• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع پانے والا رکعت شمار نہ کرے

شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
رکوع پانے والا رکعت شمار نہ کرے
یہ چیز تو متفق علیہ ہے کہ نماز میں قیام کرنا فرض ہے اور قراءت واجب ہے۔
دلیل:
1۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ (سورہ البقرہ آیت 238)
ترجمہ: "اور اللہ کے لئے عاجزی سے کھڑے ہو جاؤ"
2۔ اور دوسری جگہ فرمایا:
اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ (سورہ المائدہ آیت 6)
ترجمہ: " جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ"
3۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: " کھڑے ہو کر نماز پڑھ اگر تو اس کی طاقت نہ رکھے تو بیٹھ کر پڑھ" (صحیح بخاری 1117)

اسی طرح نماز میں امام ہو یا مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
دلیل:

1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ (صحیح بخاری 756)
2.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ”شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟“، ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی“۔
(سنن ابو داؤد 823، سنن الترمذی الصلاة ۱۱۵ (۳۱۱)،(تحفة الأشراف: ۵۱۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲)، (حسن) (ابن خزیمة نے اسے صحیح کہا ہے (۳؍۳۶- ۳۷) ترمذی ، دارقطنی اور بیہقی نے بھی حسن کہا ہے (
2؍۱۶۴) ابن حجر نے نتائج الافکار میں حسن کہا ہے )، ملاحظہ ہو: امام الکلام تالیف مولانا عبدالحی لکھنوی (۲۷۷- ۲۷۸)
3. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں“۔ راوی ابوسائب کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو،
(سنن ابو داؤد 821)،
صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۵)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ۲ (۲۹۵۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۱ (۸۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۳۵، ۱۴۰۴۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۹ (۳۹)، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۸۷) (صحیح)
مذکورہ قرآنی آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں قیام فرض ہے اور قراءت واجب۔ رکوع میں ملنے والےکو نہ قیام ملتا ہے اور نہ قرات، گویا اس رکعت میں اس کے دو فرض چھوٹ جاتے ہیں اور رکعت ناقص رہ جاتی ہے۔ لہٰذا اس رکعت کا نہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔


رکوع پانے والا اپنی رکعت شمار نہ کرے:
دلیل:

1. ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم جو پا لو تو پڑھ لو اور جو تم سے فوت ہوجائے تو اسے پورا کرلو"۔ (موطا امام مالک 1/68،69 ح 147 بتحقیقی، صحیح مسلم 1362)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں جو چیز فوت ہو جائے اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسے قیام، قراءت، رکوع،سجدہ ۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام و قراءت کو مستثنیٰ نہیں کیا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں ہے۔ یعنی رکوع پانے والا رکعت پانے والا نہیں ہوتا۔
2.
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی"۔(صحیح مسلم 1371)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ رکعت کا پانا ہی نماز کا پانا ہے اور رکعت میں قیام ،قراءت، رکوع ، سجدہ و تشہد وغیرہ شامل ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ جس نے رکوع یا سجدہ یا تشہد پالی تو اس نے نماز پالی۔
3.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : " (کسی کی) رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع سے پہلے امام کو حالت قیام میں نہ پالے"۔ (جزۃ القراءۃ للبخاری ح131 صحیح الاسناد)
اس اثر سے مسلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ رکوع پانے والا رکعت کو نہیں پاتا۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی کے قائل ہیں۔

ان لوگوں کے دلائل کا جائزہ جو رکوع پانے کو رکعت شمار کرتے ہیں:
دلیل:

1. ابوبکرہ رضی اللہ عنہ ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف (نماز پڑھنے کے لیے) گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ (صحیح بخاری 783)
عام طور پر اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہےکہ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو رکعت لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ حالانکہ ایسا کہنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں کہاں ہے کہ انہوں نے رکوع میں شامل ہوجانے کی وجہ سے اس رکعت کو شامل کیا تھا۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کو ادا نہیں کیا تھا۔ اور جب یہ چیز حدیث میں نہیں تو یہ حدیث رکوع میں ملنے سےرکعت شمار کرنے کی دلیل کیسے ہو سکتی ہے۔ پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ پہلی رکعت کے رکوع میں ملے تھے یاکسی اور رکعت کے رکوع میں ملے تھے۔ اگر کسی اور رکعت کے رکوع میں ملے تھے توپھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام پھیرنے کے بعد ضرور فوت شدہ رکعتیں پڑھی ہوں گی۔ہو سکتا ہے اسی میں وہ رکعت بھی شامل ہوجس کے رکوع میں وہ ملے تھے۔
الغرض جن باتوں کی تصریح اس حدیث میں نہیں ہے محض قیاس سےان کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں: "مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کے ساتھ میں رکعت نہ پا سکوں لہٰذا میں تیزی سے چلا" (جزءالقراءۃ ص47)
اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن مرداس ہے ۔امام ابو حاتم فرماتے ہیں یہ مجہول ہے۔(تہذیب التہذیب)لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے اور نا قابل حجت ہے۔

2. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ، وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: " إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا، وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ "
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پالی“۔ (سنن ابو داؤد 893)
اس حدیث کی سند میں ایک راوی یحیٰ بن ابی سلیمان ہے۔

· امام بخاری فرماتے ہیں: یحیٰ منکر الحدیث ہے۔ آگے لکھتے ہیں اس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ (جزء القراءۃ ص56)
· امام عقیلی نے انہیں الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
· امام ابو حاتم کہتے ہیں کے یہ مجھول ہے۔یہ قوی نہیں ہے۔ اس کی حدیث میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ (الجراح والتعدیل الابن ابی حاتم9/155 رقم الروی 640)۔
· حافظ ابن حجر عسقلانی نے التقریب میں لین الحدیث کہا ہے۔
· حافظ زبیر علی زئی نے بھی اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔ (سنن ابو داؤد 893 تحقیق زبیر علی زئی)
الغرض یہ حدیث ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رکعت پانے والا نماز پالے گا۔ اور رکعت میں قیام، قراءت ،رکوع و سجود سب شامل ہیں۔

3. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ".
ترجمہ: ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز (باجماعت) پا لی اس نے نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔
جو لوگ رکوع میں ملنے سے رکعت مانتے ہیں وہ اس حدیث میں رکعت کے معنی رکوع کرتے ہیں اور صلوٰۃ کے معنی رکعت کرتے ہیں۔ ان کے لحاظ سے حدیث مذکور کا ترجمہ یہ ہوا۔ "جس نے رکعت میں سے رکوع پا لیا اس نے رکعت پالیا"۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں دو لفظوں کے بلا ضرورت ایسے معنی کئے گئے ہیں جو اصطلاحاً معروف نہیں لہٰذا یہ حدیث بھی حجت نہیں۔

خلاصہ: ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے۔ رکوع میں ملنے کی صورت میں قیام اور قراءت دو اہم رکن نہیں ملتے لہٰذا رکعت ناقص ہو جاتی ہے جسے دہرانا ضروری ہے۔
والله اعلم باالصواب!

 
Top