• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ کے دوران جسم سےخون نکالنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
روزہ دار کا خون ٹیسٹ کروانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم تحليل الدم للصائم وهل يفطر؟
الجواب: لا يفطر الصائم بإخراج الدم من أجل التحليل، فإن الطبيب قد يحتاج إلى الأخذ من دم المريض ليختبره، فهذا لا يفطر؛ لأنه دم يسير لا يؤثر على البدن تأثير الحجامة فلا يكون مفطراً، والأصل بقاء الصيام ولا يمكن أن نفسده إلا بدليل شرعي، وهنا لا دليل على أن الصائم يفطر بمثل هذا الدم اليسير، وأما أخذ الدم الكثير من الصائم من أجل حقنه في رجل محتاج إليه مثلاً، فإنه إذا أخذ منه الدم الكثير الذي يفعل بالبدن مثل فعل الحجامة فإنه يفطر بذلك، وعلى هذا فإذا كان الصوم واجباً فإنه لا يجوز لأحد أن يتبرع بهذا الدم الكثير لأحد، إلا أن يكون هذا المتبرع له في حالة خطرة لا يمكن أن يصبر إلى ما بعد الغروب وقرر الأطباء أن دم هذا الصائم ينفعه ويزيل ضرورته، فإنه في هذه الحال لا بأس أن يتبرع بدمه، ويفطر ويأكل ويشرب حتى تعود إليه قوته، ويقضي هذا اليوم الذي أفطره، والله أعلم.

(فتاوى اركان الاسلام ج1 ص478 )
____________________________________
روزہ دار کے خون کے ٹیسٹ کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

الجواب :
ٹیسٹ کے لیے خون نکالنے سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیب کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کے لیے مریض سے خون لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاکیونکہ یہ خون کی بہت تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔اس سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ روزہ باقی رہتا ہے، کسی دلیل شرعی کے بغیر ہم اس کو فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ خون کی اس طرح کی معمولی مقدار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ کسی دوسرے ضرورت مند شخص کو لگانے کے لیے روزہ دار کے جسم سے زیادہ مقدار میں خون لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، یعنی اگر کثیر مقدار میں خون لیا جائے جو جسم پر سینگی کی طرح اثر انداز ہو تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا واجب روزے کی صورت میں کسی کو کثیر مقدار میں خون کا عطیہ نہیں دینا چاہیے اِلاَّیہ کہ جس کو خون کا عطیہ دینا مقصود ہو، وہ خطرناک حالت میں ہو اور اس کے لیے غروب آفتاب کے بعد تک انتظار کرنا ممکن نہ ہو اور اطباء کی رائے میں خون اس کے لیے مفید اور اس کے مرض کے ازالے کے لیے ضروری ہو تو اس حال میں خون کا عطیہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ خون دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا اسے کھانا پینا چاہیے تاکہ اس کی قوت واپس لوٹ آئے اور اس دن کے روزے کی قضا ادا کرنی اس کے لیے لازم ہوگی۔
والله اعلم
فتاویٰ ارکان اسلام
________________________________________
خروج الدم من الصائم هل يُبطل الصيام ؟
ما حكم سحب الدم سواءً كان كثيراً أو قليلا بالنسبة للصائم .هل يفطر أو لا.
_______________________________
الحمد لله

إذا كان الدم الذي أخذ منه يسيراً عرفاً فصيامه صحيح ولا يجب عليه قضاء ذلك اليوم وإن كان ما أخذ كثيراً عرفاً فإنه يقضي ذلك اليوم خروجاً من الخلاف ، وأخذاً بالاحتياط براءةً لذمته.

وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 10 / 263

ترجمہ :
کیا خون نکلنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ؟
روزے دار کا خون نکالنے کا حکم کیا ہے چاہے کم ہویا زیادہ کیا اس سے ورزہ ٹوٹتا ہے کہ نہیں ؟
___________________________________
الحمد للہ
اگرتونکالا گیا خون عرفا قلیل ہوتو اس سے روزہ کو کچھ نقصان نہيں ہوتا اوروہ صحیح ہے اس پرقصاء واجب نہيں ، لیکن اگر عرفی طور پر خون کی مقدار زيادہ ہو پھر اسے اس دن کی قضاء ادا کرنا ہوگي تا کہ اختلاف سے بچا جاسکے ، اوراحتیاط پر عمل کرتے ہوئے بری الذمہ ہوا جاسکے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .


دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 263 )
________________________________________________
روزہ دار کا خون ٹیسٹ کروانا
__________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا روزہ دار خون ٹیسٹ کراسکتا ہے ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں تفصیل سے وضاحت کریں؟
----------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلہ میں اصل قاعدہ یہ ہےکہ روزہ رکھنے کے بعد وہ باقی رہتا ہے کسی شرعی دلیل کے بغیر ہم اسے فاسد قرار نہیں دے سکتے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سےمعلوم ہو کہ خون کی معمولی مقدا ر سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو،لہٰذا ٹیسٹ کے لئے خون لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ طبیعت کو بسا اوقات بیماری کی تشخیص کےلئے مریض سے خون لینے کی ضرورت ہوتی ہے،اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ یہ خون کی بہت معمولی مقدار ہے جو جسم پر سینگی لگوانے کی طرح اثر انداز نہیں ہوتی،البتہ بحالت روزہ کسی مریض کی جان بچانے کےلئے خون کا عطیہ دینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔خون دینے والے کو بعد میں اس کی قضا دینا ہوگی اسے سینگی لگوانے کے عمل پر قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ عطیہ دینے کےلئے کافی مقدار میں خون جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ البتہ نکیر، مسواک یا دانت نکلواتے وقت خون آجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ،اگر مریض کو غروب آفتاب سے پہلے خون دینے کی ضرورت ہوا ور اطبا کی رائے کے مطابق اس کے مرض کے ازالہ کے لئے ایسا کرناضروری ہوتو اس حالت میں خون کا عطیہ دیا جاسکتا ہے ،لیکن اس سے قوت ختم ہوجائے گی۔ خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ کچھ کھائے پیئے تا کہ اس کی قو ت واپس لوٹ آئے اور اس دن کی قضا اد اکرنا اس پر لازم ہوگی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص231
محدث فتویٰ
______________________________
کیا احتلام، جسم سے خون اور قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟
__________________________________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے روزہ رکھا تھا اور مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا کہ مجھے احتلام ہوا ہے کیا احتلام روزہ پر اثر انداز ہوتا ہے؟ یہ خیال رہے کہ میں نے غسل نہیں کیا اور نہانے کے بغیر ہی نماز ادا کر لی۔

ایک دفعہ یوں ہوا کہ مجھے سر میں پتھر لگا۔ جس سے میرے سر سے خون بہہ نکلا۔ کیا خون کی وجہ سے میرا روزہ ٹوٹ گیا۔

اسی طرح کیا قے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ امید ہے آپ مجھے مستفید فرمائیں گے۔ (م۔ و۔ ا)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں ۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔

اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں ۔

اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((مَن ذَرَعَہ القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیہ، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیہ القضَائُ))

’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘

اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔

فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 126
محدث فتویٰ
_____________________
وہ خون جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے
الدم المفسد للصوم
س ما هو ضابط الدم الخارج من الجسد المفسد للصوم؟ وكيف يفسد الصوم؟!.
ج الدم المفسد للصوم هو الدم الذي يخرج بالحجامة لقول النبي صلى الله عليه وسلم ((أفطر الحاجم والمحجوم)) ويقاس على الحجامة ما كان بمعناها مما يفعله الإنسان باختياره فيخرج منه دم كثير يؤثر على البدن ضعفا فإنه يفسد الصوم كالحجامة لأن الشريعة الإسلامية لا تفرق بين الشيئين المتماثلين كما أنها لا تجمع بين الشيئين المفترقين. . أما ما خرج من الإنسان بغير قصد كالرعاف وكالجرح للبدن من السكين عند تقطيع اللحم أو وطئه على زجاجة أو ما أشبه ذلك فإن ذلك لا يفسد الصوم ولو خرج منه دم كثير كذلك لو خرج دم يسير لا يؤثر كتأثير الحجامة كالدم الذي يؤخذ للتحليل لا يفسد الصوم أيضاً.
الشيخ ابن عثيمين
***
فتاوى إسلامية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لأصحاب الفضيلة العلما

____________________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خون کے بارے میں کیا ضابطہ ہے یعنی جسم سے خارج ہونے والا وہ کون سا خون ہے جس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟ اور روزہ کس طرح فاسد ہوتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزے کو فاسد کرنے والا وہ خون ہے جو سینگی لگانے سے خارج ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(افطر الحاجم والمحجوم) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب في الصائم يحتجم‘ ح: 2367)
"سینگی لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔"
اور ہر اس کام کو بھی سینگی پر قیاس کیا جائے گا جو اس کے ہم معنی ہو، جسے انسان اپنے اختیار سے سر انجام دے اور جس کی وجہ سے بہت سا خون خارج ہو کر جسم کمزور ہو جائے تو اس سے بھی روزہ فاسد ہو جائے گا جس طرح سینگی سے فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت متماثل (ملتی جلتی اور ایک جیسی) چیزوں کو جدا جدا نہیں کرتی، جس طرح دو متفرق چیزوں کو جمع نہیں کرتی۔۔۔ وہ خون جو انسان کے قصد و ارادہ کے بغیر نکل آئے مثلا نکسیر کا خون یا گوشت کاٹتے ہوئے چھری لگ جانے سے یا شیشے وغیرہ پر پاؤں آ جانے سے جو خون نکل آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ خون زیادہ مقدار ہی میں نکل آئے اسی طرح اگر خون تھؤری مقدار میں نکلا ہو جیسے کیمیائی تجزیہ کے لیے بہت تھوڑی سی مقدار میں خون نکالا جاتا ہے تو اس سے سینگی کی طرح روزہ فاسد نہیں ہو گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
_________________________
روزے دار کا خون کا عطیہ دینا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رمضان میں دن کے وقت خون کا عطیہ دینا جائز ہے یا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی شخص خون کا عطیہ دے اور اس سے بہت زیادہ خون لیا جائے تو سینگی پر قیاس کی وجہ سے روزہ باطل ہو جائے گا۔ یاد رہے خون صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے جب کسی مریض کو دے کر اس کی جان بچانا مقصود ہو یا ہنگامی حالات کے لیے اسے محفوظ رکھنا مقصود ہو اور اگر خون کی مقدار کم ہو مثلا صرف اس قدر ہو جتنا کہ کیمیائی تجزیہ کے لیے انجکشن اور امتحانی نالی وغیرہ میں لیا جاتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج 2
__________________________
بحالت روزہ خون کا عطیہ دینا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 27 April 2014 04:45 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیہ سے محمد امین دریا فت کر تے ہیں کہ بحا لت روزہ کسی مر یض کو خو ن کا عطیہ دینا جا ئز ہے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بحا لت روزہ کسی مر یض کی جا ن بچا نے کے لیے خو ن کا عطیہ جائز ہے لیکن خون دینے والے کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا کیو نکہ جسم سے کا فی خو ن نکا لنے سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے اسے سینگی لگوا نے کے عمل پر قیا س کیا جا ئے گا اگر قلیل مقدار میں خو ن نکا لا جا ئے تو اس سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہے جیسا کہ کسی مرض کی تشخیص کے لیے سر نج کے ذریعے خون کی کچھ مقدار نکا لی جا تی ہے نیز نکسیر یا مسواک یا دا نت نکلوا تے وقت خو ن آجا نے سے بھی روزہ ٹو ٹتا ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص214
محدث فتویٰ​
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
جزاکم اللہ خیرا،
بجائی تو صحیح بخاری والی روایات کو ہم کہا کہیں گے؟؟ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سینگی لگوائی؟ اور صحابہ کرام لگواتے تھے،
ان احادیث کے بارے کیا رائے آپکی؟
جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
ابن عباس رض راوی کہ ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔
بخاری،1939

انس بن۔مالک رض سے پوچھا گیا کہ ،
کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوری کے خیال سے ( روزہ میں نہیں لگواتے تھے ) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ( ایسا ہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ( کرتے تھے ) ۔
بخاری،1940

انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم روزے دار کو صرف مشقت کے پیش نظر سینگی ( پچھنا ) نہیں لگانے دیتے تھے۔
سنن ابو داؤد،2375

ایک روایت میں ہے،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی ( پچھنا ) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا“

۷- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا“، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
۸- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا
(سنن ترمذی،774)

یعنی انکا مؤقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والا حکم منسوخ ہو گیا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تو صحیح بخاری والی روایات کو ہم کہا کہیں گے؟؟ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سینگی لگوائی؟ اور صحابہ کرام لگواتے تھے،
ان احادیث کے بارے کیا رائے آپکی؟
اس سوال کا جواب شیخ خالد المصلح یوں دیتے ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم الحجامة في نهار رمضان؟

الحمد لله، وصلى الله وسلم وبارك على رسول الله، وعلى آله وصحبه.
أما بعد:
فإجابة على سؤالك نقول وبالله تعالى التوفيق:
الحجامة هي إخراجُ الدم من البدن بطريقة مُعيَّنة فيها تشريطٌ ومص للدم، لإخراج الدم الفاسد، وهذه العملية ورد فيها أحاديث من الشريعة، كحديث شدَّاد بنِ أوس، وثوبان: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أفطر الحاجم والمحجوم»، وهو أصحّ ما ورد في ذلك. وأخذ جماعة من أهل العلم من هذا الحديث أن الحجامة مُفطِّرة.
وجاء في صحيح البخاري من حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم محرم، فأخذ منه بعض أهل العلم أن الحجامة ليست ممنوعة؛ لهذه الرواية، حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم، كما جاء في حديث ابن عباس، ولو كان مما يفسد الصوم لما احتجم صلى الله عليه وسلم وهو صائم.
فصار للعلماء في ذلك مسلكاً بناءً على ورود الأحاديث المختلفة، فمنهم من قال: بأن الحجامة مُحرَّمة، وأن رواية: «وهو صائم» ليست محفوظة، وإنما المحفوظ: وهو مُحرِم، ولذلك هذه اللفظة: «احتجم وهو محرم» هي التي رواها الشيخان: البخاري ومسلم، وانفرد البخاري بزيادة: «وهو صائم».
وقال آخرون: إن حديث ابن عباس يدل على الإذن، وأنه ناسخ لأحاديث: «أفطر الحاجم والمحجوم» حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم، لكن هذا الوجه ليس بقوي، لأنه ليس هناك في الأحاديث تاريخ حتى يقال: هذا متقدم على هذا، فالنسخ يحتاج إلى تاريخ، وليس ثَمَّة تاريخ.
والمسلك القويم في هذا الحديث وأمثاله، في مثل هذه المسائل: أن يُحمَل فعل النبي صلى الله عليه وسلم على الإذن للحاجة، وعلى المنع للكراهة، فيكون «أفطر الحاجم والمحجوم» محمول على الكراهة، وأما فعله فهو يدل على أنه مأذون بالحجامة للحاجة، وعليه؛ فالراجح من قولي العلماء هو ما ذهب إليه جمهور الفقهاء من الحنفية والمالكية والشافعية من أن الحجامة لا تفطر، لكنها مكروهة، وهذا هو الصحيح، ويلحق به تحليل الدم والتبرع بالدم وكل أوجه إخراج الدم ينبغي تجنبها للصائم، لكن لو وقعت منه أو فعلها فإنه لا يؤثر في صحة صومه.
وعلى القول بالتحريم بأنها لا تجوز وأنها مفطرة، فمن فعلها وهو جاهل، فهذا أيضاً لا يؤثر، حتى على القول بأنها مفطرة؛ لأن الأحكام تتبع العلم، فالراجح أنها لا تفطِّر.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
رمضان کے دنوں میں پچنہ لگوانے کا کیا حکم ہے؟


حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

حجامہ (
سینگی لگوانا)
یہ بدن سے کسی خاص طریقے سے خون نکلوانا ہوتا ہے جس میں چمڑے کو زخمی کرکے اس سے گندا خون چوسنا ہوتا ہے اور اس عمل کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہے جیسے کہ شداد بن اوسؓ اور ثوبانؓ کی حدیث ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: (پچھنا لگانے والا اور جس کا لگوایا گیا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اور یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس بارے میں آئی ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پچنہ روزے کو توڑنے والا ہے ۔

اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے: (نبیﷺنے پچھنا لگوایا اس حال میں کہ وہ روزے سے تھے اور احرام میں تھے) اس سے بعض اہل علم نے یہ لیا ہے کہ پچھنا لگوانا منع نہیں ہے کیونکہ نبیﷺنے سینگی لگوائی اور آپ ﷺروزے کی حالت میں تھے جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں ہے اور اگر یہ روزے کو فاسد کرنے والا ہوتا، تو آپﷺپچنہ نہ لگواتے اس حال میں کہ آپ روزے سے تھے ۔

لہذا علماء کے اس میں کچھ مذاہب بن گئے کیونکہ اس بارے میں مختلف قسم کی احادیث آئی ہیں ۔ بعض نےکہا کہ پچھنے لگوانا روزے کو توڑنے والا ہے اور وہ روایت جس میں (آپ ﷺروزے سے تھے) آیا ہے وہ غیر محفوظ ہے اور محفوظ یہ ہے (آپﷺحالت احرام میں تھے) اوراس وجہ سے یہ لفظ کہ (آپﷺنے پچنہ لگوایا اور آپﷺحالت احرام میں تھے) یہ وہی ہے جس کو شیخین نے روایت کیا ہے یعنی بخاری و مسلم نے اور امام بخاری اس زیادتی میں منفرد ہے: (آپﷺروزے کی حالت میں تھے) ۔

اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث اجازت دینے پر دلالت کرتی ہے ۔ اور یہ ان احا دیث کو منسوخ کرنے والی ہے جس میں ہے کہ (پچھنے لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کیونکہ نبیﷺنے پچھنا لگوایا ۔ لیکن حدیث کی یہ توجیہ قوی نہیں ہے کیونکہ ان آحادیث میں تاریخ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ کہا جائے یہ اس حدیث سے مقدم ہے، اور نسخ تاریخ کا محتاج ہے اور یہاں کوئی تاریخ نہیں ۔

اور اصل طریقہ ان آحادیث اور مسائل میں یہ ہے کہ نبیﷺکے فعل کو حاجت کی وجہ سے اجازت دینے پرمحمول کیا جائے گا اور روکنے کو کراہت پر محمول کیا جائے گا ۔ لہذا یہ حدیث: (پچنہ لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کراہت پر محمول ہوگا ۔ اور جہاں تک آپ ﷺکا فعل ہے تو وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت ضرورت کی وجہ سے دی گئی ہے ۔ لہذا علماء کے اقوال میں سے راجح اور جس کی طرف جمہور فقہاء حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ گئے ہیں وہ یہ کہ پچنہ لگوانا روزے کونہیں توڑتا البتہ یہ مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے اور یہی حکم خون لگانے اور خون دینے میں بھی لگایا جائے گا اور خون نکالنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں تواس سے روزہ دار کے لئے بچنا ضروری ہے لیکن اگراس میں کوئی صورت واقع ہوگئی یا اس نے کرلی تو اس سے روزے کی صحت ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

اور حرمت کا قول والوں کےمطابق یہ جائز نہیں ہوگا اور یہ روزے کو توڑنے والا ہوگا، تو اگر کسی کو اس مسئلے کا علم نہ ہو اس سے بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ حتی کہ ان کے ہاں بھی جو یہ کہتے ہیں کہ پچھنا لگوانا روزے کو توڑ دیتا ہے ۔ کیونکہ احکام جاننے کے تابع ہوتے ہیں، لہذا راجح یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا

الشیخ ڈاکٹر خالد المصلح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح البخاری
بَابُ الحِجَامَةِ وَالقَيْءِ لِلصَّائِمِ

1939حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ


کتاب: روزے کے مسائل کا بیان

باب : روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے

ترجمہ : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔
تشریح: شارح صحیح بخاری علامہ احمد بن محمدقسطلانی (المتوفی 923ھ) فرماتے ہیں وهذا ناسخ لحديث "أفطر الحاجم والمحجوم" لأنه جاء في بعض طرقه أن ذلك كان في حجة الوداع یہ حدیث جس میں پچھنا لگانے کا ذکر یہاں آیا ہے یہ دوسری حدیث جس میں ہے پچھنا لگوانے اور لگانے والے ہر دو کا روزہ ٹوٹ گیا کی ناسخ ہے۔ اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اور دوسری ناسخ حدیث کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے جو فتح مکہ کے بعد ہوا لہٰذا امر ثابت اب یہی ہے جو یہاں مذکور ہوا کہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگانا جائز ہے۔
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري )
 
Last edited:
Top