• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روتی ہوئی عورت اور ہنستے ہوئے مرد پر کبھی بھروسہ نہ کرو !!!

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
بات عورت کے آنسوؤں کی تھی ان میں بہت طاقت سمائی ہوتی ہے، اور جہاں تک متنازعہ بات کا تعلق ہے تو وہ ایک مشہور بات ہے لیکن ہر مشہور بات درست نہیں ہوتی،یہی مشہور بات تورات اور انجیل میں بھی یہی لکھا ہے:
توریت میں لکھا ہے کہ آدم اپنی تنہائی سے اداس رہنے لگا تھا لہذا خدا نے اس کی پسلی سے حوا( یہ لفظ قرآن میں نہیں) کو پیدا کیا تاکہ وہ اس کا دل بہلاتی رہے??(پیدائش 2/21-25) عورت ابلیس کا پیکر ہے کیونکہ اسی نے آدم کو جنت سے نکلوایا? (پیدائش3/8-13)۔ انجیل میں بھی یہی کچھ لکھا ہے،
یہ فقط جوش اعتراض کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور بات سے استدلال کیا گیا ہے، شاید آپ کو علم ہو کہ دنیا کی اکثریت کا یہی نظریہ ہے، یعنی عیسائی دنیا میں کثیر تعداد میں ہیں یہ الفاظک بھی کسی عیسائی علم پر تکیہ کر کےکرلکھ دیے ہیں لیکن نقل کفر کفر نا باشد، بات صرف عورت کے آنسوؤں کی ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
.عورت کے آنسو:

------------------
اپنی ماں کے بہتے آنسو دیکھ کے اک معصوم سا لڑکا
اپنی ماں کو چوم کے بولا
پیاری ماں تو کیوں روتی ہے؟
ماں نے اس کا ماتھا چوما ،گلے لگایا،اس کے بالوں کو سہلایا
گہری سوچ میں کھو کر بولی
''کیونکہ میں اک عورت ہوں''
بیٹا بولا،میں تو کچھ بھی سمجھ نہ پایا
... ماں مجھ کو کُھل کر سمجھاؤ
اس کو بھینچ کے ماں یہ بولی
''بیٹا تم نہ سمجھ سکو گے''
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شام ہوئی تو چھوٹا لڑکا،باپ کے پہلو میں جا بیٹھا
باپ سے پوچھا''ماں اکثر کیوں رو دیتی ہے''
باپ نے اس کو غور سے دیکھا ،کچھ چکرایا،پھر بیٹے کو یہ سمجھایا
''یہ عادت ہے ہر عورت کی،دل کی بات کبھی نہ کہنا
فارغ بیٹھ کے روتے رہنا''
باپ کا مُبلغ علم تھا اتنا ،بیٹے کو بتلاتا کیا
اس کے سوا سمجھاتا کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب بچے نے ہوش سنبھالا
علم نے اس کے زہن و دل کو خوب اجالا
اس نے اپنے رب سے پوچھا
میرے مالک میرے خالق، آج مجھے اک بات بتا دے
الجھن سی ہے اک سلجھا دے
اتنی جلدی اتنی جھٹ پٹ ہر عورت کیوں رو دیتی ہے
دیکھ کے اس کی یہ حیرانی،بھولے سے من کی ویرانی
پیار خدا کو اس پر آیا،اس کو یہ نکتہ سمجھایا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عورت کی تخلیق کا لمحہ خاص بہت تھا
مرد کو سب کچھ دے بیٹھا تھا پھر بھی میرے پاس بہت تھا
میں نے چاہا عورت کو کچھ خاص کروں میں
چہرہ مقناطیسی رکھوں لیکن دل میں یاس بھروں میں
میں نے اس کے کاندھوں کو مضبوط بنایا
کیونکہ اس کو بوجھ بہت سے سہنے تھے
اور پھر ان کو نرم بھی رکھا
کیونکہ ان پر سر کو رکھ کر
بچوں اور شوہرنے دکھڑے کہنے تھے
اس کو ایسی طاقت بخشی ہر آندھی طوفان کے آگے وہ ڈٹ جائے
پر دل اتنا نازک رکھا تیکھے لفظ سے جو کٹ جائے
اس کے دل کو پیار سے بھر کر گہرائی اوروسعت دے دی
پھولوں جیسا نازک رکھا پھر بھی کافی قوت دے دی
تا وہ اپنے پیٹ جنوں کے سرد رویوں کو سہہ جائے
ان راہوں پر چلتی جائے جن پر کوئی چل نہ پائے
بچوں کی گستاخی جھیلے ،پیار کا امرت بانٹے
اپنی روح پہ جھیل سکے فقروں کے تپتے چانٹے
شوہر کی بے مہری بھول کے ہر پل اس کو چاہے
اس کی پردہ پوشی کر کے زخم پہ رکھے پھاہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا بوجھل جیون اس کو دے کر میں نے سوچا
نازک سی یہ ڈالی اتنے بوجھ سے ٹوٹ نہ جائے
اس کے نازک کاندھوں پر جب رکھا اتنا بار
اس کی آنکھوں میں رکھ دی پھر اشکوں کی منجدھار
اس کو فیاضی سے میں نے بخشی یہ سوغات
تا وہ دیپ جلا کر کاٹے غم کی کالی رات
غم کی بھاپ بھرے جب دل میں یہ روزن کھل جائے
رو کر اس کے دل کی تلخی پل بھر میں دھل جائے جائے
اس کے سندر مکھڑے پھر روپ وہی لوٹ آئے
عرشی بے حس دنیا کو جو رب کی یاد دلائے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جی ہاں ! اپنی چار ماہ پہلے کی یاد داشت پر زور دیں تویاد آجا ئے گا کہ انتخابی نتائج کے بعد فوزیہ قصوری صاحبہ نے اپنی پارٹی کی اپنے خلاف ہونے والی ناانصا فیوںپر PTI سے مستعفی ہونے کااعلان کر دیا تھا ۔اس پر وہ ٹی وی انٹرویو میں روتی ہوئی نظر آ ئیں اور پھر تو جیسے میڈیا کو ایک کہا نی مل گئی ۔عورت کے آ نسو قیمتی بھی ہیں اور طاقت ور بھی ! فوری اثر نظر آتا ہے ۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر اس کی بھر پورگونج نظر آ ئی۔ اس حوالے سے سے یہ کالم شروع کیامگرمصروفیات کے باعث مکمل نہ ہوا اور بعد میں صورت حال تبدیل ہوگئی معافی تلافی کے بعد۔۔۔اب ان کا معلوم نہیں کہا ں ہیں وہ ؟؟؟ PTIکے اندر یا باہر؟ان کی آخری update عید کے دن ہیتھرو ائر پورٹ سے ملی تھی۔پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی خبریں معمول کا حصہ ہیں ۔شاید ڈاکٹرشیریں مزاری بھی آج کل پارٹی سے با ہر ہیں ۔۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ واقعہ میرے کزن نے مُجھے شادی کی تقریب میں سُنایا تھاباقی منظر کشی میرے دماغ نے کی ہے چونکہ میں بھی ایسے حادثہ سے گُذرچُکا ہوں۔۔۔ ہُوا ہوں کہ خاندان میں شادی کی ایک تقریب طے پاگئی تھی جس کیلئے ہمارے کزن نے آفس کے دوستوں اور اپنی پسند مشترکہ سے تقریب کیلئے کپڑے خریدے ۔خوشی خوشی بیوی کو دکھا یا ۔بیوی نے آنکھیں دِکھا تے ہُوئے ذرا تیز لہجہ میں کہا ۔۔تقریب میں یہ کپڑے پہنو گے؟ میاں کی ساری خوشی ہرن ہوگئی۔۔ اور چہرہ لٹک گیا۔۔بیوی کو احساس ہوجاتا ہے کہ میاں کو بُرا لگ گیا ہے ۔۔ مُسکراتے ہوئے بولیں میں کل خود مارکیٹ جاکرآپ کیلئے کپڑے خرید لاؤنگی ۔۔ میاں صاحب چُپ ہوکر چَھت کو دیکھنے لگتے ہیں ۔کزن نے تقریب والے دن چاہا کہ اپنی پسند کے کپڑے پہنے ،لیکن بیوی نے منُہ کو پھُلاتے ہُوے غُصّہ سےکہا ۔۔تُم مُجھے سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ یہاں اس جملے کا کیا محل ؟ لیکن صاحب اس جملے نے ایسا اثر دکھایا کہ کزن صاحب ساری ہیکڑی بھول گئے ۔یہاں پر میرے ذہن میں عرب مُلک کی ایک ملکہ کے وُہ الفاظ یاد آگئے جو اُسنے اپنی دوست کینیڈا کی سابقہ خاتون اوّل کو دیئے تھے کہ چھوٹا مُطالبہ منوانے کیلئے میں ایک بار شوہر کے سامنے روتی ہوں ، بڑا مُطالبہ منوانے کیلئے مُجھے دو بار رونا پڑتا ہے ۔اسطرح میں اپنا ہر مُطالبہ منوا لیتی ہوں ۔
تقریب میں کزن نے ہنستے ہوئے دکھایا کہ دیکھو ہماری بیگم کس فتح مندی سے اِٹھلاتی پھر رہی ہیں کہ ہم اُنکی پسند کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عذر گناہ، بد تر از گناہ (سوچنے والا آئی کون)
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
نہ کیجئے بھروسہ ماں پر ،اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر
نہ ہو بھروسہ باپ پر ،ہو خوش ،جب وہ بچے دیکھ کر
بیوی کی آنکھیں نم ہوں ،نہ وہ محسو س تکلیف صاحب کی کرے
نہ ہو صاحب پر بھروسہ ،جب وہ ظرافت سے کام لے
مگرمچھ کے آنسو ہی ہیں ،بہن کو تیرا تو کوئی غم نہیں
بھائی مسکرا دے بھول جا، وہ اعتبار کے قابل نہیں
بیٹی کو تکلیف تو ہر گز نہیں ہوتی کبھی
بیٹے کی ہنسی سنو لیکن ،بھروسہ کرنا نہ کبھی
جب نہیں عورت کے آنسو ،مرد کی مسکراہٹ قابل یقیں
بدل لیں ترتیب دونوں ہو جائے گا ان پر یقیں
فیصلہ کر لیتے ہیں ،مرد رونا شروع کر دیں ابھی
آنکھ نم نہ ہو عورت کی ہنسے فقط،برداشت کر لیں گے سبھی؟؟؟؟
برداشت نہ بھی کریں بھروسہ تو کر ہی لیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ابتسامہ
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بات عورت کے آنسوؤں کی تھی ان میں بہت طاقت سمائی ہوتی ہے، اور جہاں تک متنازعہ بات کا تعلق ہے تو وہ ایک مشہور بات ہے لیکن ہر مشہور بات درست نہیں ہوتی،یہی مشہور بات تورات اور انجیل میں بھی یہی لکھا ہے:
توریت میں لکھا ہے کہ آدم اپنی تنہائی سے اداس رہنے لگا تھا لہذا خدا نے اس کی پسلی سے حوا( یہ لفظ قرآن میں نہیں) کو پیدا کیا تاکہ وہ اس کا دل بہلاتی رہے??(پیدائش 2/21-25) عورت ابلیس کا پیکر ہے کیونکہ اسی نے آدم کو جنت سے نکلوایا? (پیدائش3/8-13)۔ انجیل میں بھی یہی کچھ لکھا ہے،
یہ فقط جوش اعتراض کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور بات سے استدلال کیا گیا ہے، شاید آپ کو علم ہو کہ دنیا کی اکثریت کا یہی نظریہ ہے، یعنی عیسائی دنیا میں کثیر تعداد میں ہیں یہ الفاظک بھی کسی عیسائی علم پر تکیہ کر کےکرلکھ دیے ہیں لیکن نقل کفر کفر نا باشد، بات صرف عورت کے آنسوؤں کی ہے
سبحان اللہ !
کیا جوشِ اعتراض ہے ۔قطع نظر اس بات کے کہ یہ کتب "اب"قابلِ بھروسہ ہیں کہ نہیں ،،تورات اور انجیل میں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے یہ تو پھر معاشرتی معاملہ ہے گزر جائی گی اس میں موجود عقیدے کو بھی مان لیا جائے آخر آخرت کا ناختم ہونے والا معاملہ ہے ۔
ویسے آج تک علماء کو یہی دعا کرتے سنا "یا اللہ ابن آدم خطاکار ہے"کوئی یہ نہیں کہتا "یا اللہ بنتِ حوا گنہگار ہے"۔
بالخصوص اولادِ آدم کی کوتاہیوں کا ذکر ہوتا ہے ۔یاد رہے بعض کی نزدیک صرف بیٹے ہی" اولاد" میں شامل ہیں۔

عورت کو آدھا معاشرہ قرار دینے اور اسے "گلیوں ،بازاروں کی مخلوق" بنانے والوں کے نزدیک عورت کی کیا حیثیت ہے، سمجھا جا سکتا ہے ۔ایسے افراد کو اپنا غم سنانے اور انہیں اپنا "ہمدرد وخیر خواہ "سمجھنےوالیوں کو بھی سوچ لینا چاہیئے کہ عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بات عورت کے آنسوؤں کی تھی ان میں بہت طاقت سمائی ہوتی ہے، اور جہاں تک متنازعہ بات کا تعلق ہے تو وہ ایک مشہور بات ہے لیکن ہر مشہور بات درست نہیں ہوتی،یہی مشہور بات تورات اور انجیل میں بھی یہی لکھا ہے:
توریت میں لکھا ہے کہ آدم اپنی تنہائی سے اداس رہنے لگا تھا لہذا خدا نے اس کی پسلی سے حوا( یہ لفظ قرآن میں نہیں) کو پیدا کیا تاکہ وہ اس کا دل بہلاتی رہے??(پیدائش 2/21-25) عورت ابلیس کا پیکر ہے کیونکہ اسی نے آدم کو جنت سے نکلوایا? (پیدائش3/8-13)۔ انجیل میں بھی یہی کچھ لکھا ہے،
یہ فقط جوش اعتراض کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور بات سے استدلال کیا گیا ہے، شاید آپ کو علم ہو کہ دنیا کی اکثریت کا یہی نظریہ ہے، یعنی عیسائی دنیا میں کثیر تعداد میں ہیں یہ الفاظک بھی کسی عیسائی علم پر تکیہ کر کےکرلکھ دیے ہیں لیکن نقل کفر کفر نا باشد، بات صرف عورت کے آنسوؤں کی ہے
کیا یہ لازمی ہے کہ جو بات مشہور ہو جائے اس کو نا غلط دیکھا نہ سہی، بیان کر دیا، اسی طرح تو عوام الناس میں اور بھی بہت ساری باتیں مشہور ہیں تو کیا آپ ان سب کو بنیاد بنا کر مختلف قسم کے اقوال بکھیرتے پھریں گے، یہاں جس بات کو آپ نے مشہور بات سے تعبیر کیا ہے، اور اس کو ثابت کرنے کے لئے تحریف شدہ کتابوں کے حوالہ جات دئیے ہیں ، کیا وہ اس لائق ہے کہ اسے موضوع سخن بنایا جائے؟
 
شمولیت
مارچ 13، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
واہ جی واہ کیا خوب لکھا ہے محترم حافظ عمران الٰہی صاحب آپ نے تو دل خوش کر دیا جزاک اللہ خیرا کثیرا
اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ تحریر چوہدری افضل حق مرحوم کی کتاب ’’زندگی ‘‘ سے آپ نے اخذ کی ہے اس میں کوئی شک نہیں
اے عورت کی آنکھوں کے آنسوؤ!! تم سحرِ سامری سے زیادہ پر اثر ہو، وہ بہادر جو سیلِ حوادث سے منہ نہیں موڑتے تمہارے بہاؤ میں تنکوں کی طرح بہتے نظر آتے ہیں ۔ تمہارے سکون میں طوفاں ہے، خاموشیوں میں ہنگامے ہیں ، بظاہر تم بے حقیقت سے نظر آتے ہو مگر دنیا کے ہزاروں انقلاب تمہارے شرمندہ احسان ہیں ، ہر قاعدے کی استثنا ہے،ہر درد کی دوا ہے، مگر تمہارے منترکا کوئی جوڑ نہیں ، تمہارے جادو کا کوئی توڑ نہیں، سب حربے جواب سے جاتے ہیں،لیکن اے عورت کے آنسوؤ !تم ہی وہ ہتھیار ہو جن کا وار کبھی اوچھانہیں پڑتا، روٹھو کو منانے کے لیے، بگڑوں کو بنانے کے لیے،جہاں عقل تدبیر سے عاجز آجائے تم ہی کام آتے ہو، تاریخ عالم کا وہ پہلا حادثہ جسے ہبوط آدم سے تعبیر کیا جاتا ہے،اے حوا کی بیٹی! صرف تجھ ہی کو معلوم ہے کہ کیونکر وقوع پذیر ہوا۔قدوسیوں کا معلم جب آدم کو پھسلانے میں تمام ترغیب و تحریص ضائع کر چکا تو آدم کو خدا کی نافرمانی پر آمادہ کرنے والی حوا کی ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں کے آنسوؤ کے سوا اور کیا چیز تھی؟؟
عورت کے آنسو ہی اسکا ہتھیار ہوتے اور وہ اکثر ان کے ذریعے مکرو فریب کرتی اور کلام اللہ کے اند عورتو کے مکر کو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ان کے مکر بہت بڑے ہوتے ہیں
سورہ یوسف :[arb]فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ۝۰ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ۝۲۸[/arb]
تو جب اس نے اس کی قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھاڑی گئی ہے تو اس نے کہا یقینا یہ تم عورتوں کے فریب سے ہے، بے شک تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔
([٢٨] عورتوں کا فتنہ:۔ جب سیدنا یوسف کی قمیص دیکھی گئی تو وہ آگے سے پھٹی ہوئی تھی۔ عزیز مصر کو معلوم ہوگیا کہ اصل مجرم اس کی بیوی ہے اور اس کا بیان محض فریب کاری ہے۔ لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی پر کوئی مواخذہ نہیں کیا، مبادا یہ بات پھیل جائے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ بیان تیرا ایک چلتر تھا اور یوسف پر بہت بڑا بہتان تھا اور تم عورتوں کے چلتر بڑے گمراہ کن ہوتے ہیں ۔ یوسف کی تم دہری مجرم ہو ۔ ایک اسے بدکاری پر اکسایا۔ دوسرے اس پر الزام لگا دیا۔ لہذا اب اس سے معافی مانگو ۔
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں (اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ 28؀) 12- یوسف:28) عزیز مصر کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں شیطان سے زیادہ عورتوں سے ڈرتا ہوں ۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔ (٤:٧٦) اور جب عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تمہارا مکر بہت بڑا ہے'' اور درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔
سیدنا اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ''میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا'' (بخاری، کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المراۃ)
اسی طرح (وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ 29؀ۧ) 12- یوسف:29) سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یوسف سے اپنے گناہ کی معافی مانگو اور یہ بھی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو ۔) از تفسیر تیسیرالقرآن
 
Top