• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ۔۔ احکام و مسائل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
روزہ۔۔ احکام و مسائل



مٹی میں ملے ہودئے بہت سے بیج اور جڑیں جو عرصہ طویل سے نیم مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں، جونہی موسم بہار آتا ہے تو ان میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے گردوغبار اڑانے والے میدان، شادابی سے لہلہانے لگتے ہیں۔

ایسے ہی امت مسلمہ کے بہت سے افراد کے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی ہے، تو رمضان المبارک کا موسم بہار آنے پر دوبارہ ایمان کی چاشنی اور شادابی تازہ ہوجاتی ہے اور لوگ قرآن، مسجد اور دیگر نیک اعمال کی طرف اس طرح کھینچے چلے آتے ہیں جس طرح برسات کے موسم میں پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں۔

اس کے پیش نظر ماہِ رحمت کے ابتداء سے انتہا تک کے چیدہ چیدہ احکام دوست و احباب کی خدمت میں ہدیہ کر رہا ہوں۔

فضائلِ رمضان:

1رمضان کا وہ مہینہ جس میں ہم نے قرآن نازل کیا۔(البقرہ:185)

2رمضان المبارک جس میں جنت کے درواز ے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (بخاری:3277)

3رمضان اور شب قدر کی وجہ سے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔(بخاری:1896 )

4جو رمضان کا مہینہ پائے اور گناہوں کی معافی نہ کروائے وہ بدبخت انسان ہے۔(حاکم:153/4)

5رمضان المبارک میں عمرہ کرنا، حج کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(بخاری:1863)

6ایک رمضان،دوسرے رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، جب کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔(مسلم:233)

7روزہ اور رات کا قیام، قیامت کے دن سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔(مسند احمد :174/4 ،سنن نسائی)

رمضان سے پہلے:

1رمضان المبارک کا روزہ چاند دیکھ کر رکھنا چاہئے، شک کی صورت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اگر مطلع صاف نہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کرنے چاہئیں۔(بخاری:1909 )

2رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالیہ روزہ رکھنا منع ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی عادت کے مطابق روزہ رکھتا ہو اور اتفاق سے وہ دن رمضان سے پہلے آجائے تو اس کے لئے جائز ہے۔ (بخاری:1914 )

3رمضان کے چاند کی گواہی ایک معتبر شخص کی بھی کافی ہے، البتہ شوال (عید) کے چاند کے لئے دو معتبر آدمیوں کی گواہی ہونی چاہیئے۔(ابو داؤد:2342 )

4چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہیئے:

اَللّٰهُمَّ اَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللَّهُ
(مسند احمد)

روزے کے مقاصد:

روزے کا سب سے بڑا مقصد تو اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ کے حکم کی اطاعت ہے، تاہم علمائے کرام نے روزوں کے مندرجہ ذیل مقاصد بیان کئے ہیں:

1 تقویٰ: سال بھر وافر مقدار میں کھانے کی وجہ سے جسم و روح میں سرکشی و درندگی پیدا ہوجاتی ہے اس کو ختم کرنے کیلئے ایک ماہ کےروزے لازم کئے گئے ہیں۔

2ضبطِ نفس:تمام حیوانات کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں، وہ کھانا، پینا، اور افزائش نسل، اور یہی دو مقصد انسان کو جرائم پر آمادہ کرتے ہیں اس لئے ان دونوں پر پابندی لگا کر تربیت کرائی گئی ہے۔

3 احساس و ہمدردی: جب تک انسان کو خود تکلیف و پریشانی سے واسطہ نہ پڑا ہو تب تک دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، ایک ماہ بھوک و پیاس برداشت کرنے سے غریبوں کے ساتھ احساس و ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔

4صبر و تحمل: زندگی تغیرات کا نام ہے۔ اگر آج خوشحالی ہے تو کل تنگ دستی سے بھی سامنا ہوسکتا ہے تو روزوں کے ذریعے صبر و تحمل کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے اور تنگی برداشت کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔

5بیماریوں کا تدارک: ہمیشہ کثرت سے کھانے ، پینے کی وجہ سے جسم میں ایسی رطوبتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ جن سے شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا اور دل و معدہ کے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک ماہ روزوں کے ساتھ ان بیماریوں کا تدارک کیا جاتا ہے۔ 1994 سابلانکا میں بین الاقوامی کانفرنس میں رمضان اور صحت کے موضوع پر 50 نکات و فوائد پر روشنی ڈالی گئی۔

روزے کےاحکام و مسائل:

1نیت : فرضی روزہ کی نیت رات کو طلوعِ فجر سے پہلے کرنی ضروری ہے۔(سنن ابی داوٗد:2454)

البتہ نفلی روزہ کی نیت دن کے وقت، زوال سے پہلے کی جاسکتی ہے۔(مسلم:1154)

نیت کا تعلق دل کے ارادے سے ہے، زبان سے نیت کرنا اور کیلنڈروں پر مروجہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔

2 سحری و افطاری:

۱۔ سحری کرنا مسنون طریقہ ہے، اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کا فرق ہے۔(مسلم:1096)

۲ ۔سحری میں برکت رکھی گئی ہے۔(بخاری:1923)

۳۔ سحری کا آخری وقت میں کھانا مسنون ہے۔(بخاری:1921 ، مسلم:1097)

۴۔ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔

(بخاری:1957، مسلم:1098)

۵۔ افطاری کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئیے:

ذَهَبَ الظَّمَاُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْاَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ (ابوداوٗد)

کیلنڈروں پر لکھی ہوئی یہ دعا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے: (اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ)

۶ ۔مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھجور کے ساتھ روزہ فطار کیا جائے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی کے ساتھ افطار کیا جائے۔(سنن ابی داوٗد:2356 ترمذی:696)

۷۔ افطاری کے وقت کی گئی دعا ردّ نہیں ہوتی (بلکہ قبول ہوتی ہے) (سنن ابن ماجہ:1753)

۸۔ افطاری کرانے والے کو بھی اتنا اجر و ثواب ملتا ہے، جتنا روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔ (شعب الایمان : 3953 ترمذی:807)

۹۔ روزہ افطار کرانے والے کے لئے یہ دعا کریں:

اَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّآئِمُونَ، وَاَكَلَ طَعَامَكُمُ الْاَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَآئِكَةُ
(سنن أبي داؤد:2357)

® روزہ سے مستثنیٰ:

1مریض کے لئے رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے (بشرطیکہ بیماری شدید ہو) (البقرہ:185)

2مسافر کے لئے رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ (البقرہ:185) (بخاری، 1943)

3حیض و نفاس والی عورت کے لئے روزہ کی ممانعت ہے۔(بخاری، مسلم)

4حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت دقت محسوس کرے تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ (ترمذی:715 )

نوٹ: بہت بوڑھا، کمزور یا دائمی مریض جس کے شفایاب ہونے کی امید نہ ہو وہ روزے کا فدیہ دے یعنی ہر روزے کے بدلے ایک غریب ، مسکین کو کھانا کھلادے۔(البقرہ:184 )

اور وقتی عارضے والا رمضان کے بعد قضا دے۔ (البقرہ:185)

چھوڑے ہوئے روزوں کی تواتر سے قضا لازمی نہیں، بلکہ وقفے کے ساتھ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔(بخاری:1950)

اگر وہ شخص فوت ہوجائے جس کے ذمہ فرضی روزے تھے تو اس کا وارث اس کی طرف سے قضا دے۔ (بخاری:1952)

¯ روزہ کی حالت میں ممنوع کام:

1 جان بوجھ کر کھانا پینا،ازدواجی تعلقات قائم کرنا منع ہے۔(بخاری:1936 مسلم:1151)

2عمداً قئی کرنا منع ہے۔(سنن ابی داوٗد:2380 )

3حیضو نفاس آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(چاہے غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے ہی ہو)۔(بخاری:1951 مسلم:335)

4بیوی سے محبت کا اندازاپنانا جس سے شہوت کے غلبہ کا خدشہ ہو یا مشت زنی کرنا، منع ہے۔

5خون لگوانا، گلوکوز، یا کوئی طاقت بخش ٹیکہ وغیرہ لگوانا منع ہے۔

6مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانامنع ہے۔(ترمذی:788 ابوداؤد:142)

7روزہ کی حالت میں اتنی مقدار میں خون نکلوانا جس سے روزہ کی تکمیل مشکل ہوجائے، یہ بھی منع ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا: سینگی لگوانے اور لگانے والے نے روزہ چھوڑدیا۔(مسند احمد،ابوداوٗد)

البتہ زخم، پھوڑا، اور نکسیر سے خون بہے تو روزہ باطل نہ ہوگا۔

8روزہ کی حالت میں غیبت، جھوٹ، دھوکہ، موسیقی کا سننا وغیرہ تمام کامممنوع ہیں۔

9یہ سمجھ کر کھانا پینا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی، حالانکہ صبح صادق ہوچکی ہو تو اس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

° روزہ کی حالت ميں جائز كام :

1غسل كرنا، كلي كرنا، ناك ميں پاني ڈالنا بشرطيكه مبالغه نه كرے تو جائز هے۔(سنن أبي داؤد :2366)

2مسواك كرنا جائز هے (خوره خشک هو يا تر اور يهي حكم ٹوتھ پيسٹ كا هوگا( بخاري :887)

3حالت جنابت میں سحري كھانا جائز هے البته نماز كے لئے غسل كرنا ضروري هے۔ (بخاري 1926)

4اگر شهوت كا خدشه نه هوتو بيوي سے بوس وكنار كرنا جائز هے ۔(بخاری:1927 مسلم:1106)

5سرمہ لگانا، کان یا آنکھ میں دوائی ڈالنا جائز ہے۔(ابن ماجہ :1678)

6بوقت ضرورت ہنڈیا وغیرہ کا ذائقہ چکھنا جائزہے۔(بخاری :1209)

7گرد وغبار ،دھواں یا مکھی وغیرہ حلق میں چلے جائیں تو روزہ باطل نہیں ہوتا ۔(فتح الباری :155/1)

8خود بخود قئی آنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔(ابوداؤد:2393 )

9احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔(ابوداؤد :4403)

0 تیل لگانے یا مالش کرنے اور اس طرح مہندی لگانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔

! روزہ کی حالت میں اپنا لعاب نگل لینا جائز ہے۔

بھول کر کھانے ، پینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔(بخاری :1933 مسلم :1155)

نماز تراویح:

1رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ (بخاری :2013 )

سیدنا جابرt فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میںآٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ (صحیح ابن خزیمہ :1070 ابن حبان :2401)

سیدنا عمر tنے سیدنا تمیم داری اور ابی بن کعب کو گیارہ رکعت تراویح باجمات پڑھانے کا حکم دیا۔ (مؤطا امام مالک 115/1 بیہقی 496/2 )

سیدنا سائب بن یزید t فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرt کے دورِ خلافت میں گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (حاشیہ آثار السنن ص:250 سنن سعید بن منصور بحوالہ السخاوی للفتاویٰ 249/1)

2قیام اللیل: قیام رمضان اور صلوۃ تراویح ایک ہی چیز کے نام ہیں اور یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ الگ ادا کی ہو۔ (فیض الباری 420/2 از انور شاہ کاشمیری حنفی العرف الشذی 166/1 شرح الترمذی طبع کراچی ، شرح مسلم 259/1از نووی رحمہ اللہ)

3بہت سے حنفی اکابر علماء کے نزدیک بھی مسنون تراویح وتر سمیت گیارہ رکعتیں ہیں:

علامہ ابن ہمام حنفی فتح القدیر شرح الہدایۃ 407/1 باب النوافل میں فرماتے ہیں :

تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان میں مسنون قیام وتر سمیت گیارہ رکعات ہیں ۔‘‘

اسی طرح علامہ ملا علی قاری حنفی ، مرقاۃ المصابیح 382/3 حدیث نمبر 1303 میں فرماتے ہیں :

’’مولانا انور شاہ کاشمیری حنفی ، العرف الشذی شرح الترمذی 166/1 اور مولانا محمد یوسف بنوری صاحب معارف السنن 543/5 پر فرماتے ہیں :

’’یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعات ہی ادا کی ہیں۔‘‘

اسی طرح علامہ زیلعی حنفی ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور دیگر بہت سے حنفی اکابر اس بات کے قائل تھے۔

4 وتروں کو قیام رمضان یا تراویح کے آخر میں ادا کرنا چاہیے۔ (بخاری :998مسلم:751)

5وتر ایک ، تین ، پانچ اور سات ثابت ہیں البتہ تشہد صرف آخری رکعت میں بیٹھا جائے گا۔(ابوداؤد :1422 ابن ماجہ :1192)

اعتکاف :

1آپ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم کردیتے تھے۔ (بخاری :2026)

2اعتکاف کا آغاز 20 رمضان المبارک کی شام سے ہوتاہے۔ اعتکاف کرنے والا اکیسویں رات مسجد میں گزارے گا اور نماز فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں داخل ہوگا۔ (سنن ابی داؤد :2464)

3اعتکاف گاہ سے باہر انسانی حاجت کے علاوہ جانا درست نہیں ۔(سنن ابی داؤد :2473)

بیمارکی عیادت راستے میں چلتے ہوئے کرسکتا ہے۔ اہتمام کے ساتھ عیادت یا جنازہ کے لیے جانا درست نہیں۔

4اعتکاف والاآدمی غسل کرسکتاہے۔ (ابن ماجہ :1774)

5 عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں لیکن مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے ۔گھروں میں اعتکاف بیٹھنا ثابت نہیں ہے جیسے سورۃ البقرۃ :187 اور بخاری کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے۔

صدقۃ الفطر کا بیان :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِّلْمَسَاكِيْنِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا۔ لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے اس کا صدقہ مقبول ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے(نہ کہ واجب صدقہ)

(ابن ماجہ، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر )

فطرہ کس پر واجب ہوتاہے؟:

’’صدقۃ الفطرہر غلام اور آزاد ، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض ہے۔ ‘‘(بخاری)

فطرہ اداکرنے کا وقت :

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے :

’’صدقہ فطر لوگوں کے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے‘‘(بخاری ،مسلم)

سیدنا ابن عمر فرماتے ہیں کہ لوگ یہ صدقہ عید سے ایک یا دو روز پہلے دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری )

صدقہ فطر کا ابتدائی وقت عید سے چند روز پہلے اور آخری وقت عید کی نماز سے پہلے ہے۔(مؤطاامام مالک ؒ)

نوٹ: بعض تنظیمیں اور مدرسے عید کی نماز کے بعد بھی صدقہ فطر وصول کرلیتے ہیںجو سراسر غلط ہے کیوں کہ عید کی نماز کے بعد صدقہ فطر ادا نہیں ہوتا۔ صرف صدقہ ہوتا ہے۔

صدقہ فطرکن چیزوںسے ادا ہوتاہے ؟:

مختلف صحیح احادیث میں صدقہ فطر کے لئے مندرجہ ذیل چیزوں کا ذکر ہوا ہے : گندم ، جو، کھجور ،کشمش، آٹا ، پنیر اور عام خوراک (مثلا دالیں، چنا، سوجی وغیرہ)۔(بخاری)

وضاحت : صدقہ فطر ہر گھرانے پر اس کی استطاعت اور حیثیت کے مطابق فرض ہے یعنی امیر گھرانہ اعلیٰ اور قیمتی چیزیں بطور صدقہ فطر ادا کرے مثلاً پنیر، کھجور وغیرہ تاکہ غریبوں کو بھی مہنگی اشیاء کھانے کو ملیں۔

صدقہ فطر کی مقدار :

صحیح احادیث میں صدقہ فطر کی مقدار ایک ’’صاع ‘‘ یعنی تقریباً ڈھائی کلو ہے۔ (بخاری ، مسلم)

[LINK=http://www.islamqaonline.com/index.php?option=com_content&view=article&id=346:roza&catid=45:book-unicode&Itemid=18]روزہ۔۔ احکام و مسائل[/LINK]​
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
نوٹ: بہت بوڑھا، کمزور یا دائمی مریض جس کے شفایاب ہونے کی امید نہ ہو وہ روزے کا فدیہ دے یعنی ہر روزے کے بدلے ایک غریب ، مسکین کو کھانا کھلادے۔(البقرہ:184 )
سورہ بقرہ کی محولہ بالا آیت اس مذکورہ مسئلہ پر ہرگز دلالت نہیں کرتی ۔
اس بارہ میں تفصیل بحث کے لیے یہ تھریڈ ملاحظہ فرمائیں
روزے کی جگہ فدیہ دینے کی شرعی حیثیت - URDU MAJLIS FORUM
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
5وتر ایک ، تین ، پانچ اور سات ثابت ہیں البتہ تشہد صرف آخری رکعت میں بیٹھا جائے گا۔(ابوداؤد :1422 ابن ماجہ :1192)
ایک تین اور پانچ رکعتوں میں تشہد صرف آخری رکعت میں ہوگا
جبکہ
سات اور نو رکعت وتر میں آخری اور آخری سے پہلی رکعت میں بھی تشہد ہوگا
صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
3رمضان کے چاند کی گواہی ایک معتبر شخص کی بھی کافی ہے، البتہ شوال (عید) کے چاند کے لئے دو معتبر آدمیوں کی گواہی ہونی چاہیئے۔(ابو داؤد:2342 )
شوال کے چاند کے لیے بھی ایک معتبر آدمی کی گواہی ہی کافی ہے ۔
محولہ بالا حدیث میں ایک واقعہ ذکر ہے جو دو گواہیوں کو لازم نہیں کرتا
خوب سمجھ لیں
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
صحیح احادیث میں صدقہ فطر کی مقدار ایک ’’صاع ‘‘ یعنی تقریباً ڈھائی کلو ہے۔ (بخاری ، مسلم)
ایک صاع اڑھائی کلو نہیں بلکہ سوا دو سیر یعنی ایک کلو اور سو گرام کا ہوتا ہے ۔
اڑھائی کلو وزن درست نہیں
 

farooqsher2100

مبتدی
شمولیت
فروری 20، 2020
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
Bohat hi aalaa... Jazakkallah

Sent from my Infinix NOTE 3 using Tapatalk
 
Top