• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روافض کفار کون؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
روافض کون؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیعوں کا اصل نام ’’الرافضہ‘‘ ہے اور آج تک سلف وصالحین نے ان کے لئے عموماً یہی اصطلاح استعمال کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فقہاء اور سلف نے ’’الرافضہ‘‘ کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ لہٰذا اس لیے اس نام کو صرف لغوی اور تاریخی اعتبار سے ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان کے احکام اور معنیٰ کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس بنا پر انہیں یہ نام دیا گیا۔

((أخبرنا عبد اللّٰہ بن احمد قال قلت لأبی من الرافضة قال الذی یشتم ویسب أبابکر وعمرؓ))

’’ہم کو خبر دی ابو عبد اللہ احمد بن حنبل نے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ’’رافضی‘‘ کون ہیں، فرمایا وہ شخص جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو برا کہے اور ان کو گالیاں دے‘‘۔

[السنة للخال، ج: ۳، ص: ۴۹۲ و اسنادہ صحیح۔ السنة لعبد اللّٰہ بن احمد، ج: ۲، ص : ۵۴۸]

((المعروف ان الرافضة قبحھم اللّٰہ یسبون الصحابة رضی اللّٰہ عنھم ویلعنوھم وربّماکفّروھم أو کفروا بعضھم والغالبیة منھم مع سبھم لکثیرمن الصحابة والخلفاء یغلون فی علیؓ واولادہ ویعتقدون فیھم الالھیة))


معروف بات یہ ہے کہ روافض کو اللہ ہلاک کرے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تکفیر کرتے ہیں یا ان میں سے بعض کو کافر کہتے ہیں اور ان کی غالب اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اور خلفاء راشدین کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے بارے میں غلو کرتی ہے اور ان کے بارے میں خدا ہونے کا اعتقاد رکھتی ہے‘‘۔

[شرح العقیدة الواسطیة، ج: ۱، ص: ۲۵۳]۔

((وامالفظ ’’الرافضة‘‘فھذا اللفظ اوّل ماظھر فی الاسلام لما خرج زید بن علی بن الحسین فی اوائل المائة الثانیة فی خلافة ھشام بن عبد الملک واتبعہ الشیعة،فسئل عن ابی بکر وعمر فتولاھما وترحم علیھما فرفضہ قوم،فقال:’’رَفَضْتُمُوْنِیْ رَفَضْتُمُوْنِیْ‘‘ فسموالرافضة))

’’رہا لفظ ’’رافضہ‘‘ تو یہ سب سے پہلے اسلام میں اس وقت ظاہر ہوا جب حضرت زید بن علی بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ہشام بن عبد الملک کی خلافت میں جہاد کے لئے نکلے اور شیعوں نے اُن کی پیروی کی۔ جب شیعوں نے ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان دونوں حضرات سے محبت کا اظہار کیا اور ان پر رحمت بھیجی تو اس (رافضی) قوم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو انہوں نے کہا: ’’رَفَضْتُمُوْنِیْ رَفَضْتُمُوْنِیْ‘‘ ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا، تم نے مجھے چھوڑ دیا‘‘ اس کے بعد ان کو روافض کہا جانے لگا ‘‘۔

[مجموعة فتاوی ابن تیمیة رحمہ اللہ، ج: ۳، ص: ۱۴۶]۔

((وقد ذکر اھل العلم ان مبدا الرفض انما کان من الزندیق عبد اللّٰہ بن سبا، فانہ اظھر الاسلام وابطن الیھودیة وطلب ان یفسدالاسلام کما فعل بولص النصرانی الذی کان یھودیا فی افساددین النصاری۔ وأیضافغالب أئمتھم زنادقة، انما یظھرون الرفض۔ لانہ طریق الی ھدم الاسلام))

’’اہل ِ علم نے بیان کیا ہے کہ رافضیوں کا سرغنہ ایک زندیق عبد اللہ بن سبا تھا۔ وہ ظاہراً مسلمان اور اصلاً میں یہودی تھا ۔ اس نے اسلام میں فساد داخل کرنے کے لیے بھیس بدلا جیسے کہ پولس نصرانی اصلاً یہودی نے عیسائیت میں فساد داخل کرنے کے لیے عیسائیت اختیار کی۔ اسی طرح ان کے ائمہ کی اکثریت ’’زندیق‘‘ ہے وہ ’’رفض‘‘ کا اظہار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے کا راستہ ہے‘‘۔

[مجموعة فتاوی ابن تیمیة رحمہ اللہ، ج: ۶، ص: ۴۲۱]۔

((ثم ظھر فی زمن علیؓ التکلم باالرفض لکن لم یجتمعوا ویصیر لھم قوة الابعد مقتل الحسینؓ بل لم یظھر اسم الرفض الاحین خروج زید بن علی بن الحسین رحمہ اللّٰہ بعد المائة الاولیٰ لما أظھر الترحم علی ابی بکرؓ وعمرؓ رفضتہ الرفضة فسموا ’’رافضة‘‘))

’’جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں روافض ظاہر ہوئے لیکن انہیں قوت و شوکت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ملی بلکہ رافضیت کا نام بھی اس وقت ظاہر ہوا جب زید بن علی بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری صدی بعد خروج کیا اور جنابِ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کے لئے انہوں نے دعائے خیر کی، (پس انہوں نے ان کی خلافت کا انکار کیا) تو انہیں رافضی کہا گیا ‘‘۔

[مجموعة فتاوی ابن تیمیة رحمہ اللّٰہ، ج: ۶، ص: ۴۲۲]۔

امام الشافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جس نے یہ کہا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما امام نہیں ہیں، تو وہ ’’رافضی‘‘ ہے‘‘۔ [السیر للذھبی فی ترجمة]

امام الخرشی کہتے ہیں: ’’یہ لقب ہر اس شخص کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس نے دین میں غلو کیا اور صحابہ کی شان میں طعن کو جائز قرار دیا ‘‘۔ [شرح مختصر خلیل]


امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’ولھذا کان الرفض اعظم ابواب النفاق والزندقة‘‘

’’اور اسی لئے رافضیت نفاق اور زندیقیت کا سب سے بڑا دروازہ ہے‘‘۔

[الفتاوی الکبری لابن تیمیة رحمہ اللّٰہ، ج: ۷، ص: ۴]۔
 
Top