• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روافض کی فتح اور خود کو اہلسنت کہلوانے والوں کی شکست

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
روافض کی فتح اور خود کو اہلسنت کہلوانے والوں کی شکست

تحریر : مفتی اعظم حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ایک وقت تھا جب روافض کے خلاف اہلسنت میں شدید غم و غصے کے جذبات پائے جاتے تھے اور یہ جذبات اس لئے برحق تھے کیونکہ کوئی ایسا شعار مسلمانوں کا نہیں تھا جس کی یہ توھین نہ کرتے ہوں کوئی ایسا عقیدہ نہیں تھا جس سے یہ دشمنی نہ کرتے ہوں۔

مثال کے طور پر اللہ سبحانہ کی تمام صفات علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے کر توحید پر حملہ کیا، علی رضی اللہ عنہ کو تمام انبیاء سے افضل اور اپنے اماموں کو انبیاء جیسا معصوم قرار دے کر عقیدہ نبوت پر حملہ آور ہوئے، امہات المومنین پر کیچڑ اچھال کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر حملہ کیا، صحابہ کو مرتد کہہ کر اسلام کی بنیاد ہلانے کی کوشش کی، قرآن کے متعلق شکوک و شبہات پھیلا کر آخری کتاب پر حملہ کیا! کلمہ، اذان، نماز، روزہ، نکاح، قربانی، وضو، مسجد ہر چیز میں الگ راستے نکالے اور پھر اس کے علاوہ مسلمانوں پر ہر حملہ آور کے صف اول کے اتحادی جاسوس اور دستہ بنے۔

اسی وجہ سے اہلسنت ہمیشہ سے ان کو انتہائی ملعون اور بدترین دشمن کی نظر سے ہی دیکھتے آئے ہیں اور حال میں جب انہوں نے اہل کتاب ( امریکہ و یورپ) سے اپنی دشمنی کے باوجود شام و عراق اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کے خلاف ساتھ دیا اور جس طرح ان کی ملیشیات نے شامی و عراقی مسلمانوں پر وحشت اور ظلم کے تمام ریکارڈ توڑے پھر تو ان کی خباثت اہلسنت پر دن کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی۔

لکن اس سب کے باوجود روافض ایک اور محاذ پر بھی سرگرم تھے ایک طرف وہ خود کو عسکری میدان میں طاقتور بنا کر اہلسنت کو گرانے میں لگے تھے تو دوسری طرف وہ نظریاتی میدان میں اہلسنت میں دراڑ ڈالنے کی کوشش میں بھی مسلسل مصروف تھے اور اہلسنت کو اپنا بھائی قرار دیتے ان کے ساتھ ان بدترین اختلافات کو بھی محض فروعی اختلاف کہتے اور ان کو بھائی چارے کی دعوت بھی دیتے تھے۔

یہ بلکل ایسا ہے جیسے امریکہ ایک طرف مسلمانوں پر آگ اور لوہا برسا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وائٹ ہاوس میں امریکی صدر رمضان میں مسلمانوں کے لئے افطار کی دعوت بھی رکھتا ہے اور عید پر ان کو مبارکبادیں دینے کے علاوہ اسلام کی تعریفیں بھی کرتا ہے۔

سو روافض ایک طرف مسلمانوں کے تمام عقائد کے دشمن تھے ان کے خلاف ہر شہر میں برسر پیکار تھے ان کی عزت جان و مال کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح نوچ رہے تھے تو دوسری طرف خامنہ ای کہتا کہ "اہلسنت ہماری جان ہیں" ان کے علماء کہتے کہ ہم اور اہلسنت بھائی ہیں۔

لیکن ان کے اس فریب اس خباثت کو کبھی اہلسنت نے قبول نہیں کیا کیونکہ ان کا موقف تھا کہ اسلام سے ۹۰ ڈگری الٹ چلنے والے بھائی کیسے ہوسکتے ہیں! دن رات ہمارا خون بہانے والے ہمارے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں تاہم اس کے باوجود ایران مسلسل کوشش میں لگا رہا۔

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ آخر کار روافض اہلسنت کے اس عقیدے میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگئے اور ان کے اس عقیدے کی عمارت کی بنیاد کھود کر اہلسنت میں داخل ہوگئے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے انہوں نے اخوان المسلمین کو مطیع کیا اور اخوانی نظریات سے متاثر جماعتوں نے "ایک امت" اور "اسلامی بھائی چارہ" کے عنوانات کے تحت روافض کو اپنا بھائی قرار دے کر سب کو ایک امت بنانے کے مشن کا آغاز کر دیا۔

اخوان کے نظریات نے اہلسنت آبادی میں بہت وسیع اثر ڈالا اور علماء نجد رحمہم اللہ کی بے مثال تربیت سے لیس سلفی مکتبہ فکر کے علاوہ ہر کسی کے قدم کچھ نہ کچھ ضرور ڈگمگا گئے۔

اخوان کے بعد دوسرا سہارا روافض کو علماء سوء سے ملا جو حکومتوں کے زیر اثر "امت" کے نعرے لگانے لگے اور شیعہ سنی بھائی بھائی کا پرچار کرنے لگ گئے جبکہ علماء سوء کے بعد تیسرا وار مختلف مذہبی اور دعوتی جماعتوں پر ہوا اور انہوں نے بھی آخر کار روافض کو بھائی کے طور پر امت میں قبول کر لیا اور روافض کے ساتھ اس مشن میں لگ گئے کہ روافض امت کا حصہ ہیں اور اہلسنت کے ساتھ ان کا اختلاف فروعی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود جہادی اس نظرئے کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے اور جہادی گروہوں اور ان کے علماء نے روافض کو نہ صرف یہ کہ قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کو ہولناک حملوں کا نشانہ بھی بنایا جو کہ روافض کی جانب سے اہلسنت پر ہونے والے حملوں اور ان کا صلیبیوں کے ساتھ اہلسنت کے خلاف اتحاد کا انتقام تھا۔

ایران اور روافض کو احساس تھا کہ ان کے راستے میں اصل رکاوٹ عسکری لوگ ہیں جو نہ صرف عملی میدان میں ان کے خلاف برسرپیکار تھے بلکہ نظریاتی میدان میں بھی مسلسل ان کے عقائد کی نجاست، ان کی ضلالت، خباثت اور اہلسنت کے خلاف عداوت پر مبنی سیاست کو نشانہ بنا رہے تھے سو روافض اپنی بے مثال مکاری سے یہاں بھی پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوئے اور اس سلسلے میں ایک بار پھر اخوانی نظریات والے ہی ان کے کام آئے۔

انہوں نے سب سے پہلے فلسطینی تنظیموں پر کمند ڈالی اور ان کو آہستہ آہستہ سلفی نظریات سے دور کر کے اخوانیت اور پھر اخوانیت کے راستے رافضیت کی طرف لے گئے اس موقع پر ایران کی جانب سے مسلسل مسجد اقصی کےلئے آواز اٹھانا اس کے متعلق ٹسوے بہانا اور فلسطینی تنظیموں کو امداد کی بے دریغ فراہمی نے اہم کردار ادا کیا، اور یوں ایک دہائی کے اندر اندر حماس سمیت فلسطین کے اکثر جہادی اہلسنت عسکری گروہ سے رافضی ملیشیا میں تبدیل ہوگئے اور یہ روافض اور ایران کی ایک بے مثال فتح تھی۔

اس کے بعد ایران نے اس دور میں سب سے بڑے اور موثر جہادی گروہ اور عالمی جہاد کے داعی القاعدہ کی طرف توجہ کی اور حسب سابق ایک بار پھر اخوانیوں کو ہی استعمال کیا القاعدہ میں شامل اخوانی نظریات کے سرخیل ایمن الظواہری (اللہ ان کی قبر آگ سے بھر دے) اور اس کے ساتھیوں نے سب سے پہلے روافض کو امت کا حصہ قرار دینے اور ان کے ساتھ بھائی چارے کی طرف قدم بڑھایا اور افغانستان میں امریکی حملے کے بعد ایران سے رابطے کر کے اپنے اہم افراد کےلئے نہ صرف تہران میں پناہ حاصل کی بلکہ ایرانی حکومت کے ساتھ تعلقات بھی مستقل استوار کر لئے۔

ایران کے ساتھ ظواہری اینڈ کمپنی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد ظواہری نے اہلسنت اور روافض کے مابین بھائی چارے کی کوششوں کا آغاز کیا اور عراق میں شیخ ابو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ کو مسلسل خطوط لکھے کہ روافض کے خلاف حملے روک دو جس کو شیخ زرقاوی رحمہ اللہ نے مسترد کر دیا بعد میں ظواہری نے کھلم کھلا روافض کی تکفیر سے انکار کر دیا ان کو امت کا حصہ قرار دے دیا اور شیخ زرقاوی رحمہ اللہ اور روافض کو نشانہ بنانے والوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

ظواہری کے ذریعے القاعدہ کو یرغمال بنانے کے علاوہ ایران نے طالبان سے بھی تعلقات بنائے اور جس طرح القاعدہ میں ان کو ظواہری کے روپ میں ایجنٹ ملا تھا امارت میں داود مزمل کی صورت میں اسی طرح کا ایجنٹ میسر آگیا اور پھر ایران اور امارت کے تعلقات اس قدر بڑھ گئے کہ امارت کا سربراہ اختر منصور تہران کے دورے کرنے لگا اور ایسے ہی ایک دورے سے واپسی پر مارا گیا ( اللہ تعالی اس کو بدترین عذاب کا مزہ چھکائے)۔

امارت کو امریکہ کی جانب سے اقتدار ملنے کے بعد روافض اور امارت کی دوستی بھی خفیہ سے ظاہر میں ائی اور جو دوستیاں چھپ چھپا کر کی جاتی تھی ان کا کھلم کھلا اظہار کر دیا گیا، سب سے پہلے مولوی امیر خان متقی نے روافض کے ہاں جا کر ایک بیان کیا اور کہا کہ ہم داعشی نہیں ہیں جو آپ کو اپنا دشمن سمجھیں ہم آپ کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں (بیان ویڈیو کی صورت میں موجود ہے) اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔

امارت نے نہ صرف روافض کو کھلم کھلا افغانستان میں شرکیہ ماتمی جلوسوں کی اجازت دی، ان کے جلوسوں کو سیکورٹی فراہم کی، ان کے امام بارگاہوں کی حفاظت پر کھڑے ہوگئے بلکہ ساتھ ساتھ ایران سے انتہائی قریبی تعلقات قائم کرتے ہوئے ان کو ملک میں مداخلت کی بھی کلین چٹ دے دی اور ان سے دولہ کے خلاف مل کر کام کرنے کے سمجھوتے کئے۔

ایران نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف مختلف فکری ادارے قائم کئے بلکہ صحت اور ثقافتی مراکز کے نام پر اہلسنت میں تیزی سے اثر و رسوخ بھی حاصل کرتا گیا اور افغانستان کے وہ پشتون صوبے جہاں روافض کے نام پر بھی لوگ تھوکتے تھے وہاں ایران کی جانب سے منعقدہ رافضی مذہبی ہروگراموں میں لوگ شریک ہونے لگے اور ایران ان کی غربت کا فائدہ اٹھا کر امداد اور صحت کی سہولیات کی آڑ میں مسلسل ان میں رافضیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہے جبکہ طالبان عہدیدار نہ صرف ان کے مجالس اور عبادات کا حصہ بنتے ہیں بلکہ قاسم سلیمانی جیسے ایلسنت کے قاتلین کو بھی امت کا ہیرو اور شھید قرار دے ڈالا( ویڈیو بیان موجود ہے)۔

اخوان، مذہبی جماعتوں، حماس، فلسطینی گروہوں، القاعدہ اور امارت کا مکمل طور پر ایران کے کیمپ میں جانے کے بوجود پاکستانی طالبان ٹی. ٹی. پی. کا معاملہ مختلف تھا اور یہ روافض کے خلاف شدت رکھتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف کھل کر روافض سے اعلان لاتعلقی کر رکھا تھا بلکہ متعدد مواقع پر عملی طور پر بھی روافض کو نشانہ بناتے رہتے تھے لیکن بلآخر جس طرح القاعدہ میں ظواہری اور امارت میں داود مزمل جیسے دیوث روافض کو ملے یہاں بھی ایک جمیعتی دیوث مفتی نور ولی کی صورت میں سامنے آیا اور بلآخر تحریک نے بھی روافض کے متعلق اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لیتے ہوئے ان کو بھائی کی حیثیت دے ڈالی۔

اپنے تازہ بیان میں تحریک نے روافض کو کہا ہے کہ ان کو تحریک طالبان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو آپ کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے مخالف ہیں بلکہ جس طرح ہم اہلسنت قبائل کی آزادی اور حقوق کےلئے کوشاں ہیں اسی طرح آپ کے حقوق اور آزادی کےلئے بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ ہم سب ایک قوم یعنی پشتون اور قبائلی ہیں۔

IMG_20240614_031349_780.jpg


تحریک کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی انتہائی قابل شرم ہے کہ انہوں نے روافض کو بھائی قرار دینے کا آغاز کرم کے طوری قبائل کے رافضیوں سے کیا ہے جو کہ عام روافض سے اس لئے شدید ہیں کہ انہوں نے ماضی میں خود ٹی. ٹی. پی. کے سینکڑوں ارکان کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور ان کے خلاف کرم ایجنسی میں خونریز معرکے لڑے ہیں۔

اخوان، مذہبی جماعتیں، فلسطینی گروہ، حماس، القاعدہ اور امارت کے بعد اب تحریک طالبان کے سرینڈر کے بعد دولہ اسلامیہ ہی واحد گروہ رہ گیا ہے جو اب تک روافض کی تکفیر کرتا ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کی نرمی دکھانے پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ روافض کے خلاف جنگ کی شدت میں کمی پر آمادہ ہیں۔

اس کے علاوہ اہلسنت کہلانے والوں کو مکمل طور پر ایران نے اپنے قدموں میں گرا دیا ہے اور ان کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے ان سے یہ بات منوا لی ہے کہ روافض تمھاری طرح مسلمان ہیں، امت کا حصہ ہیں، تمھارے بھائی ہیں، اللہ اس کے رسول صحابہ امہات المومنین کو گالم گلوچ اور تبرا کرنے کا حق رکھتے ہیں اور تمھیں اس کے باوجود ان کو قبول کرنا پڑے گا۔

یہ روافض کی ایک تاریخی فتح ہے اور خود کو اہلسنت کہلوانے والے ان گروہوں کی ایک بے مثال شکست ہے کیونکہ اس طرح اپنے عقائد سے یوٹرن لینے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

اس سے مجھے وہ وقت یاد آگیا جب یہ روافض کہتے تھے کہ ہم بہت جلد سنی شیعہ کا فرق مٹا دیں گے اور یک جان دو قالب ہوجائیں گے ہم اور اہلسنت ایک ہی صف میں ہوں گے اور ہمیں لڑانے کی کوشش کرنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

روافض کی یہ باتیں اُس وقت دیوانے کا خواب نظر آتی تھی لیکن انہوں نے بہت کم عرصے میں اپنی یہ بات ہوری طرح ثابت کر دی اور سوائے ایک گروہ کے تمام اہلسنت ان کے قدموں میں گر پڑے۔

روافض کا یہ دعوی اور اس کو پورا کرنا بلکل ایسا ہے جیسے ابلیس نے دعوی کیا تھا کہ میں اولاد آدم کو خود سے مانوس کر کے اپنے پیچھے لگا لوں گا اور پھر واقعی اس نے اپنا دعوی ثابت کر دیا۔

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"ولقد صدق عليهم إبليس ظنه فاتبعوه إلا فريقا من المؤمنين"

(اور یقینا ابلیس نے ان کے متعلق اپنا گمان درست ثابت کیا سو وہ اس کے پیچھے چل پڑے سوائے اہل ایمان کے ایک گروہ کے۔)

سو روافض نے بھی اپنا گمان سچا ثابت کیا اور تمام اہلسنت کہلانے والے اس کے پیچھے چل پڑے سوائے اہل ایمان کے ایک گروہ کے۔

وما علینا الا البلاغ
 
Top