحہ ۱۸۹۔
امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری (Rape) کے ۱،۰۲،۵۵۵مقدمات درج کیے گئے ہیں ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں (۱۹۹۰ء) میں عصمت دری کے اوسطاً ۱۹۰۰ واقعات روزانہ پیش آئے۔ یہ انیس سو نوے کی رپورٹ ہے ۲۰۱۱ میں اس کا ریشو انتہائی بھیانک اور عبرت آموز ہے۔۱۹۷۳ء میں برطانیہ کے ہسپتالوں میں جنسی امراض کی تعداد ۴ لاکھ ۳۰ ہزار نوٹ کی گئی ہے، جن میں سے ایک لاکھ ۶۰ ہزار عورتیں اور ۲ لاکھ ۷۰ ہزار مرد تھے۔ (الامراض الجنسیة از ڈاکٹر سیف الدین شاھین ،صفحہ ۴۳)
۱۹۷۸ء تک دنیا کے لوگ ایڈز سے نا واقف تھے یاد رھے ایڈز انگریزی لفظ (Asquired Immune Deficiency Syndrom) کا مخفف ہے جس کا مطلب جسم کے مدافعی نظام کی تباہی کی علامت ہے۔
لہٰذا یہ تمام بیماریاں جو کہ ہمارے گھروں تک آن پہنچی ہیں ان کا سدباب صرف و صرف اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ اسی لیے ان امراض سے بچنے کا واحد حل رسول اللہ ﷺ نے متعین فرمایا ۔ اگر کوئی AIDS سے بچنا چاہتا ہے تو وہ اس حدیث پر عمل کرے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
’’یا معشر الشّباب من استطاع منکم الباءة فلیتزوج فإنہ اٴغض للبصر واٴحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فانہ لہ وجاء۔‘‘
(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح رقم الحدیث ۱۸۷۳)
’’اے جوانو! جو تم میں سے طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ شادی کر لے۔ بلا شبہ اس سے نظر نیچی اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے، اور جو طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے یہ اس کے (شہوانی) جذبات کو کمزور کر دے گی۔‘‘
دوسرا ارشاد نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ (کوئی قوم) جب بھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔
قارئین! بے انتہا سنجیدگی سے غور کرنے کا مقام ہے ،آج بازاروں کا حال دیکھیے جو کہ دھوکہ، دغا بازی، ناپ تول میں کمی، مال کچھ دکھائیں اور ادائیگی کسی دسری مال کے ساتھ ہو، یہ وہ فریب ہے جو آج ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔ معاشی آسودگی اور اقتصادی ترقی کا دارو مدار معاشرے میں دیانت و امانت داری کا چلن بے انتہا ضروری ہے۔ اور یہ ساری برائیوں سے اجتناب شریعت کے احکامات کے ساتھ پاسدار کرنے میں حاصل ہیں۔
عمر بازار میں جاتے اور بے پاریوں سے گفتگو کرتے کہ جو تم کاروبار کر رہے ہو کیا تمہارے پاس شریعت سے اس کی دلیل یا نص موجود ہے؟ اگر وہ پیش کرتا تو کاروبار بحال رکھا جاتا اگر وہ شریعی دلیل سے نا واقف ہوتا تو اس کے کاروبار کو بند کر دیا جاتا۔ اس امر میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ کاروباری طبقہ کا بھی شریعت سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر وہ دینی احکامات کو جانے گا تو ہی سودے میں فریب، دھوکہ اور ناپ تول میں کمی سے اجتناب کرے گا۔
آج غور کیجیے یہ ناپ تول کی کمی نے ہمارے اعتماد کو چکنا چور کر کے عالمی منڈی سے ہمارے اعتماد کو کھو دیا۔ اب ان جرائم کی پاداش میں ہمارے حکمران ہم پر ظلم کرتے نظر آتے ہیں، عوام حکمران کو ظالم کہہ کر اپنے من کی پیاس کو بجھاتی ہے، مگر اس ظلم کی اصل وجہ اور حقیقت کیا ہے؟؟
وجہ یہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ناپ تول کی کمی سے اجتناب کیا جائے تو ان شاء اللہ بے روزگاری ختم اور سو فیصد ہم حکمرانوں کے ظلم سے بچ سکیں گے۔
تیسری پیشن گوئی آپ ﷺ نے فرمائی کہ جب وہ اپنے مالوں کی زکاة دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے ، اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔
یہ مسئلہ بھی ہماری دکھتی رگ ہے، اور یقیناً یہ مکمل حدیث سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آج ہی کے معاشرے کے لیے کہی گئی ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ اگر ہر مالدار اپنی زکوة مکمل امانتداری سے ادا کرے تو ملک میں چند ہی سالوں میں محتاجوں کی فہرست آدھی سے زیادہ کم ہو جائے گی۔ گزشتہ دور حکومت میں ملکی سطح پر جس طرح کی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے واقعات اخبارات کی زینت بنے رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں اب سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کروڑ پتی اور اربوں پتی لوگ موجود ہیں۔ اگر یہ سارے سرمایہ دار حضرات اپنی زکوة صحیح معنوں میں ادا کر دیں تو بعید نہیں کہ ملک پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہو جائے۔ کیونکہ اس خاتمہ کا انحصار زکوة کی ادائیگی پر ہے، اور جب زکوة کی ادائیگی اچھی طریقے سے ہوتی رہے گی تو اس سے دنیا تو دنیا آخرت بھی سنور جائے گی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب اذالة الخفاء میں ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں :
سیدنا ابو بکر صدیق کے عہد میں ایک قحط پڑا۔ لوگ سیدنا ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کل تمہاری مشکل دور ہو جائے گی۔ دوسرے روز علی الصبح سیدنا عثمان کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے مدینہ پہنچے مدینے کے تاجر سیدنا عثمان رضی اللہ کے پاس آئے، اور غلہ خریدنا چاہا تاکہ بازار میں فروخت کیا جا سکے۔ اور لوگوں کی پریشانی دور ہو۔ عثمان نے فرمایا ’’میں نے یہ غلہ شام سے منگوایا ہے، تم مجھے خرید پر کتنا نفع دیتے ہو؟ تاجروں نے دس کے بارہ پیش کیے ، سیدنا عثمان نے فرمایا ’’مجھے اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں۔‘‘ تاجروں نے دس کے چودہ پیش کیے، آپ نے فرمایا مجھے اس سے بھی زیادہ ملتی ہیں۔ انہون نے پوچھا ہم سے زیادہ دینے والا کون ے؟ مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہیں۔ عثمان نے فرمایا کہ مجھے ہر درہم کے عوض دس درہم ملتے ہیں کیا تم اس سے زیادہ دے سکتے ہو؟ تاجروں نے کہا نہیں، عثمان نے فرمایا تاجرو! گواہ رہو میں یہ تمام غلہ مدینے کے محتاجوں پر صدقہ کرتا ہوں۔
واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ میں کس قدر آخرت کی طمع تھی، اور اللہ سے پورا پورا اجر لینے کے لیے اپنا سارا تجارت کا سامان جو ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا سب صدقہ کر دیا، جب ایسے صدقہ اور زکوة ادا کرنے والے ہوں گے تو بارش کیا خزانوں کے دہانے اللہ تعالیٰ کھول دے گا۔
آج بارش کی قلت کی وجہ سے دعاء استسقاء مانگیں جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی بارشیں نہیں برستیں۔ اگر برستی بھی ہے تو عذاب کی صورت میں۔ اس عذاب کو دور کرنے کا واحد زکوة کی ادائیگی ہی ہے۔
چوتھی پیشن گوئی رسول اللہ ﷺ کی کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں ۔ وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ م یں ہوتا ہے۔
آج آپ دیکھ لیں پاکستان کا مطلب
’’لا الہ الا اللہ‘‘ تھا مگر یہ صرف ہمارے آئین میں ہی رہ گیا ۔ اب ہماری زندگی عقیدہ توحید، نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے کوسوں دور ہے۔ ہم نے جو عالم ارواح میں عہد کیا تھا کہ ہم اللہ کو اپنا رب تسلیم کریں گے ، تو آج اس کے عین برعکس ہم اپنے عہد کو پورا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب ہم نے اللہ کے عہد کو چھوڑ دیا فرقہ بازی، پارٹی، علاقائی تعصب، زبان قبیلے کی بنیاد کو محبت کی بنیاد بنا لی تو آج امّت تباہی اور انتشار کے دہانے پر دھاڑے مار کر رو پیٹ رہی ہے۔ جن کے آنسو پونچنے کے لیے آج کوئی نہیں۔
ملک پاکستان میں ہر قسم کی نعمت ، گیس، بجلی، کپاس، پانی، کھاد ، کوئلہ، سبزیاں، ہر قسم کے اعلیٰ پھل اس سر زمین میں موجود ہے۔ مگر یہاں کے باسی اعلیٰ قسم کی اشیاء کو کھانا تو درکنار دیکھنے کو بھی ترستے ہیں۔ بجلی پاکستانی میں موجود ہے مگر یہاں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو نصیب نہیں۔ ہمیں Cيا Bکوالٹی کے فروٹ میسر آتے ہیں۔ +A ون کوالٹی ہمارے دشمن ہمارے ہاتھوں سے چھین لیتا ہے۔ عزت کے ہوتے ہوئے ذلت ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
کیونکہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو بھلا دیا تو سب کچھ ہوتے ہوئے ہاتھ خالی ہیں۔
پانچویں پیشن گوئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنےکے لیے آسمان سے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا نزول فرمایا۔ ( )اب ہمارے لیے بہترین قانون شریعت مطہرہ کی صورت میں موجود ہے، جو مکمل ظلم ، ذیادتی، کمی بیشی اور قیامت تک تحریف سے پاک ہے۔ جو کہ مکمل عدل اور انصاف کے صحیح اعلیٰ تقاضوں پر مبنی ہے۔ رائی کے دانے کے برابر بھی غلطی سے پاک ہے جب اس نظام کو چھوڑ کر مسلمان حکمران غیروں کے نظام (British Law) کو اپنا نظام سمجھنے لگیں اور جمہوریت کو اپنا آئین بنالیں گے، تو چاروں طرف فساد، جھگڑے، تعصب، خون ریزی، ہلاکتیں، تباہی، اونچی قوم اور نیچ قوم کی زہریلی صدا عدل کے تقاضون سے کوسوں دور، اور اللہ تعالیٰ غیض و غضب کا نوالہ بنیں گے۔ یہی وجہ ہے آج امت مسلمہ انتشار کی بھیٹ چڑی ہوئی ہے۔ امن اور سلامتی کے تمام راستے بند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ان مصائب ، مشکلات اور اللہ کے غصہ سے نجات کے لیے ہمیں ہمہ وقت اسی فکر کو فروغ دینا چاہیے کہ یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس پر نظام بھی اللہ تعالیٰ کا ہی ہونا چاہیے۔ جب یہ ہوجائے گا تو ہر دم رحمتیں، خوشیاں، عزت و مال کا تحفظ ۔ جب بارش برسے گی تو کھتیاں لہہ لہائیں گی جس سے ہر انسان خوشگوار زندگی بسر کرے گا۔ کیونکہ اس کا سو فیصد ضامن دین اسلام کا نفاذ ہے، اور جو اس نفاذ سے رو گردانی کرے گا اسے کافر، ظالم، اور فاسق قرار دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰ۬ئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَﭻ﴾ (المائدہ:۵/۴۴)
’’جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے۔‘‘
﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰ۬ئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَﭼ ﴾ (المائدہ:۵/۴۵)
’’جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ ظالم ہیں۔‘‘
﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰ۬ئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَﭾ﴾ (المائدہ: ۵/۴۷)
’’جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ فاسق ہیں۔‘‘
ان گمراہیوں سے بچنے کا واحد حل اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق بندوں میں فیصلے کیے جائیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں ان شریعی حدود کو ظلم اور جبر کا نام دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
عورت کو پردے کا حکم دیا گیا، تو آج کی عورت کو یہ پردہ دکیانوسی اور پرانے زمانے کا قانون لگتا ہے۔ زنا کی سزا جو شادی شدہ کے لیے رجم کی صورت میں ہے آج کے مسلمانوں اور حکمرانوں کو یہ سزا ظلم محسوس ہوتی ہے۔ مغربی افکار اور نظریات سے متاثر ہونے والا یہ بھول بیٹھا ہے کہ اللہ کے قانون میں ہی اس کے لیے زندگی اور راہِ نجات ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
﴿وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یآُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَﰂ﴾ (البقرہ:۲/۱۷۹)
’’عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس باعث تم (قتل نا حق سے) رکو گے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور میں جہاں شریعت کا نفاذ اور اقامة الدین کا بول بالا تھا ، اس قانون کی برکت سے عزتیں محفوظ، مال و عفت محفوظ اور ایمان کی بھی سلامتی تھی۔ لہٰذا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپس کی لڑائیاں اور جھگڑے ختم ہو جائیں اور مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کا مصداق بنیں تو اس کے لیے اللہ کے دین کے نفاذ کی انتھک محنت کریں اور طاغوتی نظام اور جمہوریت کا کھلم کھلا انکار کریں اسی میں ہماری بقا اور کامرانی ہے۔
ایسے حالات میں امت مسلمہ کا لائحہ عمل
صرف قرآن و صحیح حدیث کو اپنا مشعل راہ بنائیں ، سلف و صالحین کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ تمسک اختیار کریں۔ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ہر گز نہ ڈریں۔ دین پر ڈٹے رہیں اور صبر کریں ۔ ان شاء اللہ شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں خیر کثیر اور برکتیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
اٴبو اٴمیّة الشّعبانی قال: ساٴلت اٴبا ثعلبة الخشنی فقلت: یا ابا ثعلبة کیف تقول فی ھذہ الایة ’’علیکم اٴنفسکم قال اٴما۔۔۔۔‘‘
(رواہ ابو داؤد فی کتاب الملاحم، اسنادہ حسن، رقم: ۴۳۴۱، اٴخرجہ الترمذی، رقم: ۳۰۵۸، ورواہ ابن ماجة رقم: ۴۰۱۴، وصححہ الحاکم: ۴/۳۲۲ ووافقہ الذھبی)
ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو ثعلبہ خشنی سے کہا: اے ابو ثعلبہ آپ اس آیت کریمہ ’’علیم انفسکم۔۔۔ الخ‘‘ کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا اللہ کے قسم! تم نے اس کے متعلق فی الواقع صاحب علم و خبر سے پوچھا ہے۔ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا، بلکہ تمہیں چاہیے کہ نیکی کا حکم دیے جاؤ اور برائی سے روکتے رہو۔ حتی کہ جب دیکھو کہ حرص اور بخیلی کی اتباع ہونے لگی ہے لوگ خواہشات نفسانی کے درپے ہو گئے ہیں اور دینا ہی کو ترجیح دینے لگے ہیں (آخرت کو بھول گئے ہیں) اور ہر رائے والا اپنی رائے اور بات کو ترجیح دیتا ہے، تو پھر اپنے آپ کو لازم پکڑ لو اور عوام کی فکر چھوڑ دو (دوسروں کی گمراہی تمہیں نقصان نہ دے گی)۔
بلا شبہ تمہارے بعد صبر کے دن آنے والے ہیں۔ ان میں (دین و شریعت پر) صبر کرنا، (اس پر ثابت قدم رہنا) ایسے ہوگا جیسے آگ کا انگارہ پکڑنا۔ ان لوگوں میں (دین کے تقاضوں پر) عمل کرنے والے کو اس جیسے پچاس عاملوں کا ثواب ملے گا (عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ عتبہ کے علاوہ) مجھے دوسرے نے بتایا کہ سیدنا ابو ثعلبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان لوگوں میں سے پچاس عاملوں کے برابر ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے پچاس عاملوں کے برابر۔
یہ وہی وقت ہے جب فتنے عروج پر ہوں گے، اور گمراہی رات کی تاریکی کی طرح ہر گھر کی چوکھٹ پر اپنے قدم جما چکی ہوگی ایسے حالات میں قرآن و صحیح حدیث کے ساتھ چمٹے رہنا ہی اللہ کے عذات سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔
وما علینا الا البلاغ
وانا العبد احقر العباد
محمد حسین میمن (خادم حدیث رسولﷺ)