• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزے کا کفارہ دینا ہوگا یا نہیں؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بلاغت تین چیزوں میں سے کسی ایک کے پورا ہونے پر ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ عورت کے لئے چار چیزیں ہیں:
1- خروج منی، نیند کی حالت میں یا جاگتے ہوئے
دلیل: نبی ﷺ کا فرمان:
((غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم)) (متفق علیہ)
2- زیر ناف بالوں کا آنا
دلیل: حدیث عطیہ القرظی، قال: ((كنت من سبي بني قريظة، فكانوا ينظرون، فمن أنبت الشعر قُتِلَ، ومن لم ينبت لم يُقتل، فكنت فيمن لم ينبت)) (ابو داود)
3- جب بچہ پندرہ سال کا ہو جائے۔
دلیل: لحديث نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: عرضني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوم أحد في القتال وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني، وعرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني))، قال نافع: فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة فحدثته هذا الحديث، فقال: إن هذا الحد بين الصغير والكبير، وكتب إلى عماله أن يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة [سنة، ومن كان دون ذلك فاجعلوه في العيال])) (متفق علیہ)
اور عورت کے لئے ایک چھوتھی نشانی حیض کا آنا ہے۔
اگر بچہ بالغ ہے تو اس پر روزہ فرض ہے اور نہ رکھنے پر گناہ گار ہو گا۔
اگر بچے نے عادتا روزہ رکھا یعنی نفل کی نیت سے روزہ رکھا کیونکہ وہ ابھی بالغ نہیں ہوا، اور دن کے دوران ہی وہ بالغ ہو گیا (مثلا احتلام ہوا یا کچھ اور)، تو فقہاء کا اختلاف ہے کہ وہ روزے کی قضاء کرے گا یا نہیں۔
اس میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول: وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے گا اور قضاء کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ قول حنابلہ میں سے قاضی ابو یعلی کا ہے اور اسے شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین نے راجح قرار دیا ہے۔
دوسرا قول: وہ اس دن کا اپنا روزہ مکمل کرے گا اور بعد میں اس کی قضاء بھی کرے گا۔ یہ قول حنابلہ میں سے ابو الخطاب کا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ہے کہ پہلے اس کا روزہ نفلی تھا اور بلاغت کے بعد وہ فرض ہو گیا جب کہ فرض کی نیت سحری سے پہلے ہونی ضروری ہے۔

اور اگر بچے نے روزہ نہیں رکھا لیکن دن کے دوران وہ بالغ ہو جاتا ہے، تو اس پر تین اقوال ہیں:
پہلا قول: اس پر بقیہ دن کا روزہ فرض ہے اور بعد میں اس کی قضاء بھی لازم ہے۔ یہ حنابلہ، حنفیہ، امام ثوری، امام اوزاعی، الحسن بن صالح اور العنبری کا مذہب ہے۔
دوسرا قول: اس پر نہ تو بقیہ دن کا روزہ فرض ہے اور نہ ہی اس پر قضاء لازم ہے۔ یہ حنبلی مذہب کی ایک روایت ہے۔
تیسرا قول: اس پر بقیہ دن کا روزہ فرض ہے لیکن اس کی قضاء لازم نہیں۔ اس قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین نے ترجیح دی ہے۔ اور یہی راجح ہے۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: شرح العمدۃ لابن تیمیہ (1:56)، مجالس شہر رمضان لابن عثیمین (ص 74)، المقنع والشرح والانصاف (7:354)، المغنی لابن قدامہ (4:412)، الکافی لابن قدامہ (2:220)، مجموع فتاوی ابن باز (15:173)، تحفۃ الاخوان لابن باز (ص 160)، الشرح الممتع لابن عثیمین (6:332)، مجموع فتاوی ابن عثیمین (19:77-79)، نیل الاوطار للشوکانی (3:125)، کتاب الفروع لابن مفلح (4:429)۔
رضا بھائی الاسلام سؤال جواب کا لنک یا حوالہ دے دیا کریں تو زیادہ بہتر ہے ، تاکہ دوبارہ پھر انہیں معلومات کا تکرار نہ ہو۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
رضا بھائی الاسلام سؤال جواب کا لنک یا حوالہ دے دیا کریں تو زیادہ بہتر ہے ، تاکہ دوبارہ پھر انہیں معلومات کا تکرار نہ ہو۔
یہ میں نے اس ویب سائٹ سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ الصیام فی الاسلام نامی کتاب سے ترجمہ کیا ہے، اور اس کا حوالہ لگا دیا ہے، الحمد للہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ میں نے اس ویب سائٹ سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ الصیام فی الاسلام نامی کتاب سے ترجمہ کیا ہے، اور اس کا حوالہ لگا دیا ہے، الحمد للہ۔
بہترین۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
اگر بچہ بالغ ہے تو اس پر روزہ فرض ہے اور نہ رکھنے پر گناہ گار ہو گا۔
اگر بچے نے عادتا روزہ رکھا یعنی نفل کی نیت سے روزہ رکھا کیونکہ وہ ابھی بالغ نہیں ہوا، اور دن کے دوران ہی وہ بالغ ہو گیا (مثلا احتلام ہوا یا کچھ اور)، تو فقہاء کا اختلاف ہے کہ وہ روزے کی قضاء کرے گا یا نہیں۔
اس میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول: وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے گا اور قضاء کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ قول حنابلہ میں سے قاضی ابو یعلی کا ہے اور اسے شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین نے راجح قرار دیا ہے۔
دوسرا قول: وہ اس دن کا اپنا روزہ مکمل کرے گا اور بعد میں اس کی قضاء بھی کرے گا۔ یہ قول حنابلہ میں سے ابو الخطاب کا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ہے کہ پہلے اس کا روزہ نفلی تھا اور بلاغت کے بعد وہ فرض ہو گیا جب کہ فرض کی نیت سحری سے پہلے ہونی ضروری ہے۔

اور اگر بچے نے روزہ نہیں رکھا لیکن دن کے دوران وہ بالغ ہو جاتا ہے، تو اس پر تین اقوال ہیں:
پہلا قول: اس پر بقیہ دن کا روزہ فرض ہے اور بعد میں اس کی قضاء بھی لازم ہے۔ یہ حنابلہ، حنفیہ، امام ثوری، امام اوزاعی، الحسن بن صالح اور العنبری کا مذہب ہے۔
دوسرا قول: اس پر نہ تو بقیہ دن کا روزہ فرض ہے اور نہ ہی اس پر قضاء لازم ہے۔ یہ حنبلی مذہب کی ایک روایت ہے۔
تیسرا قول: اس پر بقیہ دن کا روزہ فرض ہے لیکن اس کی قضاء لازم نہیں۔ اس قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین نے ترجیح دی ہے۔ اور یہی راجح ہے۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: شرح العمدۃ لابن تیمیہ (1:56)، مجالس شہر رمضان لابن عثیمین (ص 74)، المقنع والشرح والانصاف (7:354)، المغنی لابن قدامہ (4:412)، الکافی لابن قدامہ (2:220)، مجموع فتاوی ابن باز (15:173)، تحفۃ الاخوان لابن باز (ص 160)، الشرح الممتع لابن عثیمین (6:332)، مجموع فتاوی ابن عثیمین (19:77-79)، نیل الاوطار للشوکانی (3:125)، کتاب الفروع لابن مفلح (4:429)،

نیز دیکھیں الصیام فی الاسلام (ص 85)۔
اس میں کسی بچہ کے روزہ کی حالت مین بالغ ہوجانے کے مسئلہ پر بحث کی گئی ہے جبکہ میرا سوال کسی نابالغ بچے کے روزہ توڑ لینے کے متعلق تھا جس کا جواب آپ کی یا شیخ اسحاق سلفی کی ہوسٹس سے مل گیا ہے. جزاکم اللہ خیرا

لگے ہاتھوں اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈال دیں کہ اگر کسی عورت کو فرض یا نفل روزہ کی حالت میں حیض شروع ہوجائے تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہوگا؟ یعنی وہ شمار ہوگا یا نہیں؟

اگر الگ الگ حکم ہو تو الگ الگ بیان کردیجیے گا.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لگے ہاتھوں اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈال دیں کہ اگر کسی عورت کو فرض یا نفل روزہ کی حالت میں حیض شروع ہوجائے تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہوگا؟ یعنی وہ شمار ہوگا یا نہیں؟

اگر الگ الگ حکم ہو تو الگ الگ بیان کردیجیے گا.
یہ فتوی دیکھئے :
ــــــــــــــــــــــ
إذا حاضت قبل الغروب ولو بلحظة بطل صومها ووجب عليها القضاء
هل لو جاءت الدورة الشهرية أثناء الصيام هل أتم اليوم صائمة أم لا ؟.
تم النشر بتاريخ: 2003-11-03
الحمد لله

إذا حاضت المرأة أثناء الصيام فسد صومها ، ولو كان نزول الدم قبل المغرب بلحظة ، ووجب عليها قضاؤه إن كان صومها واجباً ، ويحرم عليها الاستمرار في الصيام وهي حائض .

قال النووي رحمه الله في المجموع (2/386) :

أَجْمَعَتْ الأُمَّةُ عَلَى تَحْرِيمِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ وَالنُّفَسَاءِ , وَعَلَى أَنَّهُ لا يَصِحُّ صَوْمُهَا . . . وَأَجْمَعَتْ الأُمَّةُ أَيْضًا عَلَى وُجُوبِ قَضَاءِ صَوْمِ رَمَضَانَ عَلَيْهَا , نَقَلَ الإِجْمَاعَ فِيهِ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَابْنُ جَرِيرٍ وَأَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ اهـ باختصار .

وقال ابن قدامة في " المغني" (4/397) :

" أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْحَائِضَ وَالنُّفَسَاءَ لا يَحِلُّ لَهُمَا الصَّوْمُ , وَأَنَّهُمَا يُفْطِرَانِ رَمَضَانَ , وَيَقْضِيَانِ , وَأَنَّهُمَا إذَا صَامَتَا لَمْ يُجْزِئْهُمَا الصَّوْمُ , وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ : ( كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ , وَلا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلاةِ ) . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .

وَالأَمْرُ إنَّمَا هُوَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم . وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : ( أَلَيْسَ إحْدَاكُنَّ إذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ , فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا ) . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ .

وَالْحَائِضُ وَالنُّفَسَاءُ سَوَاءٌ ; لأَنَّ دَمَ النِّفَاسِ هُوَ دَمُ الْحَيْضِ , وَحُكْمُهُ حُكْمُهُ . وَمَتَى وُجِدَ الْحَيْضُ فِي جُزْءٍ مِنْ النَّهَارِ فَسَدَ صَوْمُ ذَلِكَ الْيَوْمِ , سَوَاءٌ وُجِدَ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ , وَمَتَى نَوَتْ الْحَائِضُ الصَّوْمَ , وَأَمْسَكَتْ , مَعَ عِلْمِهَا بِتَحْرِيمِ ذَلِكَ , أَثِمَتْ , وَلَمْ يُجْزِئْهَا" اهـ .

وقال الشيخ ابن عثيمين في رسالة "الدماء الطبيعية للنساء" (ص 28) :

" وإذا حاضت وهي صائمة بطل صيامها ولو كان ذلك قبيل الغروب بلحظة ، ووجب عليها قضاء ذلك اليوم إن كان فرضاً .
أما إذا أحست بانتقال الحيض قبل الغروب لكن لم يخرج إلا بعد الغروب فإن صومها تام ولا يبطل على القول الصحيح" اهـ .

وسئلت اللجنة الدائمة (10/155) عن امرأة صامت وقبل غروب الشمس وقبل الأذان بفترة قصيرة جاءها الحيض هل يبطل صومها ؟

فأجابت : إذا كان الحيض أتاها قبل الغروب بطل الصيام وتقضيه ، وإن كان بعد الغروب فالصيام صحيح ولا قضاء عليها اهـ .

الإسلام سؤال وجواب

https://islamqa.info/ar/50282
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
سوال :
اگرغروب شمس سے ایک لمحہ بھی قبل بھی حیض آجائے توروزہ باطل ہوجاتا ہے اوراس کی قضاء واجب ہوگي
اگر روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہوجائے توکیا اس دن کا روزہ مکمل کرے گی یا نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ
جب عورت کو روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہوجائے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، اگرچہ غروب شمس سے چندلمحہ قبل ہی ماہواری کاخون آنا شروع ہوجائے ، اگراس کا روزہ واجب ہوتواس پر قضاء واجب ہوگي ، حالت حیض میں عورت کا روزہ جاری رکھنا حرام ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے ، لھذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں ۔۔۔۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، امام ترمذی ، ابن مندر ، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے ۔ باختصار
دیکھیں المجموع للنووی ( 2 / 386 )

اور ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت کا روزہ رکھنا حلال نہیں ، بلکہ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھیں گي بلکہ وہ بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تو ان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ۔

ام المومنین سیدہ عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں حیض آتا توہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم روزے قضاء کریں اورنماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ) متفق علیہ ۔

اس میں حکم تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے ، ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کیا تم میں سے جب کسی ایک حیض آتا ہے وہ نہ تو نماز ادا کرتی ہے اورنہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین میں کمی ہے ) صحیح بخاری ۔

حائضہ اورنفاس والی عورت برابر ہے کیونکہ نفاس کا خون ہی حیض کا خون ہے اوراس کا حکم بھی وہی ہے ، جب دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجائےگا ، چاہے دن کی ابتداء میں حیض آئے یا پھر شام کے وقت ، اورحائضہ عورت نے جب حالت حیض میں روزہ رکھنے کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود روزہ کی نیت کی اورکچھ نہ کھایا پیا تووہ گنہگار ہوگی ، اوراس کا یہ روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ اھـ

شیخ ابن عثیمین اللہ تعالی کا کہنا ہے :
روزہ کی حالت میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ، چاہے غروب شمس سے ایک لمحہ قبل ہی کیوں نہ آئے ، اگر توفرضی روزہ ہوتواس دن کی قضاء واجب ہوگي ۔

لیکن اگر اس نے مغرب سے قبل حیض کے خون کے انتقال کومحسوس کیا اورخون آنا شروع نہیں ہوا بلکہ مغرب کے بعد خون آنا شروع ہوا تواس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اورصحیح قول یہی ہے کہ باطل نہيں ہوگا ۔ ا ھـ
دیکھیں : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ نمبر ( 28 ) ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذیل سوال کیاگيا :
ایک عورت نے روزہ رکھا لیکن غروب شمس اور اذان سے کچھ دیر قبل حیض آنا شروع ہوجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟

کمیٹی کا جواب تھا :
اگرتو حیض مغرب سے قبل آئے توروزہ باطل ہوگا اوراس کی قضاء کرے گي لیکن اگر مغرب سے بعد حیض آنے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 ) ۔
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
Top