محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ۰ۭ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۲۸۳ۧ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۰ۭ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ۰ۭ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۸۴
بعض نے اس کی تاویل یہ فرمائی کہ اس سے مراد کتمان شہادت ہے ۔ بعض نے فرمایا اس کا مقصد کفر ونفاق کا خیال ہے ۔ کہا ۔ یہ منسوخ ہے آیت مابعد سے مگر اگر غور کیاجائے اور خیال وفکر کے نتائج پر بنظر امعان نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت نفسی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور کسی آیت وحدیث سے معناً اس کا تصادم نہیں ہوتا اس لیے تخصیص اور تنسیخ کا سوال ہی غلط ہے ۔ دماغ وقلب میں جتنے خیالات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے جو بعض دفعہ نہایت لطیف وکمزور ہونے کی وجہ سے جوارح تک منتقل نہیں ہوتا اورنفس کی اگرتحلیل کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خیالات وافکار میں محاسبہ کا عمل کارفرما ہے۔
چھوٹے سے چھوٹا خیال جو براہو، وہ بلاذہنی تعزیر کے نہیں رہتا۔ اسی طرح اچھا خیال وجذبہ ذہن کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام برے اعمال برے خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کیا برائی برے خیال کی عملی سزا نہیں؟
اس آیت میں اسی نفسیاتی اصول محاسبہ کو بیان فرمایا ہے اور مقصدیہ ہے کہ مسلمان جذبۂ تاثر کے لحاظ سے بھی بہترین انسان ثابت ہو۔
حدیث وآیت مابعد کا تعلق اس نفس محاسبہ سے نہیں بلکہ اس محاسبہ سے ہے جو قضایا خارج سے تعلق رکھتا ہے ۔ یعنی کسی چور کو محض اس لیے سزا نہیں دی جائے گی کہ اس کے دل میں چوری کے خیالات ہیں بلکہ اس وقت وہ سزا کا مستحق ہوگاجب یہ خیالات اسے چوری کے لیے مجبور کردیں، البتہ خدا کے نزدیک اسے پاکیزہ دماغ اورپاکیزہ نفس انسان نہیں کہا جاسکے گا اور ایسے انسان میں جس کے دل میں چوری کا کوئی خیال نہیں،یقینا زیادہ فضیلت ہے۔
۱؎ ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے اس لیے کہ ناواقفی کے وقت اس کے سوا چارہ ہی نہیں، البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہیے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے۔ اور اس کی پائی پائی چکا دے۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں،کیوں کہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔اوراگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن ہاتھ میں رکھ لو۔۱؎ پھر اگر ایک دوسرے کااعتبار کرے تو چاہیے کہ وہ شخص جس پر اعتبار کیا گیا ہے اس کی امانت اس کو ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اورجس نے گواہی کو چھپایا، اس کا دل گنہگار ہے اور خدا تمہارے کام خوب جانتا ہے۔(۲۸۳)جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اوراگر تم اپنے دل کی بات کھولو یا چھپاؤ، اس کا حساب اللہ تم سے لے گا۔ پھر جسے چاہے گا، بخشے گا اور جسے چاہے گا، عذاب کرے گا اور خدا ہرشے پر قادر ہے ۔۲؎ (۲۸۴)
۲؎ اس سے پہلے کی آیات میں کتمان شہادت سے منع فرمایا اور بتایا کہ ہردھوکے اور فریب سے بچو ۔ اس آیت میں اعلان کیا ہے کہ دوسروں کے متعلق برے خیالات رکھنا بھی موجب گناہ ہے ۔ یعنی مسلمان کواعمال وجوارح سے لے کر قلب وخیال کی گہرائیوں تک پاکیزہ ہونا چاہیے مطلب صاف اور واضح ہے مگرچونکہ اس کے بعد ہی لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاکی آیت ہے۔یعنی خدا تکلیف مالایطاق نہیں دیتااور حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ غَفَرَ لِھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ مَاحَدَثَتْ بِہٖ اَنْفُسُھُمْ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت پر فضل کیا ہے کہ وساوس کو قابل عفو ٹھہرایا ہے، اس لیے شبہ پیدا ہوا کہ پھرنفس کے خیالات وافکار پر محاسبہ کیسا؟محاسبہ ٔ نفس
بعض نے اس کی تاویل یہ فرمائی کہ اس سے مراد کتمان شہادت ہے ۔ بعض نے فرمایا اس کا مقصد کفر ونفاق کا خیال ہے ۔ کہا ۔ یہ منسوخ ہے آیت مابعد سے مگر اگر غور کیاجائے اور خیال وفکر کے نتائج پر بنظر امعان نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت نفسی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور کسی آیت وحدیث سے معناً اس کا تصادم نہیں ہوتا اس لیے تخصیص اور تنسیخ کا سوال ہی غلط ہے ۔ دماغ وقلب میں جتنے خیالات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے جو بعض دفعہ نہایت لطیف وکمزور ہونے کی وجہ سے جوارح تک منتقل نہیں ہوتا اورنفس کی اگرتحلیل کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خیالات وافکار میں محاسبہ کا عمل کارفرما ہے۔
چھوٹے سے چھوٹا خیال جو براہو، وہ بلاذہنی تعزیر کے نہیں رہتا۔ اسی طرح اچھا خیال وجذبہ ذہن کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام برے اعمال برے خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کیا برائی برے خیال کی عملی سزا نہیں؟
اس آیت میں اسی نفسیاتی اصول محاسبہ کو بیان فرمایا ہے اور مقصدیہ ہے کہ مسلمان جذبۂ تاثر کے لحاظ سے بھی بہترین انسان ثابت ہو۔
حدیث وآیت مابعد کا تعلق اس نفس محاسبہ سے نہیں بلکہ اس محاسبہ سے ہے جو قضایا خارج سے تعلق رکھتا ہے ۔ یعنی کسی چور کو محض اس لیے سزا نہیں دی جائے گی کہ اس کے دل میں چوری کے خیالات ہیں بلکہ اس وقت وہ سزا کا مستحق ہوگاجب یہ خیالات اسے چوری کے لیے مجبور کردیں، البتہ خدا کے نزدیک اسے پاکیزہ دماغ اورپاکیزہ نفس انسان نہیں کہا جاسکے گا اور ایسے انسان میں جس کے دل میں چوری کا کوئی خیال نہیں،یقینا زیادہ فضیلت ہے۔
{ ٰاثِمٌ} مصدر اِثم۔ مجرم{اِثْمٌ} بمعنی گناہ۔حل لغات