امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَعْمَرُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لِكُلِّ نَبِيٍّ رَهْبَانِيَّةٌ ، وَرَهْبَانِيَّةُ هَذِهِ الأُمَّةِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.[مسند أحمد 3/ 266 رقم(13807) ترقیم آخر 13844 ]۔
یہ روایت ضعیف ہے سند میں کئی علتیں ہیں ۔
الف:
زید العمی ضعیف ہے محدثین کی اکثر یت نے اسے ضعیف قرار دیا اور بعض نے سخت جرح بھی کی ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
زيد ابن الحواري أبو الحواري العمي البصري قاضي هراة يقال اسم أبيه مرة ضعيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2131]۔
ب :
سفیان الثوری رحمہ اللہ عن سے روایت کیا اور یہ مشہور مدلس ہیں۔
ج:
بعض طرق میں یہ روایت مرسلا بیان ہوئی ہے، اوریہ موصول سے زیادہ قوی ہے جس سے معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ کا موصول بیان کرنا درست نہیں یعنی منکر ہے۔
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
هذا الحديث لا نعلَمُ أحَدًا أسنده إلاَّ معاوية بن هشام عن سفيان وغير معاوية يرويه مرسلا.[مسند البزار 2/ 351]۔
تنبیہ:
علامہ رحمہ اللہ کا اس ضعیف ومنکر روایت کو لیکر اسی مفہوم کی ایک اور منقطع وضعیف روایت کو صحیح قرار دینا (الصحیحہ تحت الرقم 555) محل نظر ہے ہماری نظر میں یہ دونوں روایات ضعیف ہی ہیں۔