عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
روزہ اور عید سب کے ساتھ یا اپنے اپنے مطلع کے ساتھ؟ (1)۔
چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو عہد ِ نبوت سے اب تک پیہم چلا آرہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں چاند دیکھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کیا کیفیت تھی یہ احادیث مبارکہ صحیحہ میں بالکل واضح ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا حکم دیا، اور اگر کوئی نہ دیکھ سکے تو کسی ایسے مسلم عادل گواہ کی گواہی کا اعتبار کرکے روزہ شروع کرنے کا حکم دیا جس نے چاند دیکھا ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا بیان اور اس کی تفسیر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔
جیسے نماز ویسے ہی پڑھو جیسا مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور اس فرمان کی تفسیر نماز کا وہ طریقہ کار ہے جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
ویسے ہی حج کے مسائل کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کے مسائل مجھ سے سیکھو اور پھر ان تمام مسائل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عملی طور پر کرکے دکھایا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فرمان رویت ہلال کے متعلق ہے اس پر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیسے عمل کیا یہ جاننا ہمارے لئے بہت اہم ہے.
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاند کی خبر دور دراز علاقوں میں بھیجنے کا اہتمام کرتے تھے؟
یا دور سے خبر لانے کیلئے قاصد روانہ کرتے تھے تا کہ تمام لوگ روزہ و عید ایک ساتھ کرکے اتحاد کا حسین منظر پیش کر سکیں؟
کیوں کہ یہ مسئلہ ایک ایسی عبادت کا ہے جس کا تعلق چاند سے ہے، اگر چاند نکلنے سے ایک دن پہلے روزہ رکھا تو وہ شمار نہیں ہوگا، اور اگر ایک دن بعد روزہ رکھا تو عید کے دن روزہ رکھنا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔
مذکورہ بات کا اہتمام اس لئے بھی بہت ضروری تھا کیوں کہ عدم اہتمام کے سبب حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دور دراز علاقوں میں قاصد بھیجتے اور طلوع ہلال کا پتہ لگواتے تاکہ (نعوذ باللہ) نبی کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ شریعت مخالفت سے محفوظ رہتے۔
لیکن آپ نبی اکرم صلی اللہ کی مدنی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ پر بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اس قسم کا کوئی بھی اہتمام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے میں نہیں کیا.
قارئینِ کرام: آپ سبھی جانتے ہیں کہ چاند ہمیشہ ایک گاؤں یا ایک شہر میں نہیں نکلتا، بلکہ کبھی کہیں دکھتا تو کبھی کہیں اور،
نیز یہ بات بھی مسلَّم ہے پوری دنیا میں ایک ہی دن چاند نہیں نکلتا اور نہ ہی نظر اتا ہے،
اور نبی کے زمانہ میں بہت دور افتادہ علاقے میں نکلنے والے چاند کی خبر نبی کو پہنچنا بھی نا ممکن تھا، پھر ایسی صورت میں صرف دو ہی طریقہ رہ جاتا تھا، ایک یہ کہ اللہ رب العالمین انہیں بذریعہ وحی خبر دیتا کہ مدینہ سے دور فلاں علاقے میں چاند دیکھا گیا ہے، تاکہ امت اس عظیم کو متحدہ طور انجام دے سکے۔
لیکن رب العالمین کا دوسری جگہوں کے متعلق نبی کو خبر نہ دینا یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اختلاف مطلع سنت الہی ہے۔
اور دوسری صورت یہ کہ مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ کی رؤیت کو شرعی طور پر معتبر قرار دیا جاتا تاکہ امت متحد رہ سکے اور انہیں دو مقامات مقدسہ کے مطابق روزہ و عید منائی جائے، لیکن شریعت کا اس امر کا اہتمام نہ کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اختلاف مطلع شرعی قانون ہے.
محترم قارئین: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کیلئے کافی دور سے لوگ تشریف لا یا کرتے تھےجیسے یمن وغیرہ، آپ انہیں اسلام کی تعلیمات دیتے، لیکن چاند کے متعلق کچھ نہ کہتے، اور نہ پوچھتے کہ تمہارے یہاں چاند کب نکلتا ہے، کیوں کہ یہ بدیہی امر تھا کہ جب چاند نظر آئے گا تب سے روزہ شروع ہوگا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بھی نہیں کہتے کہ چاند نکلے تو ہمیں خبر کر دینا اور ہم تمہیں خبر بھجوا دیں گے، اور جس کے یہاں پہلے چاند نکلا ہو اسی کے حساب سے روزہ رکھا جائے گا، اور اگر بعد میں خبر ملی تو جس نے روزہ بعد میں شروع کیا ہے اسے بعد میں روزہ کی قضاء کرنی پڑے گی.
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل، علی بن ابی طالب اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن کی طرف داعی اور گورنر کی حیثیت سے روانہ کیا تھا، انہیں بھی چاند کے اتنے اہم مسئلہ کے متعلق کوئی بھی ہدایت نہیں دی کہ اگر تمہارے یہاں چاند نظر آجائے تو مدینہ خبر بجھوا دینا اور میری خبر کا بھی انتظار کرنا ۔
قارئینِ کرام: اگر وحدتِ رؤیت ممکن ہو سکتی تھی تو وہ صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو سکتی تھی، کیوں کہ وحی الہی کا سلسلہ جاری تھا اور شمس و قمر کا خالق ومالک ووحدہ لاشریک دین اسلام کی تعلیمات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ امت تک پہنچا رہا تھا، اور یہ بات مسلم ہے کہ سب سے پہلے مدینہ میں چاند نہیں نکلتا تھا کہ یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاند کا پتہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، نیز یہ وہ زمانہ تھا کہ اللہ رب العالمین ہر چھوٹی بڑی بات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو آگاہ کرتا رہا، موئے سر برابر بھی دین میں نقص نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود دوسری جگہ کے چاند کی خبر بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچی.
آپ خود غور وفکر کریں کہ جو دین صف بندی کو اتحاد امت سے تعبیر کرتا ہو، کثرتِ سلام کو موجب مودت ومحبت قرار دیتا ہو، جوتے میں لگی گندگی کو بحالت نماز دور کرنے کی تلقین کرتا ہو، پھر وہ اتحاد کے اتنے بڑے سبب یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن عید سے پہلو تہی کیسے کر سکتا ہے؟
وحدتِ رؤیت کے قائلین کے مطابق کتاب وسنت کے تمام دلائل انہیں کی رائے کی تائید کرتے ہیں، لیکن یہاں پر آدمی ایک بات سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحدتِ رؤیت کی تعلیم دی انہوں نے (نعوذ باللہ) امت کو متحد کرنے کیلئے وحدتِ رؤیت کی کوشش نہیں کی؟
اس کے علاوہ خلفائے راشدین اور ائمہ سلف کے دور کو لے لیجئے، جب اسلامی حکومت کا طوطی بولتا تھا، ایک ہی خلیفہ ہوتے تھے، انہیں کا حکم نافذ ہوتا تھا، اگر مصر و شام میں کوئی مسئلہ ہوتا فورا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک خبر پہنچ جایا کرتا تھا، ایسے سنہرے اور زریں دور میں جب کہ علماء اسلام، فقہاء امت، اتحاد ملت کا درد رکھنے والے صحابہ کرام موجود تھے جنہوں نے ہر مسئلہ کی وضاحت امت کے سامنے چمکتے سورج کی طرح کی، لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کے اتنا اہم ترین مسئلہ ان کی نگاہِ دور رس پر مخفی رہا، اور چودہ سو سال بعد کچھ انٹر نیٹ اور کچھ کتابوں کے جیالے طالبعلموں پر یہ پر اسرار معاملہ منکشف ہوا، جس پر نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا، نہ صحابہ نے، نہ تابعین اور نہ ہی تبع تابعین نے۔۔۔الخ۔
جاری.................
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو عہد ِ نبوت سے اب تک پیہم چلا آرہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں چاند دیکھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کیا کیفیت تھی یہ احادیث مبارکہ صحیحہ میں بالکل واضح ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا حکم دیا، اور اگر کوئی نہ دیکھ سکے تو کسی ایسے مسلم عادل گواہ کی گواہی کا اعتبار کرکے روزہ شروع کرنے کا حکم دیا جس نے چاند دیکھا ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا بیان اور اس کی تفسیر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔
جیسے نماز ویسے ہی پڑھو جیسا مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور اس فرمان کی تفسیر نماز کا وہ طریقہ کار ہے جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
ویسے ہی حج کے مسائل کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کے مسائل مجھ سے سیکھو اور پھر ان تمام مسائل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عملی طور پر کرکے دکھایا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فرمان رویت ہلال کے متعلق ہے اس پر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیسے عمل کیا یہ جاننا ہمارے لئے بہت اہم ہے.
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاند کی خبر دور دراز علاقوں میں بھیجنے کا اہتمام کرتے تھے؟
یا دور سے خبر لانے کیلئے قاصد روانہ کرتے تھے تا کہ تمام لوگ روزہ و عید ایک ساتھ کرکے اتحاد کا حسین منظر پیش کر سکیں؟
کیوں کہ یہ مسئلہ ایک ایسی عبادت کا ہے جس کا تعلق چاند سے ہے، اگر چاند نکلنے سے ایک دن پہلے روزہ رکھا تو وہ شمار نہیں ہوگا، اور اگر ایک دن بعد روزہ رکھا تو عید کے دن روزہ رکھنا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔
مذکورہ بات کا اہتمام اس لئے بھی بہت ضروری تھا کیوں کہ عدم اہتمام کے سبب حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دور دراز علاقوں میں قاصد بھیجتے اور طلوع ہلال کا پتہ لگواتے تاکہ (نعوذ باللہ) نبی کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ شریعت مخالفت سے محفوظ رہتے۔
لیکن آپ نبی اکرم صلی اللہ کی مدنی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ پر بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اس قسم کا کوئی بھی اہتمام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے میں نہیں کیا.
قارئینِ کرام: آپ سبھی جانتے ہیں کہ چاند ہمیشہ ایک گاؤں یا ایک شہر میں نہیں نکلتا، بلکہ کبھی کہیں دکھتا تو کبھی کہیں اور،
نیز یہ بات بھی مسلَّم ہے پوری دنیا میں ایک ہی دن چاند نہیں نکلتا اور نہ ہی نظر اتا ہے،
اور نبی کے زمانہ میں بہت دور افتادہ علاقے میں نکلنے والے چاند کی خبر نبی کو پہنچنا بھی نا ممکن تھا، پھر ایسی صورت میں صرف دو ہی طریقہ رہ جاتا تھا، ایک یہ کہ اللہ رب العالمین انہیں بذریعہ وحی خبر دیتا کہ مدینہ سے دور فلاں علاقے میں چاند دیکھا گیا ہے، تاکہ امت اس عظیم کو متحدہ طور انجام دے سکے۔
لیکن رب العالمین کا دوسری جگہوں کے متعلق نبی کو خبر نہ دینا یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اختلاف مطلع سنت الہی ہے۔
اور دوسری صورت یہ کہ مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ کی رؤیت کو شرعی طور پر معتبر قرار دیا جاتا تاکہ امت متحد رہ سکے اور انہیں دو مقامات مقدسہ کے مطابق روزہ و عید منائی جائے، لیکن شریعت کا اس امر کا اہتمام نہ کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اختلاف مطلع شرعی قانون ہے.
محترم قارئین: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کیلئے کافی دور سے لوگ تشریف لا یا کرتے تھےجیسے یمن وغیرہ، آپ انہیں اسلام کی تعلیمات دیتے، لیکن چاند کے متعلق کچھ نہ کہتے، اور نہ پوچھتے کہ تمہارے یہاں چاند کب نکلتا ہے، کیوں کہ یہ بدیہی امر تھا کہ جب چاند نظر آئے گا تب سے روزہ شروع ہوگا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بھی نہیں کہتے کہ چاند نکلے تو ہمیں خبر کر دینا اور ہم تمہیں خبر بھجوا دیں گے، اور جس کے یہاں پہلے چاند نکلا ہو اسی کے حساب سے روزہ رکھا جائے گا، اور اگر بعد میں خبر ملی تو جس نے روزہ بعد میں شروع کیا ہے اسے بعد میں روزہ کی قضاء کرنی پڑے گی.
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل، علی بن ابی طالب اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن کی طرف داعی اور گورنر کی حیثیت سے روانہ کیا تھا، انہیں بھی چاند کے اتنے اہم مسئلہ کے متعلق کوئی بھی ہدایت نہیں دی کہ اگر تمہارے یہاں چاند نظر آجائے تو مدینہ خبر بجھوا دینا اور میری خبر کا بھی انتظار کرنا ۔
قارئینِ کرام: اگر وحدتِ رؤیت ممکن ہو سکتی تھی تو وہ صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو سکتی تھی، کیوں کہ وحی الہی کا سلسلہ جاری تھا اور شمس و قمر کا خالق ومالک ووحدہ لاشریک دین اسلام کی تعلیمات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ امت تک پہنچا رہا تھا، اور یہ بات مسلم ہے کہ سب سے پہلے مدینہ میں چاند نہیں نکلتا تھا کہ یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاند کا پتہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، نیز یہ وہ زمانہ تھا کہ اللہ رب العالمین ہر چھوٹی بڑی بات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو آگاہ کرتا رہا، موئے سر برابر بھی دین میں نقص نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود دوسری جگہ کے چاند کی خبر بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچی.
آپ خود غور وفکر کریں کہ جو دین صف بندی کو اتحاد امت سے تعبیر کرتا ہو، کثرتِ سلام کو موجب مودت ومحبت قرار دیتا ہو، جوتے میں لگی گندگی کو بحالت نماز دور کرنے کی تلقین کرتا ہو، پھر وہ اتحاد کے اتنے بڑے سبب یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن عید سے پہلو تہی کیسے کر سکتا ہے؟
وحدتِ رؤیت کے قائلین کے مطابق کتاب وسنت کے تمام دلائل انہیں کی رائے کی تائید کرتے ہیں، لیکن یہاں پر آدمی ایک بات سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحدتِ رؤیت کی تعلیم دی انہوں نے (نعوذ باللہ) امت کو متحد کرنے کیلئے وحدتِ رؤیت کی کوشش نہیں کی؟
اس کے علاوہ خلفائے راشدین اور ائمہ سلف کے دور کو لے لیجئے، جب اسلامی حکومت کا طوطی بولتا تھا، ایک ہی خلیفہ ہوتے تھے، انہیں کا حکم نافذ ہوتا تھا، اگر مصر و شام میں کوئی مسئلہ ہوتا فورا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک خبر پہنچ جایا کرتا تھا، ایسے سنہرے اور زریں دور میں جب کہ علماء اسلام، فقہاء امت، اتحاد ملت کا درد رکھنے والے صحابہ کرام موجود تھے جنہوں نے ہر مسئلہ کی وضاحت امت کے سامنے چمکتے سورج کی طرح کی، لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کے اتنا اہم ترین مسئلہ ان کی نگاہِ دور رس پر مخفی رہا، اور چودہ سو سال بعد کچھ انٹر نیٹ اور کچھ کتابوں کے جیالے طالبعلموں پر یہ پر اسرار معاملہ منکشف ہوا، جس پر نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا، نہ صحابہ نے، نہ تابعین اور نہ ہی تبع تابعین نے۔۔۔الخ۔
جاری.................
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ