• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رنج وغم دور کرنے کی ایک عظیم الشان دعا

شمولیت
جون 25، 2014
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
59
رنج و غم دور کرنے والی ایک عظیم الشان دعا
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔۔ َذَهَابَ هَمِّي)

انسانی زندگی خواہ خوشیوں سے کتنی بھری کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی گوشہ میں رنج وغم اور ٹینشن بھی پایا جاتا ہے جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
{وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
’’ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی یابھلائی میں مبتلا کرتے ہیںاور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘[سورۃ الانبیاء :۳۵]
زندگی میں اگر صرف خوشی ہی خوشی ہو کوئی بھی غم نہ ہو تو انسان جلدی اپنے رب کو یاد نہیں کرتا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطاکردہ خوشیوںمیں گم ہوکر اپنے حقیقی رب، اللہ کو ہی بھلا بیٹھتا ہے ۔اوراسی طرح اسے رنج و غم کے بغیر خوشیوںاور نعمتوںکی قدر کا کچھ احساس بھی نہیں ہوسکتا ۔جیساکہ فرمان ا لہی ہے:
{وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَي الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَي بِجَانِبِهِ}
’’اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تووہ منہ موڑلیتاہے ،اور کروٹ بدل لیتا ہے ‘‘[سورۃ بنی اسرائیل :۸۳]
اور اگر زندگی میں صرف غم ہی غم ہو کوئی بھی خوشی نہ ہو تو انسان پاگل ہوکر بالکل ناکارہ اور اپاہج ہوجائے گا ،اس کی ساری تعمیری صلاحیتوں کو گھن لگ جائے گا اور اس کی زندگی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا ۔
بقول شاعر
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی ہرایک شے ہے بے یقیںہرایک چیز عارضی (تنویر نقوی )
رسول اکرم ﷺنے رنج وغم اور الجھن وٹینشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی امت کو بہت ساری دعائیں سکھلائی ہیں ،میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں انہی مسنون دعاؤں میں سے ایک اہم دعا ،اس کا معنیٰ ومفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت کو اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی بندہ کوکوئی غم اور ٹینشن لاحق ہو اور وہ یہ دعا(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔ذَهَابَ هَمِّي ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور کرکے اسے خوشی میں بدل دے گا ،تو صحابۂ کرام نے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم ان کلمات کو سیکھ لیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جو ان کلمات کو سنے اسے چاہیے کہ انہیں سیکھ لے۔[مسند احمد : ۳۷۱۲،ابن حبان :۹۷۲،الطبرانی:۱۰۳۵۲]علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔[صحیح الترغیب والترہیب :۱۸۲۲]
دعا کا متن : اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَائَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي۔
اردوترجمہ :’’ اے اللہ میں یقینا تیرابندہ ہوںاور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹاہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھ پر تیرا حکم جاری و نافذہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتاہوںجوتونے خودرکھاہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایاہے یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے ، یا اسے تونے علم غیب میںاپنے پاس محفوظ رکھا ہے ، تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار ، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا علاج اور میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے ‘‘۔
مفردات کی لغوی تشریح :
نَاصِيَتِي : میری پیشانی
مَاضٍ: نافذکرنے والا
هم : مستقبل کے بارے میں جو الجھن رہتی ہے اسے “هم” کہتے ہیں ۔[مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
حزن: گزشتہ زندگی میں ہونے والے غلطیوں یا تکلیفوں پر جو افسوس اور ٹینشن رہتا ہے اسے حزن کہتے ہیں ۔ [مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
تشریح : ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ‘‘’’اے اللہ بیشک میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں ۔تیری بندی کابیٹا ہوں ‘‘
اس عبارت میں عاجزی کا اظہار بہت انوکھے اور تاکیدی انداز میں کیا گیا ہے کہ اے اللہ میں او رمیرے والدین بھی تیرے بندے ہیں ،ا سی طرح اس عبارت میں توحید ربوبیت کا بھی وسیلہ پیش کیاگیا ہے ۔
’’نَاصِيَتِي بِيَدِكَ‘‘’’میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘
اس ٹکڑے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو مکمل اللہ کی ملکیت ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔ کہ: پروردگارمجھ پر تیرا مکمل کنٹرول ہے ،تومجھے جب چاہے جہاںچاہے جس حال میں چاہے رکھے ،میں تجھ سے یہی امید رکھتا ہوں کہ تو مجھ کو ہر طرح سے اپنی حفاظت میں رکھے گا ، زندگی کے ہر موڑ پرمجھے گمراہی سے بچائے گا ۔
 
شمولیت
جون 25، 2014
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
59
ابوالبیان رفعت سلفی ممبئی
رنج و غم دور کرنے والی ایک عظیم الشان دعا

(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔۔ َذَهَابَ هَمِّي)

انسانی زندگی خواہ خوشیوں سے کتنی بھری کیوں نہ ہو زندگی کے کسی نہ کسی گوشہ میں رنج وغم اور ٹینشن بھی پایا جاتا ہے جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
{وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
’’ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی یابھلائی میں مبتلا کرتے ہیںاور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘[سورۃ الانبیاء :۳۵]
زندگی میں اگر صرف خوشی ہی خوشی ہو کوئی بھی غم نہ ہو تو انسان جلدی اپنے رب کو یاد نہیں کرتا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی عطاکردہ خوشیوںمیں گم ہوکر اپنے حقیقی رب، اللہ کو ہی بھلا بیٹھتا ہے ۔اوراسی طرح اسے رنج و غم کے بغیر خوشیوںاور نعمتوںکی قدر کا کچھ احساس بھی نہیں ہوسکتا ۔جیساکہ فرمان ا لہی ہے:
{وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَي الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَي بِجَانِبِهِ}
’’اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تووہ منہ موڑلیتاہے ،اور کروٹ بدل لیتا ہے ‘‘[سورۃ بنی اسرائیل :۸۳]
اور اگر زندگی میں صرف غم ہی غم ہو کوئی بھی خوشی نہ ہو تو انسان پاگل ہوکر بالکل ناکارہ اور اپاہج ہوجائے گا ،اس کی ساری تعمیری صلاحیتوں کو گھن لگ جائے گا اور اس کی زندگی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا ۔
بقول شاعر
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی
ہرایک شے ہے بے یقیں ہرایک چیز عارضی (تنویر نقوی )

رسول اکرم ﷺنے رنج وغم اور الجھن وٹینشن سے

نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی امت کو بہت ساری دعائیں سکھلائی ہیں ،میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں انہی مسنون دعاؤں میں سے ایک اہم دعا ،اس کا معنیٰ ومفہوم اور اس کی اہمیت و افادیت کو اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی بندہ کوکوئی غم اور ٹینشن لاحق ہو اور وہ یہ دعا(اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِك۔۔۔۔۔ذَهَابَ هَمِّي ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور کرکے اسے خوشی میں بدل دے گا ،تو صحابۂ کرام نے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم ان کلمات کو سیکھ لیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جو ان کلمات کو سنے اسے چاہیے کہ انہیں سیکھ لے۔[مسند احمد : ۳۷۱۲،ابن حبان :۹۷۲،الطبرانی:۱۰۳۵۲]علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔[صحیح الترغیب والترہیب :۱۸۲۲]
دعا کا متن : اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَائَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي۔
اردوترجمہ :’’ اے اللہ میں یقینا تیرابندہ ہوںاور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹاہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھ پر تیرا حکم جاری و نافذہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتاہوںجوتونے خودرکھاہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایاہے یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے ، یا اسے تونے علم غیب میںاپنے پاس محفوظ رکھا ہے ، تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار ، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا علاج اور میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے ‘‘۔
مفردات کی لغوی تشریح :
نَاصِيَتِي : میری پیشانی
مَاضٍ: نافذکرنے والا
هم : مستقبل کے بارے میں جو الجھن رہتی ہے اسے “هم” کہتے ہیں ۔[مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
حزن: گزشتہ زندگی میں ہونے والے غلطیوں یا تکلیفوں پر جو افسوس اور ٹینشن رہتا ہے اسے حزن کہتے ہیں ۔ [مفتاح دار السعادۃ: ج:۱، ص:۳۷۶]
تشریح : ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ‘‘’’اے اللہ بیشک میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں ۔تیری بندی کابیٹا ہوں ‘‘
اس عبارت میں عاجزی کا اظہار بہت انوکھے اور تاکیدی انداز میں کیا گیا ہے کہ اے اللہ میں او رمیرے والدین بھی تیرے بندے ہیں ،ا سی طرح اس عبارت میں توحید ربوبیت کا بھی وسیلہ پیش کیاگیا ہے ۔
’’نَاصِيَتِي بِيَدِكَ‘‘’’میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘
اس ٹکڑے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو مکمل اللہ کی ملکیت ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔ کہ: پروردگارمجھ پر تیرا مکمل کنٹرول ہے ،تومجھے جب چاہے جہاںچاہے جس حال میں چاہے رکھے ،میں تجھ سے یہی امید رکھتا ہوں کہ تو مجھ کو ہر طرح سے اپنی حفاظت میں رکھے گا ، زندگی کے ہر موڑ پرمجھے گمراہی سے بچائے گا ۔
’’ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُك‘‘’’مجھ پر تیرا حکم جاری ونافذ ہے ‘‘
اس جملے میں حکم سے مراد دوقسم کے حکم ہیں: ۱۔حکم دینی وشرعی ۲۔ حکم قدری وکونی
دونوں طرح کے حکم بندے کے بارے میں گزر کر ہی رہیں گے چاہے انہیں چاہے یا ان کا انکار کردے ، رہا حکم شرعی کا معاملہ (اوامر ومنہیات ) تو بندہ کبھی ان کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو سزا کامستحق بنادیتا ہے ۔
’’عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ‘‘
اس جملہ کے ذریعہ بندہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس سے متعلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تمام ٖفیصلے ہر اعتبار سے بہتر اور مبنی بر عدل ہیں ،چاہے اللہ اس کے بارے میں تندرستی کا فیصلہ کرے یا بیماری کا ، مالداری کا فیصلہ کرے یا فقیری کا ، لذت وسرور کا فیصلہ کرے یا رنج وغم ا ورالم کا ،زندگی کافیصلہ کرے یا موت کا ،سزا دینے کا فیصلہ کرے یا معاف کرنے کا وغیرہ وغیرہ، ان تمام فیصلوں پر بندہ راضی برضا ہے ،اس کا اس بات پر یقین وایمان ہے کہ اللہ کا ہر فیصلہ بہتر اور اچھا ہوتا ہے اللہ کبھی بھی بندوں پر ظلم نہیں کرتا، جیسا کہ اللہ کافرمان ہے : {وَمَارَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ }’’اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ‘‘[سورۃ حم السجدۃ :۴۶]
نوٹ: اللہ سے دعا مانگتے ہوئے بندہ کو پہلے عاجزی اور انکساری پیش کرنی چاہیے اس کے بعد اس کے ناموں کے وسیلہ سے دعا مانگنی چاہیے جیساکہ اس دعا میں یہ ترتیب موجود ہے۔
’’أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ‘‘’’اے اللہ تیری طرف وسیلہ پکڑتاہوں تیرے اسماء حسنیٰ میں سے ہر نام کے ذریعہ‘‘
اوریہ دعامانگتے وقت اللہ کی طرف وسیلہ پکڑنے کی صورتوں میں سے سب سے عظیم ترین صورت ہے ، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: {وَلِلّٰهِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنيٰ فَادْعُوْهُ بِهَا}’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں ، سو ان ناموں سے اللہ کو پکارا کرو‘‘[سورۃ الاعراف:۱۸۰]
’’ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ‘‘’’یعنی وہ تمام نام جنہیں تونے اپنی ذات کے لئے چنا ہے‘‘
جو تیرے کمال وجلال اور تیری عظمت وشان کے لائق ہیں ، اس جملے میں اجمالی طور پر اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ شامل ہوگئے ہیںجنہیں اللہ نے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔
’’أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ‘‘
اس جملہ میں اللہ کے وہ تمام اسماء حسنیٰ شامل ہوگئے ہیں جنہیں اللہ نے تمام آسمانی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں نازل فرمایا ہے ۔
’’أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ‘‘
اس جملہ میں اللہ کے وہ تمام اسماء حسنیٰ شامل ہوگئے ہیں جنہیں اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے خواہ ان کا تعلق اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں سے ہو یا مقرب فرشتوں سے ہو،انہی میں سے محمد رسول اللہ ﷺ ؓبھی ہیں ِجیساکہ شفاعت کبریٰ والی لمبی روایت میں ہے کہ ”پس میں ( مقام محمود ) میں اللہ کے لئے سجدہ میںگرجاؤں گا ، اور اس موقع پر میں اللہ کی ایسی حمد بیان کروں گا کہ اللہ کی ویسی حمد نہ مجھ سے پہلے کسی نے بیان کی ہوگی،اور نہ ہی ویسی حمد میرے بعد کوئی بیان کرسکے گا ۔[صحیح مسلم:۴۷۹]
’’أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ‘‘
’’یعنی اللہ کے وہ اسماء حسنیٰ جنہیں اللہ نے اپنے نفس کے لئے خاص کر رکھا ہے ، وہ اللہ کے علم غیب میں ہیں ‘‘
اللہ کے ان مخصوص ناموںکو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جان سکتا ، اس جملہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے نام لا تعداد ہیں جن کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔
اس عظیم الشان دعا میں اللہ کے تین قسم کے ناموں کاتذکرہ ہے جو اللہ کے تمام ناموںکو شامل ہیں ۔
۱۔وہ اسماء حسنیٰ جن سے اللہ نے اپنے کو موسوم کیا ہے ، پس ان میں سے کچھ ناموں کو ظاہر کردیا جس کے لئے چاہا اپنے پیغمبروں ،رسولوں ،اور فرشتوں میں سے اور ان کے علاوہ میں سے بھی جسے چاہا ،اور ان ناموں کو اپنی کسی کتاب میں نازل نہیں فرمایا ۔
۲۔وہ اسماء حسنیٰ جنہیں اللہ نے اپنی کتاب میںنازل فرمادیا ہے اور کتاب کے ذریعہ ان ناموں سے اپنے بندوںکو باخبر کردیا ۔
۳۔وہ اسماء حسنیٰ جنہیں اللہ نے اپنے نزدیک علم غیب میں چھپا رکھا ہے جن پر اللہ کے سوا کوئی بھی مطلع نہیں ہوسکتا ۔
’’اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ ‘‘ ’’اے رب! تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار بنادے، یعنی اسے میرے دل کاسرور اور میرے دل کی خوشی بنادے ۔
قرآن مجید کو دل کی بہار اس لئے کہا گیا ہے کہ :قرآن مجید اللہ کا ذکرہے، اور اللہ کے ذکر سے دلوں کوسکون ملتا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے: {أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ}’’یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوںکواطمینان ملتاہے‘‘[سورۃ الرعد:۲۸]
’’وَنُورَ صَدْرِی‘‘’’یعنی اے رب!میرے دل کوقرآں کریم کے انوار کے زریعہ ایسا منور کردے کہ میرے دل کے اندر حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے‘‘۔
’’ وَجِلَائَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي‘‘ ’’یعنی اے رب قرآن کریم کو میرے غموں اور الجھنوںسے نجات کا زریعہ بنادے‘‘
اس لئے کہ قرآن شفا ہے، جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : {وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاء ٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ}’’یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ‘‘[سورۃ بنی اسرائیل: ۸۲]
بلاشبہ رنج وغم اور الجھن و بے چینی کو دور کرنے کا قرآن سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ صبح وشام قرآن مجید کی تلاوت کی جائے، اس کے معنی ٰ ومفہوم سمجھ کر اس کی تعلیمات پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کیا جائے ۔
محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ قرآن مجید ان مومنوںکے لئے شفاورحمت ہے جو اس کے فرائض پر عمل کرتے ہیں ،اس کے حلال کو حلال ، حرام کو حرام سمجھتے ہیں ۔(تفسیر طبری )
مذکورہ دعا کی امتیازی خصوصیت : اس مبارک دعا کے اندر اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ کا وسیلہ موجود ہے، بندہ جنہیں جانتا ہے ان کا بھی اور جنہیں نہیں جانتا ان کا بھی ،اوراللہ کے اسماء وصفات کا علم ہی تمام علوم کی اصل ہے ،جس بندہ کے اندر جس قدر اللہ کے اسماء و صفات کی معرفت بڑھتی جائے گی وہ بندہ اسی قدر اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ،اللہ کی عظمت اور اس کی بلندیوں کا اقرار کرنے والا اور اسی قدر اللہ کی نافرمانی اور اس کی معصیت کے کاموں سے بچنے والا بھی ہوگا ۔ اس لئے کسی بندہ کو جب بھی کوئی بہت بڑا غم یا کوئی بہت بڑی پریشانی لا حق ہوتواسے چاہیے کہ وہ اس مبارک دعا کے معنیٰ ومفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کے ذریعہ اپنے رب سے یقین کامل کے ساتھ مدد طلب کرے ،تو اللہ اس بندہ کی ضرور مدد کرے گا ور ااس کے ہر طرح کے رنج و غم اور مشکلات کو دور کردے گا ان شاء اللہ ۔[/
وبنعمتہ تم الصالحات
 
Last edited:
Top