- شمولیت
- مارچ 17، 2015
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 36
*تحریر: محمد بن صالح العثيمين*
*ترجمانی: فضیل احمد ظفر*
*سوال(١)* : عبادت اور اطاعت کا موسم رمضان المبارک کی آمد کے مناسبت سے آپ برائے مہربانی کچھ باتیں مسلمانوں کے گوش گزار کریں نیز مسلمانوں کو اپنے اندر کن کن چیزوں کو پیدا کرنا چاہیے ؟
*جواب* : جو باتیں میں مسلمانوں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ مہینہ تین بڑی عبادتوں پر مشتمل ہے اور وہ ہے زکات، روزہ اور قیام
اکثر لوگ اپنی زکات اسی ماہ میں ادا کرتے ہیں اور انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زکات پوری امانت داری کے ساتھ ادا کرے
اور اسے یہ احساس ہو کہ یہ ایک عبادت ہے اور اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالٰی کا تقرب حاصل کر رہا ہے اور وہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن کو ادا کر رہا ہے اور یہ کوئی قرض نہیں جس کا تصور شیطان انسان کو کراتا ہے
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ (البقرة:268)
"شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے"
بلکہ یہ زکات ایک طرح کا مال غنیمت ہے جس کے متعلق اللہ رب العالمین نے فرمایا :
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِئَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيم (البقرة: 261)
"ان لوگوں کی مثال جو اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس ایک دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اللہ جس کے لیے چاہتا ہے کئی گنا کر دیتا ہے اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے"
نیز اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة: 265)
"ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ کی سی ہے جو اونچی زمین پر ہو جس پر زوردار بارش ہو اور وہ اپنا پھل دو گنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تعالٰی تمہارے کام دیکھ رہا ہے"
انسان پر ضروری ہے کہ وہ ہر اس تھوڑے اور زیادہ مال سے زکات نکالے جس میں زکات واجب ہے اور اپنے نفس کا وہ بارک بینی کے ساتھ محاسبہ کرے کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جس میں زکات واجب تھی بلکہ وہ اس کی زکات نکالے تاکہ اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکے اور اپنے نفس کو اس سخت ترین وعید سے چھٹکارا دلا سکے جس کے متعلق اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (آل عمران: 180)
"جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ وہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے عنقریب قیامت والے دن وہ اپنے کنجوسی کا طوق پہنائے جائیں گے اور جو تم لوگ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے"
نیز اللہ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ○ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (التوبة: 34_35)
"اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں تو آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنادیں جس دن اس خزانے کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پشت داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا تو اپنے خزانے کا مزہ چکھو"
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: "مَن آتاه اللهُ مالًا ، فلم يَؤَدِّ زكاتَه ، مُثِّلَ له يومَ القيامةِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ ، له زَبِيبَتان ، يٌطَوَّقُه يومَ القيامةِ ، ثم يَأْخُذُ بلِهْزِمَتَيْه ؛ يعني: شَدْقَيْه . ثم يقولُ : أنا مالُك ، أنا كَنْزُك" (البخاري: 1403 ومسلم: 988)
"جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اور اس نے اس کی زکات نہیں ادا کی تو وہ قیامت کے دن گنجا سانپ کی شکل اختیار کر لے گا اس کی آنکھ پر دو سیاہ نقطے ہوں گے قیامت کے دن اس کا طوق اسے پہنایا جائے گا پھر وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا میں تمہارا مال ہوں میں تمہارا خزانہ ہوں"
اور دوسری آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "ما مِن صاحبِ ذهَبٍ ولا فِضَّةٍ ،
لايؤدي منها حقَّها ، إلَّا إذا كان يومُ القيامةِ ، صُفِّحَتْ له صَفائحُ مِن نارٍ ، فأُحْمِيَ عليها في نارِ جهنَّمَ . فيُكوى بها جَنْبُه وجبينُه وظَهْرُه . كلَّما برَدَتْ أُعيدَتْ له . في يومٍ كان مِقدارُه خمسين ألفَ سنةٍ . حتَّى يُقْضى بينَ العِبادِ . فيرى سبيلَه . إمَّا إلى الجنَّةِ وإمَّا إلى النَّارِ" (مسلم: 987)
" جو سونے چاندی والا اس میں اس کا حق ادا نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی چٹانیں بنائی جائیں گی اور ان کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا اور ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو ان کو دوبارہ گرم کیا جائے گا اس دن برابر یہ عمل اس کے ساتھ کیا جائے گا جس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا"
بہر کیف انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زکات اس کے مستحقین تک پہنچائے اور اس کو کسی ایسی عادت کے طور پر نہ دے جس کا انسان خوگر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے کسی ایسے تاوان کی ادائیگی نہ کرے جو اس پر واجب تھا اور نہ ہی اس کے ذریعے سے کسی ایسے حقوق کو پورا کرے جو کہ غیر زکات میں واجب تھا تاکہ اس کی زکات اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔
دوسری چیز جس کو مسلمان اس ماہ میں سر انجام دیتے ہیں وہ ہے رمضان کا روزہ جو کہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،
روزے کے فائدے کو اللہ رب العزت نے اس طرح بیان فرمایا :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" (البقرة: 183)
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی شعار بن جاؤ"
روزے کا حقیقی فائدہ اللہ سے ڈرتے رہنا ہے اس کے احکام کی بجا آوری کر کے اور اس کے منہیات سے اجتناب کر کے، اسی لیے انسان کو طہارت و نماز وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے جسے اللہ رب العالمین نے اس پر واجب قرار دیا ہے اور جھوٹ، غیبت، دھوکہ دہی اور واجبات میں کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہیے جسے اللہ رب العزت نے اس پر حرام قرار دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "من لمْ يَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ بِهِ ، فليسَ للهِ حاجَةٌ في أنِ يَدَعَ طعَامَهُ وشرَابَهُ" (البخاري: 1903)
" اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے"
افسوس ترین بات یہ ہے بہت سارے لوگ اس ماہ میں روزہ تو رکھتے ہیں لیکن آپ ان کے روزے کے ایام میں اور افطار کے ایام میں کوئی فرق نہیں پائیں گے، بلکہ آپ یہ پائیں گے کہ وہ واجبات میں کوتاہی اور محرمات کے ارتکاب میں برابر لگے ہوئے ہیں اور یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے، عقلمند مومن تو وہ ہے جس کے روزے کے ایام اور افطار کے ایام یکساں نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے روزے کے ایام میں اللہ سے اور زیادہ ڈرنے والا بن جاتا ہے اور اس کی اور زیادہ اطاعت کرتا ہے،
تیسری چیز جو ہے وہ قیام اللیل، رمضان المبارک کا قیام اللیل جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابھارا ہے آپ نے فرمایا : "من قام رمضانَ ، إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه" (البخاري: 37 ومسلم: 10)
"جو رمضان میں قیام کرے گا ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے"
اور رمضان کا قیام مشتمل ہے رات میں نفلی نمازوں پر اور تراویح کی نماز پر جو کہ بلاشبہ رمضان کے قیام میں سے ہے اسی لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کی طوف توجہ دے، اس کی حفاظت کرے اور امام کے ساتھ قیام کرنے کی کوشش کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "من قامَ معَ الإمامِ حتَّى ينصرِفَ كُتِبَ لَه قيامُ ليلةٍ" (ترمذي: 806، ابن خزيمة: 2210، ابن حبان: 2547)
"جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا"
ان ائمہ پر واجب ہے جو لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں کہ وہ اللہ سے ڈریں ان لوگوں کے سلسلے میں جن پر اللہ نے انہیں امام بنایا ہے وہ تراویح کی نماز اطمینان و غور و خوض کے ساتھ پڑھائیں تاکہ مقتدی بھی واجبات اور مستحبات کو ادا کر سکیں ۔
لیکن آج بہت سارے لوگ تراویح کی نماز میں اتنی جلدبازی سے کام لیتے ہیں کہ جو اطمینان میں مخل ہوتی ہے (حالانکہ اطمینان نماز کے ارکان مین سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ہے) اور یہ چیز ان پر دو وجہ سے حرام ہے۔
پہلی وجہ یہ کہ وہ اطمینان کو ترک کرتے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ وہ اطمینان کو نہیں چھوڑتے ہیں لیکن وہ مقتدیوں کو تھکانے کا اور ان کو واجبات کی ادائیگی سے روکنے کا سبب تو بنتے ہیں، اسی لیے وہ انسان جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے وہ اس انسان کی طرح نہیں ہوتا جو خود کے لیے نماز پڑھتا ہے، بہرکیف امام پر لوگوں کی رعایت کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کی امانت کو لوٹا سکے اور نماز کو پسندیدہ طریقے پر قائم کر سکے، بعض علماء نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ امام کے لیے ایسی جلد بازی مکروہ ہے جو مقتدیوں کو ایک مسنون فعل سے روک دے تو اس کے لیے ایسی جلد بازی کیسے روا و جائز ہو سکتی ہے جو مقتدیوں کو ایک واجب فعل سے روک دے؟
اہم بات یہ کہ وہ نصیحت جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے وہ سب سے پہلے میرے لیے ہے پھر میرے مسلم بھائیوں کے لیے ہے۔
*ترجمانی: فضیل احمد ظفر*
*سوال(١)* : عبادت اور اطاعت کا موسم رمضان المبارک کی آمد کے مناسبت سے آپ برائے مہربانی کچھ باتیں مسلمانوں کے گوش گزار کریں نیز مسلمانوں کو اپنے اندر کن کن چیزوں کو پیدا کرنا چاہیے ؟
*جواب* : جو باتیں میں مسلمانوں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ مہینہ تین بڑی عبادتوں پر مشتمل ہے اور وہ ہے زکات، روزہ اور قیام
اکثر لوگ اپنی زکات اسی ماہ میں ادا کرتے ہیں اور انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زکات پوری امانت داری کے ساتھ ادا کرے
اور اسے یہ احساس ہو کہ یہ ایک عبادت ہے اور اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالٰی کا تقرب حاصل کر رہا ہے اور وہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن کو ادا کر رہا ہے اور یہ کوئی قرض نہیں جس کا تصور شیطان انسان کو کراتا ہے
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ (البقرة:268)
"شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے"
بلکہ یہ زکات ایک طرح کا مال غنیمت ہے جس کے متعلق اللہ رب العالمین نے فرمایا :
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِئَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيم (البقرة: 261)
"ان لوگوں کی مثال جو اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس ایک دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اللہ جس کے لیے چاہتا ہے کئی گنا کر دیتا ہے اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے"
نیز اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة: 265)
"ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ کی سی ہے جو اونچی زمین پر ہو جس پر زوردار بارش ہو اور وہ اپنا پھل دو گنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تعالٰی تمہارے کام دیکھ رہا ہے"
انسان پر ضروری ہے کہ وہ ہر اس تھوڑے اور زیادہ مال سے زکات نکالے جس میں زکات واجب ہے اور اپنے نفس کا وہ بارک بینی کے ساتھ محاسبہ کرے کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جس میں زکات واجب تھی بلکہ وہ اس کی زکات نکالے تاکہ اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکے اور اپنے نفس کو اس سخت ترین وعید سے چھٹکارا دلا سکے جس کے متعلق اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (آل عمران: 180)
"جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ وہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے عنقریب قیامت والے دن وہ اپنے کنجوسی کا طوق پہنائے جائیں گے اور جو تم لوگ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے"
نیز اللہ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ○ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (التوبة: 34_35)
"اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں تو آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنادیں جس دن اس خزانے کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پشت داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا تو اپنے خزانے کا مزہ چکھو"
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: "مَن آتاه اللهُ مالًا ، فلم يَؤَدِّ زكاتَه ، مُثِّلَ له يومَ القيامةِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ ، له زَبِيبَتان ، يٌطَوَّقُه يومَ القيامةِ ، ثم يَأْخُذُ بلِهْزِمَتَيْه ؛ يعني: شَدْقَيْه . ثم يقولُ : أنا مالُك ، أنا كَنْزُك" (البخاري: 1403 ومسلم: 988)
"جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اور اس نے اس کی زکات نہیں ادا کی تو وہ قیامت کے دن گنجا سانپ کی شکل اختیار کر لے گا اس کی آنکھ پر دو سیاہ نقطے ہوں گے قیامت کے دن اس کا طوق اسے پہنایا جائے گا پھر وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا میں تمہارا مال ہوں میں تمہارا خزانہ ہوں"
اور دوسری آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "ما مِن صاحبِ ذهَبٍ ولا فِضَّةٍ ،
لايؤدي منها حقَّها ، إلَّا إذا كان يومُ القيامةِ ، صُفِّحَتْ له صَفائحُ مِن نارٍ ، فأُحْمِيَ عليها في نارِ جهنَّمَ . فيُكوى بها جَنْبُه وجبينُه وظَهْرُه . كلَّما برَدَتْ أُعيدَتْ له . في يومٍ كان مِقدارُه خمسين ألفَ سنةٍ . حتَّى يُقْضى بينَ العِبادِ . فيرى سبيلَه . إمَّا إلى الجنَّةِ وإمَّا إلى النَّارِ" (مسلم: 987)
" جو سونے چاندی والا اس میں اس کا حق ادا نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی چٹانیں بنائی جائیں گی اور ان کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا اور ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو ان کو دوبارہ گرم کیا جائے گا اس دن برابر یہ عمل اس کے ساتھ کیا جائے گا جس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا"
بہر کیف انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زکات اس کے مستحقین تک پہنچائے اور اس کو کسی ایسی عادت کے طور پر نہ دے جس کا انسان خوگر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے کسی ایسے تاوان کی ادائیگی نہ کرے جو اس پر واجب تھا اور نہ ہی اس کے ذریعے سے کسی ایسے حقوق کو پورا کرے جو کہ غیر زکات میں واجب تھا تاکہ اس کی زکات اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔
دوسری چیز جس کو مسلمان اس ماہ میں سر انجام دیتے ہیں وہ ہے رمضان کا روزہ جو کہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،
روزے کے فائدے کو اللہ رب العزت نے اس طرح بیان فرمایا :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" (البقرة: 183)
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی شعار بن جاؤ"
روزے کا حقیقی فائدہ اللہ سے ڈرتے رہنا ہے اس کے احکام کی بجا آوری کر کے اور اس کے منہیات سے اجتناب کر کے، اسی لیے انسان کو طہارت و نماز وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے جسے اللہ رب العالمین نے اس پر واجب قرار دیا ہے اور جھوٹ، غیبت، دھوکہ دہی اور واجبات میں کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہیے جسے اللہ رب العزت نے اس پر حرام قرار دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "من لمْ يَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ بِهِ ، فليسَ للهِ حاجَةٌ في أنِ يَدَعَ طعَامَهُ وشرَابَهُ" (البخاري: 1903)
" اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے"
افسوس ترین بات یہ ہے بہت سارے لوگ اس ماہ میں روزہ تو رکھتے ہیں لیکن آپ ان کے روزے کے ایام میں اور افطار کے ایام میں کوئی فرق نہیں پائیں گے، بلکہ آپ یہ پائیں گے کہ وہ واجبات میں کوتاہی اور محرمات کے ارتکاب میں برابر لگے ہوئے ہیں اور یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے، عقلمند مومن تو وہ ہے جس کے روزے کے ایام اور افطار کے ایام یکساں نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے روزے کے ایام میں اللہ سے اور زیادہ ڈرنے والا بن جاتا ہے اور اس کی اور زیادہ اطاعت کرتا ہے،
تیسری چیز جو ہے وہ قیام اللیل، رمضان المبارک کا قیام اللیل جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابھارا ہے آپ نے فرمایا : "من قام رمضانَ ، إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه" (البخاري: 37 ومسلم: 10)
"جو رمضان میں قیام کرے گا ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے"
اور رمضان کا قیام مشتمل ہے رات میں نفلی نمازوں پر اور تراویح کی نماز پر جو کہ بلاشبہ رمضان کے قیام میں سے ہے اسی لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کی طوف توجہ دے، اس کی حفاظت کرے اور امام کے ساتھ قیام کرنے کی کوشش کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "من قامَ معَ الإمامِ حتَّى ينصرِفَ كُتِبَ لَه قيامُ ليلةٍ" (ترمذي: 806، ابن خزيمة: 2210، ابن حبان: 2547)
"جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا"
ان ائمہ پر واجب ہے جو لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں کہ وہ اللہ سے ڈریں ان لوگوں کے سلسلے میں جن پر اللہ نے انہیں امام بنایا ہے وہ تراویح کی نماز اطمینان و غور و خوض کے ساتھ پڑھائیں تاکہ مقتدی بھی واجبات اور مستحبات کو ادا کر سکیں ۔
لیکن آج بہت سارے لوگ تراویح کی نماز میں اتنی جلدبازی سے کام لیتے ہیں کہ جو اطمینان میں مخل ہوتی ہے (حالانکہ اطمینان نماز کے ارکان مین سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ہے) اور یہ چیز ان پر دو وجہ سے حرام ہے۔
پہلی وجہ یہ کہ وہ اطمینان کو ترک کرتے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ وہ اطمینان کو نہیں چھوڑتے ہیں لیکن وہ مقتدیوں کو تھکانے کا اور ان کو واجبات کی ادائیگی سے روکنے کا سبب تو بنتے ہیں، اسی لیے وہ انسان جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے وہ اس انسان کی طرح نہیں ہوتا جو خود کے لیے نماز پڑھتا ہے، بہرکیف امام پر لوگوں کی رعایت کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کی امانت کو لوٹا سکے اور نماز کو پسندیدہ طریقے پر قائم کر سکے، بعض علماء نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ امام کے لیے ایسی جلد بازی مکروہ ہے جو مقتدیوں کو ایک مسنون فعل سے روک دے تو اس کے لیے ایسی جلد بازی کیسے روا و جائز ہو سکتی ہے جو مقتدیوں کو ایک واجب فعل سے روک دے؟
اہم بات یہ کہ وہ نصیحت جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے وہ سب سے پہلے میرے لیے ہے پھر میرے مسلم بھائیوں کے لیے ہے۔