توحید کی ضد شرک ہے اور اس کی کچھ اقسام یہ ہیں:
شرک اکبر
شرک اکبر کی چار بڑی قسمیں ہیں :
(۱) دعا میں شرک:
مشرکین مکہ کا شرک اللہ تعالیٰ یوں بیان کرتا ہے:
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ (العنکبوت 29/65)
’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں ۔تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے ‘ پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔‘‘
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَائِھِمْ غَافِلُوْنَ (الا حقاف 46/5)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے اور وہ ان کے پکارنے ہی سے غافل ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ان الدعاء ھو العبادہ‘‘۔
’’بے شک دعا ہی عبادت ہے ‘‘ (ترمذی ۔الدعوات باب الدعا مخ العبادۃ 3372)
انبیاء اور اولیاء اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور مصیبتوں کو دور کرتے ہیں ۔پھر مشکلات سے نجات پانے کے لیے ان سے دعا کرنا یعنی انہیں پکارنا شرک اکبر ہے۔جیسے جب لوگ کسی مصیبت یا تکلیف میں ہوتے ہیں تو ادرکنی یا رسول اللہ،یا رسول اللہ مدد ، اور یا علی مدد کہتے ہیں۔
(۲)نیت اور ارادہ میں شرک:
جس شخص کے اعمال کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے بلکہ اس کے سارے اعمال اس لیے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے کسی اور کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے یا دنیا کی زندگی کی زینت اس کا اصلی مقصود ہے تو یہ نیت اور ارادہ کا شرک ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ إِلَیْھِمْ أَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ * أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْآخِرَۃِ إلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبَاطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (ھود 11/16.15)
’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چا ہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہو گا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔‘‘
(۳)اطاعت میں شرک:
حرام اور حلال مقرر کرنے کا اختیا ر صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اگر کوئی شخص اپنے پیشوائوں حکمرانوں یا ججوں کو یہ حق دے کہ وہ اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے سکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں شرک کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوْا اِلٰھاً وَاحِداً (التوبہ 9/31)
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنا لیا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا ۔‘‘
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ان علماء نے جس کو حلال قرار دیا اس کو تم نے حلال سمجھا اور جس کو ان علماء نے حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھا۔یہی ان کی عبادت ہے‘‘ (ترمذی تفسیر القرآن من سورۃ التوبہ 3095)
(۴) محبت میں شرک:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَاداً یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ 2/165)
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سب سے زیادہ پختہ ہوتے ہیں ۔‘‘
محبت ونفرت اور دوستی و دشمنی عبادت کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اللہ تعالی کامکمل عبادت گذار بننے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ وہ اسی چیز سے محبت کرے جس سے اللہ تعالی محبت کرتا ہو اور اس چیز کو ناپسند کرے جو اللہ تعالی کو نا پسند ہو ، اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دوست ہو اس سے دوستی رکھے اور جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہو اس سے دشمنی رکھے ، اور اس بات سے خوش ہو جس سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہو اور اس بات سے ناراض ہو جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہو۔ جس شخص کی محبت ونفرت اور دوستی ودشمنی کی بنیادغیراللہ ہو ایسا شخص اس غیر کا عبادت گذار ہوگاخواہ وہ شخص اس بات کا اقرار کرے یا نہ کرے۔ جس طرح مشرکین مکہ کو توحید کے وعظ سے تکلیف ہو تی تھی اسی طرح انہیں بھی اللہ اکیلے کا ذکر کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔
وَاِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالآخِرَۃِ وَ إِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ إِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ (الزمر 39/45)
’’جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اوروں کا ) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں ۔‘‘
واسطہ اور وسیلہ
مشرکین مکہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع و نقصان کا مالک نہیں جانتے تھے بلکہ انہیں واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللہ (یونس 10/18)
’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔‘‘
أَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أَوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُھُمْ إلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللہِ زُلْفَی (الزمر 39/3)
’’خبردار اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے اور لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے ۔توبہ کے بغیر مشرک کی بخشش نہیں ہے گویا شرک کرنے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے چاہے وہ کلمہ کیوں نہ پڑھتا ہو اللہ تعالیٰ نے ۱۸جلیل القدر انبیا ء علیہم السلام کا نام لینے کے بعد فرمایا:
وَلَوْ أَشْرَکُوْالَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ [الانعام: 88]
’’اور اگر [بفرض محال] ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کے بھی سب اعمال ضائع ہو جاتے‘‘ ۔