ابوالبیان رفعت
رکن
- شمولیت
- جون 25، 2014
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 59
رنج و غم دور کرنے والی ایک عظیم الشان دعا
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔۔ َذَهَابَ هَمِّي)
انسانی زندگی خواہ خوشیوں سے کتنی بھری کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی گوشہ میں رنج وغم اور ٹینشن بھی پایا جاتا ہے جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
{وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
’’ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی یابھلائی میں مبتلا کرتے ہیںاور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘[سورۃ الانبیاء :۳۵]
زندگی میں اگر صرف خوشی ہی خوشی ہو کوئی بھی غم نہ ہو تو انسان جلدی اپنے رب کو یاد نہیں کرتا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطاکردہ خوشیوںمیں گم ہوکر اپنے حقیقی رب، اللہ کو ہی بھلا بیٹھتا ہے ۔اوراسی طرح اسے رنج و غم کے بغیر خوشیوںاور نعمتوںکی قدر کا کچھ احساس بھی نہیں ہوسکتا ۔جیساکہ فرمان ا لہی ہے:
{وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَي الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَي بِجَانِبِهِ}
’’اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تووہ منہ موڑلیتاہے ،اور کروٹ بدل لیتا ہے ‘‘[سورۃ بنی اسرائیل :۸۳]
اور اگر زندگی میں صرف غم ہی غم ہو کوئی بھی خوشی نہ ہو تو انسان پاگل ہوکر بالکل ناکارہ اور اپاہج ہوجائے گا ،اس کی ساری تعمیری صلاحیتوں کو گھن لگ جائے گا اور اس کی زندگی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا ۔
بقول شاعر
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی ہرایک شے ہے بے یقیںہرایک چیز عارضی (تنویر نقوی )
رسول اکرم ﷺنے رنج وغم اور الجھن وٹینشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی امت کو بہت ساری دعائیں سکھلائی ہیں ،میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں انہی مسنون دعاؤں میں سے ایک اہم دعا ،اس کا معنیٰ ومفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت کو اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی بندہ کوکوئی غم اور ٹینشن لاحق ہو اور وہ یہ دعا(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔ذَهَابَ هَمِّي ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور کرکے اسے خوشی میں بدل دے گا ،تو صحابۂ کرام نے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم ان کلمات کو سیکھ لیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جو ان کلمات کو سنے اسے چاہیے کہ انہیں سیکھ لے۔[مسند احمد : ۳۷۱۲،ابن حبان :۹۷۲،الطبرانی:۱۰۳۵۲]علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔[صحیح الترغیب والترہیب :۱۸۲۲]
دعا کا متن : اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَائَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي۔
اردوترجمہ :’’ اے اللہ میں یقینا تیرابندہ ہوںاور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹاہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھ پر تیرا حکم جاری و نافذہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتاہوںجوتونے خودرکھاہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایاہے یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے ، یا اسے تونے علم غیب میںاپنے پاس محفوظ رکھا ہے ، تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار ، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا علاج اور میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے ‘‘۔
مفردات کی لغوی تشریح :
نَاصِيَتِي : میری پیشانی
مَاضٍ: نافذکرنے والا
هم : مستقبل کے بارے میں جو الجھن رہتی ہے اسے “هم” کہتے ہیں ۔[مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
حزن: گزشتہ زندگی میں ہونے والے غلطیوں یا تکلیفوں پر جو افسوس اور ٹینشن رہتا ہے اسے حزن کہتے ہیں ۔ [مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
تشریح : ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ‘‘’’اے اللہ بیشک میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں ۔تیری بندی کابیٹا ہوں ‘‘
اس عبارت میں عاجزی کا اظہار بہت انوکھے اور تاکیدی انداز میں کیا گیا ہے کہ اے اللہ میں او رمیرے والدین بھی تیرے بندے ہیں ،ا سی طرح اس عبارت میں توحید ربوبیت کا بھی وسیلہ پیش کیاگیا ہے ۔
’’نَاصِيَتِي بِيَدِكَ‘‘’’میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘
اس ٹکڑے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو مکمل اللہ کی ملکیت ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔ کہ: پروردگارمجھ پر تیرا مکمل کنٹرول ہے ،تومجھے جب چاہے جہاںچاہے جس حال میں چاہے رکھے ،میں تجھ سے یہی امید رکھتا ہوں کہ تو مجھ کو ہر طرح سے اپنی حفاظت میں رکھے گا ، زندگی کے ہر موڑ پرمجھے گمراہی سے بچائے گا ۔
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔۔ َذَهَابَ هَمِّي)
انسانی زندگی خواہ خوشیوں سے کتنی بھری کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی گوشہ میں رنج وغم اور ٹینشن بھی پایا جاتا ہے جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
{وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
’’ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی یابھلائی میں مبتلا کرتے ہیںاور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘[سورۃ الانبیاء :۳۵]
زندگی میں اگر صرف خوشی ہی خوشی ہو کوئی بھی غم نہ ہو تو انسان جلدی اپنے رب کو یاد نہیں کرتا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطاکردہ خوشیوںمیں گم ہوکر اپنے حقیقی رب، اللہ کو ہی بھلا بیٹھتا ہے ۔اوراسی طرح اسے رنج و غم کے بغیر خوشیوںاور نعمتوںکی قدر کا کچھ احساس بھی نہیں ہوسکتا ۔جیساکہ فرمان ا لہی ہے:
{وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَي الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَي بِجَانِبِهِ}
’’اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تووہ منہ موڑلیتاہے ،اور کروٹ بدل لیتا ہے ‘‘[سورۃ بنی اسرائیل :۸۳]
اور اگر زندگی میں صرف غم ہی غم ہو کوئی بھی خوشی نہ ہو تو انسان پاگل ہوکر بالکل ناکارہ اور اپاہج ہوجائے گا ،اس کی ساری تعمیری صلاحیتوں کو گھن لگ جائے گا اور اس کی زندگی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا ۔
بقول شاعر
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی ہرایک شے ہے بے یقیںہرایک چیز عارضی (تنویر نقوی )
رسول اکرم ﷺنے رنج وغم اور الجھن وٹینشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی امت کو بہت ساری دعائیں سکھلائی ہیں ،میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں انہی مسنون دعاؤں میں سے ایک اہم دعا ،اس کا معنیٰ ومفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت کو اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی بندہ کوکوئی غم اور ٹینشن لاحق ہو اور وہ یہ دعا(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔ذَهَابَ هَمِّي ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور کرکے اسے خوشی میں بدل دے گا ،تو صحابۂ کرام نے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم ان کلمات کو سیکھ لیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جو ان کلمات کو سنے اسے چاہیے کہ انہیں سیکھ لے۔[مسند احمد : ۳۷۱۲،ابن حبان :۹۷۲،الطبرانی:۱۰۳۵۲]علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔[صحیح الترغیب والترہیب :۱۸۲۲]
دعا کا متن : اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَائَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي۔
اردوترجمہ :’’ اے اللہ میں یقینا تیرابندہ ہوںاور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹاہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھ پر تیرا حکم جاری و نافذہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتاہوںجوتونے خودرکھاہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایاہے یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے ، یا اسے تونے علم غیب میںاپنے پاس محفوظ رکھا ہے ، تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار ، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا علاج اور میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے ‘‘۔
مفردات کی لغوی تشریح :
نَاصِيَتِي : میری پیشانی
مَاضٍ: نافذکرنے والا
هم : مستقبل کے بارے میں جو الجھن رہتی ہے اسے “هم” کہتے ہیں ۔[مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
حزن: گزشتہ زندگی میں ہونے والے غلطیوں یا تکلیفوں پر جو افسوس اور ٹینشن رہتا ہے اسے حزن کہتے ہیں ۔ [مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
تشریح : ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ‘‘’’اے اللہ بیشک میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں ۔تیری بندی کابیٹا ہوں ‘‘
اس عبارت میں عاجزی کا اظہار بہت انوکھے اور تاکیدی انداز میں کیا گیا ہے کہ اے اللہ میں او رمیرے والدین بھی تیرے بندے ہیں ،ا سی طرح اس عبارت میں توحید ربوبیت کا بھی وسیلہ پیش کیاگیا ہے ۔
’’نَاصِيَتِي بِيَدِكَ‘‘’’میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘
اس ٹکڑے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو مکمل اللہ کی ملکیت ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔ کہ: پروردگارمجھ پر تیرا مکمل کنٹرول ہے ،تومجھے جب چاہے جہاںچاہے جس حال میں چاہے رکھے ،میں تجھ سے یہی امید رکھتا ہوں کہ تو مجھ کو ہر طرح سے اپنی حفاظت میں رکھے گا ، زندگی کے ہر موڑ پرمجھے گمراہی سے بچائے گا ۔