اصل کتاب مستدرک حاکم میں یہ روایت مذکورہ الفاظ کے ساتھ موجود نہیں
دراصل بات یہ ہے کہ ’’تلخیص المستدرک‘‘ کی اصل ’’المستدرک للحاکم‘‘ ہے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب کی تلخیص کی ہے ، اوراس اصل کتاب میں بلکہ اس کے کسی بھی مطبوعہ یا مخطوطہ نسخہ میں یہ روایت مذکوہ الفاظ کےساتھ یعنی تاریخ پیدائش والی بات کے ساتھ ہرگزنہیں ہے بلکہ اس میں صرف سال یعنی عام الفیل کا ذکر ہے ، ملاحظہ ہو اصل کتاب مستدرک سے یہ روایت:
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «وُلِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2/ 658 رقم4180]۔
ترجمہ:
صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل (ہاتھی والے سال) میں ہوئی ۔
مستدرک حاکم کی اس روایت کو غور سے پڑھیں اس میں صرف یہ ہے کہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی ۔
اسی روایت کو امام ذھبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں نقل کیا ہے لہٰذا جب اصل کتاب میں تاریخ پیدائش والے مذکورہ الفاظ نہیں ہیں تو تلخیص کا حوالہ بے سود ہے۔
یادرہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب تلخیص سند والی کتاب نہیں ہے بلکہ اصل سند والی کتاب امام حاکم کی مستدرک ہے جس کی امام ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص کی ہے ، لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس کتاب میں کوئی بات ایسی ملے جو امام حاکم کی اصل کتاب میں نہ ہو تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس کتاب کا حوالہ بے سود ہے ۔
بعض محدثین کا منہج تو یہ ہے کہ کوئی راوی کسی کتاب والے محدث کے طریق سے کوئی منفرد والگ تھلگ راویت بیان کرے اوروہ روایت کتاب والے محدث کی کتاب میں نہ ملے تو ایسی روایت مردود ہوگی ۔
مثلا ولید بن مسلم کے طریق سے ایک ایسی حدیث بیان کی گئی جو ولید بن مسلم کی تصنیف کردہ کتاب میں نہ تھی تو امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى:277) نے اس روایت کو منکر قراردیا اس پر ان کے بیٹے نے سوال کیا اور اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:
لأنَّ حديثَ ابْنِ أَبِي العِشْرين لَمْ يَرْوِ أحدٌ سِوَاهُ، وَكَانَ الوليدُ صنَّف "كِتَابَ الصَّلاة"، وليس فيه هذا الحديثُ[علل الحديث لابن أبي حاتم 2/ 424]۔
لہٰذا جب کسی محدث کی کتاب کے خلاف اسی کے طریق سے روایت کردہ منفرد روایت حجت نہیں ہے تو پھر کسی محدث کی کتاب ہی سے نقل کردہ روایت جو اصل کتاب کے الفاظ سے ہٹ کر ہو وہ کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔