روز کا مرنا، روز کا جینا
شب و روز کے آٹھ پہروں میں کلس کلس کر مرنا اور پھر صرف زندگی کے لیے جینا، ایک دن شاید زندگی ہی ہار دے گا۔ ٹیلی ویژن ہو یا اخبار، دوست ہوں یا رشتے دار، گھما پھرا کر بات روز بروز کے ہنگاموں، قتل و غارت، دھماکوں اور خودکش حملوں کی ہوتی ہے۔ ایک حسرت ہر روز دل میں کسک سی بن کر رہ جاتی ہے کہ ، کب ، آخر کب ، کوئی ایسی خبر سننے کو ملے کہ دل باغ باغ ہو جائے۔ لیکن، "حسرت ان غنچوں پر" جو صرف مرجھاتے ہی جا رہے ہیں۔
زندگی کی وقعت اس قدر ارزاں ہے کہ اس قدر خبریں سننے کے باوجود ، حساسیت ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے۔ کیا زندگی کی راعنائیاں بم اور حملوں کی خوفناک اور لرزا دینے والی ہیبت میں گم سم سی ہو گئیں ہیں۔ انسان تو بٹے ہی تھے، کبھی مزہب کی بنیاد پر، کبھی قومیت اور رنگ کی بنیاد پر اور کبھی صوبائیت کی بنیاد پر ، لیکن اب دیکھیے کہ، جماعت پرستی بھی ہونے لگی ہے۔ طالبان، القاعدہ، لشکر اسلام، لشکر طیّبہ اور درجنوں دوسری جماعتیں، پھر سے انسانوں کی تقسیم میں لگی ہوئی ہیں۔ چلیے، تقسیم کو بھی بادل نا خواستہ برداشت کر لیتے ہیں، لیکن کیا تقسیم اس لیے کہ کس کے پاس کتنے خودکش حملہ آور ہیں اور وہ بھی جہاد کے نام پر، مزہب کے نام پر، رنگ و صوبائیت کے نام پر؟
صرف افسوس ہے ، غم ہے رنجش ہے۔
شب و روز کے آٹھ پہروں میں کلس کلس کر مرنا اور پھر صرف زندگی کے لیے جینا، ایک دن شاید زندگی ہی ہار دے گا۔ ٹیلی ویژن ہو یا اخبار، دوست ہوں یا رشتے دار، گھما پھرا کر بات روز بروز کے ہنگاموں، قتل و غارت، دھماکوں اور خودکش حملوں کی ہوتی ہے۔ ایک حسرت ہر روز دل میں کسک سی بن کر رہ جاتی ہے کہ ، کب ، آخر کب ، کوئی ایسی خبر سننے کو ملے کہ دل باغ باغ ہو جائے۔ لیکن، "حسرت ان غنچوں پر" جو صرف مرجھاتے ہی جا رہے ہیں۔
زندگی کی وقعت اس قدر ارزاں ہے کہ اس قدر خبریں سننے کے باوجود ، حساسیت ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے۔ کیا زندگی کی راعنائیاں بم اور حملوں کی خوفناک اور لرزا دینے والی ہیبت میں گم سم سی ہو گئیں ہیں۔ انسان تو بٹے ہی تھے، کبھی مزہب کی بنیاد پر، کبھی قومیت اور رنگ کی بنیاد پر اور کبھی صوبائیت کی بنیاد پر ، لیکن اب دیکھیے کہ، جماعت پرستی بھی ہونے لگی ہے۔ طالبان، القاعدہ، لشکر اسلام، لشکر طیّبہ اور درجنوں دوسری جماعتیں، پھر سے انسانوں کی تقسیم میں لگی ہوئی ہیں۔ چلیے، تقسیم کو بھی بادل نا خواستہ برداشت کر لیتے ہیں، لیکن کیا تقسیم اس لیے کہ کس کے پاس کتنے خودکش حملہ آور ہیں اور وہ بھی جہاد کے نام پر، مزہب کے نام پر، رنگ و صوبائیت کے نام پر؟
صرف افسوس ہے ، غم ہے رنجش ہے۔