السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
اہل جنت دوپہر کو قیلولہ کریں گے
اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا 24
ترجمہ: اس دن اہل جنت کا ہی ٹھکانا اور دوپہر کو آرام کرنے کا مقام بہتر ہوگا۔
سورۃ الفرقان (۲۴ )
دنیا میں کفار کو جو عیش و آرام میسر تھا اہل جنت اس دن اس سے کہیں اچھے ٹھکانے اور آرام گاہ میں ہوں گے، یا یہ بات جہنمیوں پر طنز کے طور پر کہی گئی ہے۔ -
وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا : اصل میں ”
مَقِيْلًا “ کے لفظی معنی ہیں ” قیلولہ کرنے کی جگہ “ اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
( لَا یَنْتَصِفُ النَّھَارُ مِنْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَقِیْلَ ھٰؤُلَاءِ وَ ھٰؤُلَاءِ ثُمَّ قَرَأَ : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ )
[ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٢، ح : ٣٥١٦، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبي ]
” قیامت کے دن ابھی دوپہر نہ ہوئی ہوگی کہ یہ (جنتی )لوگ (جنت میں آرام کر رہے ہونگے) اور وہ(جہنمی ) لوگ (جہنم میں پہنچ چکے ) ہوں گے، پھر (کفار کے متعلق) یہ آیت پڑھی : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) [ الصافات : ٦٨ ] ” بلاشبہ ان کی واپسی یقیناً اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگی۔ “
______________
خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا، (مستقر) مستقل جائے قیام کو کہا جاتا ہے اور ( مقیل ) قیلولہ سے مشتق ہے دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ کو ’’ مقیل‘‘ کہتے ہیں،
مشہور مفسرعلامہ قرطبی ؒ لکھتے ہیں کہ : ’
’ قال قتادة : وأحسن مقيلا منزلا ومأوى . وقيل : هو على ما تعرفه العرب من مقيل نصف النهار ‘‘
اور اس جگہ مقیل کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے بھی ہوا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ :۔ إن الله تبارك وتعالى يفرغ من حساب الخلق في مقدار نصف يوم فيقيل أهل الجنة في الجنة وأهل النار في النار‘‘
یعنی قیامت کے روز حق تعالیٰ نصف النہار کے وقت ساری مخلوقات کے حساب کتاب سے فارغ ہوجاویں گے اور دوپہر کے سونے کے وقت اہل جنت جنت میں پہنچ جائیں گے اور اہل جہنم جہنم میں ‘‘
( الجامع لاحکام القرآن ،للقرطبی)
واضح رہے کہ ہمیں اس حدیث کے اصل مخرج و اسناد کا علم نہیں۔
اورتفسیرابن کثیر میں ہے :
قال سعيد بن جبير : يفرغ الله من الحساب نصف النهار ، فيقيل أهل الجنة في الجنة ، وأهل النار في النار ، قال الله تعالى : ( أصحاب الجنة يومئذ خير مستقرا وأحسن مقيلا ) .
مشہور تابعی جناب سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدھے دن میں بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ پس جنتیوں کا دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں ہو گا اور دوزخیوں کا جہنم میں ۔
و
قال عكرمة : إني لأعرف الساعة التي يدخل فيها أهل الجنة الجنة ، وأهل النار النار : هي الساعة التي تكون في الدنيا عند ارتفاع الضحى الأكبر ، إذا انقلب الناس إلى أهليهم للقيلولة ، فينصرف أهل النار إلى النار ، وأما أهل [ الجنة فينطلق بهم إلى ] الجنة ، فكانت قيلولتهم [ في الجنة ] وأطعموا كبد حوت ، فأشبعهم [ ذلك ] كلهم ، وذلك قوله : ( أصحاب الجنة يومئذ خير مستقرا وأحسن مقيلا ) .
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ۔ یہ وہ وقت ہو گا جب یہاں دنیا میں دوپہر کا وقت ہوتا ہے اور لوگ اپنے گھروں کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں ۔ جنتیوں کا یہ قیلولہ جنت میں ہو گا۔۔ مچھلی کی کلیجی انہیں پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی ۔
وقال سفيان ، عن ميسرة ، عن المنهال ، عن أبي عبيدة ، عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال : لا ينتصف النهار حتى يقيل هؤلاء وهؤلاء ثم قرأ : ( أصحاب الجنة يومئذ خير مستقرا وأحسن مقيلا ) وقرأ ) ثم إن مرجعهم لإلى الجحيم ) [ الصافات : 68 ] .
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دن آدھا نہ ہوگا ، اس سے پہلے جنتی جنت میں قیلولہ کریں گے ، اور جہنمی جہنم میں پہنچیں گے ، پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور آیت «ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحِیمِ» ۱؎ (37-الصافات:68) بھی پڑھی۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور عربی سائیٹ(اسلام ویب
https://www.islamweb.net/ar/fatwa/288832/ )پر اس موضوع کے متعلق سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے :
وقد جاءت عدة أحاديث في بيان أن يوم القيامة لا يطول على المؤمنين، ومن ذلك: ما رواه الإمام أحمد في المسند، وابن حبان في صحيحه، وغيرهما، من حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: يَوْمًا كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، مَا أَطْوَلَ هَذَا الْيَوْمَ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُ لَيُخَفَّفُ عَلَى الْمُؤْمِنِ، حَتَّى يَكُونَ أَخَفَّ عَلَيْهِ مِنْ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ يُصَلِّيهَا فِي الدُّنْيَا".
کچھ احادیث میں منقول ہے کہ : حشر کا دن اہل ایمان کیلئے اتنا طویل نہ ہوگا (جتنا کفار و مشرکین کیلئے )ان احادیث میں سے ایک مسنداحمدؒ اور صحیح ابن حبانؒ میں سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ جناب رسول مکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ : حشر کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا ، کتنا طویل ہوگا؟آپ ﷺ نے مومن یا اہل جنت کو یہ پچاس ہزار سال کا دن ایسا ہلکا محسوس ہوگا جیسے کسی فریضہ نماز کا وقت ہوتا ہے۔
وقد اختلف العلماء في سند هذا الحديث بين مضعِّف ومحسِّن، فممن ضعفه: الألباني، وشعيب الأرناؤوط، وقد حسنه الحافظ ابن حجر العسقلاني في كتابه فتح الباري،
لیکن اس حدیث کی صحت اختلافی ہے،کچھ اہل علم اسے ضعیف کہتے ہیں ، اور کچھ اسے حسن کا درجہ دیتے ہیں،علامہ ناصرالدین البانیؒ اور علامہ شعیب ارناوط اسے ضعیف کہتے ہیں ،جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباري میں اسے حسن کا درجہ دیتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔