• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزوں کی نذر مگر طویل نذر جس کے اداکرنے میں چھوٹ جانے کاخدشہ ہو

speaktruth753

مبتدی
شمولیت
اپریل 02، 2017
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
13
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میراسوال یہ ہے کہ زید کو ایک بہت ہی مشکل آن پڑی کہ جس مشکل سے چھٹکاراانتہائی مشکل بلکہ بعض حالات کے تحت ناممکن بھی تھا،زید نے اس مشکل کے دوران یکے بادیگرے پہلے ایک ماہ کے روزے بطور نذر مانے کہ اللہ مجھے اس مشکل سے نجات عطافرمائے میں اتنے روزے رکھوں گا،پھر اسی طرح زید پر وہ مشکل اورآزمائش طویل ہوتی گئی اور زید نے دورانِ آزمائش مزید روزوں کی نذر مان لی۔اسی طرح زید نذر مانتاگیا اور اسکے روزوں کی تعدد تقریباً چارہ ماہ تک جاپہنچی۔اب زید کو اللہ نے اس مشکل سے نجات عطافرمائی تو زید نے اپنی نذر پوری کرنے کی کوشش کی۔مگر دوسال کاعرصہ بیت جانے کے بعد زید صرف پندرہ یوم کے ہی روزے رکھ سکا،جسکی وجہ سُستی اورکاہلی اور دنیاوی امور اور بعض حالات میں کئی اور مشکلات ہیں۔یاد رہے زید اپنے گھراوراہل سے دور ایک ملک میں مقیم ہے جہاں اسکا ذریعہ معاش کسی جگہ کوئی ذمہ داری ہے۔زید کواپنی نذرپوری کرنی میں کوئی شرعی ممانعت بھی نہیں یعنی کہ وہ تندرست تواناوصحت مند ہے،تقریباًاسباب بھی اور وسائل بھی ہیں تو کیا ایسی حالت میں زید اگر اپنی نذر پوری نہیں کرتا تو وہ کفارہ ادا کرسکتاہے؟اگر کفارہ اداکرسکتاہے تو اسکی تفصیل کیاہوگی۔زید کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ سُستی اور کاہلی کی وجہ سے اسکی یہ نذر رہ نہ جائے اور وہ عنداللہ گناہگار نہ ٹھہرے۔ایسی صورت حال میں زید کیا کرے۔
اس سلسلہ میں زید کی رہنمائی قرآن و سنت کی روشنی میں فرماکر عنداللہ ماجورہوں۔جزاکم اللہ خیر
@خضر حیات ،@انس نضر@،@اسحاق سلفی@،نوٹ:یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے جہاں زید کو فرضی نام کے طورپر استعمال کیا گیا ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میراسوال یہ ہے کہ زید کو ایک بہت ہی مشکل آن پڑی کہ جس مشکل سے چھٹکاراانتہائی مشکل بلکہ بعض حالات کے تحت ناممکن بھی تھا،زید نے اس مشکل کے دوران یکے بادیگرے پہلے ایک ماہ کے روزے بطور نذر مانے کہ اللہ مجھے اس مشکل سے نجات عطافرمائے میں اتنے روزے رکھوں گا،پھر اسی طرح زید پر وہ مشکل اورآزمائش طویل ہوتی گئی اور زید نے دورانِ آزمائش مزید روزوں کی نذر مان لی۔اسی طرح زید نذر مانتاگیا اور اسکے روزوں کی تعدد تقریباً چارہ ماہ تک جاپہنچی۔اب زید کو اللہ نے اس مشکل سے نجات عطافرمائی تو زید نے اپنی نذر پوری کرنے کی کوشش کی۔مگر دوسال کاعرصہ بیت جانے کے بعد زید صرف پندرہ یوم کے ہی روزے رکھ سکا،جسکی وجہ سُستی اورکاہلی اور دنیاوی امور اور بعض حالات میں کئی اور مشکلات ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذر كے روزوں کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے نذر مانی ہے کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور سلامتی کے ساتھ بچے کی ولادت ہوئی تو یہ ایک سال روزے رکھے گی۔ چنانچہ اس کا حمل محفوظ رہا ہے اور بچے کی ولادت بھی خیریت سے ہو گئی ہے مگر عورت اب اپنی نذر کے معاملے میں عاجزی کا اظہار کر رہی ہے کہ سال بھر روزے رکھنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں کہ کسی اطاعت کی نذر ماننا عبادت ہے، اور اللہ عزوجل نے ایسے اہل ایمان کی مدح فرمائی ہے:
﴿يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا ﴿٧﴾... سورة الدهر


"یہ اہل ایمان وہ ہیں جو اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہو گی۔"
اور احادیث میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا، اسے چاہئے کہ اللہ کی اطاعت (عبادت) کرے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے معصیت کا کام نہیں کرنا چاہئے۔" (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذر، باب النذر فی الطاعۃ، حدیث: 6696 و سنن ابی داود، کتاب الایمان والنذر، باب النذر فی المعصیۃ، حدیث: 3389 و سنن الترمذی، کتاب النذر والایمان، باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ، حدیث: 1526)
احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نذر مان لی کہ وہ بوانہ مقام پر ایک اونٹ ذبح کرے گا، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا:
"کیا اس جگہ جاہلیت کا کوئی بت تو نہ تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو؟ کہا کہ نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا یہ جگہ اہل جاہلیت کی کسی عید کا مقام تو نہ تھی؟ کہا گیا۔ نہیں، تب آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو، بلاشبہ ایسی نذر کا کوئی پورا کرنا نہیں ہے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور نہ اس چیز میں جس کا ابن آدم مالک نہ ہو۔" (سنن اابی داود، کتاب الایمان والنذور، باب ما یومر من خاء النذر، حدیث: 3313 المعجم الکبیر للطبرانی: حدیث: 1341)
اور اس سوال میں جو پوچھا گیا ہے کہ عورت نے سال بھر رزے رکھنے کی نذر مانی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سال بھر مسلسل روزے رکھنا "صیام دہر" کی قسم سے ہے یعنی یہ زمانہ بھر روزے رکھنا ہے اور صیام دہر مکروہ اور ناجائز عمل ہے۔ صحیحین میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے زمانہ بھر روزے رکھے، اس نے نہ روزے رکھے نہ افطار کیا۔" (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شھر۔۔، حدیث: 1162 و سنن ابی داود، کتاب الصیام، باب فی صوم الدھر تطوعا، حدیث: 2425 فضیلۃ الشیخ نے فرمایا: کہ یہ روایت صحیحین میں ہے جبکہ صحیح مسلم سے تو بعینہ الفاظ ملتے ہیں البتہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ کہ "نہ اس نے افطر کیا' مجھے نہیں ملے البتہ "نہ اس نے روزہ رکھا" کے الفاظ صحیح بخاری میں ضرور موجود ہیں۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صوم داود علیہ السلام، حدیث: 1878 (عاصم))
اور اس میں شک نہیں کہ کسی مکروہ عبادت کو عمل میں لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے، لہذا ایسی نذر کا پورا کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی ایسی نذر مان لے جو مکروہ اور ناجائز قسم کی عبادت ہو مثلا ہر رات کا کامل قیام، یا ہر ہر دن کا مسلسل روزہ وغیرہ تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں ہے۔
لہذا اس عورت کو اسے اپنی قسم کا کفارہ دینا چاہئے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلائے، ہر مسکین کے لیے آدھا صاع (سوا کلو یا ڈیڑھ کلو) کھجور وغیرہ ہونی چاہئے، یعنی طعام ایسا ہو جو علاقے کی اکثریت استعمال کرتی ہو۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔ (مجلس افتاء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا
(صفحہ نمبر 369 )
محدث فتویٰ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مشکل نذر کا کفارہ

@مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف
کسی شخص نے ایسی منت مان لی کہ فلاں کام ہوجائے گا تو مسلسل نو مہینے روزہ رکھوں گا یا ہرماہ ایک ہزار روپئےصدقہ کروں گا یا روزانہ سورکعات نفل نماز پڑھوں گا وغیرہ ۔ اتفاق سے اس بندے کا سوچا ہواکام پورا ہوگیا ، کام پورا ہونے کے بعد مانی ہوئی منت مشکل معلوم ہورہی ہےیعنی منت پوری کرنے کی طاقت نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ اس منت کو کیسے پوری کی جائے ، اسلام میں اس کا کیا حل ہے ؟
اسلام نے ہمیں نذر ماننے سے روکا ہے کیونکہ آدمی نذر پر بھروسہ کرلیتا ہے جبکہ ہرچیز کا اختیار اللہ کے پاس ہے ، وہی جو چاہتا ہے ہوتاہے ،اس لئے مسلمان کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور مشکل سے مشکل وقت میں اس کی طرف رجوع کرکے صدقہ، دعا، استغفاراور نیکی کے ذریعہ آسانی کا سوال کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی بندوں پر نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی شفقت کرنے والا ہے ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے :
نهَى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن النَّذرِ ، وقال : إنَّه لا يرُدُّ شيئًا ، إنَّما يُستخرَجُ به من الشَّحيحِ( صحيح النسائي: 3811)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اولا ہمیں نذر سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر کسی نے نذر مان لی ہے اور اس نذر میں اللہ کی معصیت بھی نہیں ہے تو پھر اسے پورا کرے اور یہ پورا کرنا فرض ہوجاتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
{ ثم ليقضوا تفثهم وليوفوا نذورهم } {الحج : 29}
ترجمہ: پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من نذر أن يُطِيعَ اللهَ فلْيُطِعْهُ ، ومن نذرَ أن يعصِيَه فلا يَعْصِه(صحيح البخاري:6696)
ترجمہ: جو شخص اس بات کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو اسے اللہ تعالی کی اطاعت کرنی جاہیے یعنی نذر پوری کرنی جاہیے اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرے۔

کوشش کے باوجوداگر کوئی نذر پوری نہیں کرپارہا ہے یا حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے مانی ہوئی اطاعت والی نذر کا پورا کرنا دشوار ہوگیا تو ایسی صورت میں نذر کا کفارہ ادا کردے تو نذر پوری ہوجائے گی ۔ نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :

كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ(صحيح مسلم:1645)
ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
اور قسم کے کفارے کا بیان قرآن میں مذکور ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ( المائدۃ: 89)
ترجمہ: اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے، جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو.


گویا ایسی منتیں جن کا پورا کرنا اختیار سے باہر ہوں اس کے لئے نذر کا کفارہ ادا کردے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا ، ان تینوں میں سے جس کی سہولت ہو کرسکتا ہے اور ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے ۔
(بصیرت فیچرس)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح بخاری میں امام بخاری نے باب منعقد کیا ہے :
(بَابُ الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ) نذر پورا کرنے کا باب
اس کے تحت صحیح بخاری کے مشہور و معتبر شارح حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
أَيْ حُكْمُهُ أَوْ فَضْلُهُ قَوْلُهُ وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى يُوفُونَ بِالنَّذْرِ يُؤْخَذُ مِنْهُ أَنَّ الْوَفَاءَ بِهِ قُرْبَةٌ لِلثَّنَاءِ عَلَى فَاعِلِهِ لَكِنَّ ذَلِكَ مَخْصُوصٌ بِنَذْرِ الطَّاعَةِ)
نذر کو پورا کرنے کا باب ‘‘ کا مطلب ہے :نذر کا شرعی حکم ،اور اسے پورا کرنے کی فضیلت ،اور اللہ تعالی نے ایمان والوں کی صفات حمیدہ
بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں ،جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ نذر کا ایفاء نیکی کا کام ہے ،لیکن یاد رہے ،یہ فضیلت
طاعت کی نذر سے خاص ہے ‘‘فتح الباری


اور جس حدیث میں نذر کی نھی کا ذکر ہے ،
«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَنْذِرُوا، فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ» (صحیح مسلم کتاب النذر )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر مت کرو کیونکہ نذر تقدیر سے نہیں پھرتی صرف بخیل سے مال جدا ہوتا ہے۔“
اس کے متعلق علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں :
َقَالَ الْخَطَّابِيُّ: مَعْنَى نَهْيِهِ عَنِ النَّذْرِ إِنَّمَا هُوَ التَّأْكِيدُ لِأَمْرِهِ وَتَحْذِيرُ التَّهَاوُنِ بِهِ بَعْدَ إِيجَابِهِ، وَلَوْ كَانَ مَعْنَاهُ الزَّجْرَ عَنْهُ حتى يفعل لكان في ذلك إبطال حكمه وإسقاط لزوم الوفاء به، إذ صار معصية،
نذر سے روکنے سے مراد یہ ہے کہ نذر کی تاکید بتائی جائے ،اور اس کے معاملے میں سستی اور بے توجہی سے ڈرایا جائے،
((یعنی خبردار !۔۔نذر نہ مانو،،کیونکہ نذر مان لینے کے بعد اس کو پورا کرنا بہت اہم اور ضروری ہے ))اور اگر فی الواقع نذر ماننی منع ہوتی
تو اس کا لازم ہونا ساقط ہوجاتا ،

(فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ من الْبَخِيل)نذر تقدیر کے معاملے میں کچھ نفع نہیں دیتی ،نذر محض بخیل سے مال نکلوانے کا سبب ہے)
اور علامہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں :
وإنما وجه الحديث أنه أعلمهم أن ذلك أمر لا يجلب لهم في العاجل نفعا ولا يصرف عنهم ضرا، ولا يرد شيئا قضاه الله تعالى بقول: " فلا تنذروا ". على أنكم تدركون بالنذر شيئا لم يقدره الله لكم، أو تصرفون عن أنفسكم شيئا جرى القضاء به عليكم، إذا فعلتم ذلك فاخرجوا عنه بالوفاء، فإن الذي نذرتموه لازم لكم.)(مرقاۃ المفاتیح)

یعنی نذر سے نھی کی حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ پیارے نبی ﷺ بتایا ہے کہ نذر کسی فوری فائدہ کا سبب نہیں بنتی ،اور نہ ہی کسی نقصان کو دور کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ،اور نہ قضاء وقدر کے فیصلوں کو ٹال سکتی ہے،،اس لئے نذر نہ مانو ‘‘کا مطلب تم نذر وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے، جو تمہارے مقدر میں نہیں ، نہ تقدیر میں لکھی مصیبت کو ٹال سکتے ہو ۔۔اس کے باوجود اگر تم نذر مان لوگے،تو کا پورا کرنا تم پر لازم ہوگا ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مگر دوسال کاعرصہ بیت جانے کے بعد زید صرف پندرہ یوم کے ہی روزے رکھ سکا،جسکی وجہ سُستی اورکاہلی اور دنیاوی امور اور بعض حالات میں کئی اور مشکلات ہیں۔یاد رہے زید اپنے گھراوراہل سے دور ایک ملک میں مقیم ہے جہاں اسکا ذریعہ معاش کسی جگہ کوئی ذمہ داری ہے۔زید کواپنی نذرپوری کرنی میں کوئی شرعی ممانعت بھی نہیں یعنی کہ وہ تندرست تواناوصحت مند ہے،تقریباًاسباب بھی اور وسائل بھی ہیں تو کیا ایسی حالت میں زید اگر اپنی نذر پوری نہیں کرتا تو وہ کفارہ ادا کرسکتاہے؟
صرف سستی ، کاہلی وغیرہ کوئی عذر نہیں ، زید کو اللہ سے ڈرتے ہوئے ، اس وعدے کو پورا کرنا چاہیے ، جو مشکل وقت میں اس نے اللہ کے ساتھ کیا تھا ۔ جو مشکل کو دور کرنے والا وہ دوبارہ مشکل میں ڈال بھی سکتا ہے ۔
صورت مذکورہ میں مجھے کوئی ایسا عذر نظر نہیں آرہا کہ جس کی وجہ سے وہ نذر چھوڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے ۔ واللہ اعلم ۔
 

speaktruth753

مبتدی
شمولیت
اپریل 02، 2017
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
13
کوشش کے باوجوداگر کوئی نذر پوری نہیں کرپارہا ہے یا حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے مانی ہوئی اطاعت والی نذر کا پورا کرنا دشوار ہوگیا تو ایسی صورت میں نذر کا کفارہ ادا کردے تو نذر پوری ہوجائے گی ۔ نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
سوال یہ ہے کہ چار ماہ کے روزے زید کو طویل معلوم ہورہے ہیں اور اسکو یہ خدشہ لاحق ہے کہ یہ چھوٹ جائیں گے۔توکیا ایسی صورت میں زید کفارہ اداکرسکتاہے۔جبکہ زیدنےنظر مانتے ہوئے یہ سمجھاتھا کہ نظر کی وجہ سے اللہ مشکل کو آسان کرتاہےورنہ بقول زید کے اگر اسکے علم میں مذکورہ بالا حدیث ہوتی جس میں نذر کی نہی ہے اور بخیل سے مال نکلوانے کا ذکرہے
تو زید نذر کبھی نہ مانتا۔
یا زید ایک دوسری صورت کے متعلق بھی اہلِ علم سے پوچھنا چاہتاہے کہ
زید نذرکا کفارہ بھی ادا کردے اور ساتھ ساتھ حسب استطاعت روزے بھی رکھتارہے تاکہ کبھی نہ کبھی تو پورے ہوہی جائیں گے اس طرح اگر خدانخواستہ کوئی رہ بھی جائیں تو زید گناہگار تو نہیں ٹھہرے گا۔
اللہ آپکے علم وعمل میں اضافہ فرمائے،
اسحاق سلفی،@خضرحیات@
جواب درکار ہے
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سوال یہ ہے کہ چار ماہ کے روزے زید کو طویل معلوم ہورہے ہیں اور اسکو یہ خدشہ لاحق ہے کہ یہ چھوٹ جائیں گے۔توکیا ایسی صورت میں زید کفارہ اداکرسکتاہے۔
یہ فیصلہ آپ نے اپنے حالات کے مطابق کرنا ہے کہ آپ اپنی مانی ہوئی نذر پوری کرسکتے ہیں یعنی روزے رکھ سکتے ہیں یا نہیں ،
اگر مشقت کے باوجود روزے رکھنا ممکن ہوں تو ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ نذر پوری کریں ،
اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کفارہ ادا کریں ،
کفارہ اسی صورت لازم ہوگا جب آپ اپنی نذر پوری نہیں کریں گے ۔
 
Top