• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایتِ شداد بن اَوسؓ ، فن حدیث کی رو سے تحقیقی جائزہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
روایتِ شداد بن اَوسؓ ، فن حدیث کی رو سے تحقیقی جائزہ


ابوعبد اللہ طارق​

انہی دنوں بعض لوگوں نے یہ نیا دعویٰ شروع کردیا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں شرکِ اکبرنہیں پایا جا سکتا اور اِس اُمت کا کوئی فرد شرکِ اکبر نہیں کر سکتا ۔ اس دعویٰ سے مقصود یہ ہے کہ آج اگر بعض لوگوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کی جائے تو وہ یہ جواب دے سکیں کہ
’’بھائی! اب شرک کیسا، اس کا تو اس اُمت میں امکان ہی نہیں ہے۔ ‘‘
اس مقصد کے لئے شداد بن اَوس سے مروی ایک روایت بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نےاس روایت میں سورج ،چاند، پتھر اور بتوں کی پوجا کا مسلمانوں سے اِمکان رد کر دیا ہے،لہٰذا مسلمان کبھی بھی شرکِ اکبر کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔
نبی ﷺ کی طرف منسوب یہ روایت شداد بن اوس كی زبانی یوں بیان کی جاتی ہے:
قال رسول الله ﷺ:« إنّ أخوف ما أتخوف على أمتي الإشراك بالله أما إنّي لست أقول یعبدون ولا شمسا ولا قمرا ولا وثناء ولٰکن أعمالا لغیر الله وشهوة خفية»
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: مجھے اپنی اُمت پر سب سے زیادہ خطرہ اللہ کے ساتھ شرک کا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند اور بت کی عبادت کریں گے لیکن وہ عمل کریں گے، اللہ کے علاوہ دوسروں کے (دکھانے کے ) لئے اور شہوتِ خفیہ کا‘‘
روایت ِمذکور کی تحقیق
ابن ماجہ کی یہ روایت رواد بن الجراح عن عامر بن عبد الله عن الحسن ابن ذکوان عن عباده بن نسی عن شداد بن أوس کی سند سے مروی ہے ۔
1 روایتِ مذکور پر علامہ البانی﷫ نے ضعف کا حکم لگایا ہے۔
2 ڈاکٹربشار عواد معروف بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
3 حافظ زبیر علی زئی ﷾فرماتے ہیں:
’’(یہ روایت) ضعیف ہے اور اس کے دو شاہد ہیں جو ضعیف جدًا ہیں ۔‘‘
4 اِس روایت کی سند میں تین علتیں ہیں:

نوٹ
یہ مضمون PDF فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
پہلی علت: حسن بن ذکوان ابو سلمہ بصری مدلس ہے اور عَن کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی جیسا کہ
1 حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
صدوق یخطیء رمي بالقدر وکان یدلس من السادسة
’’یہ صدوق ہے (حدیث میں) غلطیاں کرتا ہے، قدری (تقدیر کا منکر) ہے۔ تدلیس کرتا ہے اور طبقہ سادسہ سے ہے۔‘‘
2 مزید فرماتے ہیں: أشار ابن مساعد إلىٰ أنه کان مدلسًا
’’ابن مساعد نے اِس کے مدلس ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘
3 امام علائی، ابوزرعہ ابن الصراقی، سیوطی، حلبی اور الدمینی نے بھی اِس کو مدلسین میں ذکر کیا ہے: فدلسه بإسقاط عمرو بن أبي خالد
’’اِس نے عمرو بن ابو خالد کا واسطہ گرا کر تدلیس کی ہے۔ ‘‘
4 حافظ ابن حجر  ،امام ابن عدی جرجانی سے ایک روایت کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ
إنما سمعها الحسن من عمرو بن خالد عن حبیب فأسقط الحسن بن ذکوان عمرو بن خالد من الوسط
’’ اِس روایت کو حسن نے عمرو بن خالد سے سنا۔ پس حسن بن ذکوان نے درمیان سے عمرو بن خالد کو گرا دیا۔‘‘
5 نیز ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
فقیل للحسن بن ذکوان سمعته من الحسن قال: لا قال العقيلي ولعله سمع من الأشعث يعني فدلسه
’’حسن بن ذکوان سے پوچھا گیا کہ (کیا) تو نے اِس کو حسن سے سنا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ شاید اِس نے اِس کو اَشعث سے سنا ہو، یعنی اِس (حسن بن ذکوان) نے اِس میں تدلیس کی ہے۔‘‘
جہاں تک مدلس کی عن کے ساتھ بیان کردہ روایت کے قابل حجت نہ ہونے کی بات ہے تو علامہ امام عینی حنفی فرماتے ہیں:
والمدلِّس لا یحتج بعنعنته إلا اَن يثبت سماعه من طريق آخر
’’مدلس کی عن کے ساتھ بیان کی ہوئی روایت قابل حجت نہیں ہوتی اِلا کہ دوسری سند سے اس کا سماع ثابت ہو جائے۔‘‘
یہ سند حسن بن ذکوان کی تدلیس اور عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔بلکہ ڈاکٹر بشار عواد معروف اور شیخ شعیب ارناؤوط، حافظ ابن حجر کے اِس راوی کو صدوق کہنے کا تعاقب؍تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بلکہ (حسن بن ذکوان) ضعیف ہے۔ اِس کو یحییٰ بن معین، ابو حاتم رازی،امام نسائی، ابن ابی الدنیا اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اِس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘
6 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
’’عجیب و غریب روایتیں بیان کرنے والا اور منکر الحدیث ہے۔‘‘
اور فرمایا کہ کان قدریا
’’یہ قدری (تقدیر کا منکر) تھا۔ ‘‘
7 امام احمد بن حنبل بھی فرماتے ہیں: أحادیثه أباطیل
’’اس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘
8 امام اثرم فرماتے ہیں:
میں نے ابو عبد اللہ سے پوچھا کہ آپ حسن ذکوان کے متعلق کیا فرماتے ہیں:
’’تو اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘
9 امام آجری امام ابو داؤد سے بیان کرتے ہیں کہ کان قدریًا ’’یہ قدری تھا۔‘‘
(امام آجری) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ زعم قوم أنه کان فاضلا. قال ما بلغنی عنه فضل
’’کچھ لوگ اُسے (عالم) فاضل گمان کرتے ہیں تو (امام ابو داؤد) نے جواب دیا کہ مجھے تو اُس کے فضل والی کوئی بات نہیں پہنچی۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دوسری علت: اِس روایت کے ضعیف ہونے کی دوسری علت عامر بن عبد اللہ ہے۔
1 حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
’’ روّاد کا شیخ عامر بن عبد اللہ مجہول ہے۔‘‘
2 امام منذری فرماتے ہیں: لا یعرف
’’یہ راوی معروف نہیں،(یعنی مجہول) ہے۔ ‘‘
3 امام ذہبی فرماتے ہیں:
عن الحسن بن ذکوان وعنه روّاد بن الجراح نکرة
’’یہ حسن بن ذکوان سے روایت کرتا ہے اور اِس (یعنی عامر) سے رواد بن جراح روایت کرتا ہے۔ (اِس میں) نکارت ہے۔ ‘‘
4 امام ابن عدی جرجانی فرماتے ہیں: منکر الحدیث ہے ۔
5 حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’یحییٰ بن معین کے اِس کے بارے میں (دو) مختلف قول ہیں۔ابن عبد البرقی نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ یہ ثقہ ہے اور عباس الدوری نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ لیس بشيء یہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
محدثین کے ہاں لیس بشيء جرح کے الفاظ میں سے ہے جو راوی کے ضعیف ہونے کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تیسری علت: اِس میں ایک راوی روّاد بن الجراح ہے جس کے بارے میں
1 امام دار قطنی فرماتے ہیں :’’یہ متروک ہے ۔‘‘
2 امام ذہبی فرماتے ہیں: له مناكیر ضُعّف
’’اِس کی (بیان کردہ روایتیں) منکر ہیں، اِسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘
3 امام زیلعی لکھتے ہیں: قال الشیخ في الإمام لیس بالقوي
’’یہ قوی نہیں ہے۔‘‘
4 امام نسائی فرماتے ہیں:
لیس بالقوی روی غیر حدیث منکر وکان قد اختلط
’’یہ قوی نہیں ہے ۔اِس نے کئی ایک منکر حدیثیں روایت کی ہیں اور اسے اختلاط ہو گیا تھا۔ ‘‘
5 امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
أدخله البخاري في الضعفاء وقال: کان قد اختلط لا یکاد یقوم حدیثه
’’امام بخاری نے اس کو ضعفا میں داخل کیا ہے اور (یہ بھی) فرمایا ہے کہ اِسے اختلاط ہو گیا تھا۔ اِس کی (بیان کردہ) حدیث مضبوط نہیں ہوتی۔ ‘‘
6 امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
محله الصدق تغیر حفظه وقال مرة:کان قد اختلط لا یکاد یقوم له حدیث قائم
’’صدوق ہے۔ اِس کا حافظ متغیر ہو گیا تھا اور ایک مرتبہ کہا کہ: اِس کو اختلاط ہو گیا تھا۔ اس کی بیان کردہ حدیث مضبوط نہیں ہوتی۔ ‘‘
7 حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
صدوق اختلط بآخره فتُرك
’’صدوق ہے۔آخر میں اسے اختلاط ہو گیا تھا پس ترک کر دیا گیا۔‘‘
8 نیز فرماتے ہیں:
’’رواد ضعیف ہے۔‘‘
9 امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
وقال أحمد: حدیث عن سفیان أحادیث مناکیر
’’امام احمد فرماتے ہی:اِس نے سفیان سے منکر روایتیں بیان کیں ہیں۔‘‘
10 امام ابن عدی فرماتے ہیں: عامة ما یرویه لا یتابعه الناس علیه وکان شیخًا صالحا وفي الصالحین بعض النکرة الا أنه یکتب حدیثه
’’لوگ عام طور پر اِس کی بیان کردہ روایتوں پر اِس کی متابعت نہیں کرتے۔ نیک شیخ تھا اور نیک لوگوں میں ہی کچھ نکارت ہوتی ہے۔مگر اِس کی حدیث کو لکھا جائے گا۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
11 ابن حبان نے اِس کو ثقات میں ذکر کیا اور کہا کہ یخطئ ویخالف
’’غلطیاں کرتا اور (ثقات کے) خلاف روایتیں بیان کرتا ہے۔ ‘‘
12 یعقوب بن سفیان نے کہا کہ
’’یہ حدیث (بیان کرنے) میں ضعیف ہے۔‘‘
13 امام دار قطنی فرماتے ہیں:
’’ یہ متروک ہے۔‘‘
14 امام ابو احمد حاکم فرماتے ہیں:تغیر بآخرة فحدث بآحادیث لم یتابع علیه
’’آخر میں اِس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ پس اس نے ایسی ایسی حدیثیں بیان کیں جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
15 امام محمد بن عوف الطائی فرماتے ہیں: دخلنا عسقلان فإذا بِرواد قد اختلط
’’ہم عسقلان میں داخل ہوئے۔پس رواد كو اختلاط ہو چکا تھا۔‘‘
16 امام ساجی فرماتے ہیں:عنده مناکیر
’’ اِس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔‘‘
17 حفاظ نے کہا کہ کثیرًا ما یخطئ ویتفرد بحدیث ضعفه الحفاظ فیه وخطؤه
’’اکثر غلطیاں کرتا اور ایسی حدیثیں بیان کرنے میں متفرد ہے۔ جن کی وجہ سے حفاظ نے اِس کو ضعیف اور خطاکار قرار دیا ہے۔‘‘
18 ابن معین سے مروی ہے کہ لا بأس به إنما غلط في حدیث سفیان
’’اِس میں کوئی حرج نہیں۔ اِس نے سفیان کی حدیث میں غلطیاں کیں ہیں‘‘
19 اور اِن سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ ثقہ ہے۔
20 امام احمد فرماتے ہیں:
’’صاحب ِسنت ہے ،اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
21 مفتی احمد یار خان نعیمی ایک حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے ایک راوی کو ضعیف اور دوسرے کو مجہول کہنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ان دو نقصوں کی وجہ سے ہی یہ (روایت) ناقابل عمل ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
متابعت
ابن ماجہ کی بیان کردہ اِس روایت کے دو متابع ذکر کیے جاتے ہیں:
متابع اوّل:یہ روایت مسند احمد ، مستدرک حاکم ، شعب الایمان للبیہقی ، طبرانی کبیر ، طبرانی اوسط ،مسند شامیین اور حلیۃ الاولیاء میں عبد الواحد بن زید بصری عن عبادة بن نسی عن شداد بن أوس کی سند سے مروی ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ شداد کہتے ہیں:
قلت يا رسول الله! أتشرك أمتك من بعدك؟ قال «نعم»، قال: «أما إنهم لا يعبدون شمسًا ولا قمرًا ولا حجرًا ولا وثنًا»
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول !کیا آپ کے بعد آپ کی اُمت شرک کرے گی فرمایا: ہاں۔فرمایا خبردار، وہ سورج، چاند ،پتھر اور بت کی پوجا نہیں کریں گے (لیکن لوگوں کے دکھلاوے کے لیے عمل کریں گے)۔‘‘
اور اِس کے متعلق امام حاکم کی تصحیح کا بڑے زور وشور سے ذکر کیا جاتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
1 حالانکہ ان کے متعلق امام زیلعی لکھتے ہیں:
تصحيح الحاكم لا يعتد به فقد عرف تساهله في ذلك
’’امام حاکم کے کسی حدیث کو صحیح کہنے کو معتبر نہیں سمجھا جائے گا، کیونکہ اس بارے (صحیح قرار دینے ) میں ان کا تساہل معروف ہے۔‘‘
2 نیزدوسرے اَئمۂ حدیث نے امام حاکم کی طرف سے اِس روایت کی تصحیح کی تردید بھی کی ہے۔ امام منذری، امام حاکم کی تصحیح نقل کرنے کے بعد اِس کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ یہ روایت صحیح کیسے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اِس میں عبد الواحد بن زید متروک (راوی) ہے۔‘‘
3 علامہ البانی فرماتے ہیں:
’’ حاکم نے کہا ہے کہ اِس کی سند صحیح ہے۔ جبکہ امام ذہبی اور اُن سے پہلے امام منذری نے اِس کا تعاقب کیا ہے کہ اِس میں عبد الواحد بن زید زاہد، قصہ گو اور متروک راوی ہے۔‘‘
4 امام ذہبی اور امام ابن الملقن بھی امام حاکم کا تعاقب ورد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ متروک ہے ۔‘‘
5 علامہ البانی فرماتے ہیں:
’’یہ روایت ضعیف جدًا یعنی انتہائی ضعیف ہے۔‘‘
6 شیخ شعیب أرناؤوط اور مسند احمد کی تحقیق میں اُن کے ساتھ محققین کی جماعت نے کہا ہے کہ اِس روایت کی سند ضعیف جدًا (انتہائی ضعیف) ہے۔
7 علامہ مختار احمد ندوی شعب الایمان کی تحقیق وتعلیق میں اسی مذکورہ روایت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف، عبد الواحد بن زيد متروك الحديث
’’اس روايت کی سند ضعیف ہے اسمیں عبد الواحد بن زید ومتروک الحدیث ہے‘‘
8 اور امام ہیثمی فرماتے ہیں: فيه عبد الواحد بن زيد وهو ضعيف
’’اس میں عبد الواحد بن زید ہے اور وہ ضعیف ہے ۔‘‘
9 امام نسائی فرماتے ہیں:
’’یہ متروک الحدیث ہے۔‘‘
10 امام ذہبی فرماتے ہیں : قال البخاري والنسائي متروك
’’یعنی امام بخاری اور امام نسائی فرماتے ہیں: یہ متروک ہے ۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
11 امام ذہبی فرماتے ہیں:
’’ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ متروک ہے۔‘‘
12 امام ابن ابی حاتم رازی فرماتے ہیں: عمرو بن علي قال کان عبد الواحد بن زید قاصا وکان متروك الحدیث
عمروبن علی فرماتے ہیں :’’عبد الواحد بن زید قصہ گو اور متروك الحدیثتھا۔‘‘
13 امام ابن الجوزی فرماتے ہیں: قال الفلاس:متروك الحدیث
’’فلاس فرماتے ہیں كہ یہ متروک الحدیث ہے۔‘‘
14 نیز امام دار قطنی نے اِس (عبد الواحد) کو کتاب الضعفاء والمتروكین میں ذکر کیا ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
عبد الواحد بن زيد البصري عن الحسن و عن عبادة بن نسي تركوه
’’ عبد الواحد بن زید بصری حسن اور عبادہ بن نسی سے روایت کرتا ہے۔محدثین نے اس کو ترک کر دیا ہے۔‘‘
15 امام احمد بن صالح فرماتے ہیں:
لا يترك حديث الرجل حتى يجتمع الجميع علىٰ ترك حديثه نیز فأما أن يقال فلان متروك فلا إلا أن يجمع الجميع على ترك حديثه
’’یعنی اُس وقت تک کسی راوی کی حدیث کو ترک نہیں کیا جاتا اور کسی راوی کو متروک نہیں کہا جاتا جب تک کہ سب (محدثین) اُس کی حدیث کو ترک کرنے پر اتفاق نہ کر لیں۔ ‘‘
16 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :لیس بشيءیعنی
’’یہ (حدیث میں) کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
17 نیز فرماتے ہیں: عبد الواحد بن زید لیس حدیثه بشيء ضعیف الحدیث
’’عبد الواحد بن زید کی (بیان کردہ) حدیث کی کچھ بھی (حیثیت) نہیں ہے۔ یہ ضعیف الحدیث ہے۔‘‘
18 امام ابو حاتم فرماتے ہیں: لیس بالقوي في الحدیث ضعیف بمرة
’’یہ حدیث میں مضبوط نہیں ہے، ایک مرتبہ فرمایا: ضعیف ہے۔ ‘‘
19 حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال یعقوب بن شیبة صالح متعبد وأحسبه کان یقول بالقدر ولیس له علم بالحدیث وهو ضعیف وقد دلس بشيء
’’یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں، یہ نیک عبادت گزار ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ یہ تقدیر کا انکار کرتا تھا، اور اِسے حدیث کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور یہ ضعیف ہے۔ کچھ تدلیس بھی کرتا ہے۔ ‘‘
20 قال النسائي: لیس بثقة
’’امام نسائی فرماتے ہیں: یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
21 ذکره الساجي والعقیلي وابن شاهین وابن الجارود في الضعفاء
’’اس کو امام ساجی، عقیلی،ابن شاہین اور ابن الجارود نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ ‘‘
22 نیزحافظ ابن حجر فرماتے ہیں: کان فمن یقلب الأخبار من سوء حفظه وکثرة وهمه فلما کثر استحق الترك
’’..یہ اپنے سوء حفظ اور کثرتِ وہم کی وجہ سے اخبار کو اُلٹ پلٹ کر دینے والوں میں سے ہے پس جب یہ کثرت سے ایسا کرنے لگا تو ترک کر دیئے جانے کا مستحق ٹھہرا‘‘
23 حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں: قال یعقوب بن سفیان: ضعیف، وقال أبو عمرو بن عبد البر أجمعوا على ضعفه
’’یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں: یہ ضعیف ہے اور امام ابو عمرو بن عبد البر فرماتے ہیں كہ اس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘
24 امام ابن حبان فرماتے ہیں:
کان ممن غلب علیه العبادة حتى غفل عن الإتقان فیما یروي فکثر المناکیر في روایته على قلتها فبطل الاحتجاج به
’’یہ اُن میں سے تھا جن پر عبادت غالب آگئی حتیٰ کہ یہ جن روایتوں کو بیان کرتا اُن میں ضبط و اتقان سے غافل ہو گیا۔ پس اِس کی روایتیں کم ہونے کے باوجود اکثر منکر ہیں۔ پس اِس کے ساتھ دلیل پکڑنا باطل ہے۔‘‘
پس ابن حبان کے اِس راوی عبد الواحد بن زید بصری کے بارے میں اِن مذکورہ ریمارکس سے ہی ابن حبان کے اِس راوی کو کتاب الثقات میں ذکر کرنے کا از خود ردّ بھی ہو جاتا ہے۔
25 نیز حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وذکره أیضًا في الثقات فما أجاد
’’ ابن حبان نے اِس راوی کو کتاب الثقات میں بھی ذکر کر کے اچھا نہیں کیا۔‘‘
26 امام بخاری ﷫ فرماتے ہیں:
عبد الواحد بن زید البصری، منکر الحدیث عن الحسن وعبادة بن نسي
’’عبد الواحد بن زید بصری منکر الحدیث ہے، حسن اور عبادۃ بن نسی سے روایت کرتا ہے۔‘‘
نیز امام صاحب فرماتے ہیں:
من قلت فیه منکر الحدیث فلا تحل الروایة عنه
’’جس کے بارے میں میں یہ کہہ دوں کہ یہ منکر الحدیث ہے تو اُس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘
یہ تو صورتحال تھی پہلے متابع کی، اب آتے ہیں دوسرے متابع کی طرف جس کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے:
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دوسرا متابع
یہ روایت حلیۃ الأولیاء میں عطاء بن عجلان عن خالد محمود بن الربیع عن عبادة بن نسی عن شداد بن أوس سے مروی ہے۔اس کے متن کے الفاظ عبد الواحد بن زید بصری کے روایت کردہ الفاظ ہی ہیں۔
1 اِس سند میں راوی ابو محمد عطا بن عجلان بصری عطار کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
’’یہ متروک ہے بلکہ ابن معین اور فلاس نے اِس کو کذاب کہا ہے۔‘‘
2 امام نسائی فرماتے ہیں: مُنکر الحدیثہے۔
3 امام ابن معین فرماتے ہیں:
’’یہ کچھ بھی نہیں ہے (بس) کذاب ہے۔‘‘
اور ایک مرتبہ فرمایا کہ
’’اس کے لئے حدیث گھڑی جاتی تھی اور یہ اِس کو روایت کر دیتا تھا۔‘‘
4 فلاس فرماتے ہیں:
’’یہ کذاب ہے۔ ‘‘
5 امام بخاری فرماتے ہیں :
’’یہ منکر الحدیث ہے۔‘‘
6 امام ابو حاتم اور امام نسائی فرماتے ہیں :
’’متروک ہے۔‘‘
7 امام دار قطنی فرماتے ہیں:
’’یہ ضعیف ہے (اور متابعات و شواہد میں بھی) قابل اعتبار نہیں ہے اور ایک مرتبہ فرمایا کہ یہ متروک ہے۔‘‘
8 امام سعدی فرماتے ہیں :
’’یہ کذاب ہے ۔‘‘
9 امام ابن عدی جرجانی اس کی بیان کردہ بعض روایتیں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ولعطاء بن عجلان غیر ما ذکرت وما ذکرت وما لم أذکر عامة روایاته غیر محفوظة
’’جو میں نے ذکر کی ہیں، ان کے علاوہ بھی عطا بن عجلان کی روایتیں بھی ہیں اور عام طور پر اِس کی بیان کردہ روایتیں غیر محفوظ ہیں، چاہے میں نے اُن کو ذکر کیا ہے یا ذکر نہیں کیا۔ ‘‘
10 امام ذہبی فرماتے ہیں:
’’واهٍ (انتہائی کمزور) ہے اور بعض ائمہ نے اِسے متهم(بالکذب) قرار دیا ہے۔‘‘
 
Top