مسنون رکعات تراویح
حدیث :عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهَا عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ قَالَ : " يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".(بخارى:2013)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا :رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کیا ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : رمضان یا غیر رمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے تو تم ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں بس کچھ نا پوچھو! پھر چار رکعات پڑھتے تو تم ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں بھی کچھ نا پوچھو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات پڑھتے تھے، ایک دن میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وتر پڑھے بغیر ہی سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اے عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا.
فوائد :
(1)حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اور غیر رمضان میں نماز کی تعداد اور کیفیت بتائی گئی ہے، تعداد گیارہ رکعات اور کیفیت یہ کہ ان رکعات کی اپنی خوبی و طوالت بیان سے باہر.
(2) حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ کے سوال سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ رمضان میں پڑھی جانے والی کسی خاص نماز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس کا عام دنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ( اور وہ خاص نماز تراویح یا قیام رمضان ہے جسے عام دنوں میں تہجد یا قیام اللیل کہا جاتا ہے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے اس شبہ کا ازالہ اس طرح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اور غیر رمضان ایک ہی نماز ہوتی تھی جس کی کل 8+3 گیارہ رکعات ہوتی تھیں.
(3) اس کی تائید علماء محدثین کے اس حدیث پر ابواب قائم کرنے سے بھی ہوتی ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود اس کو ' کتاب التراويح' میں بیان کیا ہے، چونکہ اس میں تہجد کا بھی ذکر ہے اس لئے اس حدیث کو إمام بخاری کتاب التهجد میں بھی لائیں ہیں
(4) بعض لوگ اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رمضان میں تہجد کی نماز کے بارے میں سوال جواب ہیں اور یہ تعداد تہجد ہی کی ہے، لیکن یہ بات کئی وجہ سے صحیح نہیں ہے
(ا) اگر یہ تہجد ہی کی نماز ہوتی تو ابو سلمہ رحمہ اللہ کو اس کے بارے میں سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے تعلق سے تو سب جانتے ہی تھے یا اگر وہ نہیں جانتے تھے تو رمضان کی قید سے سوال نہیں کرتے اور کیا بھی تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی وضاحت کرنا چاہئے تھا کہ رمضان میں تہجد اتنی اور تراویح اتنی پڑھتے تھے کیونکہ سوال میں خاص تہجد کے بارے میں نہیں پوچھا گیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تفصیل نا کرنے سے کم از کم یہ تو معلوم ہو ہی رہا ہے کہ انہوں نے تہجد یا قیام رمضان جسے تراویح کہتے ہیں میں کوئی فرق نہیں سمجھا.
(ب) حدیث میں گیارہ رکعات کی تفصیل میں تین وتر کا بھی ذکر ہے جس کو مخالفین بھی مانتے ہیں، مخالفین جو تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کرتے ہیں وہ تیئیس رکعات ہیں جس میں بیس تراویح اور تین وتر، اس سلسلے کی تمام روایات میں تفصیل اسی طرح ہے، اب سوال یہ ہے کیا تہجد کی نماز جوکہ گیارہ ہے اور اس میں تین وتر بھی ہے اور تراویح کی وتر کیا ایک ہی رات میں دو وتر پڑھے جائیں گے؟ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں دو وتر پڑھنے سے منع کیا ہے؟
( ج) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت جس کو امام نسائی وغیرہ نے بیان کیا ہے اس میں آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی جماعت کی جو کیفیت ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیئیس رمضان کو ہم نماز کے لئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر پچیس رمضان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آدھی رات تک نماز پڑھائی، اور ستائیس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خدشہ سحری کے چھوٹ جانے کا ہوا، روایت کے الفاظ یہ ہیں " قُمْنا مع رسولِ اللهِ ﷺ ليلةَ ثلاثٍ وعشرين في شهرِ رمضانَ إلى ثلثِ الليلِ الأولِ، ثم قمْنا معه ليلةَ خمسٍ وعشرين إلى نصف الليلِ، ثم قام بنا ليلةَ سبعٍ وعشرين حتى ظننّا أن لا ندرِكَ الفلاحَ، قال: وكنا ندعو السَّحورَ الفلاحَ" (صلاة التراويح ١١ • إسناده صحيح • أخرجه النسائي (١٦٠٦)، وأحمد (١٨٤٠٢) واللفظ له)
اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں تہجد کی نماز کب پڑھی؟ اور اگر یہ تہجد ہے تو تراویح کب پڑھی گئی؟ جواب دلیل کے ساتھ ہونا چاہیے،
(د) سلف صالحین آٹھ رکعات میں سورہ بقرہ پڑھتے ہیں اور اگر کوئی امام بارہ رکعات میں سورہ بقرہ پڑھائے تو اس کو تخفیف سمجھتے ہیں جیسا کہ موطا مالک کی ایک روایت میں ہے سوال یہ ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تراویح میں اتنے طول طویل قیام کے بعد تہجد بھی پڑھی جا سکتی ہے؟ خاص طور پر گرمی کی چھوٹی راتوں میں؟ کیا یہ امت کو مشقت میں ڈالنا نہیں ہے؟ جو شریعت بالکل نہیں چاہتی، مجھے لگتا ہے لوگ سلف صالحین کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہیں کہ وہ بھی تراویح میں انہیں کی طرح قرأت " يعلمون، تعلمون" کرتے ہوں گے؟
(5) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر سے پہلے آرام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نیند آ جاتی تھی اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ وتر پڑھے بغیر سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ نے جواب دیا میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں،
(6) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی گہری نیند کو ناقض وضوء سمجھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شبہ کا جواب یہ دیا کہ میری صرف آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں (اس لئے اگر وضوء توٹے گا بھی تو فوراً دل کو اس کا احساس ہو جائے گا).
(7) گہری نیند میں بھی دل کا بیدار رہنا یہ تو انبیاء کی خصوصیات میں سے ہے، لیکن اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ اگر کسی کی نیند گہری نا ہو کہ حواس گم ہو جائیں بلکہ جسم سے ہوا کے خروج کا علم ہونے کا امکان ہو تو ایسی نیند نواقض وضوء میں سے نہیں ہے