ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور بات سے محبت
عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وکان فيه مزاح بينا يضحکهم فطعنه النبي صلی الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليک قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلی الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل کشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله
سید نا اسید بن حضیررضی اللہ عنہ جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو کر رہے تھے مزاح ومذاق ان کے درمیان چل رہا تھا وہ نہا رہے تھے کہ لوگوں کو رسول اللہ نے ان کی کو کھ میں لکڑی سے مارا انہوں نے کہا کہ مجھے بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لے بدلہ لے لیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم مبارک پر قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک اٹھائی تو وہ اس سے لپٹ گئے اور آپ کے پہلوئے مبارک کو بوسہ دینے لگے کہ اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہی مقصد تھا کہ اور نہ آپ سے بدلہ لینے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1812 کتاب الادب
أنس بن مالک يقول إن خياطا دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم لطعام صنعه قال أنس فذهبت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيته يتتبع الدبائ من حوالي القصعة قال فلم أزل أحب الدبائ من يومئذ
سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کی دعوت کی، انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گیا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ کے چاروں طرف کدو تلاش کرکے نکال رہے ہیں، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 350 کتاب الاطعمہ
عن ابن عمر قال بينما نحن نصلي مع رسول الله صلی الله عليه وسلم إذ قال رجل من القوم الله أکبر کبيرا والحمد لله کثيرا وسبحان الله بکرة وأصيلا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم من القال کلمة کذا وکذا قال رجل من القوم أنا يا رسول الله قال عجبت لها فتحت لها أبواب السما قال ابن عمر فما ترکتهن منذ سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ذلک
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا (اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ کَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُکْرَةً وَأَصِيلًا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کے کلمات کہنے والا کون ہے؟ جماعت میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو پھر کبھی نہیں چھوڑا جب سے اس بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ صحیح مسلم کتاب المساجد
قال أبو هريرة لا أزال أحب بني تميم من ثلاث سمعتهن من رسول الله صلی الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول هم أشد أمتي علی الدجال قال وجات صدقاتهم فقال النبي صلی الله عليه وسلم هذه صدقات قومنا قال وکانت سبية منهم عند عاشة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أعتقيها فإنها من ولد إسمعيل
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت دجال پر ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے صدقات ہیں راوی کہتے ہیں کہ انہی میں سے حضرت سدی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک باندی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1951
عن ابن عمر قال کان الرجل في حياة رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا رأی رؤيا قصها علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فتمنيت أن أری رؤيا أقصها علی النبي صلی الله عليه وسلم قال وکنت غلاما شابا عزبا وکنت أنام في المسجد علی عهد رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيت في النوم کأن ملکين أخذاني فذهبا بي إلی النار فإذا هي مطوية کطي البر وإذا لها قرنان کقرني البر وإذا فيها ناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار قال فلقيهما ملک فقال لي لم ترع فقصصتها علی حفصة فقصتها حفصة علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال النبي صلی الله عليه وسلم نعم الرجل عبد الله لو کان يصلي من الليل قال سالم فکان عبد الله بعد ذلک لا ينام من الليل إلا قليلا
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی زندگی مبارک میں کوئی آدمی جو بھی خواب دیکھتا اسے رسول اللہ کے سامنے بیان کرتا اور میں غیر شدہ نوجوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں میں مسجد میں سویا کرتا تھا پس میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے دوزخ کی طرح لے گئے تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کی طرح لکڑیاں بھی تھیں اور اس میں لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا پس میں نے (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ) میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دہرانا شروع کر دیا ان دو فرشتوں میں سے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھ سے کہا تو خوف نہ کر پس میں نے حضرت حفصہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت حفصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے کاش یہ اٹھ کر رات کو نماز پڑھے سالم نے کہا اس کے بعد سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو تھوڑی دیر ہی سویا کرتے تھے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1870 کتاب الفضائل
عن ابن شماسة المهري قال حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياقة الموت فبکی طويلا وحول وجهه إلی الجدار فجعل ابنه يقول يا أبتاه أما بشرک رسول الله صلی الله عليه وسلم بکذا أما بشرک رسول الله صلی الله عليه وسلم بکذا قال فأقبل بوجهه فقال إن أفضل ما نعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إني کنت علی أطباق ثلاث لقد رأيتني وما أحد أشد بغضا لرسول الله صلی الله عليه وسلم مني ولا أحب إلي أن أکون قد استمکنت منه فقتلته فلو مت علی تلک الحال لکنت من أهل النار فلما جعل الله الإسلام في قلبي أتيت النبي صلی الله عليه وسلم فقلت ابسط يمينک فلأبايعک فبسط يمينه قال فقبضت يدي قال ما لک يا عمرو قال قلت أردت أن أشترط قال تشترط بماذا قلت أن يغفر لي قال أما علمت أن الإسلام يهدم ما کان قبله وأن الهجرة تهدم ما کان قبلها وأن الحج يهدم ما کان قبله وما کان أحد أحب إلي من رسول الله صلی الله عليه وسلم ولا أجل في عيني منه وما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له ولو سلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه ولو مت علی تلک الحال لرجوت أن أکون من أهل الجنة ثم ولينا أشيا ما أدري ما حالي فيها فإذا أنا مت فلا تصحبني ناحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها حتی أستأنس بکم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي
ابن شماسہ کہتے ہیں کہ ہم عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیر لیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان رضی اللہ عنہ کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک کے متعلق پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 321 کتاب الایمان
عن سهل رضي الله عنه أن امرأة جائت النبي صلی الله عليه وسلم ببردة منسوجة فيها حاشيتها أتدرون ما البردة قالوا الشملة قال نعم قالت نسجتها بيدي فجئت لأکسوکها فأخذها النبي صلی الله عليه وسلم محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فحسنها فلان فقال اکسنيها ما أحسنها قال القوم ما أحسنت لبسها النبي صلی الله عليه وسلم محتاجا إليها ثم سألته وعلمت أنه لا يرد قال إني والله ما سألته لألبسه إنما سألته لتکون کفني قال سهل فکانت کفنه
سید نا سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بردہ لے کر آئی جو بنا ہوا تھا اور اسمیں حاشیہ تھا تم جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ شملہ (چادر) سہل نے کہا ہاں۔ تو اس عورت نے کہا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور میں اسے اس لئے لائی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ اس چادر کو ازار بنائے ہوئے تھے اس کی فلاں شخص نے تعریف کی اور کہا آپ ہمیں یہ دے دیں، یہ چادر کتنی اچھی ہے، لوگوں نے کہا کہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کی حالت میں پہنا تھا اور تو نے اسے مانگ لیا حالانکہ تو جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سوال کو رد نہیں فرماتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں نے بخدا اس لئے نہیں مانگا تھا کہ اس کا لباس پہنوں بلکہ اس لئے مانگا کہ میرا کفن ہوجائے۔ سہل نے کہا کہ وہ چادر اس شخص کا کفن بنی۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1211 کتاب الجنائز
حدث ابن عمر أن أبا هريرة رضي الله عنهم يقول من تبع جنازة فله قيراط فقال أکثر أبو هريرة علينا فصدقت يعني عائشة أبا هريرة وقالت سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقوله فقال ابن عمر رضي الله عنهما لقد فرطنا في قراريط کثيرة فرطت ضيعت من أمر
سید نا ابن عمرسے کہا گیا کہ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص جنازے کے ساتھ جائے تو اس کے لئے ایک قیراط ہےسید نا ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ روایتیں بیان کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوہریررضی اللہ عنہ کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہےسید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے بہت سے قیراط میں کوتاہی کی یعنی اللہ کے حکم کو ضائع کیا۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1252 ٍصحیح بخاری کتاب الجنائز
عن عبد الله بن عباس أن رسول الله صلی الله عليه وسلم رأی خاتما من ذهب في يد رجل فنزعه فطرحه وقال يعمد أحدکم إلی جمرة من نار فيجعلها في يده فقيل للرجل بعد ما ذهب رسول الله صلی الله عليه وسلم خذ خاتمک انتفع به قال لا والله لا آخذه أبدا وقد طرحه رسول الله صلی الله عليه وسلم
سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں دوزخ کا انگارہ رکھ لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی پکڑ لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وہ آدمی کہنے لگا نہیں اللہ کی قسم میں اسے کبھی بھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا ہو۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 975 کتاب اللباس و الزینۃ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، قَالَ : " اجْلِسُوا " . فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَجَلَسَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ " .
سید نا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) منبر پر تشریف لائے تو فرمایا : بیٹھ جاؤ
سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سُنا تو مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا'' عبد اللہ مسجد کے اندر آ کے بیٹھو ،،
صحیح ابی داؤد للالبانی الجزء الاول رقم الحدیث 203
صلح حدیبیہ کے موقع پرسید نا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ(جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) قریش کے ایلچی کی حیثیت سے آئے
پھر واپس اپنے رفقاء کے پاس گئے اور کہا : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إنّي قَدْ جِئْت كِسْرَى فِي مُلْكِهِ ، وَقَيْصَرَ فِي مُلْكِهِ . وَالنّجَاشِيّ فِي مُلْكِهِ . وَإِنّي وَاَللّهِ مَا رَأَيْت مَلِكًا فِي قَوْمٍ قَطّ مِثْلَ مُحَمّدٍ فِي أَصْحَابِهِ اے قوم بخدا میں نے قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے
بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کی اس کے ساتھی
اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی محمد
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی تعظیم کرتے ہیں فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً ، إِلا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ ، وَإِذَا تَكَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ ، قَالَ : فَرَجَعَ عُرْوَةُ لأَصْحَابِهِ ، فَقَالَ : أَيُّ قَوْمٍ ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ ، وَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ ، وَكِسْرَى ، وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ تَعْظِيمَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ، وَاللَّهِ ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً ، إِلا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ، فَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ ، وَإِذَا تَكَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ " . اللہ کی قسم وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ شخص اُسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا
اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے
اور جب اہ وضو کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اُس کے وضو کے قطروں کے لیے لڑپڑیں گے
اور جب کوئی بات کرتے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھےاور فرط تعظیم کے سبب
انہیں بھر پور نظروں سے نہ دیکھتے تھے ،،
بحوالہ رحیق المختوم
عن علي بن ربيعة قال شهدت عليا رضي الله عنه وأتي بدابة ليرکبها فلما وضع رجله في الرکاب قال بسم الله فلما استوی علی ظهرها قال الحمد لله ثم قال سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين وإنا إلی ربنا لمنقلبون ثم قال الحمد لله ثلاث مرات ثم قال الله أکبر ثلاث مرات ثم قال سبحانک إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت ثم ضحک فقيل يا أمير المؤمنين من أي شي ضحکت قال رأيت النبي صلی الله عليه وسلم فعل کما فعلت ثم ضحک فقلت يا رسول الله من أي شي ضحکت قال إن ربک يعجب من عبده إذا قال اغفر لي ذنوبي يعلم أنه لا يغفر الذنوب غيري
سید نا علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں سید نا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا پس ان کے لئے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں پس جب انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو فرمایا بسم اللہ، جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا الحمدللہ، پھر کہا پاک ہے وہ ذات جس نے ان جانوروں کو ہمارے قابو میں کر دیا اور ہم ان پر قابو پانے والے نہ تھے اور بلاشبہ ہمیں اپنے رب ہی کے پاس واپس جانا ہے۔ پھر تین مرتبہ الحمدللہ کہا اس کے بعد تین مرتبہ اللہ اکبر کہا پھر کہا پاک ہے تیری ذات بیشک میں نے اپنے اوپر خود ہی ظلم کیا ہے پس تو مجھ کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکتا ہو۔ یہ کہہ کر سید نا علی رضی اللہ عنہ ہنس پڑے لوگوں نے پوچھا امیرالمومنین! آپ کس بات پر ہنسے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا جیسا کہ میں نے اس وقت کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنسے تھے تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس بات پر ہنسے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے میرے گناہ بخش دے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی گناہ نہیں معاف کر سکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 837 کتاب الجہاد
عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وکان فيه مزاح بينا يضحکهم فطعنه النبي صلی الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليک قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلی الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل کشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله
سید نا اسید بن حضیررضی اللہ عنہ جو ایک انصاری صحابی ہیں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے گفتگو کر رہے تھے مزاح ومذاق ان کے درمیان چل رہا تھا وہ نہا رہے تھے کہ لوگوں کو رسول اللہ نے ان کی کو کھ میں لکڑی سے مارا انہوں نے کہا کہ مجھے بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لے بدلہ لے لیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم مبارک پر قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہیں تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک اٹھائی تو وہ اس سے لپٹ گئے اور آپ کے پہلوئے مبارک کو بوسہ دینے لگے کہ اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہی مقصد تھا کہ اور نہ آپ سے بدلہ لینے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1812 کتاب الادب
أنس بن مالک يقول إن خياطا دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم لطعام صنعه قال أنس فذهبت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيته يتتبع الدبائ من حوالي القصعة قال فلم أزل أحب الدبائ من يومئذ
سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کی دعوت کی، انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گیا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالہ کے چاروں طرف کدو تلاش کرکے نکال رہے ہیں، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 350 کتاب الاطعمہ
عن ابن عمر قال بينما نحن نصلي مع رسول الله صلی الله عليه وسلم إذ قال رجل من القوم الله أکبر کبيرا والحمد لله کثيرا وسبحان الله بکرة وأصيلا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم من القال کلمة کذا وکذا قال رجل من القوم أنا يا رسول الله قال عجبت لها فتحت لها أبواب السما قال ابن عمر فما ترکتهن منذ سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول ذلک
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا (اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ کَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُکْرَةً وَأَصِيلًا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کے کلمات کہنے والا کون ہے؟ جماعت میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو پھر کبھی نہیں چھوڑا جب سے اس بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ صحیح مسلم کتاب المساجد
قال أبو هريرة لا أزال أحب بني تميم من ثلاث سمعتهن من رسول الله صلی الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول هم أشد أمتي علی الدجال قال وجات صدقاتهم فقال النبي صلی الله عليه وسلم هذه صدقات قومنا قال وکانت سبية منهم عند عاشة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أعتقيها فإنها من ولد إسمعيل
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت دجال پر ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے صدقات ہیں راوی کہتے ہیں کہ انہی میں سے حضرت سدی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک باندی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1951
عن ابن عمر قال کان الرجل في حياة رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا رأی رؤيا قصها علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فتمنيت أن أری رؤيا أقصها علی النبي صلی الله عليه وسلم قال وکنت غلاما شابا عزبا وکنت أنام في المسجد علی عهد رسول الله صلی الله عليه وسلم فرأيت في النوم کأن ملکين أخذاني فذهبا بي إلی النار فإذا هي مطوية کطي البر وإذا لها قرنان کقرني البر وإذا فيها ناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار أعوذ بالله من النار قال فلقيهما ملک فقال لي لم ترع فقصصتها علی حفصة فقصتها حفصة علی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال النبي صلی الله عليه وسلم نعم الرجل عبد الله لو کان يصلي من الليل قال سالم فکان عبد الله بعد ذلک لا ينام من الليل إلا قليلا
سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی زندگی مبارک میں کوئی آدمی جو بھی خواب دیکھتا اسے رسول اللہ کے سامنے بیان کرتا اور میں غیر شدہ نوجوان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں میں مسجد میں سویا کرتا تھا پس میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے دوزخ کی طرح لے گئے تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کی طرح لکڑیاں بھی تھیں اور اس میں لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا پس میں نے (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ) میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دہرانا شروع کر دیا ان دو فرشتوں میں سے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھ سے کہا تو خوف نہ کر پس میں نے حضرت حفصہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت حفصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے کاش یہ اٹھ کر رات کو نماز پڑھے سالم نے کہا اس کے بعد سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو تھوڑی دیر ہی سویا کرتے تھے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1870 کتاب الفضائل
عن ابن شماسة المهري قال حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياقة الموت فبکی طويلا وحول وجهه إلی الجدار فجعل ابنه يقول يا أبتاه أما بشرک رسول الله صلی الله عليه وسلم بکذا أما بشرک رسول الله صلی الله عليه وسلم بکذا قال فأقبل بوجهه فقال إن أفضل ما نعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إني کنت علی أطباق ثلاث لقد رأيتني وما أحد أشد بغضا لرسول الله صلی الله عليه وسلم مني ولا أحب إلي أن أکون قد استمکنت منه فقتلته فلو مت علی تلک الحال لکنت من أهل النار فلما جعل الله الإسلام في قلبي أتيت النبي صلی الله عليه وسلم فقلت ابسط يمينک فلأبايعک فبسط يمينه قال فقبضت يدي قال ما لک يا عمرو قال قلت أردت أن أشترط قال تشترط بماذا قلت أن يغفر لي قال أما علمت أن الإسلام يهدم ما کان قبله وأن الهجرة تهدم ما کان قبلها وأن الحج يهدم ما کان قبله وما کان أحد أحب إلي من رسول الله صلی الله عليه وسلم ولا أجل في عيني منه وما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له ولو سلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه ولو مت علی تلک الحال لرجوت أن أکون من أهل الجنة ثم ولينا أشيا ما أدري ما حالي فيها فإذا أنا مت فلا تصحبني ناحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها حتی أستأنس بکم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي
ابن شماسہ کہتے ہیں کہ ہم عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیر لیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان رضی اللہ عنہ کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک کے متعلق پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 321 کتاب الایمان
عن سهل رضي الله عنه أن امرأة جائت النبي صلی الله عليه وسلم ببردة منسوجة فيها حاشيتها أتدرون ما البردة قالوا الشملة قال نعم قالت نسجتها بيدي فجئت لأکسوکها فأخذها النبي صلی الله عليه وسلم محتاجا إليها فخرج إلينا وإنها إزاره فحسنها فلان فقال اکسنيها ما أحسنها قال القوم ما أحسنت لبسها النبي صلی الله عليه وسلم محتاجا إليها ثم سألته وعلمت أنه لا يرد قال إني والله ما سألته لألبسه إنما سألته لتکون کفني قال سهل فکانت کفنه
سید نا سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بردہ لے کر آئی جو بنا ہوا تھا اور اسمیں حاشیہ تھا تم جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ شملہ (چادر) سہل نے کہا ہاں۔ تو اس عورت نے کہا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور میں اسے اس لئے لائی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ اس چادر کو ازار بنائے ہوئے تھے اس کی فلاں شخص نے تعریف کی اور کہا آپ ہمیں یہ دے دیں، یہ چادر کتنی اچھی ہے، لوگوں نے کہا کہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کی حالت میں پہنا تھا اور تو نے اسے مانگ لیا حالانکہ تو جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سوال کو رد نہیں فرماتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں نے بخدا اس لئے نہیں مانگا تھا کہ اس کا لباس پہنوں بلکہ اس لئے مانگا کہ میرا کفن ہوجائے۔ سہل نے کہا کہ وہ چادر اس شخص کا کفن بنی۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1211 کتاب الجنائز
حدث ابن عمر أن أبا هريرة رضي الله عنهم يقول من تبع جنازة فله قيراط فقال أکثر أبو هريرة علينا فصدقت يعني عائشة أبا هريرة وقالت سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقوله فقال ابن عمر رضي الله عنهما لقد فرطنا في قراريط کثيرة فرطت ضيعت من أمر
سید نا ابن عمرسے کہا گیا کہ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص جنازے کے ساتھ جائے تو اس کے لئے ایک قیراط ہےسید نا ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ روایتیں بیان کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوہریررضی اللہ عنہ کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہےسید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے بہت سے قیراط میں کوتاہی کی یعنی اللہ کے حکم کو ضائع کیا۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1252 ٍصحیح بخاری کتاب الجنائز
عن عبد الله بن عباس أن رسول الله صلی الله عليه وسلم رأی خاتما من ذهب في يد رجل فنزعه فطرحه وقال يعمد أحدکم إلی جمرة من نار فيجعلها في يده فقيل للرجل بعد ما ذهب رسول الله صلی الله عليه وسلم خذ خاتمک انتفع به قال لا والله لا آخذه أبدا وقد طرحه رسول الله صلی الله عليه وسلم
سید نا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں دوزخ کا انگارہ رکھ لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی پکڑ لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وہ آدمی کہنے لگا نہیں اللہ کی قسم میں اسے کبھی بھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا ہو۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 975 کتاب اللباس و الزینۃ
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، قَالَ : " اجْلِسُوا " . فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَجَلَسَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ " .
سید نا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) منبر پر تشریف لائے تو فرمایا : بیٹھ جاؤ
سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سُنا تو مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا'' عبد اللہ مسجد کے اندر آ کے بیٹھو ،،
صحیح ابی داؤد للالبانی الجزء الاول رقم الحدیث 203
صلح حدیبیہ کے موقع پرسید نا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ(جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) قریش کے ایلچی کی حیثیت سے آئے
پھر واپس اپنے رفقاء کے پاس گئے اور کہا : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إنّي قَدْ جِئْت كِسْرَى فِي مُلْكِهِ ، وَقَيْصَرَ فِي مُلْكِهِ . وَالنّجَاشِيّ فِي مُلْكِهِ . وَإِنّي وَاَللّهِ مَا رَأَيْت مَلِكًا فِي قَوْمٍ قَطّ مِثْلَ مُحَمّدٍ فِي أَصْحَابِهِ اے قوم بخدا میں نے قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے
بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کی اس کے ساتھی
اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی محمد
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی تعظیم کرتے ہیں فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً ، إِلا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ ، وَإِذَا تَكَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ ، قَالَ : فَرَجَعَ عُرْوَةُ لأَصْحَابِهِ ، فَقَالَ : أَيُّ قَوْمٍ ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ ، وَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ ، وَكِسْرَى ، وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ تَعْظِيمَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ، وَاللَّهِ ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً ، إِلا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ، فَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ ، وَإِذَا تَكَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ " . اللہ کی قسم وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ شخص اُسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا
اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے
اور جب اہ وضو کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اُس کے وضو کے قطروں کے لیے لڑپڑیں گے
اور جب کوئی بات کرتے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھےاور فرط تعظیم کے سبب
انہیں بھر پور نظروں سے نہ دیکھتے تھے ،،
بحوالہ رحیق المختوم
عن علي بن ربيعة قال شهدت عليا رضي الله عنه وأتي بدابة ليرکبها فلما وضع رجله في الرکاب قال بسم الله فلما استوی علی ظهرها قال الحمد لله ثم قال سبحان الذي سخر لنا هذا وما کنا له مقرنين وإنا إلی ربنا لمنقلبون ثم قال الحمد لله ثلاث مرات ثم قال الله أکبر ثلاث مرات ثم قال سبحانک إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت ثم ضحک فقيل يا أمير المؤمنين من أي شي ضحکت قال رأيت النبي صلی الله عليه وسلم فعل کما فعلت ثم ضحک فقلت يا رسول الله من أي شي ضحکت قال إن ربک يعجب من عبده إذا قال اغفر لي ذنوبي يعلم أنه لا يغفر الذنوب غيري
سید نا علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں سید نا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا پس ان کے لئے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں پس جب انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو فرمایا بسم اللہ، جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا الحمدللہ، پھر کہا پاک ہے وہ ذات جس نے ان جانوروں کو ہمارے قابو میں کر دیا اور ہم ان پر قابو پانے والے نہ تھے اور بلاشبہ ہمیں اپنے رب ہی کے پاس واپس جانا ہے۔ پھر تین مرتبہ الحمدللہ کہا اس کے بعد تین مرتبہ اللہ اکبر کہا پھر کہا پاک ہے تیری ذات بیشک میں نے اپنے اوپر خود ہی ظلم کیا ہے پس تو مجھ کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکتا ہو۔ یہ کہہ کر سید نا علی رضی اللہ عنہ ہنس پڑے لوگوں نے پوچھا امیرالمومنین! آپ کس بات پر ہنسے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا جیسا کہ میں نے اس وقت کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنسے تھے تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس بات پر ہنسے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے میرے گناہ بخش دے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی گناہ نہیں معاف کر سکتا۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 837 کتاب الجہاد