• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روحانی شخصییت ؟ نجومی؟ کاہن؟ عالم؟ صوفی؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
از عطاء الحق قاسمی
یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے اسلام آباد یا لاہور میں میری ملاقات حامدمیر سے ہوئی۔انہوں نے باتوں باتوں میں ایک روحانی شخصیت عبداللہ بھٹی صاحب کا ذکر کیا اور کہا کبھی موقع ملے تو ان سے ملاقات کریں۔ مجھے یہ زعم کہ میں خود اولیا اللہ کے خاندان سے ہوں اگر میرے نصیبوں میں ہوا تو خودبخود ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ پھرایک دفعہ جاوید چودھری نے بھی ان صاحب کا ذکر کیا بلکہ ان کا فون نمبر بھی دیا اور کہا کہ اگر ملنے کاموقع نہ بھی ملے تو آپ ان سے فون پر تو بات کریں چنانچہ میں نے انہیں ایک دن فون کیا لیکن دوسری طرف سے کسی نے فون نہیں اٹھایا اور اب یہ ایک ماہ پہلے کی بات ہے ایک صاحب ڈاکٹر سید مجتبیٰ حیدر ترمذی میرے پاس تشریف لائے اور ایک کتاب کا مسودہ میرے سپردکرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے مرشد سرکار پروفیسرعبداللہ بھٹی صاحب مدظلہ العالی کی تصنیف ہے اور ان کی خواہش ہے کہ آپ اس کتاب کا دیباچہ لکھیں۔ میں نے سوچا کہ قدرت ان صاحب سے میرے رابطے پر تلی ہوئی ہے چنانچہ میں نے مسودہ رکھ لیااور آہستہ آہستہ پندرہ ابواب پرمشتمل یہ کتاب پڑھنا شروع کردی اورمیں حیرتوں میں گم ہوتا چلا گیا۔ ایک دن مجھے ایک فون آیا "میں عبداللہ بھٹی بول رہا ہوں۔ آپ اس وقت کہاں ہیں؟" میں چونکا اور انہیں بتایاکہ الحمرا میں اپنے دفتر میں ہوں۔ بولے "میں حاضر ہونا چاہتاہوں" میں نے کہا "بسر و چشم، تشریف لائیں!" میں بے حد خوش تھا کہ دریا خود ایک پیاسے کے پاس چل کر آرہا ہے۔ میں نے نائب قاصد سے کہا کہ ابھی ایک بزرگ تشریف لائیں گے۔ انہیں بہت ادب و احترام کے ساتھ میرے آفس میں لے آنا۔ میرے ذہن میں اس بزر گ کی جو تصویر بن رہی تھی اسکے مطابق ان کی عمر کوئی ساٹھ ستر کے لگ بھگ تھی۔ چہرے پرگھنی خوبصورت سفید داڑھی، جسم پر د رویشی چوغا اورہاتھ میں عصا ہوگا او ر وہ اپنے مریدوں کے جلو میں میرے دفتر میں داخل ہوں گے چنانچہ میں نے سگریٹ بجھا دیااور کمرے کا ایگزاسٹ آن کردیا تاکہ ان کی آمد سے پہلے کمرہ دھوئیں سے پاک ہو جائے۔ تاہم اس دوران دروازہ کھلا اور ایک بہت ہینڈسم جوان قمیص اور پتلون میں ملبوس میرے کمرے میں داخل ہوا اورمصافحہ کے لئے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا "میں عبداللہ بھٹی ہوں" مجھے ایک جھٹکا سا لگا مگر اس خیال کے آتے ہی میں سنبھل گیا کہ پروفیسر رفیق اختر ، سید سرفراز شاہ اور واصف علی واصف ایسی روحانی شخصیات بھی تو بے ریش و بروت ہیں بس ایک اپنے بابا یحییٰ خاں ہیں جو سیاہ لباس، گھنی داڑھی اور عصاکے ساتھ نظرآتے ہیں۔ اس کے بعد ہم بہت دیر تک چائے کے کپ پر گپ شپ کرتے رہے اور مجھے بالکل احساس نہیں ہوا کہ میں پراسرارقوتوں کے حامل کسی شخص سے محو کلام ہوں بلکہ یہی لگا کہ ایک بہت پرانے اور بے تکلف دوست کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اس دوران اچانک "باباجی" نے پوچھا "آپ کی تایخ پیدائش کیا ہے؟" میں نے کہا "یکم فروری" اور پھر انہوں نے اپنا "کیمرہ" آن کرکے میرے ماضی کے بارے میں مجھے ایسی ایسی باتیں بتائیں جومیرے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ انہوں نے میرے ہاتھ کی لکیریں بھی پڑھیں اور میری نبض بھی دیکھ اور پھر میرے جسمانی عوارض اور مستقبل کی صورتحال کے بارے میں بھی بتانا شروع کردیا۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتارہا۔ اس دوران میرے ایک دوست تشریف لائے میں نے ان نوجوان "باباجی" سے گزارش کی کہ وہ میرے دوست کے بارے میں کچھ بتائیں۔ وہ انہیں دوسرے کمرے میں لے گئے اورواپس آئے تو میرے یہ دوست سخت حیران تھے۔ ان سے کہا گیا کہ "کیا یہ درست ہے کہ آپ کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے؟" انہو ں نے پریشانی کے عالم میں کہا "ہاں" "اور کیا یہ بھی درست ہے کہ یہ علیحدگی 2003میں ہوئی تھی؟" دوست نے کہا "نہیں 2005 میں ہوئی تھی" کہاگیا "آپ دوبارہ سوچیں یہ علیحدگی 2003 ہی میں ہوئی تھی!" دوست نے یاد کرتے ہوئے کہا "آپ ٹھیک کہتے ہیں علیحدگی 2003ہی میں ہوئی تھی۔ 2005 میں ، میں نے مکان چھوڑ دیا تھا!"
تاہم یہ سب کچھ علم اعداد، پامسٹری اور دوسرے پراسرارعلوم کی دین تھا جس کی طرف روحانیت کے سفر کی ابتدا میں پروفیسر عبداللہ بھٹی راغب رہے البتہ اس میں اس رحانی ریاضت کافیض بھی شامل تھا جس کی تفصیل پروفیسر صاحب نے اپنی تصنیف میں بیان کی ہے جو ان کے مرید سید مجتبیٰ حیدر ترمذی نے مرتب کی ہے۔ پروفیسر صاحب سے اس ملاقات کے بعد میری دلچسپی ان کی تصنیف میں اور زیادہ بڑھ گئی تھی چنانچہ میں نے جم کر اس کا مسودہ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ ایک عالمانہ کاوش ہے جو ان کی رہائش گاہ میں قائم ادارہ ترقیات روحانیات ۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوگی۔ کتاب کا نام "اسرار ِ روحانیت" تجویز کیا گیا ہے اور واقعی یہ کتاب اسرار سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں روحانیت کے اس طویل سفر کی روئیداد ہے جو پروفیسر صاحب کو طے کرنا پڑا۔ روحانیت کیاہے؟ عصر حاضر میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ مذاہب عالم اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ دانشور کیا سوچتے ہیں؟ اسلام میں تصوف کی ابتدا کب ہوئی؟ روحانی سلسلے، صوفیائے کرام، کون سے عوامل روحانیت میں کمی کرتے ہیں، اسم اعظم کا بیان اور بے شمار دوسرے موضوعات پر اس کتاب میں تفصیلی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ یہ ایک ریسرچ پیپر ہے اوراسکے ساتھ اس عملی ریاضت اوراس عملی ریاضت کے نتیجے میں حیران کردینے والے واقعات بھی جن سے پروفیسر عبداللہ بھٹی گزرے،کتاب کا حصہ ہیں!
پروفیسرصاحب مراقبوں کے دوران جن کیفیات سے گزرے وہ مجھ ایسے انسان کو خوفزدہ کرنے والی ہیں چنانچہ میں نے یہ احوال درمیان ہی میں چھوڑ دیا البتہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ عطا کیا وہ بہت چشم کشا تھا۔ مری میں پروفیسری کے دوران ایک طالب علم کی پراسرار کیفیت اور اس عالم میں اس کا پروفیسر صاحب کو پکارنا اور غیبی آوازوں کے بعد اس طالب علم کا نارمل ہونا یا ایک اندھے بچے کی بینائی کا واپس آنا اور اسی طرح کے دوسرے واقعات مجھ ایسے تشکیک کے مارے انسان کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں چنانچہ کتاب کے مطالعہ کے دوران میں نے ایک سائیکٹرسٹ دوست کو فون کیا اورپوچھا کہ وہ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ حقیقت صرف وہ نہیں جو نظر آتی ہے حقیقت اس سے ماورا بھی ہے۔ انسانی ذہن فی الحال ان اسرار کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا۔ مغرب میں اس پر ریسرچ جاری ہے تاہم اسرار تک رسائی اسرار ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ مجھے اس کتاب میں جو بات سب سے زیادہ پسند آئی وہ یہ کہ اس کاتعلق اس امریکی "تصوف کونسل" کے منشور سے نہیں جس کے تحت میں بھی صوفی کہلانے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ یہ تصوف وہ نہیں جس کے بارے میں میں نے ایک بار لکھا تھا کہ مذہب کے مودبانہ انکار کی ایک شکل ہے بلکہ پروفیسرصاحب نے اپنی اس تحقیقاتی اور ریاضتی تجربوں کی حامل کتاب میں ثابت کیا ہے کہ تصوف مذہب کی مثبت اقدار ہی کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ روحانیت کے مدارج طے کرنے کے علاوہ پروفیسر صاحب نے چار پانچ مضامین میں ماسٹر بھی کیاہواہے اور اس علم کی جھلکیاں بھی اس کتاب میں ملتی ہیں۔
میرے نزدیک علم صرف وہ ہے جو نافع بھی ہے چنانچہ پروفیسرصاحب کا علم نافع بھی ہے۔ انہوں نے ہفتے کے دو دن خلق خدا کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں جہاں ہزاروں پریشان حال لوگ ان کے علامہ اقبال ٹاؤن والے گھر میں حاضر ہوتے ہیں اور ان سے فیض پاتے ہیں۔ ان کا فون نمبر۔۔۔۔ ہے میری خواہش ہے کہ میرے وہ دوست بھی ان سے رابطہ کریں جو ان اسرار کا قطعی طور پر انکارکرتے ہیں جن کے خیال میں جو دیوارنظر آ رہی ہے وہی سب کچھ ہے اس کے پیچھے کچھ نہیں، وہ پروفیسر صاحب سے سوال کریں یہ ضروری نہیں کہ وہ ان کے جواب سے مطمئن ہو جائیں لیکن پس دیوار کچھ ہے یا نہیں ہے اس پرگفتگو کا دروازہ تو کھلے گا۔
کیا دیوار کے پیچھے بھی کچھ ہے؟...روزن دیوار سے ... عطاء الحق قاسمی


انا للہ وانا الیہ راجعون
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
لیکن پس دیوار کچھ ہے یا نہیں ہے اس پرگفتگو کا دروازہ تو کھلے گا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
میں نے قرآن میں کہیں پڑھا تھا کے تجسس حرام ہے کیا یہ علم اسرار تجسس کو بڑھاوا نہیں دے رہا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کسی شخص کے ماضی کی خبریں عموما جنات سے لے کر کے دی جاتی ہیں لہذا اس میں اسرار ورموز والی بات نہیں ہے۔ عموما مجنون بھی ماضی کی خبریں دیتا ہے اور کئی ایک ایسے لوگ دیکھیں گئے ہیں کہ جنہوں نے جنون کے دورے کے دوران ماضی کی خبریں دیں۔ اور جہاں تم مستقبل کی خبریں ہیں تو وہ تیر تکے اور اندازے ہوتے ہیں جو کبھی صحیح بیٹھ جائیں تو گڈی چڑھ جاتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ دنیا کا شاید سب سے الجھا ہوا معاملہ ہے۔ آخر جنات کو یہ سب کیسے پتا چلتا ہے۔ وہ بھی تو عالم الغیب نہیں ہیں۔
ایک دو کے بارے میں جن کو پتا ہوگا لیکن سب کے بارے میں کیسے؟
پھر یہ ہماری سوچ ہے کہ جنات سے یہ پتا چلتا ہے۔ ٹھیک ہے لیکن اس پر ہمارے پاس کوئی واضح دلیل تو نہیں ہے۔
اللہ بہتر جانتا ہے۔
آمنت باللہ و رسولہ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اشماریہ بھائی کی بات کے جواب میں، اس کا علم الغیب سے کوئی تعلق نہیں، جنات آپ کے دماغ سے پڑھتے ہیں اسی لئے وہ گزری باتیں بتا سکتے ہیں مگر آنے والی باتیں نہیں بتا سکتے۔

والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم

اشماریہ بھائی کی بات کے جواب میں، اس کا علم الغیب سے کوئی تعلق نہیں، جنات آپ کے دماغ سے پڑھتے ہیں اسی لئے وہ گزری باتیں بتا سکتے ہیں مگر آنے والی باتیں نہیں بتا سکتے۔

والسلام
یہ اچھی توجیہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اس پر کوئی قرینہ ہوگا کیا؟
اور کیا یہ ممکن ہے کہ جنات دماغ نہ پڑھ سکیں؟
 
Top