- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
کتاب’ رواۃ الحدیث‘ کا تعارف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ الحدیث کے نصاب میں ’ رواۃ الحدیث‘ کے نام سے ایک ’مادہ‘ مقرر ہے۔ ہم نے یہ موضوع کلیہ کے مایہ ناز استاد دکتور عواد رویثی حفظہ اللہ سے پڑھا، اس وقت انہوں نے اپنا ایک مذکرہ دیا تھا، لیکن بعد میں یہی ’نوٹس‘ ایک مکمل کتاب کی شکل میں طباعت پذیر ہوئے۔[1]زیر نظر تحریر میں اسی کتاب کا تعارف مقصود ہے۔
جیسا کہ کتاب کے نام ’رواۃ الحدیث‘ سے ظاہر ہے کہ اس میں ’راویانِ حدیث‘ سے متعلقہ مباحث کا ذکر ہے۔ مضامین ِ کتاب درج ذیل ترتیب پر ہیں:
سب سے پہلے مقدمہ اور پھر تمہید ہے، جس میں اصول حدیث کی بجائے ’علم الإسناد‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، پھر ’سند‘ کی تعریف، اہمیت اور ’سند‘ کے استعمال کی ابتدا کے متعلق معلومات ہیں، ابن سیرین کے مشہور قول: "لم يكونوا يسألون عن الإسناد فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالكم..." کی شاندار تشریح ہے، اور اس حوالے سے مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کا شافی رد ہے۔
تمہید کے دوسرے حصے میں ’رواۃ الحدیث‘ کو ’ علم الإسناد‘ کی ایک قسم اور فرع کے طور پر ذکر کرکے، اس کی تعریف، اس سے متعلق محدثین کے اہتمام اور تصنیفات کی ابتدا کا ذکر ہے۔
اس کے بعد مکمل کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول: رواۃ سے متعلق کتب کا تعارف
باب دوم: رواۃ سے متعلق خاص اصطلاحات
باب سوم: طبقات ِرواۃ
اب ان ابواب کے مضامین کا مختصر تعارف ملاحظہ کریں۔
باب اول: رواۃ سے متعلق کتب کا تعارف
اس باب کا مقصد پانچویں صدی ہجری تک راویانِ حدیث سے متعلق کتابوں کا تعارف ہے، جبکہ یہ سات فصول پر مشتمل ہے۔پہلی فصل: تعارف صحابہ
سلسلہ رواۃ کی سب سے افضل کڑی صحابہ کرام ہیں، پہلی فصل انہیں سے متعلق ہے، جس کا عنوان ہے: ’صحابہ سے متعلق کتابیں‘۔
اس فصل کی تمہید میں صحابی کی تعریف، صحابیت کا ثبوت، طبقات صحابہ، عدالت صحابہ وغیرہ کے حوالے سے اہل سنت کے موقف اور بعض اہل بدعت کی آراء کا بیان ہے، اسی طرح مکثرین صحابہ کا ذکر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق شبہات واعتراضات کی تردید کی گئی ہے۔
اس فصل کا مرکزی مضمون صحابہ کے تعارف پر لکھی گئی کتب کا عمومی ذکر، جبکہ دو کتابوں الاستیعاب لابن عبد البر اور الإصابہ لابن حجر کا تفصیلی تعارف ہے۔
دوسری فصل: کتبِ طبقات
محدثین کے ہاں راویان کی ترتیب میں مختلف مناہج میں سے ایک منہج طبقاتی تقسیم کا بھی ہے، لہذا اس فصل میں اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا ذکر اور تین کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے:
الطبقات لابن سعد، الطبقات از خلیفہ خیاط اور المعین فی طبقات المحدثین از حافظ ذہبی
اس سے پہلے تمہیدی مباحث کے طور پر ’ علم الطبقات‘ کی تعریف، اہمیت اور اس سلسلے میں مصنفین کے مختلف مناہج کا ذکر ہے۔
تیسری فصل: کتبِ جرح وتعدیل
یہاں جرح وتعدیل کا معنی ومفہوم، مشروعیت، جارح و معدل کی صلاحیت و اہلیت اور علم جرح و تعدیل کی اہمیت و فضیلت کا بیان ہے۔
بعد میں جرح و تعدیل کی کتابوں کا عمومی ذکر کرکے چار کتابوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے:
التاریخ الکبیر للبخاری، الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، الثقات لابن حبان اور الکامل لابن عدی۔
چوتھی فصل: تاریخِ بلدان سے متعلق کتابیں
اس میں تاریخ بلدان سے مراد کیا ہے؟ اس میں تصنیف و تالیف کی سوچ کب کیسے پیدا ہوئی؟ کے بیان کے بعد اس کے متعلق کتابوں کا ذکر ہے، اور آخر میں ’تاریخ بغداد للخطیب‘ کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔
پانچویں فصل:پھر پانچویں فصل کنیت، اور القاب و انساب سے متعلق ہے، جس میں تمہیدی مباحث کے علاوہ کنیت سے متعلق "الكنى والأسماء للدولابي"، القاب سے متعلق "نزهة الألباب لابن حجر" اور انساب سے متعلق " الأنساب للسمعاني" کا تفصیلی تعارف ہے۔
اسی فصل کا دوسرا حصہ ملتے جلتے اسماء و القاب وغیرہ کی پہچان سے متعلق ہے، جس میں مؤتلف و مختلف، متفق و مفترق اور مشتبہ کی وضاحت ، اس سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کا عمومی ذکر ہے، جبکہ "الإكمال لابن ماكولا" اور "المتفق والمتفرق للخطيب" اور "تبصير المنتبه" كا تفصیلی تعارف ہے۔
چھٹی فصل میں راویان کی تاریخ وفات کے متعلق کتابوں اور معاجم الشیوخ کا ذکر ہے، اور علم الرواۃ کی اس قسم کی اہمیت کا بیان ہے۔
ساتویں فصل: مخصوص کتبِ حدیث کے رواۃ کا تعارف
محدثین نے بعض کتابوں کے راویوں اور رجال کے تعارف پر مخصوص کتب بھی تصنیف فرمائی ہیں، یہاں ان کتابوں کا تذکر ہے، جبکہ اس ضمن میں لکھی گئی چار اہم کتابوں یعنی ’تہذیب الکمال للمزی‘، الکاشف للذہبی‘ اور ابن حجر ’ التہذیب‘ اور ’التقریب‘ کا تفصیلی تعارف ہے۔
یوں کتاب کا پہلا باب مکمل ہوتا ہے، ویسے اس باب کی شرط یہ تھی کہ پانچویں صدی تک کی کتابوں کا ذکر ہوگا، لیکن اہمیت کے پیش نظر ساتویں فصل اور اس سے پہلے بعض کتابیں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی بھی ذکر کردی گئی ہیں۔
باب دوم: رواۃ سے متعلق خاص اصطلاحات
یہ مکمل باب جن مباحث و مضامین پر مشتمل ہے، ان سب کو اس فن کا کوئی متخصص ہی سمجھ سکتا ہے، ورنہ عام شخص جو اس علم سے بے بہر ہ ہے، اس کے نزدیک یہ مضامین کسی طلسم و تعویذ کو پڑھنے کے مترادف ہیں۔ اس باب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محدثین نے فن حدیث اور جرح و تعدیل اور علم الرواۃ میں کس کس انداز سے دادِ تحقیق دی ہے۔اس باب کے مضامین (15) فصلوں میں منقسم ہیں۔
پہلی فصل: رواية الأكابر عن الأصاغر یعنی بڑوں کی چھوٹوں سے روایت کی پہچان
عموما یہ ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے روایت کرتا ہے، لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ بڑے لوگ چھوٹوں سے روایت کرتے ہیں، اور یہ حالات و استثناءات محدثین نے اس فن کی کتابوں میں خوب کھول کر بیان کردیے ہیں، تاکہ کوئی جاہل اور سطحی نظر والا یہ نہ کہہ دے کہ سند میں غلطی یا تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے۔ منکرین حدیث پتہ نہیں کن وادیوں میں گم رہتے ہیں، ذرا ان باریکیوں کو دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ انکار حدیث میں مبتلا ہو کر اس عظیم الشان فن پر کس قدر لایعنی اعتراضات کرنے پر اتر آئے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث جساسہ کو تمیم داری رضی اللہ عنہ سے بیان کرنا، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا " من نام عن حزبه..." والی روایت کو ایک تابعی عبد الرحمن القاریّ سے بیان کرنا، اسی طرح ابن شہاب زہری وغیرہ کا مالک سے بیان کرنا یہ اس قسم کی مثالیں ہیں۔ اور محدثین کی اس موضوع سے متعلق درجن کے قریب کتابیں ہیں۔
اس کے بعد دو فصلوں میں روایۃ الآباء عن الابناء اور روایۃ الأبناء عن الآباء کا ذکر ہے۔
جیساکہ حضرت عباس نے اپنے بیٹے فضل سے روایت بیان کی، حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے روایت کی۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اسی طرح عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ، بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ، طلحۃ بن مصرف بن عمرو بن کعب عن أبیہ عن جدہ دوسری قسم کی مثالیں ہیں۔
چوتھی فصل: ہم عمر لوگوں کی روایت کی پہچان
اسے علمی اصطلاح میں روایۃ الأقران اور المدبج جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، عموما یہ ہوتا ہے کہ مختلف ساتھی مل کر اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں، لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے ہم عصر اور ساتھی راوی ایک دوسرے بھی روایت کرلیتے ہیں، محدثین نے ان باریکیوں کی بھی صراحت کر رکھی ہے ۔ پھر اس میں مزید تفصیل ہے، اگر دونوں ساتھی ایک دوسرے سے بیان کریں، تو اس کا نام اور ہے، اور اگر دونوں میں سے صرف ایک ہی دوسرے سے بیان کرے، لیکن دوسرا پہلے سے بیان نہ کرے تو اس کا نام اور ہے ۔ پہلی صورت کو ’مدبج‘ اور دوسری کو ’ غیر مدبج‘ کہا جاتا ہے۔
حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کا ایک دوسرے سے روایت کرنا، مالک و اوزاعی کا، اسی طرح احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کا ایک دوسرے سے روایت کرنا اس کی مثال ہے۔
جو لوگ کتب حدیث سے اسانید دیکھتے ہیں، وہ اس کے فائدے کو سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی معرفت سے سند میں لگنے والی بعض غلطیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔
امام مسلم، دارقطنی، ابن الجوزی اور ابن حجر وغیرہ کی اس حوالہ سے مستقل تصنیفات ہیں۔
پانچویں فصل ’معرفۃ الأخوۃ والأخوات‘ یعنی بہن بھائیوں کی پہچان سے متعلق ہے، اس کی معرفت سے بھی انسان کئی ایک غلطیوں سے بچ سکتا ہے، مثلا مشہور راوی ہیں ہمام بن منبہ، لیکن انہیں کے ایک بھائی ہیں، وہب بن منبہ، دونوں کا علم ہوگا،تو جب دوسرے کی روایت آئے گی، تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ محدث کو نام لینے میں غلطی لگ گئی ہے، کہنا ہمام بن منبہ تھا، کہہ دیا وہب بن منبہ ۔ وغیرہ۔
اس میں بھی درجنوں مستقل تصانیف ہیں۔
اس کے بعد کی فصول میں بھی اس قسم کی باریکیوں کا ذکر اور ان سے متعلق کتب کا تعارف موجود ہے، مثلا وہ راوی جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے، وہ راوی جنہوں نے صرف ایک حدیث ہی بیان کی ہے، وہ نام یا کنیت جو صرف ایک راوی کی ہی ہے، اسی طرح اسانید میں بعض دفعہ ’رجل، شیخ‘ جیسے الفاظ آجاتے ہیں، اسی طرح بعض دفعہ ’عبد اللہ، عبد الرحمن‘ جیسے مشہور و کثیر الاستعمال نام آجاتے ہیں، ایسی صورت میں راوی کی پہچان کیسے ہوگی، اسی طرح ایک ہی راوی سے روایت کرنے والے دو شخص ہیں، لیکن دونوں کی عمروں میں پچاس سال کا فرق ہے، ان حالات کی بھی تفصیل ہے۔ احمد ابن حجر میں محدث آپ کو بتائے گا کہ حجر احمد کا والد نہیں بلکہ یہ اس کی پشت میں کسی اور کا نام ہے، أبو مسعود البدری کے لقب کی توضیح محدث کرے گا کہ بدر میں شریک نہ ہونے کے باوجود انہیں بدری کیوں کہا جاتا ہے؟ راوی ثقہ ہے، لیکن لوگوں میں وہ عبد اللہ الضعیف کے نام سے کیوں مشہور ہے؟ صحیح العقیدہ شخص کو معاویۃ الضال کیوں کہا گیا؟ چار چار ناموں کے متعلق محدثین آپ کو بتائیں گے کہ یہ ایک ہی شخصیت کے مختلف نام تھے۔
ان تمام فصول کو دیکھ کر محدثین کی باریک بینی اور حفاظت سنت میں احتیاط کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
میں اسی لیے عرض کرتا ہوں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر منہ پھاڑ کر حدیث کو خلاف عقل یا جھوٹ یا گستاخی قرار دینا آسان کام ہے، لیکن اس کی تحقیق و تفتیش کے اصول و وضابطے سمجھنے کے لیے پوری کی پوری عمریں درکار ہیں۔
باب سوم: طبقات ِرواۃ
راویانِ حدیث میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جن سے پانچ دس لوگ روایت کرنے والے ہیں، جن سے آٹھ دس احادیث مروی ہیں، لیکن کچھ ایسے ہیں، جن کے تلامذہ کی فہرست سینکڑوں پر مشتمل ہے، ان کی احادیث کی تعداد ہزاروں میں ہے، ایسی صورت حال کے لیے ’علم طبقات الرواۃ‘ معرض وجود میں آیا۔مشہور اور کبار راویاں حدیث، ائمہ ومحدثین کو جمع کیا گیا، ان سے روایت کرنے والے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی درجہ بندیاں کی گئیں، بعض کی عمر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا، بعض کے تلامذہ کو اس کے علمی اسفار کی روشنی میں ترتیب دیا گیا، تاکہ معلوم ہو کہ کسی نے کوئی روایت کسی شیخ سے کس حالت ، ماحول اور علاقے میں سنی ہے ۔ ایک ہی امام اور محدث نے جب مختلف لوگ مختلف باتیں بیان کریں گے، تو ترجیح کس کی بات کو ہوگی؟ مصنف نے تیسرے باب میں ان سب باریکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ علل الحدیث کے باب میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے ۔ علی بن مدینی، احمد بن حنبل، ابو حاتم الرازی، ابو زرعۃ الرازی، امام بخاری، امام نسائی، دارقطنی وغیرہ جنہیں ائمہ علل کہا جاتا ہے، یہ سب باریکیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی تھیں تو یہ ’ائمہ علل‘ کہلائے۔
صحابہ میں کثرت تلامذہ میں عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم مشہور ہوئے، پھر بعد میں مدینہ میں ابن شہاب زہری ہوئے، مکہ میں عمرو بن دینار، بصرہ میں قتادۃ بن دعامہ اور یحیی بن أبی کثیر، کوفہ میں سبیعی اور اعمش کے گرد طلبہ امڈ امڈ کر آنے لگے.... پھر بعد میں ان کے شاگردوں میں پھر ان کے شاگردوں میں..... اس طرح آخر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور ہر زمانے کے محدثین نے ان جلیل القدر شخصیات کے شاگردوں اور تلامذہ کو مختلف اعتبار سے تقسیم کیا، اور یہی علم الطبقات کہلایا۔
لیکن ہم اس دور سے گزر رہے ہیں، جہاں ایک طرف تو الحمدللہ محدثین کی جہود کو نمایاں کرنے والے لوگ ہیں، لیکن دوسری طرف ایسے ظالم و جاہل بھی ہیں، جو ان باتوں کو سمجھنے کی بجائے بالکل ویسے ہی جملے بازی کرتے ہیں، جو دور نبوت کے مکذبین و منکرین کیا کرتے تھے، " وإذ لم يهتدوا به فسيقولون هذا إفك قديم" کہ جب ان کی عقلوں میں یہ عظیم الشان علم اور فن نہیں آئے گا تو یہ اس کی تکذیب و انکار کرنا شروع کردیں گے۔
کتابوں کے تعارف میں مصنف کا منہج
مصنف کا منہج یہ ہے کہ ہر موضوع سے متعلق کئی ایک کتابوں کا عمومی تذکرہ کرتے ہیں، اور بعض کتابوں کا خصوصی تعارف، جن کتابوں کا صرف ذکر ہے، ان کی تعداد تو سیکڑوں ہے، البتہ جن کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے، ان کی تعداد دو درجن کے قریب ہے۔ کتاب کے تعارف میں جن چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، مصنف نے ان نکات کا ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ کسی بھی کتاب سے کما حقہ استفادہ کے لیے درج ذیل دس امور مد نظر رکھنے چاہییں:(1) کتاب کا عنوان یعنی نام، جو کہ کتاب کی اصل پہچان ہوتا ہے ۔
(2) مؤلف کتاب کی پہچان، جس سے کتاب کی علمی قیمتی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
(3) کتاب کا موضوع کہ یہ کس فن اور اور اس کی کس قسم میں ہے ۔
(4) کتاب کی قدر و منزلت، جو کہ علما کی تعریف و توصیف، کتاب کی طرف ان کی توجہ اور اعتماد سے معلوم ہوتی ہے، اسی طرح کتاب کے مصادر اور مؤلف کی قدر ومنزلت بھی کتاب کے علمی قد کاٹھ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے ۔
(5) کتاب کی ترتیب کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ اس سے استفادہ کرنا آسان ہو۔
یہاں مصنف نے ترتیب کتاب سے متعلق بہت مفید علمی نکات بیان کیے ہیں، مثلا: کتاب کی ترتیب میں علما کے کئی ایک طریقے ہیں، بعض حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کرتے ہیں، بعض طبقات پر، بعض علاقوں اور شہروں کی ترتیب سے، بعض قبائل وغیرہ کی نستبوں کے اعتبار سے، بعض تاریخ وفات کے لحاظ۔ بعض طریقوں میں مزید تفصیلات ہیں، مثلا حروف تہجی پر مرتب کتابوں میں بھی فرق ہے، کیونکہ متقدمین عموما نام یا کنیت ولقب میں سے صرف پہلے لفظ کا خیال رکھتے ہیں، جیسا کہ بخاری و ابن ابی حاتم وغیرہ، جبکہ متاخرین جیسا کہ مزی، ذہبی و ابن حجر وغیرہ ہر ہر لفظ کا آخر تک خیال رکھ کر ترتیب لگاتے ہیں، اسی طرح مشرقی حروف تہجی کی ترتیب اور مغربی حروف تہجی کی ترتیب میں بھی فرق ہے، یہاں حروف تہجی کی ترتیب کی بعض مفید تفصیلات بھی مذکور ہیں۔
(6) مؤلف کتاب کا منہج معلوم ہونا ضروری ہے، بعض دفعہ مؤلف خود بیان کردیتے ہیں، بعض دفعہ کوئی اور محدث اس کا ذکر کرتا ہے، ورنہ خود کتاب کے استقراء سے معلوم کرنا پڑتا ہے ۔
(7) کتاب کے مصادر و موارد معلوم ہونا ضروری ہیں، جیساکہ گزرا کہ اس سے کتاب کی قدر و منزلت کے تعین اور نصوص کی توثیق میں مدد ملتی ہے ۔
(8) دیگر علما کا کتاب کے ساتھ اہتمام اور توجہ جسے عموما’ عنایۃ العلماء بالکتاب‘ کے عناوین سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس عنایت و اہتمام کی بھی مختلف شکلیں ہیں، مثلا کسی کتاب کو مرتب کرنا، شرح کرنا، اختصار و تہذیب کرنا، سماع و اجازہ اور نسخ وغیرہ، یہ سب اہتمام کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔
(9) کتاب پر اعتراضات و انتقادات معلوم کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بعض کتابوں پر دیگر علما کے ملحوظات و تحفظات ہوتے ہیں۔
(10) کتاب کی طبعات کا تعارف بھی اہم ہے، تاکہ طالب علم اچھے اور بہترین طبعہ سے استفادہ کرے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اس حوالے سے مختلف طبعات کو جمع کرنے میں وقت اور پیسہ صرف کرنا، پھر ان میں کیڑے نکالنا، یہ کوئی زیادہ مفید کام نہیں۔ کوشش کرکے ایک طبعہ اختیار کرلینا چاہیے، اور بقیہ سے بوقت ضرورت استفادہ کرلیا جائے۔
اب بطور نمونہ مشہور زمانہ کتاب ’تقریب التہذیب‘ کے تعارف سے بعض نکات پیش خدمت ہیں:
کتاب کےعنوان اور مصنف کے نام کو دو سطروں میں بیان کردیا گیا ہے، پھر موضوع کتاب کو ابن حجر کی زبانی ہی بیان کیا کہ یہ تہذیب التہذیب کا اختصار ہے، اس کے لیے مصنف نے تعجیل المنفعۃ وغیرہ سے بھی معلومات نقل کی ہیں۔
علمی قدر ومنزلت: تقریب کی علمی قدر ومنزلت کو 9 نکات میں واضح کیا گیا ہے۔ مثلا یہ کہ اس کے مؤلف بہت بلند ترین شخصیت ہیں، یہ مصنف کی فنی اور علمی زندگی کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، مختصرات میں اس سے بہتر کتاب موجود نہیں، کتاب مختصر ہونے کے ساتھ جامع ہے، علما کے ہاں اسے شہرت و تلقی حاصل ہے، اور اس کثیر تعداد میں خطی نسخے ہیں، مؤلف گو 827ھ میں اس کی تالیف سے فارغ ہوچکے تھے، لیکن 850ھ یعنی وفات سے دو سال قبل تک اس کی تحریر و تدقیق اور نظرثانی میں مصروف رہے۔
پھر منہج مؤلف اور تالیف کی غرض و غایت کو ابن حجر کے الفاظ میں ہی نقل کرنے کے بعد نکات کی شکل میں منہج مؤلف کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس کے بعد ابن حجر کے بیان کردہ ’مراتب الجرح والتعدیل‘ اور ’ طبقات الرواۃ‘ پر نفیس تعلیقات و توضیحات ہیں، جو بعض باحثین کے نزدیک اسی کتاب کا خاصہ ہیں، کہیں اور یہ تفصیلات نہیں ملتیں۔
طبعات کے ذکر میں لکھنو کے طبعہ حجریہ کو قدیم طبعات میں افضل قرار دیا، اور جدید طبعات میں محمد عوامہ اور شیخ ابو الاشبال مرحوم کے طبعہ کو افضل قرار دیا۔ اس کے علاوہ کئی ایک طبعات اور علمی بحوث و دراسات کا ذکر کیا، جو ابن حجر کی تقریب یا منہج یا تعقبات و استدراکات پر مشتمل ہیں۔ ایک بہت اہم کتاب جس کا یہاں ذکر نہیں، وہ ہے : تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير «التقريب»، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی کے کسی شاگرد کی طرف جمع کردہ، بہت نفیس کتاب ہے، راویوں کے متعلق ابن حجر کی تمام کتابوں سے ’احکام‘ جمع کردیے گئے ہیں۔ بہر صورت شیخ عواد کا تقریب کا تفصیلی و علمی تعارف لائق مطالعہ ہے، کبھی تقریب کا تعارف لکھنے کا موقعہ ملا تو اس کے نکات پیش کروں گا۔ ان شاءاللہ۔ زیر نظر تحریر تقریب کے نہیں، بلکہ ’رواۃ الحدیث‘ کے تعارف پر مشتمل ہے۔
کتاب ’رواۃ الحدیث ‘سے حاصل شدہ نتائج
مصنف نے آخر میں اس طویل کتاب سے حاصل شدہ نتائج کو درج ذیل نکات میں بیان کیا ہے:(1) اللہ تعالی نے اس دین کو محفوظ کیا، اور اس کے لیے ایسے لوگوں کو توفیق دی ہے، جنہوں نے دن رات اس کے لیے محنتیں اور کوششیں کی ہیں، چاہے وہ قرآن سے متعلق ہوں یا حدیث کے متعلق۔
(2) اسناد اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ہے، نہ صرف محدثین نے اس سے دین کو محفوظ کیا، بلکہ دیگر علوم وفنون اور دیگر ادیان و ملل بھی اس سے تاثر لیے بغیر نہ رہ سکے۔
(3) اسناد سے متعلق علم رواۃ الحدیث جیسا جلیل القدر علم علمائے اہل حدیث کے مفاخر و مآثر میں شمار ہوتا رہے گا۔
(4) علم الرواۃ ایک طویل و دقیق علم ہے، اسی لیے اس سے متعلق مصنفات سے مکتبوں کے مکتبے بھرے ہوئے ہیں۔
(5) علم الرواۃ مختلف مراحل سے گزرا ہے، مختلف زمانوں میں اس کی خدمت مختلف انداز سے ہوتی رہی ہے۔
(6) کئی ایک زمانوں میں ’راویانِ حدیث‘ بالخصوص صحابہ کرام اور مکثرین رواۃ کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، تاکہ ان سے مروی شدہ روایات و احادیث اور سنتوں کے متعلق شکوک و شبہات کو ہوا دی جائے، لیکن طاعنین و ظالمین مر مٹ گئے، جبکہ راویان حدیث صحابہ و غیر صحابہ آج بھی قدر و منزلت کی اوج ثریا پر موجود ہیں اور رہیں گے، جبکہ حاسدین و فتنہ پروروں کی ناک ہمیشہ خاک آلود ہوتی رہے گی ۔ وللہ الحمد۔
حافظ خضر حیات، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
یوم الخمیس، 28 ذو الحجہ، 1440
[1] كتاب ايك جلد میں تقریبا (900) صفحات پر مشتمل ہے، اور نیٹ پر پی ڈی ایف کی صورت میں بھی موجود ہے۔ کتاب کے نام اور مصنف کے نام کے آگے pdf کا اضافہ کرکے گوگل سرچ کریں۔