israrulhaq
رکن
- شمولیت
- مئی 31، 2011
- پیغامات
- 11
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 32
بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں مع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی. یہ قطعاً باطل خیال ہے۔ رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی، ساری عمر کی نہیں۔
فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے: جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں اسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ( مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں ) ترمذی ، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
حدثنا محمد بن کثير أخبرنا همام عن قتادة عن أنس بن مالک أن النبي صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 439
محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
اسی صحیح مسلم میں ہے ۔
حدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک قال قتادة وأقم الصلاة لذکري
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1560
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔
حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لاتقوم مقام فائتۃ سنوات
الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ حدیث ۹۵۳ مطبوعہ دارالکتب العربیۃ بیروت ص ۲۴۲)
علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں: حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی
امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
قبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔
شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰)
قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے اداہوگئیں۔ یہ محض باطل ہے۔
بہار شریعت 'حصہ4
آپ کی دعاؤں کا طلب گار: اسرارالحق
فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے: جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے اسے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں اسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ( مذکورہ الفاظ بھی اس کے ہیں ) ترمذی ، نسائی اور دیگر محدثین نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔
حدثنا محمد بن کثير أخبرنا همام عن قتادة عن أنس بن مالک أن النبي صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 439
محمد بن کثیر، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کوئی نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب یاد آئے اس کو پڑھ لے اور اس پر سوائے قضا کے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
اسی صحیح مسلم میں ہے ۔
حدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها لا کفارة لها إلا ذلک قال قتادة وأقم الصلاة لذکري
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1560
ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔
حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیأ من العبادات لاتقوم مقام فائتۃ سنوات
الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ حدیث ۹۵۳ مطبوعہ دارالکتب العربیۃ بیروت ص ۲۴۲)
علامہ قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعات کبیر میں کہتے ہیں: حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی
امام ابن حجر کی تحفہ شرح منہاج للامام النووی میں پھر علامہ زرقانی شرح مواہب امام قسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
قبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفی
اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔
شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ واما حفیظۃ رمضان دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۱۱۰)
قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے اداہوگئیں۔ یہ محض باطل ہے۔
بہار شریعت 'حصہ4
آپ کی دعاؤں کا طلب گار: اسرارالحق