• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزِمحشر اللہ کی نظرِ رحمت سے محروم ’بدنصیب‘!

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
روزِمحشر اللہ کی نظرِ رحمت سے محروم ’بدنصیب‘!

حدیث وسنت
محمد بن عبدالعزیز خضیری
مترجم:حافظ اختر علی٭​

بھلائی کاکوئی کام ایسا نہیں جس کی طرف شریعت ِمطہرہ نے ہماری رہنمائی نہ کی اور ہمیں اس کی رغبت نہ دلائی ہو۔ اوربرائی کا کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جس سے شریعت نے ہمیں ڈرایااور اس سے منع نہ کیا ہو۔ شریعت نے خیر وشر ہردو پر عمل کرنے والے شخص کا انجام بالکل واضح کردیا ہے۔ چنانچہ ایسا شخص جو بھیانک انجام سے ڈرنے والا ہو، اسے چاہئے کہ وہ ان چیزوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے جو اس کی عاقبت کو تباہ وبرباد کرنے والی ہیں اور وہ ان ہلاکت خیز چیزوں سے اپنے آپ کو بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال،عزیزو اقارب کو بھی ان کے ارتکاب سے بچائے۔
مسلمانوں میں بے شمار ایسے واقعات موجود ہیں کہ ارتکابِ معاصی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان پر مختلف قسم کی تکلیفیں اور عذاب آتے رہے جس کی وجہ دراصل اللہ کا غضب، اس کی نافرمانی اور بدترین گناہوں کا ارتکاب تھا۔ ان مختلف گناہوں کا بدترین نتیجہ یہ بھی ہے کہ قیامت والے دن میدانِ حشر میں ایسے لوگ نہ تو اللہ تعالیٰ کی کلام اور نظررحمت کے مستحق ہوں گے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ ان کو گناہوں کی نجاست سے پاک کریں گے بلکہ ان کو سخت عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اے اہل عقل ودانش!جب اللہ کی طرف سے بعض عظیم گناہوں پر سنگین عذاب کی وعید آچکی ہے تو ہمیں چاہئے کہ ان کو غور سے سنیں، ان کو سمجھیں اورایسے گناہوں کے ارتکاب سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں۔تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا واجب ہے اور توبہ کے بعداپنے آپ کو،اپنے اہل وعیال اور بھائیوںکو بھی کبائر کے ارتکاب سے بچانے اور توبہ کی طرف متوجہ کرنے کی پوری پوری کوشش کرنا ضروری ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلآئكة غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْــــــــصُوْنَ اﷲَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْن}
’’ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔جس پر سخت اورمضبوط دل فرشتے مقرر ہیں؛ جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم کیا جائے، بجا لاتے ہیں۔‘‘ (التحریم:۶)
مسلمان بھائیو!آپ پر لازم ہے کہ ان گناہوں کی تفصیل کو غور سے دیکھ لو جن کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ وعید سنائی ہے کہ
{وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اﷲُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْم}
’’اللہ تعالیٰ قیامت والے دن نہ تو کلام کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا، نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (آلِ عمران:۷۷)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے گناہ حسب ِذیل ہیں:
1-احکامِ الٰہی کو چھپانا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دینا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً أَولٰئِکَ مَا یَأکُلُوْنَ فِی بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامةِ وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْم} (البقرۃ:۱۷۴)
’’بیشک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی اُتاری ہوئی کتاب کے احکام چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں،یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہیں کرے گا،نہ اُنہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
جیسا کہ علماے یہود کا یہ طریقہ تھا کہ اُنہوںنے تورات میں رسول اللہ1 کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ صفات کولوگوں سے چھپایا۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ آیت علمائے یہود کے بارے میںنازل ہوئی ہے، لیکن اس میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے حق کو چھپاتے ہیں۔ ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکامات اور ہدایت کو چھپاتا ہے، اس کو ملعون قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا أنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُہُمُ اﷲُ وَیَلْعُنُہُمُ اللّٰعِنُوْن} (البقرۃ:۱۵۹)
’’جو لوگ ہماری اُتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں، ان پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ ‘‘
اسی طرح امام قرطبی{وَلاَ تَشْتَرُوْا بِآیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً} (البقرۃ:۴۱) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ آیت بنی اسرائیل کے ساتھ خاص ہے، لیکن اس حکم میں ہر وہ شخص شامل ہوگا جو بنی اسرائیل کا سا فعل سرانجام دے گا۔ جو کوئی حق کو بدلنے یا باطل کے لئے رشوت لیتا ہے یا جو کسی کو ضروری تعلیم (جس کو سیکھنا ہرمسلمان پر واجب ہے) حاصل کرنے سے روکتا ہے، یا جو اس نے سیکھا ہے، اس کوبیان نہیں کرتاحالانکہ اس کواس بات کا شریعت نے حکم دیا ہے، لیکن وہ اس پر اُجرت لے کر خاموش رہتا ہے تو وہ بھی اس آیت کے حکم میں شامل ہوگا۔ ‘‘واللہ اعلم
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سنن ابو داؤد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
من تَعلَّم علما مما یتبغي بہ وجہ اﷲ عزَّ وجلَّ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة (رقم الحدیث:۳۱۷۹)
’’ایسا علم جس کے حصول میں اللہ کی رضا مقصود ہونی چاہئے، وہ اس علم کو حصولِ دنیا کا ذریعہ بنا لیتاہے تو قیامت والے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
مزید برآں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
’’اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت {اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی} (البقرۃ:۱۵۹) نہ ہوتی تو میں کبھی بھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔‘‘
(صحیح بخاری:۱۱۵،صحیح مسلم:۴۵۴۹)
اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچنا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اﷲِ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰئِکَ لاَ خَلَاقَ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اﷲُ وَلاَ یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْم} (آلِ عمران:۷۷)
’’بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات کرے گا،نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا،نہ اُنہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ‘‘
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے نبیؐ کی اتباع کے عہد کے بدلے میں اور نبیؐ کی صفات اور اس کے حکم کو بیان کرنے کے بدلے میں تھوڑی قیمت لے لیتے ہیں اور اپنی جھوٹی اور گناہ پر مبنی قسموں کے بدلے میں اس دنیاے فانی کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ {اُولٰئِکَ لاَ خَلَاقَ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اﷲُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ} ’’یہی لوگ ہیں جن کے لئے روزِقیامت اللہ کے ہاں کوئی اجروثواب نہیں ہوگا اور قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا۔‘‘ یعنی نہ تو اللہ تعالیٰ نرم لہجے میں ان سے بات کریں گے اور نہ ہی نظر رحمت سے ان کی طرف دیکھیں گے۔ {وَلَایُزَکِّیْــــھِمْ} اور نہ ہی ان کو گناہوں اور نجاستوں سے پاک کریں گے بلکہ ان کے بارے میں جہنم کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔‘‘
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ اس فانی دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لئے اللہ کی جھوٹی قسمیں اُٹھائے۔ایسی قسموں کو علما نے الیمین الغموس(ڈبو دینے والی قسم) کا نام دیا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسکی وضاحت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص جھوٹی قسم اُٹھاتا ہے اورقسم کے ذریعے وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا (اللہ اس سے ناراض ہوگا)۔‘‘ (صحیح بخاری:۲۲۳۹)
اشعث بن قیسؓ فرماتے ہیں:
’’اللہ کی قسم یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کے معاملے میں جھگڑا ہوگیا اور میں اس کو رسول اللہ1 کے پاس لے آیا۔ رسول اللہﷺنے مجھے کہا کہ کیا تیرے پاس کوئی گواہی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے یہودی سے کہا : احلف! تو قسم اُٹھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! اگر وہ قسم اُٹھائے گا تو میرا مال لے جائے گا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
{ إِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اﷲِ وَأَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً…الآیۃ} (صحیح بخاری:۲۲۳۹)
ایسی قسم کو یمین الغموس (ڈبو دینے والی؍جھوٹی قسم) کہتے ہیں ،کیونکہ یہ قسم اپنے اُٹھانے والے کو گناہ میں ڈبو دیتی ہے اوراس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
المُسبِل (ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا)
المُنفِق سلعتَہ بالحلف الکاذب (جھوٹی قسمیں کھاکر سامان بیچنے والا)
المَنَّان (احسان جتلانے والا)
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لا یکلِّمھم اﷲ ولا ینظر إلیھم یوم القیامة ولا یزکیھم ولھم عذاب ألیم۔ قلت: یارسول اﷲﷺ! من ہم؟خابوا وخسروا۔قال: وأعادہ رسول اﷲ ﷺ ثلاث مرات،قال: المسبل والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب والمنان (صحیح مسلم:۱۵۴)
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن نہ تو(نرم لہجے میں) کلام کریں گے، نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھیں گے اور نہ ہی ان کو (گناہوں) سے پاک کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ایسے بدبخت اور خسارہ اُٹھانے والے کون ہیں؟ اللہ کے رسولﷺنے اس بات کو تین بار دہرایا۔ پھر فرمایا:اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،جھوٹی قسم اُٹھا کر سامان بیچنے والا اور احسان جتلانے والا۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
المُسبل:
کپڑا لٹکانے والے سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے اِزار بند یا کپڑے کو اس قدر لٹکائے کہ وہ ٹخنوںسے نیچے چلا جائے۔ اگر وہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے غرور اور تکبر کی وجہ سے کرتا ہے تو اس پر اللہ کی رحمت سے دوری کی وعید لازم آتی ہے،کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لا ینظر اﷲ یوم القیامة إلی من جرَّ إزارہ بطرًا (صحیح بخاری:۵۳۴۲)
’’جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا اِزار بند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، توقیامت کے دن اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔‘‘
اور جس شخص کا ازار بند یا کپڑا بلا قصد اور بغیر غرور وتکبر کے ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
أسفل من الکعبین من الإزار في النار ( صحیح بخاری:۵۳۴۱)
’’جو کپڑا بھی ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘
ان دونوں روایات میں تطبیق وموافقت کی جو صورت نکلتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر قصداً اور غرور و تکبر کی وجہ سے ہو تونظر رحمت سے نہ دیکھنے والی وعید اس کے لئے ہے اور اگر بلا قصد اور غروروتکبر سے ہٹ کر ہو تو بعد والی وعیداس کے لیے ہے۔
البتہ عورتوں کے لئے بالاجماع یہی مشروع ہے کہ وہ پردے کی غرض سے اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا ئیں۔ جیسا کہ حضرت اُمّ سلمہؓ نے جب اس کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت کو سنا توکہنے لگیں: فکیف تصنع النساء بذیولیہن؟ عورتیں اپنی اوڑھنیوں کے ساتھ کیا کریں؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک بالشت کپڑا لٹکا لیں۔ اُم سلمہؓ فرمانے لگیں کہ اگر پھر بھی عورتوں کے قدم نظر آتے ہوں تو؟ فرمایا:فیرخینہ ذراعا لا یزدن علیہ ایک ہاتھ لمبا کپڑا لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔( سنن نسائی:۵۲۴۱، سنن ترمذی:۱۶۵۳)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جھوٹی قسم اُٹھاکر اپنا سامان بیچنا :
اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو حقیر جانتے ہوئے جھوٹی قسمیں اُٹھا کر اپنا سامان لوگوں کوبیچتا ہے اور اللہ کے نام کی قسمیں اٹھا کراللہ کی عظمت کا انکار کرنے کی جرات کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ فرماتے ہیں:
’’بازارمیں ایک شخص نے سامانِ تجارت رکھا اور اللہ کی قسم اُٹھائی اور کہنے لگا کہ جو سامان میرے پاس ہے، ایسا کسی کے پاس نہیں،تاکہ وہ کسی مسلمان آدمی کو پھنسا سکے،تو یہ آیت نازل ہوئی {إِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اﷲِ وَأَیْمَانِہِمْ…الآیۃ}(صحیح بخاری:۱۹۴۶)
اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لایکلمھم اﷲ ولا ینظر إلیھم یوم القیامة ولایزکیھم ولھم عذاب ألیم… ثم قال ورجل بایع رجلا بسلعتہ بعد العصر،فحلف باﷲ لأخذہا بکذاوکذا،فصدقہ فأخذہاوہو علی غیر ذلک(صحیح بخاری:۲۴۷۶،صحیح مسلم:۱۵۷)
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام نہیں کرے گا،نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا…فرمایا:ان میں سے ایک وہ ہے جو عصر کے بعد تجارت کرتا ہے اور اللہ کی قسمیں اُٹھاتا ہے تاکہ خریدارکسی بھی طریقے سے اس سے سامان خریدلے۔خریدار اس کی باتوں کو سچ مان کر اس سے سامان خرید لیتا ہے حالانکہ وہ (بیچنے والااپنی قسم میں)جھوٹا ہے۔‘‘
عصر کے بعد کے وقت کو خصوصی طور پرا س لئے بیان کیا گیا ہے، کیونکہ یہ بڑا اہم اور شرف والا وقت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، دن اور رات کی ڈیوٹیوں پر مامور ہونے والے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے وغیرہ۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت لڑائی کرنا اور قسمیں اُٹھانا عرب تجار کی عادت بن چکی تھی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
منَّان :
اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد احسان جتلاتا ہے۔ امام قرطبیؒ نے احسان جتلانے کی تعریف یوں کی ہے:
ذکر النعمة علی معنی التعدید لہا والتقریع بہا، مثل أن یقول: قد أحسنت إلیک (تفسیر قرطبی:۳؍۳۰۸)
’’کسی کو جتلانے اور دھمکانے کے لیے اس پر کیے ہوئے احسان کا تذکرہ کرنا۔مثلاً یہ کہنا کہ میں نے (تیرے ساتھ فلاں نیکی کی ہے) تجھ پر فلاں احسان کیا ہے ،وغیرہ۔‘‘
بعض لوگوں نے ’احسان‘کی تعریف یوں بھی کی ہے:
التحدث بما أعطٰی حتی یبلغ ذلک المُعطٰی فیؤذیہ
’’کسی کو دی گئی چیز کا تذکرہ اسطرح کرنا کہ اس کو جب یہ بات پہنچے تو اس کیلئے تکلیف دہ ہو۔‘‘
احسان جتلانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے جیسا کہ حضرت ابی امامہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لا یدخل الجنة عاق ولامنان ولامکذب بالقدر (مسند طیالسی:۱۲۱۴)
’’اللہ تعالیٰ ان بندوں کو جنت میں داخل نہیں کریں گے: والدین کا نافرمان ،احسان جتلانے والا اور تقدیر کا انکار کرنے والا۔‘‘
احسان جتلانا ایک بُری صفت ہے اوربندے میں اس صفت کے پیدا ہونے کی غالب وجہ بخل، تکبر، خوش فہمی اور اللہ تعالیٰ کے کئے ہوئے احسانات کو بھول جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو واضح فرما دیا ہے کہ ریاکاری کی طرح احسان جتلانا اور تکلیف پہنچانا بھی صدقے کو باطل کردیتا ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
{یَآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی…} (البقرہ:۲۶۴)
’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اور تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو۔‘‘
من منع ابن السبیل فضل الماء (مسافر کو زائدپانی کے استعمال سے روکنا)
من بایع إماما لأجل الدنیا (دُنیوی مقاصد کی خاطر امام کی بیعت کرنا)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ثلاثة لا یکلمھم اﷲ یوم القيامة ولا ینظر إلیھم ولایزکیھم ولھم عذاب ألیم: رجل علی فضل ماء بالفلاۃ یمنعہ من ابن السبیل،ورجل بایع رجلا بسلعتہ بعد العصر فحلف لہ باﷲ لأخذہا بکذا وکذا،فصدقہ وہو علی غیرذلک،ورجل بایع إماما لا یبایعہ إلا للدنیا،فإن أعطاہ منہا وفیٰ،وإن لم یعطہ منہا لم یف (صحیح مسلم:۱۵۷)
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن نہ (نرم لہجے میں) کلام کریں گے، نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھیں گے اور نہ ہی ان کو (گناہوں) سے پاک کریں گے: وہ آدمی جو زمین پر کھڑے زائد پانی کو مسافر سے روک لے۔ وہ آدمی جو عصر کے بعد فروخت کرتا ہے اورا س پر اللہ کی قسم اُٹھاتا ہے کہ اس نے خود اتنی اتنی قیمت میں خریدا ہے، چنانچہ خریدار اس کو سچا مان کر سودا خرید لیتا ہے،حالانکہ وہ جھوٹا ہوتاہے۔ اور وہ آدمی جو دنیوی مقاصد کے لئیامام کی بیعت کرتا ہے۔ جو اس کا طمع ہوتا ہے، اگر وہ اسے مل جاتا ہے تو وہ وفاداری کرتا ہے اور اگر نہ ملے تو غداری کرتا ہے (یعنی بیعت توڑدیتا ہے)۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مسافر کو صحرا میں زائدپانی سے روکنا:ایسا کرنے والاشخص ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرنے والا ہے۔ وہ ایسا سنگدل ہے جس میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں۔اللہ تعالیٰ بھی اس کو اس کے عمل کے مطابق ہی بدلہ دیں گے اور اس سے اپنا فضل ورحمت روک لیں گے جس کا وہ روزِ محشرسب سے زیادہ محتاج ہو گا۔
دنیوی مقاصد کی خاطر امام کی بیعت کرنا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص بیعت کرنے کے بعد اپنی وفاداری کو حکمران کی طرف سے ملنے والے اِنعام واکرام کے ساتھ معلق کر دیتا ہے اور بیعت کے اصل مقصد کو چھوڑ دیتا ہے ۔حالانکہ بیعت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ امام کی بات کو سنا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے،اس کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ اختیار کیا جائے،اُمورِ سلطنت میں اس کی مدد کی جائے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام دیا جائے۔جبکہ وہ مفاد پرستی پر مبنی بیعت کے ذریعے حکمران اور اُمت ِمسلمہ سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے جس وجہ سے اس کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے اس گناہ کو معاف نہ کیا تو وہ مذکورہ وعید کا شکار ہو جائے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان جو بھی کام سر انجام دیتا ہے، اس میں اللہ کی رضا ہی اس کے پیش نظرہونی چاہیے۔اگر اس میں دنیوی مقاصد کا حصول مقصود بن جائے تو وہ کام بھی ناقابل قبول اور انسان اللہ کے ہاں مجرم بن جاتا ہے۔
 
Top