کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
روایت 4:
سنن کبری بیہقی جلد ۲ ص ۴۹۶ میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے ہے۔
یہ اثر کئی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس لئے اقرب الی الصواب یہی ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ و جابرؓ وغیرہ کی صحیح احادیث میں گزر چکا ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی رسالہ ’’المصابیح فی صلوۃ التراویح‘‘ میں امام مالک سے نقل کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا ساری بحث سے ثابت ہوا کہ رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعاملِ صحابہ آٹھ رکعت ہے۔
سنن کبری بیہقی جلد ۲ ص ۴۹۶ میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے ہے۔
حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے۔عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ قَالَ: كَانُوْا يَقُوْمُوْنَ عَلٰي عَھْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً قَالَ: وَكَانُوْا يَقْرَءُوْنَ بِالْمِئِيْنَ وَاكَانُوْا يَتَوَكَّئُوْنَ عَلٰي عِصِيِّھِمْ فِيْ عَھْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔
یہ اثر کئی وجہ سے ضعیف ہے۔
دیگر کئی آثار حضرت عمرؓ کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب متکلم فیہ ہیں۔ ایسے ہی بعض آثار حضرت علی، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود کی طرف منسوب ہیں لیکن کوئی بھی جرح وقدح سے خالی نہیں۔الف۔ اس کی سند میں ابو عبد اللہ محمد بن حسین بن فنجویہ دینوری ہے اس کی ثقاہت ثابت نہیں ہو سکی فَمَنِ ادَّعٰي الصِّحَّةَ فَعَلَيْهِ بِالدَّلِيْلِ۔
ب۔ دوسرے راوي يزيد بن خصیفہ كو امام احمد نے منكر الحديث کہا ہے جس كا معنی امام احمد كے نزديك یہ ہے کہ وہ راوی غریب احادیث بیان کرتا ہو۔ اس حدیث میں یزیداپنے سے اوثق (محمد بن یوسف) کی مخالفت کرتا ہے جس نے عمرؓ بن الخطاب سے صحیح سند سے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اس لئے یزید بن خصیفہ کی روایت شاذ ہونے کی وجہ سے۔ج۔ یہ روايت مضطرب ہے۔ شيخ ناصر الدين البانی اپنی كتاب ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں روایت نقل فرماتے ہیں۔(حافظ ابن کثیر نے امام شافعی سے شاذ کی تعریف یہ نقل کی ہے۔وَھُوَ اَنْ يَرْوِي الثِّقَةُ حَدِيْثًا يُّخَالِفُ مَا رَوٰي النَّاسُ
اور تقریب نووی میں ہے۔ فَاِنْ كَانَ بِتَفَرُّدِه مُخَالِفَا احفط منهُ َاَضْبَطَ كَانَ شَاذًّا مَّرْدُوْدًا حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں محمد بن یوسف کو ثقہ ثبت اور یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہتے ہیں۔ ان کے نقابلی الفاظ میں محمد بن یوسف کا زیادہ ثقہ ہونا واضح ہے۔)
فَقَالَ اِسْمٰعِيْلُ بْنُ اُمَيَّةَ: اِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ ابْنَ اُخْتِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ اَخْبَرَه (قُلْتُ: فَذَكَرَ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ يُوْسُفَ ثُمَّ قَالَ ابنُ اُمَيَّةَ): قُلْتُ: اَو َاحِدٍ وَّعِشْرِيْنَ؟ قَالَ (يَعْنِيْ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ): لَقَدْ سَمِعَ ذٰلِكَ مِنَ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ ابْنُ خَصِيْفَةَ، فَسَأَلْتُ (السَّائِلُ ھُوَ اِسْمَاعِيْلُ بْنُ اُمَيَّةَ) يَزِيْدَ بْنَ خَصِيْفَةَ؟ َقَالَ: حَسِبْتُ اَنَّ السَّائِبَ قَالَ: اَحَدٍ وَّعِشْرِيْنَ: قُلْتُ: وَسَنَدُه صَحِيْحٌ۔
یعنی جب اسماعيل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے گمان ہے
(یعنی یقین نہیں) کہ سائب بن یزید نے اکیس رکعات کہا ہے (سند صحیح ہے) یہ حنفیہ پر حجت ہے کیونکہ تین وتر کی صورت میں رکعات تراویح اٹھارہ ۱۸ رہ جائیں گی۔ اس طرح یزید بن خصیفہ کی روایت میں بیس ۲۰ اور اٹھارہ ۱۸ کی وجہ سے اضطراب ہو گا۔(اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیس رکعات وتر سمیت (۱+۲۰) اور بیس رکعات وتر بغیر یزید بن خضیفہ کا صرف گمان ہے جب کہ محمد بن یوسف کو گیارہ پر یقین ہے۔ اسمٰعیل ابن امیہ (سائل) نے بھی ابن یوسف پر ہی اعتماد کیا ہے جیسا کہ اس کی گیارہ رکعت والی روایت (عند النیسا بوری) سے ظاہر ہے۔ )
اس لئے اقرب الی الصواب یہی ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ و جابرؓ وغیرہ کی صحیح احادیث میں گزر چکا ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی رسالہ ’’المصابیح فی صلوۃ التراویح‘‘ میں امام مالک سے نقل کرتے ہیں۔
ہمارے اصحاب میں سے جوری مالك سے نقل كرتے ہیں کہ وه فرماتے ہيں۔ جس شی پر حضرت عمر بن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور وہ گیارہ رکعت ہیں۔ یہی رسول اللہ (ﷺ) کی نماز ہے۔ امام مالکؒ سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعت بمعہ وتر؟ فرمایا: ہاں اور تیرہ رکعت بھی قریباً اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ یہ کثرت تعداد رکعت کہاں سے بدعت نکال لی ہے۔قَالَ الْجُوْدِيُّ مِنْ اَصْحَابِنَا َْ مَّالِكٍ اِنَّه قَالَ الَّذِيْ جَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَحَبُّ اِلَيَّ وَھُوَ اِحْدٰي عَشَرَةَ رَكَعَةً وَّھِيَ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) قِيْلَ لَه: اِحْدٰي عَشَرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ قَالَ: وَلَا اَدْرِيْ مِنْ اَيْنَ اُحْدِثَ ھَذَا الرُّكوْعُ الْكَثِيْرُ۔
(بعض ناقلين نے جوزی بالز اور بعض نے ابن الجوزی لكھا ہے حالانکہ صحيح جوری بالراء المہملہ ہے۔ چنانچہ طبقات الشافعیہ ابن سبکی میں ہے: لجُوْرِيُّ بِضَمِّ الْجِيْمِ ثُمَّ الْوَاوِ السَّاكِنَةِ ثُمَّ الرّاءِ نِسْبَةٌ اِلٰي جُوْرً بَلْدَةٌ مِّنْ بِلَادِ فَارِسَ۔ )
مندرجہ بالا ساری بحث سے ثابت ہوا کہ رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعاملِ صحابہ آٹھ رکعت ہے۔
بعض علماء نے سنت نبوی آٹھ ركعت تسليم كر لينے كے باوجود صحابہ سے بيس ركعات ثابت كرنے كی كوشش كی ہے۔ ان روایات کا ضعف ناظرین ملاحظہ فرما چکے ہیں، نیز یہ بات قابل غور ہے کہ آٹھ رکعت سنت نبوی ثابت ہو جانے کے بعد بعض صحابہ کا عمل(فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے شارح امام لحنفیہ ابن الہمام فرماتے ہیں: اِنَّ مُقْتَضٰي الدَّلِيْلِ كَوْنُ الْمَسْنُوْنِ فِيْھَا مِنْھَا ثَمَانِيَةً (فتح القدير ج ۲ ص ۳۳) یعنی دلیل شرعی سے مسنون رکعات تراویح آٹھ ہی ہیں۔ )
اگر بالفرض وہ زیادہ ثابت کر بھی دیں تو اس کی کیا پوزیشن ہو گی؟ انہیں اِنَّ خَيْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) مد نظر رکھنا چاہئے۔ صحابی شارع نہیں ہوتا کہ وہ مستقلاً قابل اتباع ہو۔ ھٰذَا مَا عِنْدِيْ وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔(واضح رہے کہ یہ ساری بحث سنیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے رکعات کی تعداد مسنون کے متعلق ہے ورنہ اگر کوئی شخص سنت مؤکدہ کے ارادہ سے آٹھ پڑھ کر بہ نیت نوافل جس قدر زیادہ پڑھنا چاہے اس کے لئے جائزہ ہے جن کا اجراء سے الگ ملے گا مگر ان نوافل کے کوئی تعداد مقرر (نبی ﷺ) یا صحابہ سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ سے مختلف تعداد میں نوافل نقل کئے جاتے ہیں۔ مثلاً چھتیس اور چالیس۔ چنانچہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں والْبَاقِیْ مُسْتَحَبًّا یعنی آٹھ سے زیادہ مستحب رکعات ہیں (ادارہ) )