1۔ پہلی ربیع الاول:
اس قول کومحمدبن محمدمنہد(متوفی /855 ھ ) نے بلا کسی اصل کےنقل کیاہے۔(دیکھئے: اتحاف الوری :ص/47) ۔
2۔ دوربیع الاول :
اس قول کوابن سعدنے الطبقات الکبری (1/101)کے اندرابومعشرنجیح مدنی کے واسطہ سے روایت کیاہےجوضعیف ہونے کی بناپرناقابل اعتمادہیں ، جیساکہ امام ابوداؤد اور امام دارقطنی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ (دیکھئے : تہذیب التہذیب :10/419 رقم /758) مذکورہ قول کوابن سیدالناس نے بصیغۂ تمریض نقل کیاہے۔(عیون الاثر:1/79)اورامام ابن کثیرنے امام ابن عبدالبرکے حوالہ سے(البدایہ والنہایہ :2/260) یعقوبی نے اپنی تاریخ (2/7) ابن الجوزی نے المنتظم (2/245) میں اورزرقانی نے شرح المواہب (:1/131)میں مغلطائی کے حوالہ سے ذکرکیاہے۔
3۔ آٹھ ربیع الاول :
یہ قول خوارزمی کا ہے جسے ابن سید الناس نے عیون الاثر(1/81) اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (1/31) کے اندرنقل کیاہےاورلکھاہےکہ اصحاب تاریخ اسی کوصحیح قراردیتےہیں ۔ معروف مؤرخ مسعودی ( متوفی /346 ھ) نے بھی آٹھ ربیع الاول کی تحدید کی ہے(دیکھئے : مروج الذہب : 1/562) امام قسطلانی نے اسے اکثراہل الحدیث کاقول ہونے کادعوی کیاہے (دیکھئے : المواھب اللدنیۃ :1/140 – 141) ۔
حافظ ابو الخطاب بن دحیہ نے اپنی کتاب"التنویر فی مولدالبشیرالنذیر"کے اندراسی کوراجح قراردیا ہے۔
اورحافظ ابن حجرہیثمی نےاس پراہل تاریخ کااجماع نقل کیاہے۔(دیکھئے: شرح علی متن الھمزیۃ : ص 26) ۔ یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ (2/7)کےاندرآٹھ ربیع الاول کاذکرکیاہے ، لیکن ساتھ ہی منگل کے دن کی تعیین کی ہے جو بنص صریح باطل ہے ۔
4۔ دس ربیع الاول :
یہ روایت واقدی کی ہے جسے ابن الوردی نے اپنی تاریخ (ص/128) کے اندراورامام ابن کثیرنےابن دحیہ اورابن عساکرکےحوالہ سےبروایت ابو جعفرالباقر نقل کیاہے، اورمجالدنے شعبی سے روایت کیاہے۔(دیکھئے : البدایۃ:2/260 والسیرۃ :1/199) اورابن سعدنے الطبقات الکبری (1/100) کے اندرمحمدبن عمربن واقداسلمی کے واسطہ سے ذکرکیاہےجس کےاندرخود محمدبن عمراوراسحاق بن ابی فروہ متروک ہیں اورابوبکربن عبداللہ متہم بالوضع ہیں ۔ (دیکھئے : تقریب : رقم /7973)۔
5۔ گیارہ ربیع الاول :
اس قول کو ابن الجوزی نے بلا کسی حوالہ کے نقل کیاہے۔(دیکھئے : المنتظم :2/245)۔
6۔ اٹھارہ ربیع الاول :
حافظ ابن کثیرنے اس قول کوجمہورکامشہورقول بتایاہے۔(البدایۃ والنہایۃ :2 /260) اورمحمدحسین ہیکل نے بھی " حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم " (ص/209) کے اندراسے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کرتےہوئے جمہورکااختیارکردہ بتایاہے۔
7۔ بارہ رمضان المبارک :
یہ قول ابن کلبی کاہے اوراسی کوزبیربن بکارنےبھی پسندکیاہے، جسے حافظ ابن حجرنے شاذ کہاہے،(دیکھئے : فتح الباری: 7/164) ۔ اس ضمن میں ایک روایت بطریق مسیب بن شریک عن شعیب بن شعیب عن ابیہ عن جدہ نقل کی جاتی ہے، جس کےالفاظ یہ ہیں :
"حمل برسول الله صلى الله عليه وسلم في عاشوراء المحرم وولد يوم الإثنين لثنتي عشرة ليلة خلت من رمضان سنة ثلاث وعشرين من غزوة أصحاب الفيل"
"اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ محرم کوپیٹ میں بطورحمل قرارپائے اوربارہ رمضان کو بروزسوموارجنگ فیل کے تئیسویں سال میں آپ کی ولادت ہوئی " (ابن عساکر، تاریخ دمشق :رقم /81 ، البدایۃ والنہایۃ : 2/261) ۔
امام ذہبی اس روایت کونقل کرنے کےبعد فرماتےہیں :" ھذاحدیث ساقط" (دیکھئے :السیرۃ النبویۃ :ص/25) اورحافظ ابن کثیرنے بھی اس روایت کوغریب کہاہے۔
8۔ واقعہ فیل سے پندرہ سال پہلے :
یہ قول تاریخ خلیفہ (ص/53)میں مذکورہے،اورامام ذہبی نے اس کی تضعیف کی ہے، (دیکھئے : السیرۃ النبویۃ :ص/25)اورحافظ ابن کثیراس روایت کونقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :" ھذاحدیث غریب ومنکرجدا" ۔ (البدایۃ : 2/262)۔
9۔ واقعہ فیل اورولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دس سال کا وقفہ ہے :
اس روایت کونقل کرنے کےبعدامام ذہبی نے اسے منقطع قراردیاہے۔(دیکھئے : السیرۃ النبویۃ : ص/25 ، نیزدیکھئے : دلائل النبوۃ للبیھقی :1/79 بسند ضعیف )۔
10۔ محرم الحرام کے مہینہ میں :
محمدحسین ہیکل نے اس قو ل کوبلاکسی واسطہ کےنقل کیاہے، (دیکھئے : حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم :ص/109)۔
11۔ صفرکےمہینہ میں :
اسے قسطلانی نے المواھب (1/140) اورمحمد حسین ہیکل نے حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ص/109) کے اندربلاکسی حوالہ کے نقل کیاہے ۔
12۔ ماہ رجب میں :
اسے بھی محمد حسین ہیکل نے بلا کسی واسطہ کے نقل کیاہے ۔ (حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : ص/109) ۔
13۔ ماہ ربیع الآخرمیں :
قسطلانی نے اس قول کوبصیغۂ تمریض بلا کسی حوالہ وواسطہ کے نقل کیاہے ۔ (المواھب :1/140)۔
14۔ واقعہ فیل کے روز :
اس ضمن میں حاکم نے مستدرک (2/603) اورذہبی نے السیرۃ النبویۃ (ص/22) کے اندرحجاج بن محمد کے واسطہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے ،جس کےالفاظ ہیں " ۔۔۔۔
ولد النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفيل "یعنی :" اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت (واقعۂ ) فیل کے روزہوئی "
اگرچہ امام ذہبی نے اس روایت کی تضعیف کی ہے(مختصرالمستدرک:2/1057) لیکن خود حاکم نے بھی اس روایت میں حمیدبن الربیع کا اس لفظ کے ساتھ منفردہونے اوران کی عدم متابعت کو ذکرکیاہے، اورابن سعدنے" یوم الفیل " کی تشریح : عام الفیل " سے کی ہے (الطبقات :1/101) ، جس کی تائیدمستدرک(2/603)کی ہی ایک روایت سے جوبطریق محمد بن اسحاق صنعانی مذکورہےاوردیگربہت ساری صحیح روایات سے ہوتی ہے ۔
15۔ سترہ ربیع الاول :
ابن دحیہ نے بعض شیعہ سے اس قول کونقل کیاہے ۔(دیکھئے : البدایۃ والنہایۃ :2/260)
16۔ ربیع الاول کے پہلے سوموارکو:
اس قول کو ابن سید الناس نے عیون الاثر(1/79) کے اندربصیغۂ تمریض اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (1/30) میں نقل کیاہے۔ اس قول کی بناپرتاریخ ولادت پہلی ربیع الاول سے لیکرساتویں ربیع الاول تک میں کسی بھی دن ہونے کا امکان ہے ۔
17۔ نوربیع الاول :
نوربیع الاول کی تعیین کے سلسلے میں اگرچہ کوئی قابل ذکرروایت نہیں ملتی لیکن پھربھی بعد کے محققین نے اسی کوراجح قراردیاہے ۔ اس سلسلے میں اکثرلوگ نامورمحقق محمودپاشافلکی مصری کی تحقیق پراعتمادکرتےہیں ، جیساکہ خضری بک نےتاریخ الامم الاسلامیہ (1/62) اورعلامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی (1/115) اورعلامہ قاضی سلیمان سلمان منصورپوری نے رحمۃ للعالمین (1/40) کے اندر" تاریخ دول العرب والاسلام " کے حوالہ سے لکھاہے(نیزدیکھئے: نورالیقین فی سیرۃ سیدالمرسلین: ص/ 9 )۔
اورابوالقاسم السہیلی کے کہتےہیں :
وأهل الحساب يقولون : وافق مولده من الشهور الشمسية " نيسان " فكانت لعشرين مضت منه .
یعنی اہل حساب کے بقول :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باعتبارشمسی 20 /اپریل کو ہوئی(جونوربیع الاول کے موافق ہے) ۔(الروض الانف :1/182)۔
محمود پاشافلکی کے استدلالات یوں تو کئی صفحات پرمحیط ہیں لیکن ان کا خلاصہ علامہ شبلی نعمانی نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
1۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابراہیم ( اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صغیرالسن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گرہن لگا تھااورسنہ 10 ھ تھا ( اوراس وقت آپ کی عمرکاترسٹھواں سال تھا)۔
2۔ ریاضی کےقاعدےسے حساب لگانےسے معلوم ہوتاہےکہ سنہ 10 ھ کا گرہن 7 /جنوری سنہ 632 ء کوآٹھ بج کر30 منٹ پرلگاتھا۔
3۔ اس حساب سے یہ ثابت ہوتاہےکا اگرقمری تاریخ 13 برس پیچھے ہٹےتوآپ کی پیدائش کاسال سنہ 571 ء جس میں ازروئے قواعدہیئت ربیع الاول کی پہلی تاریخ 12/اپریل سنہ 571 کے مطابق تھی ۔
4۔ تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدرمتفق علیہ ہےکہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اوردوشنبہ کادن تھااورتاریخ آٹھ سے لیکربارہ تک میں منحصرہے ۔
5۔ ربیع الاول مذکورکی ان تاریخوں میں دوشنبہ کا دن نویں تاریخ کوپڑتاہے ۔(دیکھئے : حاشیہ سیرۃ النبی : 1/115) ۔
18۔ بارہ ربیع الاول :
مؤرخین کی ایک معتدبہ تعداد اس بات کی قائل ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول ہے، جن میں ابن اسحاق (سیرۃ ابن ہشام :1/158) ابن خلدون (تاریخ ابن خلدون :2/394) ابن سیدالناس متوفی /734 ھ (عیون الاثر:1/79) اورابوحاتم محمد بن حبان ( الثقات :1/14-15) قابل ذکرہیں ۔