• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کا آخري عشرہ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

رمضان کا آخري عشرہ



ديني بھائيو ! اس وقت ہم رمضان المبارک کے آخري عشرہ ميں پہنچ چکے ہيں ، يہ بہت ہي مبارک عشرہ ہے اسي عشرہ ميں ليلةالقدر ہے جو اجر و ثواب ميں ہزار راتوں سے بہتر اور افضل ہے ، اسي عشرہ ميں قرآن مجيد جيسي کتاب نازل ہوئي ہے ، اسي عشرہ ميں روزہ رکھنے والوں اور تراويح پڑھنے والوں کي مغفرت کردي جاتي ہے ، يہي عشرہ پورے مہينہ کا خلاصہ ہے ،
يہي وجہ ہيکہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم اس عشرہ کو خصوصي اہميت ديتے اور بعض وہ اعمال ادا فرماتے جنہيں اس مبارک مہينہ کے دوسرے عشرہ ميں نہيں کرتے تھے ، جيسے :

( 1 ) شب بيداري اور تقريبا پوري رات قيام : حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا بيان کرتي ہيں کہ جب رمضان المبارک کا آخري عشرہ شروع ہوتا تو اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم عبادت کيلئے اپني کمر کس ليتے ، شب بيداري کرتے اور اپنے اہل وعيال کو بھي بيدار رکھتے ۔

( صحيح البخاري : 2024 / صحيح مسلم : )

ايک اور حديث ميں مائي عائشہ کا فرمان ہيکہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم آخري عشرہ ميں عبادت ميں وہ مجاھدہ کرتے اور مشقت سے کام ليتے جو دوسرے عشروں ميں نہ کرتے ۔

( صحيح مسلم : 1172 ، الصوم )

اس سے واضح ہوتا ہيکہ رمضان کے باقي دو عشروں ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم رات کا قيام بھي فرماتے اور آرام بھي فرماتے ليکن جب يہ عشرہ داخل ہوجاتا تو رات ميں بالکل ہي نہ سوتے جيسا کہ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے مروي بعض حديثوں ميں اسکا ذکر ہے ، ديکھئے : مسند احمد : 6 / 146 ۔

( 2 ) اہل و عيال کو بيدار رکھتے : آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا معمول تھا کہ آخري عشرہ ميں جہاں آپ اپنے طور پر عبادت و رياضت ميں مشغول رہے اور ذکر و تلاوت قرآن کا اہتمام فرماتے ، وہيں اپنے اہل و عيال کو بھي اس مقصد کيلئے بيدار رکھتے ، حضرت علي رضي اللہ عنہ کا بيان ہيکہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخري عشرہ ميں اپنے اہل و عيال کو بھي بيدار رکھتے ۔

[ سنن الترمذي : 795 ، الصوم / ابو يعلي : 1/282 ]

بلکہ بعض روايات ميں ہے کہ ہر چھوٹا بڑا جو نماز اور بيداري کي طاقت رکھتا اسے آپ شب بيداري کا حکم ديتے ۔

[ طبراني کبير ، المجمع : 3/174 ]

حضرت سفيان ثوري رحمہ اللہ کہتے ہيکہ رمضان کے آخري عشر ميں مجھے يہ پسنديدہ ہيکہ بندہ رات بھر نماز و عبادت ميں گزارے ، اپنے اہل و عيال کو بھي بيدار رکھے اور جو بچے نماز کي طاقت رکھتے ہيں انہيں نماز کا حکم دے

(لطائف المعارف )

کاشکہ آج کا مسلمان اس سنت نبوي پر عمل کرتا کہ خود بھي آخري عشرہ ميں جد و اجتہاد سے کام ليتا اور اپنے اہل و عيال کو بھي اسکي تر غيب ديتا تاکہ اس حکم الہي پر عمل ہوسکے کہ :
يا يہا الذِين آمنوا قوا نفسم واہلِيم نارا وقودہا الناس والحِجار ة ۔۔۔۔۔ مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عيال کو آتش (جہنم) سے بچا و جس کا ايندھن آدمي اور پتھر ہيں

( 3 ) اپني کمر کس ليتے : جيسا کہ گزشتہ روايت ميں حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے مروي ہے ، البتہ اس عبارت کا دو مفہوم علما نے بيان کيا ہے ، ايک معني يہ کہ آپ اپني بيويوں سے دور رہتے اور انکے ساتھ شب باشي نہ فرماتے ، دوسرا معني کمر کسنے کا يہ ليا گيا ہيکہ آپ نماز ، تلاوت قرآن ، ذکر و دعا اور توبہ و استغفار ميں پورے انہماک سے لگے رہتے ، يہي معني زيادہ قريب معلوم ہوتا ہے کيونکہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم اس عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے اور حالت اعتکاف ميں ويسے بھي بندہ اپني بيوي کے قريب نہيں جاسکتا اسلئے اسکے ذکر کي ضرورت نہيں تھي ، چنانچہ ايک اور حديث ميں حضرت عائشہ بيان فرماتي ہيں کہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم آخري عشرہ ميں عبادت ميں لگن سے کام ليتے جو دوسرے عشروں ميں نہيں کرتے تھے ۔

( صحيح مسلم : 1175 ، الصوم )

افسوس کہ ہمارا طريقہ اس اسوہ نبوي سے کس قدر مختلف ہيکہ ہم ابتدائي رمضان ميں تو کافي نشاط دکھائي ديتے ہيں اور جب يہ مبارک عشرہ آتا ہے تو ہماري ساري کوششيں سرد پڑ جاتي ہيں ۔

( 4 ) افطار کو سحري تک موخر کر ديتے : اس مبارک عشر ميں نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم مختلف قسم کي عبادت ميں اس قدر مشغول رہتے کہ غروب آفتاب پر افطاري کي بھي پرواہ نہ کرتے ، بلکہ رات ميں صرف ايک وقت کھانے يعني سحري پر
اکتفا کرتے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا بيان کرتي ہيں کہ جب رمضان شروع ہوتا تھا تو اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم رات ميں قيام بھي کرتے اور کچھ وقت سوتے بھي تھے پھر جب آخري عشرہ آجاتا تو کمر کس ليتے ، عورتوں سے کنارہ کش ہوجاتے (اعتکاف فرماتے )اور دونوں اذانوں (مغرب و عشا ) کے درميان غسل فرماتے اور اپنا شام کا کھانا سحري تک موخر کرديتے ، [ حافظ ابن حجر بيان کرتے ہيں کہ ابن ابي عاصم نے اس حديث کو روايت کيا ہے اور اسکي سند قابل قبول ہے ، نيز اسکي تائيد دو ضعيف حديثوں سے بھي ہوتي ہے ايک حضرت انس بن مالک کي اور دوسري حضرت جابر بن عبد اللہ ديکھئے : (لطائف المعارف : 343 )
شرعي اصطلاح ميں اسے صوم و صال کہا جاتا ہے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي خصوصيات ميں صوم و صال داخل ہے ۔

( 5 ) مغرب و عشا کے درميان غسل : چونکہ ان راتوں ميں اللہ تعالي کي خصوصي رحمتوں کا نزول ہوتا ہے خاصکر شب قدر ميں تو فرشتے بھي نازل ہوتے ہيں اسلئے اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم اس عشرہ کي ہر شب کو غسل فرماتے تھے جيسا کہ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا کي ما سبق حديث ميں اسکا ذکر آچکا ہے ، نيز اسکي تائيد بعض دوسري روايتوں سے بھي ہوتي ہے ، ديکھئے لطائف المعارف ، ص : 346 ، چنانچہ امام ابن جرير الطبري رحمہ اللہ بيان کرتے ہيں کہ سلف امت رمضان کے آخري عشرہ کي ہر شب کو غسل کرنا مستحب سمجھتے تھے ، امام ابراہيم نخعي کے بارے ميں آتا ہيکہ وہ اس عشرہ کي ہر شب کو غسل فرماتے

(لطائف المعارف : 346 )

( 6) نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم اس مبارک عشرہ کے اعتکاف کا خصوصي اہتمام فرماتے تھے ، حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا کا بيان ہيکہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم اپني عمر کے آخري دور تک رمضان المبارک کے آخري عشرہ کا اہتمام کرتے تھے ۔

(صحيح البخاري : 2026 ، الاعتکاف / صحيح مسلم : 1153 ، الصوم )

اور جس سال آپ کي وفات ہوئي اس سال آپ نے اس آخري عشرہ اور اس سے قبل کے يعني درمياني عشرہ کا بھي اعتکاف کيا [ صحيح البخاري : 2044 ، الاعتکاف ، بروايت ابو ہريرہ ] بلکہ اس امر کياہتمام کا يہ عالم تھا کہ ايک سال کسي عذر کي بنا پر آپ رمضان کے آخري عشرہ کا اعتکاف نہ کرسکے تو اس سال شوال ميں دس دن کا اعتکاف فرمايا ۔

( صحيح البخاري : 2033 ، الاعتکاف ، بروايت عائشہ )

اعتکاف کي حقيقت يہ ہيکہ بندہ ہر طرف سييکسو اور سب سے منقطع ہوکربس اللہ سے لو لگا کے اسکے درپہ ( يعني کسي مسجد کے کونہ ميں ) پڑ جائے اور سب سے الگ اسکي عبادت اور اسي کے ذکر و فکر ميں مشغول رہے ، اس عبادت کيلئے بہترين وقت رمضان المبارک اور خاصکر اسکا آخري عشرہ ہي ہوسکتا تھا اس لئے اس کو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے انتخاب کيا ۔
آج يہ سنت کم سے کم تر ہوتي جارہي ہے، اس سنت پر عمل کرنے والے لوگ اٹھتے جارہے ہيں اب اہل علم او ر علماء و حفاظ کي جماعت بھي اس سنت سے بے زار نظر آرہي ہے ، بلکہ اب تو ، اہل علم حضرات جنہيں لوگوں کيلئے پيش رو ہونا چاہئے وہ اس سنت پر لوگوں پر ترغيب بھي دنيا چھوڑ دے رہے ہيں ، اللہ تعالي سے دعا ہيکہ وہ مسلمانوں کو سنت نبوي کا پابند بنائے ۔

( آمين )
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
آخری عشرہ میں مغرب کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل والی روایت کیا درست ھے؟ یا قابل عمل ھے؟
آنلائن موجود کوئی صاحب راہنمائی فرما دیں
 
Top