• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ ہمیں کیا سکھانے آیاتھا؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

روزہ ہمیں کیا سکھانے آیاتھا؟​

ابو معاویہ شارب بن شاکرالسلفی​

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ۔أمابعد:

محترم قارئین!

اللہ رب العالمین کالاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان کے مہینے سے نوازا اور پھر اس ماہ مبارک میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کو انجام دینے کی توفیق بخشی ،یہ بات کسی سے ڈھکی اور چھپی نہیں ہوئی ہے کہ مسلسل دو سالوں 2020 اور 2021 کا رمضان ہمارے لئے صبرآزما رہا تھا،جہاں ایک طرف پوری دنیا میں وبا کی وجہ سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے تھی،اکثر مقامات پرعوام الناس کے لئے مسجدوں پر آنے پر پابندی لگی ہوئی تھی،وہیں پر امسال بھی رمضان کا مہینہ سخت گرمی کے ایام میں آیاتھا،جگہ جگہ پر 40 ڈگری سے لے کر 45 ڈگری تک دھوپ کی تپش بھی تھی،سورج کی تمازت سے زمین آگ اگل رہی تھی،گرم ہواؤں کی لوسے چمڑے جھلس رہے تھے!پھربھی ہم سب نے اللہ کے حکم کوآمناوصدقنا کہہ کر قبول کیا اور روزے رکھے،بھوک کی تکلیف اورپیاس کی شدت کو برداشت کیا۔۔ ۔۔فللہ الحمد حمدا کثیرا ولہ الشکر۔۔۔

اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ رب العالمین نے جو روزے کا مقصد بیان کیا ہےتو کیا ہم نے روزے کےاس مقصد’’ لعلکم تتقون‘‘ کو پالیا ہے؟کیاہم متقی بن پائے؟کیاروزے نے ہمارے اوپراثر کیا؟روزے سے ہم نے کیا سیکھا ؟

یہ ایک ایساسوال ہے جس کا جواب لیناہم سب پر لازم ہےکہ ہم نے ایک مہینہ بھوک وپیاس کی شدت میں گزارا،روزے رکھے،قیام اللیل کئے،قرآن کی تلاوت کی، صدقہ وخیرات کئے،زکاۃ نکالی،رب کے حضورعاجزی وانکساری کی،دعاؤں میں رویا،گڑگڑایا،طاق راتوں میں اپنی نرم وگدازبستروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے عبادت وبندگی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی غرض کہ رب کو راضی کرنے میں ہم سب نے جی توڑمحنت کی ہے۔

رب ذوالجلال والاکرام نے روزے کا مقصد تقوی وپرہیزگاری بتایاہےتوکیا ہم پریکٹس لینے اوردینے کے بعد منشائے رب ذوالجلال والاکرام کو پالیا؟کیاہم نے اپنے آپ کو متقین کے زمرے میں داخل کروالیا؟کیاہم سے رب راضی ہوا؟کیا ہمارادل حلال پرمطمئن اورحرام سے بیزارہوا؟کیاہم نے شریعت محمدی کو دل وجان سے لگالیا؟کیاہم نے عصیان وطغیان کاراستہ چھوڑکرصراط مستقیم کو اپنالیا؟کیاہم نے اپنے نفس کو اللہ اوراس کے رسول کاغلام بنالیا؟کیاہم نمازی بن گئے؟کیاہمارے دل میں اللہ کا خوف جاگا؟کیاہمارے اندرخیرکاجذبہ بیدارہوا؟کیاان سارے سوالوں کے جوابات ہمارے پاس اثبات میں ہیں؟اگرہیں تواس کا مطلب ہے کہ روزے نے ہم پر اپنااثرڈالاہے اورہم نے روزے کے مقصدکوکسی حدتک حاصل کرلیاہے پس اللہ کا شکربجالائیں اوراگران سارے سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں توجان لیجئے کہ ہم نے منزل پائے بغیرہی ایک مہینے کے کٹھن ایام کی مسافت کو طے کردیا!

کہیں ہماراشماران لوگوں میں سے تونہیں جن کے بارے میں پیارےحبیب نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ’’ رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ (وفی راویۃ:الاالظمأ) وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ‘‘کتنے ایسے روزے دارہیں جنہیں سوائے بھوک وپیاس کے کچھ ملنے والانہیں(اعاذنااللہ)اورکتنے ایسے قیام اللیل کرنے والے ہیں جنہیں سوائے رات میں جاگنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا ہے۔(صحیح ابن ماجہ للألبانی:1690،المشکاۃ للألبانی:2014)کیاہم نے غوروفکرکیاکہ کہیں ہماراشمارانہیں لوگوں میں سے تونہیں!

کہیں ہم ان بدبختوں میں سے تونہیں(اللھم احفظنا) جن کے اوپرجبرئیل امین نے بددعاکرتے ہوئے کہاکہ’’ مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَأُدْخِلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ‘‘ جس شخص نے رمضان کامہینہ پایااوراس کی مغفرت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے وہ جہنم میں گیا تو اللہ ایسے انسان کو ہلاک وبربادکرے،اس نورانی بددعا پرحبیب کائنات نے آمین کہا۔(صحیح الترغیب للألبانی:997)ہم نے خوشی خوشی عیدمنالی، نئے کپڑے پہن لئے،کیالمحے بھرکے لئے بھی ہمارے دماغ میں یہ کھٹکاآیاکہ ہماری مغفرت ہوئی کہ نہیں!سوچئے!غوروفکرکیجئے!روزے سے ہم نے کیاحاصل کیا؟

1۔کیاروزے رکھ کرہم نے اپنے نفس کو ضبط کرنے کا سبق لیا؟کیاہم نے اپنے آپ کو اپنے نفس کی غلامی سے آزادی دلائی؟ اگرنہیں تو پھرہم نے ایک مہینہ ایک ایسادرخت لگایاجو بے ثمر ثابت ہواکیونکہ روزہ انسان کے نفس وجسم کے تین اہم بنیادی مطالبے(1) غذاکا مطالبہ (2) صنفی مطالبہ (3) آرام کا مطالبہ پر حددرجہ بریک لگاتاہے،یہ نفس کے تین ایسے پھندے ہیں جو ایک انسان کو اپناغلام بنالیتے ہیں،غذاکامطالبہ ایک انسان کوبندۂ شکم بنادیتاہے،صنفی جذبہ ایک انسان کو حیوانیت کے اسفل السافلین میں پہنچادیتاہے،اورجسم کے آرام کی طلبی سےایک انسان کے اندرقوت ارادی ویقیں محکم کی کوئی طاقت باقی نہیں رہتی۔

روزہ ان ہی تین خواہشوں کواپنے ضابطۂ گرفت میں لیتاہے،یہ مشق،یہ پریکٹس صرف ایک دن کی نہیں بلکہ پورے تسلسل کے ساتھ 29 یا30 دن کے ایام،720 گھنٹے کے لئے یہ پروگرام من جانب اللہ محض اس لئے دیاجاتاہے کہ مومن نفس کے ان تین سب سے زیادہ زوردارحربوں کا مقابلہ کرکے وہ اپنے سارے ہی سفلی جذبات وخواہشات پرقابوپالے،اس کے نفس کا عنان اقتدار،لامتناہی خواہشات کی باگ ڈوراس کے اپنے ہاتھ میں ہو،ہمیشہ یہ غالب رہے اور اس کا نفس مغلوب، جسے یہ مقصد حاصل نہ ہوااس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھوک وپیاس اوررات میں جاگنے کی تکلیف دی،قرآن بھی اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها،وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها‘‘جس نے اپنے نفس کو پاک کیاوہ کامیاب ہوااورجس نے اسے خاک میں ملادیاوہ ناکام ہوا۔(الشمس:9-10)

نہنگ واژدھاوشیرنرماراتوکیامارا

بڑے موذی کوماراگرنفس امارہ کو مارا​

مولاناابوالحسن ندویؒ اپنی ایک تحریرمیں رقمطرازہیں کہ یہ روزہ دراصل اخلاقی تربیت گاہ ہے جہاں سے آدمی کامل ہوکراس طرح نکلتاہے کہ خواہشات کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے،خواہشات اس پرحکومت نہیں کرتیں بلکہ وہ خواہشات پرحکومت کرتاہے،جب وہ محض اللہ کے حکم سے مباح اورپاک چیزوں کوترک کردیتاہے تو ممنوعات اورمحرمات سے بچنے کی کوشش کیوں نہ کرے گاَجوشخص ٹھنڈے میٹھے پانی اورپاکیزہ ولذیذ غذائیں خداکی فرمانبرداری میں چھوڑسکتاہے وہ حرام اورنجس چیزوں کی طرف نظراٹھاکردیکھناکیسے گوارہ کرسکتاہے اوریہی’’ لعلکم تتقون‘‘ کامفہوم ہے۔ گویاکہ جس مسلمان نے روزے کی حالت میں حلال وجائزچیزوں کو چھوڑدیاتھا مگربعدرمضان حرام چیزوں کو نہ چھوڑسکاتووہ روزے کی مقصدسے محروم رہا۔

2۔کیاروزے رکھنے کی وجہ سے ہم پنج وقتہ نمازی بن پائے؟اگرنہیں تو جان لیجئے کی ہماری بھوک وپیاس کی عنداللہ کوئی حقیقت نہیں، اگرہم نمازی بن نہ پائے تو ہمارے یہ روزے،ہمارے یہ قیام اللیل سب رائیگاں وبیکارہیں،مچھرکے پرکے وزن کے برابربھی عنداللہ کوئی وزن نہ ہوگا،روزے فرض کئے جانے کا اولین مقصد ہی یہی ہے کہ ہم نمازکوقائم کرنے والے بن جائیں! کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک مسلمان ایک ماہ مسلسل فرائض ونوافل نمازوں کی پابندی کرنے کے بعد عید کے بعد نیکیوں کی اس عادت کو ترک کردیتا ہے اور اسی کے برعکس اگر کوئی مسلمان صرف ہفتہ ،دس دن ہی اگر کوئی برا کام کرے مثلا سگریٹ نوشی کرےاور آپ اس سے کہیں کہ بھائی یہ بری چیز ہے چھوڑدے تو وہ انسان فورا یہ کہے گا کہ کیا کرے بھائی صاحب اس کی عادت پڑگئی ہے، نہیں چھوٹ رہی ہے،سبحان اللہ کیسی مکاری وعیاری ہے ایک چیز جو مسلسل مہینہ چلتی رہی اس کی عادت نہیں ہوئی اور ایک چیز جو صرف آٹھ ،دس دن میں آئی اس کی عادت ہوگئی۔

محترم قارئین !ذرا سوچئے کہ ہم نے رمضان میں ایک مہینے مسلسل نفل نماز یعنی تراویح کے لئے گھنٹے رب کے حضور کھڑے رہے،دن بھرکی تھکاوٹ کے باوجودہم نے آرام کو چھوڑکررب کوراضی کرنے کی کوشش کی مگرافسوس کہ اب ہم فرض نمازوں کے لئے دس منٹ نہیں کھڑے ہوسکتے،ایساکیوں؟بھلافرض کے مقابلے میں نفل کہاں،اللہ ہم سے پہلے فرض نمازوں کے بارے میں سوال کرے گا نہ کہ نفل نمازوں کے بارے میں!کہیں ایساتونہیں کہ ہم نے ایک مہینے نفل نمازاداکرکے اپنے آپ کوجھوٹی تسلی دی کہ چلویہ تواداکرلیں بعدمیں جوہوگادیکھاجائے گا۔یادرکھیں یہ شیطانی حربے اوراس کے پھندے ہیں کہ اس نے بڑے ہی چالاکی سے ہماری محنت پرپانی پھیردیا۔

3۔کیا قرآن سے آپ نے کچھ سبق لیا:ہم نے رمضان میں کئی قرآن ختم کئے ہوں گے،مگرکیااس تلاوت کلام پاک سے ہماری زندگی میں انقلاب آیا؟کیاتلاوت قرآن سے ہمارے ایمان میں زیادتی ہوئی؟ کیاہم نے تلاوت سے اپنے ازلی دشمن کو پہچانا؟کیاہم شیطان ملعون کے مکروفریب کے سے واقف ہوگئے؟کیاہمارے اندراطاعت الہی اوراطاعت رسولﷺ کا جذبہ جاگا؟کیاہم نے دوران تلاوت حلال وحرام کوجانا؟کیاہم قرآن پڑھ کرصراط مستقیم پرگامزن ہوگئے؟کیاہم نے قرآن کواپناامام بنایا؟اگرنہیں تویادرکھئے یہی قرآن کل بروزقیامت ہمارے خلاف دربارالہی میں مقدمہ دائرکرے گا،فرمان نبویﷺ ہے’’وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ‘‘قرآن تمہارے حق میں گواہی دے گایاپھرتمہارے خلاف۔(صحیح ابن ماجہ للألبانیؒ:280)یادرکھیں آج اگرہم نے تلاوت کرکے اسے غلاف میں ڈال کربندکرکے رکھ دیااوراس کے مطابق زندگی نہ گزاری تو کل یہی قرآن ہمیں جہنم میں ہانک کرلے جائے گا، فرمان نبوی ﷺ ہے’’وَمَنْ جَعَلَهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ سَاقَهُ إلى النار‘‘یعنی جس نے اس قرآن کوپیٹھ پیچھے ڈال دیااسے یہ قرآن جہنم میں داخل کرکے ہی رہے گا۔ (الصحیحۃ للألبانی:2019)

ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہونزول کتاب

گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف​

4۔کیاروزے رکھنے کی وجہ سے ہمارے دلوں کے اندراللہ کا ڈروخوف پیداہوا؟ کیاہمارے دلوں میں تقوی وللہیت پیداہوئی؟ کیاہمارے خلوت وجلوت کی محفلیں یکساں ہوئیں؟ کیاہماراظاہروباطن پاک وصاف ہوا؟اگرنہیں تو پھرجان لیں کہ سوائے بھوک وپیاس برداشت کرنے کے ہمارے رجسٹرمیں کچھ بھی شامل نہیں ہو!ذراسوچیں کہ سخت گرمی کی تپش بھی ہے،پیاس بھی لگی ہے،منہ میں وضوکے دوران پانی بھی موجودہے مگرہم نے اپنے اللہ کوحاضروناظرسمجھ کرایک گھونٹ نہیں لیابلکہ پانی کی تری کو بھی تھوک دیا،پے درپے ایک مہینے تک ہماری یہ حالت رہی مگررمضان ختم ہوتے ہی ہماری دلوں کی کیفیت بدل گئی،کیوں؟

5۔کیاروزے رکھ کرہم نے یہ سیکھااورجاناکہ اپنی تمام عبادتوں میں اخلاص رکھناضروری ہے؟اگرنہیں توعبث وبیکارہےکیونکہ روزے کی حالت میں ہمارے اندرہروقت یہ احساس جگارہتاتھاکہ کوئی دیکھے یانہ دیکھےمگررب دیکھ رہاہے،اب ہمارے دلوں کے اندرایسااحساس نہیں آخرکیوں؟

6۔کیاہم نے روزے رکھ کراپنی آزادی اورخودمختاری سے دستبرداری اختیار کرکے اللہ کی حاکمیت کا اعتراف کرلیاہے؟کیاہمارے اندراحساس بندگی کا شعورجاگا؟کیاہمارے اندراطاعت الہی کا جذبہ پیداہوا؟کیاہم ہمیشہ کے خیروبرکے عادی بن گئے؟اگرنہیں تو پھرہمارے روزے کا ہمارے اوپرکوئی اثرنہیں ہوا!کیونکہ روزے کی حالت میں ایک مسلمان اپنی تمام خواہشات کو بالائے طاق رکھ کروہی کرتا ہے جو اس کے رب کا حکم ہے ۔

7۔کیاہم نے ایک مہینے کے روزے سے اپنی زبان کو کنٹرول اورقابومیں رکھنا سیکھ لیا،جھوٹ بولنا بندکیا،گالی گلوچ بندکی،فحش وبیہودگی کو چھوڑدیا؟اگرنہیں تو پھرہم روزے کے مقصد سے محروم رہے،کیونکہ روزہ یہ صرف کھانے پینے کوچھوڑدینے کانام نہیں جیسا کہ سرورکونین ﷺ نے فرمایاکہ ’’لَيْسَ الصِّيَامُ مِنَ الْأكْلِ وَالشُّرْبِ إنَّمَا الصِّيَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ‘‘یعنی روزہ صرف کھانے پینے چھوڑدینے کانام نہیں ہے بلکہ روزہ تو ہربے ہودہ کام اورفحش ومنکرچیزوں سے بچنے کانام ہے۔(صحیح الترغیب للألبانی:1082)اب اگرہم نے اپنے آپ کوہرطرح کی بیہودگی سے بچالیا ہے توخیرورنہ ہمارے روزے صرف بھوک وپیاس کے تھے، کیونکہ ہمارے آقاپیارے حبیب ﷺنے فرمادیاہے کہ’’مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ‘‘یعنی جس شخص نے جھوٹ بولنااوراس پرعمل کرنانہ چھوڑاتواللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایساشخص اپناکھاناپیناچھوڑدے۔(بخاری:1903)

8۔کیاروزے کورکھ کرہم نے اپنے آپ کو ہرقسم کی بداخلاقی سے بچنے کی تربیت لے لی ہے؟کیاہم نے غصے کوپینے کادرس لے لیاہے؟کیاہم نےغیض وغضب ،لعنت وملامت کوترک کرنے کاعہد لے لیاہے؟ اگرنہیں تو ہم نے روزے کی اصلیت کو سمجھاہی نہیں اوراسے یوں ہی گنوادیاکیونکہ فرمان نبویﷺ میں اس بات پرزوردی گئی ہے کہ اگرکوئی تم سے بحالت روزہ کوئی لڑائی جھگڑاکرےیالڑائی جھگڑاکرنے پرآمادہ کرے تواسے ’’إنِّیْ صَائمٌ‘‘ کہناچاہئےگویاکہ روزہ آدمی کے اندرقوت برداشت کامادہ پیداکرتاہے اوریہ سبق دیتاہے کہ اگرتمہارے ساتھ کوئی نارواسلوک کرے تو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔

9۔کیاہم نے روزے کو رکھ کرانسانیت کی ہمدری کا سبق لیا؟اگرنہیں تو ہم روزے کی روحانی فوائد سے بے بہرہ ہیں! ذراسوچیں جس طرح روزے کی حالت میں ہمیں بھوک وپیاس کی شدت وتکالیف کاسامنارہا ٹھیک اسی طرح سماج ومعاشرے میں ایسے کتنے غریب ولاچار افراد موجودہوتے ہیں جنہیں ہمیشہ بھوک وپیاس کا سامنارہتاہے،جوہماری حالت رمضان میں دن کے 14 یا15 گھنٹے رہتی تھی کیاوہی حالت ہمارے آس پڑوس میں کچھ غریبوں کی تونہیں اور ہم ان کی حالت سے لاپرواہ ہیں،یادرکھیں روزہ یہی احساس جگاتاہے کہ تکالیف کو انسان محسوس کرکے دوسروں کی خبرگیری کرے۔

10۔کیاہم نے روزے رکھ کر حرام چیزوں کو چھوڑنے کا سبق لیا؟اگرنہیں تو پھرہم نے اپنی محنت پرخودسے پانی پھیردیا! ذراسوچیں کہ جب ہم نے اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے جائزومباح اورحلال چیزوں کو روزے کی حالت میں چھوڑدیاتھاتو پھراب حرام چیزوں کوکیوں نہیں چھوڑتے؟جس رب نے دوران روزہ حلال کوحرام کیاتھااسی رب نے ہم پرکچھ چیزیں حرام بھی کی ہیں،جب وہ ترک کرسکتے تویہ کیوں نہیں ترک کرسکتے؟دراصل ہم نے روزے کے روحانی مقصدکوجاناہی نہیں بلکہ رسماہم نے بھوک وپیاس کی شدت کوبرداشت کیا۔

11۔کیاروزے رکھنے کی وجہ سے ہم نے وقت کی اہمیت کوسمجھا؟اگرنہیں توہم نے دراصل روزے کے مقصدکوجانانہیں! ہمارے اوپرروزے کا ایک اثریہ بھی ہوناچاہئے کہ ہم وقت کا قدرداں بن جائیں!ذراسوچیں کہ ہم نے رمضان کے مہینے میں اپنے مصروف ترین زندگی سے وقت کونکالا،کاروبارکوچھوڑکرنمازوں کواس کے وقت پراداکیا،ٹھیک وقت پرسحروافطار کیا،مگراب ہم ویسے وقت کاخیال نہیں رکھ پارہے ہیں جیسے کل رمضان میں رکھ پاتے تھے،آخرکیوں؟کل رمضان میں ہم نے وقت کومات دے دی تھی اورآج ہم خودوقت کی تلوارسے کٹ گئے،کیوں؟ایک مہینے وقت کا اہتمام کرکے بھی بے وقت ہوگئے،ظہرپڑھی تو عصر نہیں،مغرب پڑھے تو عشاء نہیں،سحرکے لئےکل تین بجے اٹھ جاتے تھے مگرآج فجرکے لئے ہماری آنکھیں بندہوگئی،آخرکیوں؟

یادرکھیں!رمضان وعیدکے اوقات،سحروافطار کے اوقات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہماری زندگی ہمیشہ وقتوں کے حساب سے گزرنی چاہئے،جس طرح سے بے وقت روزہ کھولنے والے کا روزہ نہیں ہوسکتااسی طرح سے جے بے وقت ہوگیاوہ انسان کبھی بھی کسی بھی میدان میں چاہے دنیا ہویاآخرت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔

12۔کیاروزے رکھنے کی وجہ سے ہمارے اندر استقامت،عزم وحوصلہ،قوت فولاد،مصائب ومشکلات سے لڑنے بھڑنے کامادہ پیداہوا؟اگرنہیں توپھرہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے! ذراسوچیں کہ مئی کے مہینے کی دھوپ کی تمازت اورپیاس شدت نے بھی ہمیں روزہ توڑنے نہ دیا،ہمارے ایمان کے آگےیہ گرمی بھی کچھ کام نہ آئی پھرآج ہمیں کیاہواکہ ہمارے اندروہ عزم واستقلال نہیں جوکل تھا!جادۂ حق سے ہم ہٹ گئے،نمازی سے ہم بے نمازی بن گئے،کہیں ہم نے اپنے ہاتھ سے ہی اپنے پاؤں پرکلہاڑی تونہیں مارلی۔

13۔کیا رمضان کے مہینے سے ہم نے وحدت کا سبق لیا؟کاش کہ امت مسلمہ نے رمضان کے مہینے سے وحدت کا سبق لیاہوتاتوآج امت مسلمہ یوں نہ پارہ پارہ ہوتی کیونکہ پورے عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمان رہتے اوربستے ہیں وہ فرض روزے صرف رمضان کے مہینے میں ہی چاند دیکھ کررکھتے ہیں!امیروغریب سب ایک ساتھ روزے کی شروعات رمضان سے اوراختتام شوال سے کرتے ہیں!امیر ہو یا غریب ،مشرق کا رہنے والا ہو یا پھر مغرب کی سب کے سب روزے کی شروعات صبح صادق سے کرتے ہیں اور اختتام غروب آفتاب پر کرتے ہیں!کاش کہ ہم مسلمانوں نے ان سب چیزوں پر غوروفکر کیا ہوتا تو آج اتنے اختلاف میں نہ پڑے ہوئے ہوتے۔کیا ہی خوب کہاتھا علامہ اقبال نے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی،ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی،اللہ بھی،قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 

Sajid Ansari

مبتدی
شمولیت
دسمبر 07، 2021
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
ماشاء اللہ بہت عمدہ ۔ ‏نفع الله بك وبعلمك وزادك علما وعملا وإيمانا وصعودا ورفع قدرك في الدنيا ورزقك من فيض نعيمه في الآخرة ۔
 

Sajid Ansari

مبتدی
شمولیت
دسمبر 07، 2021
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
کچھ ایسا کر دے مِرے کرد گار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے رُو ئے یار آنکھوں میں

انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں​
 

Sajid Ansari

مبتدی
شمولیت
دسمبر 07، 2021
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
روزہ سے ہمیں کیا سبق ملتاہے؟
ساجدانصاری فلاحی​
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ مختص فرما کر اس کی فضیلت و اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، کیوں کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، نعمتوں، سعادتوں اور انوار و تجلیات کا نزول عام دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔
روزے کامقصد ہے اہل ایمان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ، متقی بنانا ۔ اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں جو راستے کو روشن کرتی ہے اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔​
تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: أَأَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ․ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ․ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ․ ترجمہ: آگاہ ہوجاوٴ کہ بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، وہ یہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوی کرتے ہیں ان کے لیے زندگانی دنیا میں بھی اور آخرت میں بشارت ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ ہُمْ مُحْسِنُونَ․ بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقوی اختیار کیا اور وہ لوگ جو نیکوکار ہیں۔​
روزہ سے ہمیں اطاعت الٰہی، تزکیۂ نفس، اخوت اور ہمدردی کا سبق ملتا ہے مثلًا روزہ دار اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حالتِ روزہ میں ایک خاص وقت پر کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جاتا ہے۔ اپنی ایسی بنیادی ضروریات کو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جن کو پورا کرنا دوسرے اوقات میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوتا ہے۔ روزہ ہمارے اندر یہ بات راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعتِ الٰہی ہے اور یہ کہ صرف حکم الٰہی ہی کسی چیز کے درست اور غلط ہونے کے لئے آخری سند ہے اور حق بندگی کا یہ سبق ہمیں روزہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح غریبوں کی تکلیفوں، ان کے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کا احساس بھی حالتِ روزہ میں ہوتا ہے۔ جب روزہ دار خود سارا دن بھوکاپیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر ایسے لوگوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو مستقل فقر و فاقہ سے دو چار رہتے ہیں چنانچہ روزہ دار اپنی بساط کے مطابق ان کے دکھوں کا مداوا اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے میں تعاون کرتا ہے۔ اس لئے مومنوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب مسلمان نفس واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں درت ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔

روزے کی برکت کا یارو ماجرا ہی اور ہے
خیر کے لے کر خزانے ماہ رمضاں آ گیا​
 
Top