• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع سے پہلے قنوت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میں پہلے رکوع کے بعد قنوت پڑھتا تھا لیکن ایک جگہ اس موضوع پر دلائل سے یہ لکھا گیا تھا (جس کو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں)کہ وتر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے ہیں تو میں اب رکوع سے پہلے پڑھتا ہوں۔
جس کا طریقہ یہ ہے کہ
وتر شروع کر کے تمحید پھر سورۃ الفاتحہ،پھر سورۃ اخلاص (یا کوئی بھی سورت) پھر ہاتھ اٹھا کر قنوت کی دعا پھر رفع الیدین کر کے رکوع میں جانا اور باقی نماز جیسے پڑھتے ہیں۔تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟اور اگر رکوع کے بعد بھی قنوت پڑھ لیا جائے تو کیا جائز ہے جیسے اس تھریڈ مین عتیق بھائی نے لکھا ہے۔
(وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام روایات ضعیف ہیں اور جو راویات صحیح ہیں، ان میں صراحت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع کے بعد والا قنوت، قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ، لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر میں قنوت، رکوع سے قبل کیا جائے۔) حافظ زبیر علی زئی
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
علامہ البانی رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہے اور جن روایات میں رکوع کے بعد کا تذکرہ ہے تو اس سے مراد قنوت نازلہ ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی یہی رائے ہے۔اگر چہ بعض اہل علم مثلا امام حمد بن حنبل، امام شافعی رحمہا اللہ وغیرہ رکوع کے بعد دعائے قنوت کے قائل ہیں۔امام ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بعض صحابہ سے یہ ملتا ہے کہ وہ رکوع کے بعد بھی دعائے قنوت کر لیا کرتے تھے لہذا یہ جائز اور مباح امر ہے اگرچہ رکوع سے پہلے قنوت کرنا زیادہ افضل ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے وتر میں رکوع کے بعد دعائے قنوت کو فرض نمازوں میں آپ کی قنوت نازلہ کے عمل پر قیاس کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ رکوع سے پہلے دعائے قنوت افضل ہے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت مباح اور جائز امر ہے۔

شیخ ناظم المسباح اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
لسؤال: الرجاء التكرم ببيان محل دعاء القنوت في ركعة الوتر هل هو قبل الركوع أم بعده؟ أفتونا مأجورين.
الجواب:
الحمد لله والصلاة والسلام على محمد وعلى آله، وبعد:
أولاً:
الذي نراه ـ والله أعلم ـ أن محل دعاء القنوت في ركعة الوتر قبل الركوع، لأن هذا هو الذي صح عن صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
قال المحدث الألباني:
"والخلاصة أن الصحيح الثابت عن الصحابة هو القنوت قبل الركوع في الوتر" [الإرواء 2/166].
وما ورد عنهم من دعاء القنوت بعد الركوع فهو في الصلوات الخمس وفي النوازل.
والدليل على ذلك: قال عاصم: "سألت أنس بن مالك عن القنوت فقال: قد كان القنوت، قلت: قبل الركوع أو بعده؟ قال: فإن فلاناً أخبرني عنك أنك قلت بعد الركوع فقال: كذب إنما قنت رسول الله صلى ا لله عليه وسلم بعد الركوع شهراً أراه كان بعث قوماً يقال لهم القراء زهاء سبعين رجلاً إلى قوم من المشركين دون أولئك، وكان بينهم وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد فقنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهراً يدعو عليهم" [رواه البخاري].
قال الحافظ:
"ومجموع ما جاء عن أنس من ذلك أن القنوت للحاجة بعد الركوع لا خلاف عنه في ذلك، وأما لغير الحاجة فالصحيح عنه أنه قبل الركوع" [الفتح 3/144].
عن علقمة
"أن ابن مسعود وأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقنتون في الوتر قبل الركوع" [رواه أبو بكر بن أبي شيبة، وقال الألباني في الإرواء (2/166) وهذا سند جيد وهو على شرط مسلم].
عن أبي بن كعب رضي الله عنه
"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر فيقنت قبل الركوع" [أخرجه النسائي 3/235، وابن ماجه 1/374، والبيهقي، وغيرهم، وصححه الألباني في إرواء الغليل 2/167].
ذهب إلى القول بأن دعاء القنوت في ركعة الوتر محله قبل الركوع كل من:
ـ الحنفية، ففي بدائع الصنائع (1/273): "وأما محل أدائه فالوتر في جميع السنة قبل الركوع عندنا"
ـ وذكر ابن قدامة في المغني (2/152) أن هذا مذهب مالك قال رحمه الله تعالى: "وقال مالك وأبو حنيفة: يقنت قبل الركوع"
ـ كما أجاز أحمد ذلك، قال موفق الدين (2/152) ناقلاً كلام الإمام أحمد: "فإن قنت قبله فلا بأس، ونحو هذا قال أيوب السختياني".
كما ثبت عن جمع من أهل العلم منهم: الحسن البصري وإبراهيم النخعي وسعيد بن جبير والأسود ومحمد بن سيرين وحميد الطويل وعمر بن عبد العزيز وعبد الرحمن بن أبي ليلى والربيع بن خثيم وعبيدة السلماني واسحاق بن راهويه [مصنف بن أبي شيبة 2/302 ومصنف عبد الرزاق 3/108 وانظر فقه أنس بن مالك للدكتور عبد المحسن بن محمد المنيف 1/287].
ثانياً:
أجاز بعض أهل العلم دعاء القنوت في ركعة الوتر بعد الركوع، وهذا مذهب الشافعي، قال النووي في روضة الطالبين (1/358):
"فصل في القنوت وهو مستحب بعد الرفع من الركوع.."
كما هو مذهب أحمد ففي المغني (2/152) روي عن أحمد أنه قال: "أنا أذهب إليه أنه بعد الركوع"
كما أن ظاهر ترجمة الإمام البخاري في صحيحه في كتاب الوتر تدل على جواز الدعاء بعد الركوع قال رحمه الله:
"باب القنوت قبل الركوع وبعده".
وقال الحافظ في الفتح (3/144): "وقد اختلف عمل الصحابة في ذلك والظاهر أنه من الاختلاف المباح".
واحتجوا بالآتي:
1) عن محمد بن سيرين قال:
"سئل أنس أقنت النبي صلى الله عليه وسلم في الصبح؟ قال: نعم، فقيل له: أو قنت قبل الركوع؟ قال: بعد الركوع" [أخرجه البخاري في كتاب الوتر، ومسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة].
استدل بهذا الحديث وغيره على أن القنوت بعد الركوع وإن كان ورد في صلاة الفريضة فإن الوتر مقيس عليه قال أحمد: القنوت بعد الركوع، ويرفع يديه وذلك على قياس فعل النبي صلى الله عليه وسلم في الغداة.
2) كما أن الأخذ بجواز الدعاء بعد الركوع فيه عمل بجميع الأدلة الواردة في المسألة.
صلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا علوی بھائی جان
عربی میں تو کچھ سمجھ نہیں آیا البتہ خلاصہ سمجھ آ گیا۔
ایک اور سوال ہے کہ میرے گھر والے رکوع کے بعد قنوت پڑھتے ہیں کیونکہ میں نے یہی طریقہ بتایا تھا لیکن اب میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتا ہوں تو کیا گھر میں بھی سب کو روک دوں یا بس رہنے دوں اور دوسری بات یہ ہے کہ کیا قنوت پڑھنا بھول جائیں رکوع سے پہلے بھی اور بعد میں بھی تو کیا سجدہ سہو کرنا ہو گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ایک اور سوال ہے کہ میرے گھر والے رکوع کے بعد قنوت پڑھتے ہیں کیونکہ میں نے یہی طریقہ بتایا تھا لیکن اب میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتا ہوں تو کیا گھر میں بھی سب کو روک دوں یا بس رہنے دوں ۔
یہ بیان ہو چکا کہ رکوع سے پہلے قنوت افضل ہے لہذا اس کی ترغیب دلائیں جبکہ رکوع کے بعد بھی جائز ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک رکوع کے بعد دعا افضل ہے جبکہ رکوع سے پہلے جائز ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیا قنوت پڑھنا بھول جائیں رکوع سے پہلے بھی اور بعد میں بھی تو کیا سجدہ سہو کرنا ہو گا۔
قنوت پڑھنا بھول جائیں یا جان بوجھ کر ترک کر دیں، اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا ہے۔شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
سوال؛گزارش ہے كہ آپ وتر ميں پڑھى جانے والى دعاء قنوت ذكر كر ديں ؟
الحمد للہ :
اول:
دعاء قنوت وتر كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد ہوگى، اور اگر ركوع سے قبل بھى پڑھ لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ركوع كے بعد افضل ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ فتاوى ميں كہتے ہيں:
اور رہى قنوت: تو لوگ اس ميں دو فريق اور ايك وسط طبقہ ہے، ان ميں سے كچھ تو كہتے ہيں كہ قنوت صرف ركوع سے قبل ہے، اور كچھ يہ كہتے ہيں كہ: ركوع كے بعد ہے.
اور اہل حديث كے فقہاء مثلا امام احمد وغيرہ دونوں كو جائز قرار ديتے ہيں، كيونكہ سنت ميں يہ دونوں وارد ہيں، اگرچہ انہوں نے ركوع كے بعد قنوت كواختيار كيا ہے؛ كيونكہ يہ اكثر اور اقيس ہے. اھـ
ديكھيں مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 23 / 100 ).
اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).
اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...
اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.
اور بہتر يہ ہے كہ وتر ميں قنوت مستقل نہ كى جائے، بلكہ بعض اوقات كرے كيونكہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قنوت وتر ميں دعاء كرنے كے ليے سكھائى تھى، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
دوم:
اور دعاء قنوت يہ ہے:
حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:
" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "
اے مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں "
اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 429 ).
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).
پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).
سوم:
وتر ميں سلام پھيرنے كے بعد اس كے ليے " سبحان الملك القدوس " تين بار كہنا مستحب ہے، اور تيسرى بار اس كى آواز بلند اور لمبى كرے.
ديكھيں: سنن نسائى حديث نمبر ( 1699 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور دار قطنى كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" رب الملائكۃ والرح "
ان دونوں روايتوں كى سند صحيح ہے.
ديكھيں: زاد العماد لابن قيم ( 1 / 337 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
مجھے آپ کے اس جواب میں دو باتوں کی تشویش لاحق ہوئی ہے جس کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
پہلے آپ نے کہا کہ رکوع سے پہلے افضل ہے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ رکوع سے پہلے دعائے قنوت افضل ہے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت مباح اور جائز امر ہے۔
لیکن اب آپ نے صالح المنجد صاحب کا فتوی نقل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ:
دعاء قنوت وتر كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد ہوگى، اور اگر ركوع سے قبل بھى پڑھ لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ركوع كے بعد افضل ہے.
اب یہ بتائیے کہ افضیلت کس میں ہے۔
(1)رکوع سے پہلے۔
(2)رکوع کے بعد۔
(3)دونوں صورتیں افضل ہیں۔
نیز
اور بہتر يہ ہے كہ وتر ميں قنوت مستقل نہ كى جائے، بلكہ بعض اوقات كرے كيونكہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قنوت وتر ميں دعاء كرنے كے ليے سكھائى تھى، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
کیا اس بات کا مقصد یہی ہے کہ درج ذیل دعا وتر میں مستقل نہیں پڑھنی چاہیے یا اس بات کا مقصود کچھ اور ہے۔
" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "
برائے مہربانی ان دو باتوں کی مزید وضاحت فرما دیں۔اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے آمین۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اب یہ بتائیے کہ افضیلت کس میں ہے۔
(1)رکوع سے پہلے۔
(2)رکوع کے بعد۔
(3)دونوں صورتیں افضل ہیں۔
یہ دونوں قول ہی اہل علم کے ہیں۔ میرا ذاتی رجحان تو پہلے قول کی طرف ہے۔ باقی میرے خیال میں مسئلہ میں توسع اور گنجائش موجود ہے اور اسی قسم کے مسائل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کا کہنا ہے کہ دلائل کے تنوع کی وجہ سے بعض اوقات دونوں قسم کے اقوال کی گنجائش نکلتی ہے اور جو صاحب علم جس قول کو بھی افضل سمجھ کر عمل کرتا ہے وہ عند اللہ ماجور ہے۔
یا اس بات کا مقصد یہی ہے کہ درج ذیل دعا وتر میں مستقل نہیں پڑھنی چاہیے یا اس بات کا مقصود کچھ اور ہے۔
" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "
برائے مہربانی ان دو باتوں کی مزید وضاحت فرما دیں۔اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے آمین۔
جی ہاں! یہی مقصود ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یہ دونوں قول ہی اہل علم کے ہیں۔ میرا ذاتی رجحان تو پہلے قول کی طرف ہے۔ باقی میرے خیال میں مسئلہ میں توسع اور گنجائش موجود ہے اور اسی قسم کے مسائل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کا کہنا ہے کہ دلائل کے تنوع کی وجہ سے بعض اوقات دونوں قسم کے اقوال کی گنجائش نکلتی ہے اور جو صاحب علم جس قول کو بھی افضل سمجھ کر عمل کرتا ہے وہ عند اللہ ماجور ہے۔
جزاک اللہ خیرا
جی ہاں! یہی مقصود ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
پھر دعا کے بغیر وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہو گا؟
اور ایک بات کی مزید وضاحت بھی فرما دیں کہ جان بوجھ کر اگر کوئی وتر نہیں پڑھتا اور فرض پڑھ کے سو جاتا ہے تو کیا وہ گناہگار ہے؟
اسی طرح تمام فرض نمازوں کے شروع اور آخر میں جو سنتیں اور نوافل ادا کیے جاتے ہیں ان کا جان بوجھ کر چھوڑنے والا بھی گناہگار ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پھر دعا کے بغیر وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہو گا؟
اور ایک بات کی مزید وضاحت بھی فرما دیں کہ جان بوجھ کر اگر کوئی وتر نہیں پڑھتا اور فرض پڑھ کے سو جاتا ہے تو کیا وہ گناہگار ہے؟
اسی طرح تمام فرض نمازوں کے شروع اور آخر میں جو سنتیں اور نوافل ادا کیے جاتے ہیں ان کا جان بوجھ کر چھوڑنے والا بھی گناہگار ہے؟
علیحدہ پوسٹ کریں اور ایک پوسٹ میں ایک ہی سوال کریں۔
جب سے ہم نے ایک دن میں ایک سوال کرنے کی پابندی عائد کی ہے تو آپ تیز ہو گئے ہیں اور آپ نے ایک ہی پوسٹ میں کئی سوالات بگھتانا شروع کر دیے ہیں اور پابندی والا مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا ہے۔(ابتسامہ محب)
جزاکم اللہ خیرا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
علیحدہ پوسٹ کریں اور ایک پوسٹ میں ایک ہی سوال کریں۔
جب سے ہم نے ایک دن میں ایک سوال کرنے کی پابندی عائد کی ہے تو آپ تیز ہو گئے ہیں اور آپ نے ایک ہی پوسٹ میں کئی سوالات بگھتانا شروع کر دیے ہیں اور پابندی والا مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا ہے۔(ابتسامہ محب)
جزاکم اللہ خیرا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معذرت علوی بھائی جان۔
جب سے ہم نے ایک دن میں ایک سوال کرنے کی پابندی عائد کی ہے تو آپ تیز ہو گئے ہیں۔
نہیں سر،بلکہ جب سے ایک دن میں ایک سوال کی پابندی عائد کی گئی ہے تو میں محدث فورم کے اصول کے مطابق ایک دن میں ایک سوال پوسٹ کر رہا ہوں۔
اس سے پہلے میں نے ایک دن میں اٹھارہ سوال اور ایک بار ایک دن میں دس سوال کیے تھے۔لیکن اس پابندی کو جان لینے کے بعد میں نے ایک دن میں ایک سوال پوسٹ کرنے کی عادت ڈال لی ہے۔اس بات کو بہتر انداز میں میں یہاں بیان کر چکا ہوں ملاحظہ فرمائیں:
میں محدث فورم کی انتظامیہ سے معذرت کرتا ہوں کہ میں نے اصول و ضوابط سوالات جوابات کے تھریڈ میں نیا بننے والا اصول
اصول نمبر ٦
6. ایک بھائی ایک دن میں ایک سے زائد سوال نہ کریں تاکہ ایک طرف تو سب بھائیوں کو سوال کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف جواب دینے والے پر بھی ضرورت سے زائد بوجھ نہ پڑے۔
نہیں دیکھا تھا اس وجہ سے ایک دن میں دس سوال پوسٹ کر دیے۔لیکن اب معلوم ہو گیا ہے کہ ایک دن میں ایک سوال کرنا ہے لہذا آئندہ خیال رکھوں گا ان شاءاللہ۔
22/06/2011کے بعد میں نے ایک دن میں ایک ہی سوال پوسٹ کیا ہے۔
اور آپ نے ایک ہی پوسٹ میں کئی سوالات بگھتانا شروع کر دیے ہیں
جی بھائی آپ نے سہی کہا لیکن میں اس کو بھگتنا نہیں ،بلکہ ایک ہی پوسٹ میں معلومات کے اضافے کی خاطر موضوع کے متعلق سوالات پوچھنا شروع کر دیا ہے۔
اگر ایک ہی پوسٹ میں کئی سوالات پوچھنا مقصود ہو تو وہ اس طرح ہو گا کہ:
نماز کیا ہے؟
روزہ کیا ہے؟
اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟

لیکن اگر ایک ہی پوسٹ میں موضوع کے متعلق کئی سوالات پوچھنا مقصود ہو تو وہ اس طرح ہو گا کہ:
نماز کیا ہے؟
نماز فجر کی کتنی رکعات ہیں؟
نماز میں خیال آ جانے کے سبب کیا کرنا چاہیے؟

گویا ہر سوال اسی موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔تو ایک ہی پوسٹ میں موضوع کے متعلق سوالات کرنے میں کوئی پابندی محدث فورم کی انتظامیہ کی طرف سے عائد نہیں کی گئی۔
پابندی والا مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا ہے۔
نہیں سر،پابندی والا مسئلہ جان لینے کے بعد 23/24/25 ان ایام کو محمد ارسلان" کی طرف سے ایک دن میں ایک ہی سوال پوسٹ کیا گیا ہے۔جو کہ "محمد ارسلان"اپنی اس (اقتباس میں انڈر لائن کی گئی) بات پر پورے اترے ہیں۔الحمدللہ
میں محدث فورم کی انتظامیہ سے معذرت کرتا ہوں کہ میں نے اصول و ضوابط سوالات جوابات کے تھریڈ میں نیا بننے والا اصول
اصول نمبر ٦
نہیں دیکھا تھا اس وجہ سے ایک دن میں دس سوال پوسٹ کر دیے۔لیکن اب معلوم ہو گیا ہے کہ ایک دن میں ایک سوال کرنا ہے لہذا آئندہ خیال رکھوں گا ان شاءاللہ۔
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
پھر دعا کے بغیر وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہو گا؟
اور ایک بات کی مزید وضاحت بھی فرما دیں کہ جان بوجھ کر اگر کوئی وتر نہیں پڑھتا اور فرض پڑھ کے سو جاتا ہے تو کیا وہ گناہگار ہے؟
اسی طرح تمام فرض نمازوں کے شروع اور آخر میں جو سنتیں اور نوافل ادا کیے جاتے ہیں ان کا جان بوجھ کر چھوڑنے والا بھی گناہگار ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے مہربانی توجہ فرمائیے۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top