محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا۶۴ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۶۵
۱؎ اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگرحضور (ﷺ) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (ﷺ) ان کے خلوص سے متاثر ہوکر ان کے لیے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انھیں بخش دیں گے۔یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیمبر ﷺ یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصتاً اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں عفو وتوبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا۔ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْ نِ اللّٰہِ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ۔ اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ۔ اس کی ہرادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہرقو ل وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الٰہی سے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔اس لیے یہ کہنا کہ رسولﷺ کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں۔قرآن ناطق کی توہین ہے ۔وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے۔
۲؎ اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھاکر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول ﷺ لازمی و لابدی شے ہے ۔ یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضایہ ہے کہ رسول ﷺ کے ہرحکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں۔ جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو، ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہوسکتی۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکا دو بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے۔ تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لیے ضروری ہے کہ آستانۂ رسالت پر جھک جائے۔ یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسولﷺ سے بقعۂ نور بن جائے ورنہ الحاد وزندقہ کا خطرہ ہے۔وہ لوگ جو قران کو توبظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں،انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔
اورہم نے ہررسول اسی مراد سے بھیجا ہے کہ خدا کے حکم سے وہ مانا۱؎جائے اور اگر یہ لو گ جس وقت اپنی جانوں پر ظلم کریں ، تیرے پاس چلے آئیں ،پھر اللہ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت چاہے تو وہ خدا کو معاف کرنے والا مہربان پائیں گے ۔(۶۴) سو (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم) تیرے رب کی قسم! یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اپنے جھگڑے میں تجھے منصف نہ بنائیں۔ پھر جو تو فیصلہ دے اس پر اپنے دلوں میں تنگ نہ ہوں اورتابعدار بن کر تسلیم کریں۔۲؎(۶۵)
رسول بجائے خود مطاع ہے
۱؎ اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگرحضور (ﷺ) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (ﷺ) ان کے خلوص سے متاثر ہوکر ان کے لیے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انھیں بخش دیں گے۔یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیمبر ﷺ یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصتاً اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں عفو وتوبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا۔ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْ نِ اللّٰہِ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ۔ اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ۔ اس کی ہرادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہرقو ل وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الٰہی سے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔اس لیے یہ کہنا کہ رسولﷺ کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں۔قرآن ناطق کی توہین ہے ۔وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے۔
حکم مطلق
۲؎ اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھاکر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول ﷺ لازمی و لابدی شے ہے ۔ یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضایہ ہے کہ رسول ﷺ کے ہرحکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں۔ جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو، ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہوسکتی۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکا دو بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے۔ تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لیے ضروری ہے کہ آستانۂ رسالت پر جھک جائے۔ یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسولﷺ سے بقعۂ نور بن جائے ورنہ الحاد وزندقہ کا خطرہ ہے۔وہ لوگ جو قران کو توبظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں،انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔