گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ
جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
امام نوویؒ ’’المجموع‘‘ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہؓ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اُٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں ہے اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ نبی ﷺ پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَلَیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَںْ أَمْرِہِج أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُإْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (الفرقان ۲۴/۶۳)
’’پس ان لوگوں کو جو نبی ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کر دیتے ہیں:علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
1. مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ، کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
2. تعب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروانے کے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
3. بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لئے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
4. منافقین بھی کس قدربیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انہوں بغلوں میں دبا لائے؟
5. یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)
یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
خلاصہ:
رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔