• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے اور دوسرے نمبر پر بنائی گئی؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
25289362_893395337486974_7794464310776840499_n.jpg


روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے اور دوسرے نمبر پر بنائی گئی؟

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے #نبی_کریم ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! سب سے پہلے کون سی #مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد حرام۔ میں نےسوال کیا: اس کےبعد کونسی ؟ فرمایا کہ #مسجد_اقصی ۔ میں نےسوال کیا: اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر آنحضر ت ﷺ نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کاوقت ہوجائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔

( صحیح بخاری:3425 )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عن ابي ذر رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اي مسجد وضع اول، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "المسجد الحرام، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ ثم اي، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ثم المسجد الاقصى، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ كم كان بينهما، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اربعون ثم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حيثما ادركتك الصلاة فصل والارض لك مسجد".(صحیح البخاری ،کتاب الانبیاء 3425 )
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔"
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام ابن الجوزیؒ نے صحیحین (صحیح البخاری ، صحیح مسلم ) کی مشکل احادیث کی توضیح و شرح کیلئے بہت مفید کتاب (کشف مشکل الصحیحین) لکھی ہے ، اس میں اس حدیث کے تحت لکھتے :

"فَإِن قيل: كَيفَ قَالَ: " بَينهمَا أَرْبَعُونَ عَاما "، وَإِنَّمَا بنى الْكَعْبَة إِبْرَاهِيم، وَبنى بَيت الْمُقَدّس سُلَيْمَان وَبَينهمَا أَكثر من ألف سنة؟
فَالْجَوَاب: أَن الْإِشَارَة إِلَى أول الْبناء وَوضع أساس المسجدين، وَلَيْسَ أول من بنى الْكَعْبَة إِبْرَاهِيم، وَلَا أول من بني بَيت الْمُقَدّس سُلَيْمَان، وَفِي الْأَنْبِيَاء وَالصَّالِحِينَ والبانين كَثْرَة، فَالله أعلم بِمن ابْتَدَأَ. وَقد روينَا أَن أول من بنى الْكَعْبَة آدم، ثمَّ انْتَشَر وَلَده فِي الأَرْض، فَجَائِز أَن يكون بَعضهم قد وضع بَيت الْمُقَدّس.

اس حدیث کو دیکھ کر اگر سوال کیا جائے کہ : ان دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا عرصہ کیسے ہوسکتا ہے ،جبکہ معلوم ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کی بیت المقدس تعمیر کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی اولین اساسی تعمیر اور ابتدائی تعمیر کے درمیان کا عرصہ مراد ہے ، کعبۃ اللہ کی پہلی تعمیر سیدنا ابراہیم نے تو نہیں کی ،اور نہ بیت المقدس کی پہلی تعمیر جناب سلیمان علیہ السلام نے کی ۔
ہم تک کچھ روایات ایسی پہنچی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پہلی مرتبہ کعبۃ اللہ کو سیدنا آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا ، پھر ان کی اولاد مختلف خطوں میں پھیلی ، توہوسکتا کہ اولاد آدم میں سے کسی (کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد ) بیت المقدس تعمیر کیا ہو ، واللہ اعلم
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فتح بیت المقدس

طلوع اسلام کے بعد خلیفہ دوم سیدنا عمربن خطاب کے دور میں 20اگست 636ء کو مجاہدین عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔
اس وقت ہیکل سلیمانی کا پورا علاقہ کھنڈر بنا ہوا تھا ، سیدنا عمرنے اس علاقے کو صاف کروایا اور اس کے جنوبی حصے میں ایک جگہ نماز پڑھنے کیلئے مخصوص فرمائی ، یہی آج کی ‘مسجد اقصیٰ’ہے ۔ اس کے بعد 463ء سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دوردورہ رہا ۔
گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق ، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا ۔
1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی تاہم اس سارے عرصہ کے دوران یہودی یہاں اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے ۔ چار صدیوں تک ترک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد ٹھیک ایک سو سال پہلے 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کر دیا گیا۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی اگرچہ 17ویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہو گئی تھی ، تاہم 1930ء تک نازی جرمنوںسے تنگ آ کر اس نقل مکانی میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ 1920 ئ، 1921ئ، 1929ء اور 1936ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اس علاقے میں آ مد کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوئے لیکن اس کے باوجود یہودیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی سے بھاگ کر اسرائیل آنے والے یہودیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا اور باقی جان بچا کر فلسطین بھاگ آئے ۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطین میں سات لاکھ اٹھاون ہزار یہودی بس گئے تھے ۔ جب برطانیہ نے دیکھا کہ اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے علاقے کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت صورت حال یہ بنی کہ امریکہ اور روس سمیت تمام طاقت ور ممالک اسرائیل کے حامی تھے ۔ چنانچہ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔اسرائیل کو کل رقبے کا 56 فیصد رقبہ دیا گیا، حالانکہ یہودیوں کی آبادی اس وقت کل آبادی کاایک تہائی تھی اور فلسطینی ریاست کو چوالیس 44 فیصد دیا گیا حالانہ کہ فلسطینیوں کی آبادی دو تہائی تھی۔ یہ تقسیم صریحاً ایک ناجائز تقسیم تھی۔ چنانچہ فلسطینیوں اور اردگرد کے عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی فوج واپس بلا لی تھی اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ‘آزاد حکومت’ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ قبضے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا، جس کے بعد مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا۔ لیکن باہمی خلفشار اور کمزوریوں کے سبب اسرائیل مخالف یہ اتحاد اس حملے میں نہ صرف اسرائیل کو ختم کرنے میں ناکام رہا بلکہ الٹا یہودی ریاست کے رقبے میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد عرب ممالک اور اسرائیل میں متعدد جنگیں بھی ہوئیں، لیکن مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی اور جدید اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کو اسرائیل سے شکست ہی کھانا پڑی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک فلسطینیوں کی حمایت سے دست کش ہونے لگے اور فلسطین کو ایک الگ ریاست کی بجائے ایک میونسپل کارپوریشن نما ‘اتھارٹی’ پر اکتفا کرنا پڑا۔ جہاں سب کچھ اب بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کیں تو اس پر بہت شور اٹھا لیکن اسرائیل اپنے قیام سے لیکر آج تک اس ناجائز کام سے باز نہ آیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیل مکمل بدمعاشی پر اترا ہوا تھا، ایک جانب اسے مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور دوسری جانب وہ اپنے دشمنوں کو تنہا کر کے مار رہا تھا اور اب تو معاملہ اس قدر کھلی بدمعاشی پر آ گیا تھا کہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ہر گناہ پر پردہ ڈالنے والے بھی اکتا گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی ناجائز بستیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی تو اسلامی کونسل کے 15رکن ممالک میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا، تاہم امریکہ نے اس موقع پر قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق بھی استعمال نہیں کیا۔
ماضی میں امریکہ نے ایسی قراردادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کی ہمیشہ مدد کی، لیکن اوبامہ انتظامیہ نے روایتی اسرائیلی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل نے امریکہ پر الزام لگا دیا کہ واشنگٹن نے اس قراداد کی حمایت کی۔ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی لیکن امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بغیر مصر نے اسے موخر کر دیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینی گال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے اس قرارداد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس قرارداد کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی اور تل ابیب میں امریکی سفیر کو طلب کر کے سرزنش کی گئی۔ دوسری جانب اسرائیل میں بیت المقدس کی میونسپل کارپوریشن کو بھی اسرائیلیوں کے لیے مشرقی یروشلم میں 500 کے قریب نئے گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ووٹنگ منسوخ کرنا پڑی۔

یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا -
 
Top