- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
روزہ دار کا خون ٹیسٹ کروانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم تحليل الدم للصائم وهل يفطر؟
الجواب: لا يفطر الصائم بإخراج الدم من أجل التحليل، فإن الطبيب قد يحتاج إلى الأخذ من دم المريض ليختبره، فهذا لا يفطر؛ لأنه دم يسير لا يؤثر على البدن تأثير الحجامة فلا يكون مفطراً، والأصل بقاء الصيام ولا يمكن أن نفسده إلا بدليل شرعي، وهنا لا دليل على أن الصائم يفطر بمثل هذا الدم اليسير، وأما أخذ الدم الكثير من الصائم من أجل حقنه في رجل محتاج إليه مثلاً، فإنه إذا أخذ منه الدم الكثير الذي يفعل بالبدن مثل فعل الحجامة فإنه يفطر بذلك، وعلى هذا فإذا كان الصوم واجباً فإنه لا يجوز لأحد أن يتبرع بهذا الدم الكثير لأحد، إلا أن يكون هذا المتبرع له في حالة خطرة لا يمكن أن يصبر إلى ما بعد الغروب وقرر الأطباء أن دم هذا الصائم ينفعه ويزيل ضرورته، فإنه في هذه الحال لا بأس أن يتبرع بدمه، ويفطر ويأكل ويشرب حتى تعود إليه قوته، ويقضي هذا اليوم الذي أفطره، والله أعلم.
(فتاوى اركان الاسلام ج1 ص478 )
____________________________________
روزہ دار کے خون کے ٹیسٹ کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
الجواب :
ٹیسٹ کے لیے خون نکالنے سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیب کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کے لیے مریض سے خون لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاکیونکہ یہ خون کی بہت تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اس سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ روزہ باقی رہتا ہے، کسی دلیل شرعی کے بغیر ہم اس کو فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ خون کی اس طرح کی معمولی مقدار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ کسی دوسرے ضرورت مند شخص کو لگانے کے لیے روزہ دار کے جسم سے زیادہ مقدار میں خون لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، یعنی اگر کثیر مقدار میں خون لیا جائے جو جسم پر سینگی کی طرح اثر انداز ہو تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا واجب روزے کی صورت میں کسی کو کثیر مقدار میں خون کا عطیہ نہیں دینا چاہیے اِلاَّیہ کہ جس کو خون کا عطیہ دینا مقصود ہو، وہ خطرناک حالت میں ہو اور اس کے لیے غروب آفتاب کے بعد تک انتظار کرنا ممکن نہ ہو اور اطباء کی رائے میں خون اس کے لیے مفید اور اس کے مرض کے ازالے کے لیے ضروری ہو تو اس حال میں خون کا عطیہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ خون دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا اسے کھانا پینا چاہیے تاکہ اس کی قوت واپس لوٹ آئے اور اس دن کے روزے کی قضا ادا کرنی اس کے لیے لازم ہوگی۔
والله اعلم
فتاویٰ ارکان اسلام
________________________________________
خروج الدم من الصائم هل يُبطل الصيام ؟
ما حكم سحب الدم سواءً كان كثيراً أو قليلا بالنسبة للصائم .هل يفطر أو لا.
_______________________________
الحمد لله
إذا كان الدم الذي أخذ منه يسيراً عرفاً فصيامه صحيح ولا يجب عليه قضاء ذلك اليوم وإن كان ما أخذ كثيراً عرفاً فإنه يقضي ذلك اليوم خروجاً من الخلاف ، وأخذاً بالاحتياط براءةً لذمته.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 10 / 263
ترجمہ :
کیا خون نکلنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ؟
روزے دار کا خون نکالنے کا حکم کیا ہے چاہے کم ہویا زیادہ کیا اس سے ورزہ ٹوٹتا ہے کہ نہیں ؟
___________________________________
الحمد للہ
اگرتونکالا گیا خون عرفا قلیل ہوتو اس سے روزہ کو کچھ نقصان نہيں ہوتا اوروہ صحیح ہے اس پرقصاء واجب نہيں ، لیکن اگر عرفی طور پر خون کی مقدار زيادہ ہو پھر اسے اس دن کی قضاء ادا کرنا ہوگي تا کہ اختلاف سے بچا جاسکے ، اوراحتیاط پر عمل کرتے ہوئے بری الذمہ ہوا جاسکے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 263 )
________________________________________________
روزہ دار کا خون ٹیسٹ کروانا
__________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا روزہ دار خون ٹیسٹ کراسکتا ہے ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں تفصیل سے وضاحت کریں؟
----------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلہ میں اصل قاعدہ یہ ہےکہ روزہ رکھنے کے بعد وہ باقی رہتا ہے کسی شرعی دلیل کے بغیر ہم اسے فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سےمعلوم ہو کہ خون کی معمولی مقدا ر سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو،لہٰذا ٹیسٹ کے لئے خون لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیعت کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کےلئے مریض سے خون لینے کی ضرورت ہوتی ہے،اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ یہ خون کی بہت معمولی مقدار ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی،البتہ بحالت روزہ کسی مریض کی جان بچانے کےلئے خون کا عطیہ دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔خون دینے والے کو بعد میں اس کی قضا دینا ہوگی اسے سینگی لگوانے کے عمل پر قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ عطیہ دینے کےلئے کافی مقدار میں خون جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ البتہ نکیر، مسواک یا دانت نکلواتے وقت خون آجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ،اگر مریض کو غروب آفتاب سے پہلے خون دینے کی ضرورت ہوا ور اطبا کی رائے کے مطابق اس کے مرض کے ازالہ کے لئے ایسا کرناضروری ہوتو اس حالت میں خون کا عطیہ دیا جاسکتا ہے ،لیکن اس سے قوت ختم ہوجائے گی۔ خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ کچھ کھائے پیئے تا کہ اس کی قو ت واپس لوٹ آئے اور اس دن کی قضا اد اکرنا اس پر لازم ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص231
محدث فتویٰ
______________________________
کیا احتلام، جسم سے خون اور قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟
__________________________________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے روزہ رکھا تھا اور مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا کہ مجھے احتلام ہوا ہے کیا احتلام روزہ پر اثر انداز ہوتا ہے؟ یہ خیال رہے کہ میں نے غسل نہیں کیا اور نہانے کے بغیر ہی نماز ادا کر لی۔
ایک دفعہ یوں ہوا کہ مجھے سر میں پتھر لگا۔ جس سے میرے سر سے خون بہہ نکلا۔ کیا خون کی وجہ سے میرا روزہ ٹوٹ گیا۔
اسی طرح کیا قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ امید ہے آپ مجھے مستفید فرمائیں گے۔ (م۔ و۔ ا)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں ۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔
اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں ۔
اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَن ذَرَعَہ القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیہ، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیہ القضَائُ))
’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 126
محدث فتویٰ
_____________________
وہ خون جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے
الدم المفسد للصوم
س ما هو ضابط الدم الخارج من الجسد المفسد للصوم؟ وكيف يفسد الصوم؟!.
ج الدم المفسد للصوم هو الدم الذي يخرج بالحجامة لقول النبي صلى الله عليه وسلم ((أفطر الحاجم والمحجوم)) ويقاس على الحجامة ما كان بمعناها مما يفعله الإنسان باختياره فيخرج منه دم كثير يؤثر على البدن ضعفا فإنه يفسد الصوم كالحجامة لأن الشريعة الإسلامية لا تفرق بين الشيئين المتماثلين كما أنها لا تجمع بين الشيئين المفترقين. . أما ما خرج من الإنسان بغير قصد كالرعاف وكالجرح للبدن من السكين عند تقطيع اللحم أو وطئه على زجاجة أو ما أشبه ذلك فإن ذلك لا يفسد الصوم ولو خرج منه دم كثير كذلك لو خرج دم يسير لا يؤثر كتأثير الحجامة كالدم الذي يؤخذ للتحليل لا يفسد الصوم أيضاً.
الشيخ ابن عثيمين
***
فتاوى إسلامية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لأصحاب الفضيلة العلما
____________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خون کے بارے میں کیا ضابطہ ہے یعنی جسم سے خارج ہونے والا وہ کون سا خون ہے جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟ اور روزہ کس طرح فاسد ہوتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزے کو فاسد کرنے والا وہ خون ہے جو سینگی لگانے سے خارج ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(افطر الحاجم والمحجوم) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب في الصائم يحتجم‘ ح: 2367)
"سینگی لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔"
اور ہر اس کام کو بھی سینگی پر قیاس کیا جائے گا جو اس کے ہم معنی ہو، جسے انسان اپنے اختیار سے سر انجام دے اور جس کی وجہ سے بہت سا خون خارج ہو کر جسم کمزور ہو جائے تو اس سے بھی روزہ فاسد ہو جائے گا جس طرح سینگی سے فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت متماثل (ملتی جلتی اور ایک جیسی) چیزوں کو جدا جدا نہیں کرتی، جس طرح دو متفرق چیزوں کو جمع نہیں کرتی۔۔۔ وہ خون جو انسان کے قصد و ارادہ کے بغیر نکل آئے مثلا نکسیر کا خون یا گوشت کاٹتے ہوئے چھری لگ جانے سے یا شیشے وغیرہ پر پاؤں آ جانے سے جو خون نکل آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ خون زیادہ مقدار ہی میں نکل آئے اسی طرح اگر خون تھؤری مقدار میں نکلا ہو جیسے کیمیائی تجزیہ کے لیے بہت تھوڑی سی مقدار میں خون نکالا جاتا ہے تو اس سے سینگی کی طرح روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
_________________________
روزے دار کا خون کا عطیہ دینا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رمضان میں دن کے وقت خون کا عطیہ دینا جائز ہے یا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی شخص خون کا عطیہ دے اور اس سے بہت زیادہ خون لیا جائے تو سینگی پر قیاس کی وجہ سے روزہ باطل ہو جائے گا۔ یاد رہے خون صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے جب کسی مریض کو دے کر اس کی جان بچانا مقصود ہو یا ہنگامی حالات کے لیے اسے محفوظ رکھنا مقصود ہو اور اگر خون کی مقدار کم ہو مثلا صرف اس قدر ہو جتنا کہ کیمیائی تجزیہ کے لیے انجکشن اور امتحانی نالی وغیرہ میں لیا جاتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
__________________________
بحالت روزہ خون کا عطیہ دینا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 27 April 2014 04:45 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیہ سے محمد امین دریا فت کر تے ہیں کہ بحا لت روزہ کسی مر یض کو خو ن کا عطیہ دینا جا ئز ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بحا لت روزہ کسی مر یض کی جا ن بچا نے کے لیے خو ن کا عطیہ جائز ہے لیکن خون دینے والے کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا کیو نکہ جسم سے کا فی خو ن نکا لنے سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے اسے سینگی لگوا نے کے عمل پر قیا س کیا جا ئے گا اگر قلیل مقدار میں خو ن نکا لا جا ئے تو اس سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہے جیسا کہ کسی مرض کی تشخیص کے لیے سر نج کے ذریعے خون کی کچھ مقدار نکا لی جا تی ہے نیز نکسیر یا مسواک یا دا نت نکلوا تے وقت خو ن آجا نے سے بھی روزہ ٹو ٹتا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص214
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم تحليل الدم للصائم وهل يفطر؟
الجواب: لا يفطر الصائم بإخراج الدم من أجل التحليل، فإن الطبيب قد يحتاج إلى الأخذ من دم المريض ليختبره، فهذا لا يفطر؛ لأنه دم يسير لا يؤثر على البدن تأثير الحجامة فلا يكون مفطراً، والأصل بقاء الصيام ولا يمكن أن نفسده إلا بدليل شرعي، وهنا لا دليل على أن الصائم يفطر بمثل هذا الدم اليسير، وأما أخذ الدم الكثير من الصائم من أجل حقنه في رجل محتاج إليه مثلاً، فإنه إذا أخذ منه الدم الكثير الذي يفعل بالبدن مثل فعل الحجامة فإنه يفطر بذلك، وعلى هذا فإذا كان الصوم واجباً فإنه لا يجوز لأحد أن يتبرع بهذا الدم الكثير لأحد، إلا أن يكون هذا المتبرع له في حالة خطرة لا يمكن أن يصبر إلى ما بعد الغروب وقرر الأطباء أن دم هذا الصائم ينفعه ويزيل ضرورته، فإنه في هذه الحال لا بأس أن يتبرع بدمه، ويفطر ويأكل ويشرب حتى تعود إليه قوته، ويقضي هذا اليوم الذي أفطره، والله أعلم.
(فتاوى اركان الاسلام ج1 ص478 )
____________________________________
روزہ دار کے خون کے ٹیسٹ کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
الجواب :
ٹیسٹ کے لیے خون نکالنے سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیب کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کے لیے مریض سے خون لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاکیونکہ یہ خون کی بہت تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اس سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ روزہ باقی رہتا ہے، کسی دلیل شرعی کے بغیر ہم اس کو فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ خون کی اس طرح کی معمولی مقدار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ کسی دوسرے ضرورت مند شخص کو لگانے کے لیے روزہ دار کے جسم سے زیادہ مقدار میں خون لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، یعنی اگر کثیر مقدار میں خون لیا جائے جو جسم پر سینگی کی طرح اثر انداز ہو تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا واجب روزے کی صورت میں کسی کو کثیر مقدار میں خون کا عطیہ نہیں دینا چاہیے اِلاَّیہ کہ جس کو خون کا عطیہ دینا مقصود ہو، وہ خطرناک حالت میں ہو اور اس کے لیے غروب آفتاب کے بعد تک انتظار کرنا ممکن نہ ہو اور اطباء کی رائے میں خون اس کے لیے مفید اور اس کے مرض کے ازالے کے لیے ضروری ہو تو اس حال میں خون کا عطیہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ خون دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا اسے کھانا پینا چاہیے تاکہ اس کی قوت واپس لوٹ آئے اور اس دن کے روزے کی قضا ادا کرنی اس کے لیے لازم ہوگی۔
والله اعلم
فتاویٰ ارکان اسلام
________________________________________
خروج الدم من الصائم هل يُبطل الصيام ؟
ما حكم سحب الدم سواءً كان كثيراً أو قليلا بالنسبة للصائم .هل يفطر أو لا.
_______________________________
الحمد لله
إذا كان الدم الذي أخذ منه يسيراً عرفاً فصيامه صحيح ولا يجب عليه قضاء ذلك اليوم وإن كان ما أخذ كثيراً عرفاً فإنه يقضي ذلك اليوم خروجاً من الخلاف ، وأخذاً بالاحتياط براءةً لذمته.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 10 / 263
ترجمہ :
کیا خون نکلنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ؟
روزے دار کا خون نکالنے کا حکم کیا ہے چاہے کم ہویا زیادہ کیا اس سے ورزہ ٹوٹتا ہے کہ نہیں ؟
___________________________________
الحمد للہ
اگرتونکالا گیا خون عرفا قلیل ہوتو اس سے روزہ کو کچھ نقصان نہيں ہوتا اوروہ صحیح ہے اس پرقصاء واجب نہيں ، لیکن اگر عرفی طور پر خون کی مقدار زيادہ ہو پھر اسے اس دن کی قضاء ادا کرنا ہوگي تا کہ اختلاف سے بچا جاسکے ، اوراحتیاط پر عمل کرتے ہوئے بری الذمہ ہوا جاسکے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 263 )
________________________________________________
روزہ دار کا خون ٹیسٹ کروانا
__________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا روزہ دار خون ٹیسٹ کراسکتا ہے ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں تفصیل سے وضاحت کریں؟
----------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلہ میں اصل قاعدہ یہ ہےکہ روزہ رکھنے کے بعد وہ باقی رہتا ہے کسی شرعی دلیل کے بغیر ہم اسے فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سےمعلوم ہو کہ خون کی معمولی مقدا ر سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو،لہٰذا ٹیسٹ کے لئے خون لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیعت کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کےلئے مریض سے خون لینے کی ضرورت ہوتی ہے،اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ یہ خون کی بہت معمولی مقدار ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی،البتہ بحالت روزہ کسی مریض کی جان بچانے کےلئے خون کا عطیہ دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔خون دینے والے کو بعد میں اس کی قضا دینا ہوگی اسے سینگی لگوانے کے عمل پر قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ عطیہ دینے کےلئے کافی مقدار میں خون جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ البتہ نکیر، مسواک یا دانت نکلواتے وقت خون آجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ،اگر مریض کو غروب آفتاب سے پہلے خون دینے کی ضرورت ہوا ور اطبا کی رائے کے مطابق اس کے مرض کے ازالہ کے لئے ایسا کرناضروری ہوتو اس حالت میں خون کا عطیہ دیا جاسکتا ہے ،لیکن اس سے قوت ختم ہوجائے گی۔ خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ کچھ کھائے پیئے تا کہ اس کی قو ت واپس لوٹ آئے اور اس دن کی قضا اد اکرنا اس پر لازم ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص231
محدث فتویٰ
______________________________
کیا احتلام، جسم سے خون اور قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟
__________________________________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے روزہ رکھا تھا اور مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا کہ مجھے احتلام ہوا ہے کیا احتلام روزہ پر اثر انداز ہوتا ہے؟ یہ خیال رہے کہ میں نے غسل نہیں کیا اور نہانے کے بغیر ہی نماز ادا کر لی۔
ایک دفعہ یوں ہوا کہ مجھے سر میں پتھر لگا۔ جس سے میرے سر سے خون بہہ نکلا۔ کیا خون کی وجہ سے میرا روزہ ٹوٹ گیا۔
اسی طرح کیا قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ امید ہے آپ مجھے مستفید فرمائیں گے۔ (م۔ و۔ ا)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں ۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔
اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں ۔
اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَن ذَرَعَہ القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیہ، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیہ القضَائُ))
’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 126
محدث فتویٰ
_____________________
وہ خون جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے
الدم المفسد للصوم
س ما هو ضابط الدم الخارج من الجسد المفسد للصوم؟ وكيف يفسد الصوم؟!.
ج الدم المفسد للصوم هو الدم الذي يخرج بالحجامة لقول النبي صلى الله عليه وسلم ((أفطر الحاجم والمحجوم)) ويقاس على الحجامة ما كان بمعناها مما يفعله الإنسان باختياره فيخرج منه دم كثير يؤثر على البدن ضعفا فإنه يفسد الصوم كالحجامة لأن الشريعة الإسلامية لا تفرق بين الشيئين المتماثلين كما أنها لا تجمع بين الشيئين المفترقين. . أما ما خرج من الإنسان بغير قصد كالرعاف وكالجرح للبدن من السكين عند تقطيع اللحم أو وطئه على زجاجة أو ما أشبه ذلك فإن ذلك لا يفسد الصوم ولو خرج منه دم كثير كذلك لو خرج دم يسير لا يؤثر كتأثير الحجامة كالدم الذي يؤخذ للتحليل لا يفسد الصوم أيضاً.
الشيخ ابن عثيمين
***
فتاوى إسلامية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لأصحاب الفضيلة العلما
____________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خون کے بارے میں کیا ضابطہ ہے یعنی جسم سے خارج ہونے والا وہ کون سا خون ہے جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟ اور روزہ کس طرح فاسد ہوتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزے کو فاسد کرنے والا وہ خون ہے جو سینگی لگانے سے خارج ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(افطر الحاجم والمحجوم) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب في الصائم يحتجم‘ ح: 2367)
"سینگی لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔"
اور ہر اس کام کو بھی سینگی پر قیاس کیا جائے گا جو اس کے ہم معنی ہو، جسے انسان اپنے اختیار سے سر انجام دے اور جس کی وجہ سے بہت سا خون خارج ہو کر جسم کمزور ہو جائے تو اس سے بھی روزہ فاسد ہو جائے گا جس طرح سینگی سے فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت متماثل (ملتی جلتی اور ایک جیسی) چیزوں کو جدا جدا نہیں کرتی، جس طرح دو متفرق چیزوں کو جمع نہیں کرتی۔۔۔ وہ خون جو انسان کے قصد و ارادہ کے بغیر نکل آئے مثلا نکسیر کا خون یا گوشت کاٹتے ہوئے چھری لگ جانے سے یا شیشے وغیرہ پر پاؤں آ جانے سے جو خون نکل آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ خون زیادہ مقدار ہی میں نکل آئے اسی طرح اگر خون تھؤری مقدار میں نکلا ہو جیسے کیمیائی تجزیہ کے لیے بہت تھوڑی سی مقدار میں خون نکالا جاتا ہے تو اس سے سینگی کی طرح روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
_________________________
روزے دار کا خون کا عطیہ دینا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رمضان میں دن کے وقت خون کا عطیہ دینا جائز ہے یا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی شخص خون کا عطیہ دے اور اس سے بہت زیادہ خون لیا جائے تو سینگی پر قیاس کی وجہ سے روزہ باطل ہو جائے گا۔ یاد رہے خون صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے جب کسی مریض کو دے کر اس کی جان بچانا مقصود ہو یا ہنگامی حالات کے لیے اسے محفوظ رکھنا مقصود ہو اور اگر خون کی مقدار کم ہو مثلا صرف اس قدر ہو جتنا کہ کیمیائی تجزیہ کے لیے انجکشن اور امتحانی نالی وغیرہ میں لیا جاتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
__________________________
بحالت روزہ خون کا عطیہ دینا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 27 April 2014 04:45 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیہ سے محمد امین دریا فت کر تے ہیں کہ بحا لت روزہ کسی مر یض کو خو ن کا عطیہ دینا جا ئز ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بحا لت روزہ کسی مر یض کی جا ن بچا نے کے لیے خو ن کا عطیہ جائز ہے لیکن خون دینے والے کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا کیو نکہ جسم سے کا فی خو ن نکا لنے سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے اسے سینگی لگوا نے کے عمل پر قیا س کیا جا ئے گا اگر قلیل مقدار میں خو ن نکا لا جا ئے تو اس سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہے جیسا کہ کسی مرض کی تشخیص کے لیے سر نج کے ذریعے خون کی کچھ مقدار نکا لی جا تی ہے نیز نکسیر یا مسواک یا دا نت نکلوا تے وقت خو ن آجا نے سے بھی روزہ ٹو ٹتا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص214
محدث فتویٰ