چند ضروری باتیں
ہر انسان فطری طور پر یہ بات چاہتا ہے کہ اس کو کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوجائے ۔اس کے لئے وہ طرح طرح کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ایک تاجر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کو ایسامال تجارت ہاتھ لگے جس میں کم سے کم وقت اورسرمایہ میں زیادہ نفع حاصل ہوجائے ۔اسی طرح ایک کسان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی چیز کاشت کرے جس میں محنت و مشقت تو کم ہو مگر پیداوار زیادہ ہواور بازار میں اس کی قیمت زیادہ لگے۔
یہ تو ہے دنیا کے عارضی فائدے کا معاملہ، اسی طرح ایک مسلمان بھی اسی فطری تقاضے کی بنا پر ایسے نیک اعمال کو اختیار کرتاہے جس میں اس کو زیادہ سے زیادہ اخروی درجات ملنے کی امید ہو۔خاص کر ایسے اوقات میں جبکہ اللہ رب العزت کی جانب سے نیک اعمال کی طرف راغب ہونے پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہو۔چنانچہ اسی فطری تقاضے کے تحت مسلمانوں کے لئے مختلف فرائض و نفلی امور کی ادائیگی پرمختلف اجرو ثواب کو قرآن و حدیث میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ان میں نیکیوں میں رغبت اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو۔
چنانچہ رمضان المبارک کا مہینہ ایسے اوقات میں سب سے بہترین وقت ہے جب اللہ رب العزت کی رحمت موسلادھار بارش کی مانند برستی ہے۔ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر ،اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابرکردیا جاتاہے ۔
ایک بات اس ضمن میں پیش نظر رہے کہ فرائض اور نفلی امورکے درمیان تقدیم و تاخیر کا جومعیار شریعت نے مقرر کیا ہے اس کا لحاظ رکھنابھی واجب ہے۔فرائض ہمیشہ نفلی امور پر مقدم رہتے ہیں یعنی ان کو ہمیشہ نفلی امور سے پہلے ادا کیا جاتاہے۔
لیکن چونکہ انسان کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا شکار بھی جلد ہوجاتا ہے لہذا وہ شریعت کے عائد کردہ فرائض واجبات (جیساکہ نماز باجماعت اور جہاد دفی سبیل اللہ کہ ) جن میں انسان کو کچھ مشقت اور تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں ، ان کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاص کر وہ نفلی امور جن میں فرائض کے مقابلے میں کم مشقت لگتی ہو اور وہ آسانی سے ادا ہوجاتے ہوں، ان کی طرف التفات کرتا ہے اور ان نفلی امور کے بارے میں وارد شدہ اجر وثواب کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھتا ہے۔
جبکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اگر انسان سب سے پہلے فرائض کو اداکرنے والا ہو تو اس کی ادائیگی پر وارداجرو ثواب کا تو وہ مستحق ٹھہرتا ہی ہے ،مگر وہ نفلی امور جن کی ادائیگی وہ نہ کرسکا ،اس کے باوجود صرف ان کی ادائیگی کی نیت پر ہی اس کو وہ اجرو ثواب مل جائے گا۔لیکن اگر وہ صرف نفلی امور اداکرتا رہے اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتے اورنفلی امورپر بیان کئے گئے ثواب کو اپنے لئے کافی سمجھے تو نفلی امور پر جو اجر وثواب ہے اس سے تو کوئی انکاری نہیں مگراندیشہ اس بات کا ہے کہ فرائض کی ادائیگی پر جو عتاب اور وعیدیں نازل ہوئی ہیں وہ ان اجروثواب کو ضائع کرنے کا باعث بن جائیں گی۔
چنانچہ اعمال میں شریعت کی طرف سے مقررکردہ تقدیم و تاخیر کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم ایسے اعمال کو جاننے کی کوشش کریں جن میں ’’
عمل تھوڑا اور اجرزیادہ ‘‘ہواور حقیقت یہ ہے کہ چاہے فرائض ہوں یا نفلی امور ،کم سے کم وقت میں جو اجرو ثواب جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے بیان کئے گئے ہیں، وہ شاید ہی کسی اور فرض یا نفلی امور کے لئے بیان کئے گئے ہوں۔
جن فرائض اور نفلی امور پر بڑے بڑے اجرو ثواب بیان بھی کئے گئے ہیں اگر وہ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران کئے جائیں تو ان کو مزید چارچاند لگ جاتے ہیں ۔
توگویا ’’عمل تھوڑا اور اجر زیادہ ‘‘ کا سب سے بڑا ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ ہے،جس کے دوران کئے جانے والے کسی بھی نیک عمل کے اجروثواب کے مقابل کوئی عمل نہیں۔پھرنیک اعمال جہاد کے دوران رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں کئے جائیں تو اس کا اجروثواب کا کیا ہی کہنا ،بس جس کو یہ چیزیں نصیب ہوجائیں تو اس کے بارے میں تو یہی کہاجاسکتا ہے کہ:
﴿وَمَا یُلَقَّآھَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ (سورة حمٓ السجدة:۳۵)
’’یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوںکو جو بڑے نصیبوں والے ہیں‘‘۔
بشرطیکہ نیت اور مقصوداللہ کی رضاجوئی کے سوا اورکچھ نہ ہو۔
((عَنْ أَبِی أُمَامَةَ الْبَاھِلِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَیْتَ رَجُلًا غَزَا یَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَیْئ َ لَہُ فَأَعَادَھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ یَقُولُ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَیْئَ لَہُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ اِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْھُہُ)) (سنن النسائی ج۱۰ص۲۰۴رقم۳۰۸۹)
’’سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ آپ ﷺکیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو جہاد میں اجر کی بھی نیت رکھتا ہے اور اس بات کی بھی کہ لوگوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے ،ایسے شخص کو کیا ملے گا ؟رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :ایسے شخص کے لئے کچھ بھی نہیں ۔اس شخص نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا اور ہر بار رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :اس کے لئے کچھ بھی اجر نہیں ۔پھر آپ ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ صرف ایسے خالص عمل کو قبول فرماتاہے جو محض اس کی رضاجوئی کے لئے کیا جائے‘‘۔