- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
سم اللہ الرحمن الرحیم
ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات
اسباب وعلاج اور انجام
ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات
اسباب وعلاج اور انجام
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،أمابعد:۔
محترم قارئین!
مذہب اسلام میں ایک عورت ذات کی جو اہمیت ہے وہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی ہے،ایک عورت کے جتنے بھی روپ ہیں ان تمام روپ کے اندر عورت کو جو مقام مذہب اسلام نے دیا ہے اس کی نظیر ومثال پوری دنیا کے مذہب بھی مل کر پیش نہیں کرسکتے ہیں،اب ذرا دیکھیے کہ اگر عورت بیوی ہوتو اسلام نے اسے سکون کا باعث قراردیتے ہوئے یہ کہا کہ تمہاری بیویاں یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے(الروم:21)اور اگر عورت بیٹی ہو تو اسلام نے بیٹی کو باعث رحمت قراردیتے ہوئے اس بات کی خبر دی کہ جو شخص بھی بیٹی کی اچھی طرح سے پرورش کرے گا اور اسے اخلاق حسنہ سے متصف کرے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا(بخاری:1418،مسلم:2629)اور اسی طرح سے عورت اگر ماں ہوتو اسلام اس کے ساتھ سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے کاحکم دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ تم انہیں اف تک نہ کہنا(الاسراء:23)اور اگر عورت پرائی ہو تو اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اس کی طرف نگاہ بھی اٹھا کر مت دیکھنا،(النور:30)اسی کے برعکس دوسرے مذاہب میں عورت کو بس ہوس کو پورا کرنے والا ایک آلہ سمجھا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہندوستان میں کسی بھی ذات ودھرم کی عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ہے،معصوم لڑکیوں سے لے کر بڑی عمر کی خواتین تک کی عزتیں لوٹی جارہی ہے،یہ ہوس کے پجاری ان بچوں اور عورتوں اور لڑکیوں کا پہلے گینگ ریپ کرتے ہیں اور پھر بڑی ہی بے دردی سے ظالمانہ اور وحشیانہ انداز میں ان کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں۔
افسوس صدافسوس جس ملک کو سونے کا چڑیا کہاجاتا تھا اور یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ آج اسی ملک کی معصوم بچیوں،عورتوں اور لڑکیوں کی نہ تو عزتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی جانیں محفوظ ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جس دن اخبار کے پہلے صفحے پر یہ خبر نہ ہو کہ ہمارے ملک کے فلاں شہرمیں کسی عورت کے اوپر ایسڈ اٹیک(تیزاب)کاحملہ کیا گیا، فلاں شہر میں کسی عورت کو جہیز نہ لانے کی وجہ سے زندہ جلادیا گیا، فلاں گاؤں میں کسی عورت کو قتل کردیا گیا،فلاں شہر میں کسی لڑکی کا کڈنیپ(اغوا )کرلیا گیا ،ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ہندوستان میں 2012 کے نربھیا کیس کے بعد 2013 سے لے کر 2019 تک دولاکھ بیالیس ہزار لڑکیوں اور عورتوں کا ریپ کیا گیا ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک کے اندر ہردن 95 ریپ ہوئے یعنی کہ ہر گھنٹے میں چار ریپ ہوا،نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں 2018 میں مجموعی طور پر 33 ہزار 977 ریپ ہوئے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارےبھارت میں ہر 15 منٹ میں ریپ کا ایک واقعہ پیش آتا ہےگویا کہ ہردن 88 ریپ ہوتے ہیں ،اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں چار لاکھ اور 2018 میں تین لاکھ 78 ہزار اور 2017 میں تین لاکھ انسٹھ ہزار مقدمات عورتوں کے اوپر ظلم وزیادتی اور ریپ وقتل کے معاملات درج کیے گئے اور اگر ہم ان معاملات پر کام کرنے والے کارکنوں کی بات کو تسلیم کرلیں تو ان کے مطابق اصل تعداد تواس سے کہیں زیادہ ہوں گی کیونکہ بہت سے مقدمات تو درج ہی نہیں کیے جاتےکیونکہ بہت ساری خواتین ولڑکیاں جن کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہےوہ اپنی عزت وجان کے ڈروخوف کی وجہ سے پولیس تک جاتے ہی نہیں ہےیاپھر انہیں روپیہ پیسہ دے کر خاموش کردیا جاتا ہے،یہی نہیں ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ریپ کے معاملے میں ہماراہندوستان تیسرے نمبر پر ہے پہلے نمبر پر امریکہ اور دوسرے نمبر پرجنوبی افریقہ ہے،ایسا محسوس ہورہاہے کہ ہمارا ہندوستان اب ریپ استان بنتا جارہاہے،گذشہ چندسالوں میں تو اس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتاجارہاہے ،پورے اعدادوشمار اور نیشنل کرائم کے رپورٹ کے مطابق آج ہمارےملک میں کسی بھی مذہب ودھرم اور کسی بھی ذات کی لڑکیوں اور عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ 2018 میں ’’تھامس روئٹر فاؤنڈیشن ‘‘ نےسروے کرتے ہوئے یہ کہا کہ:
’’ India as the most dangerous country for women‘‘
یعنی کہ انڈیا عورتوں کے بہت خطرناک ملک ہے۔(دی ٹائمس آف انڈیا)
اور اس کی جیتی جاگتی تصویریں اور منہ بولتا ثبوت وہ واقعات ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہوئے ہیں، جیسے کہ 2012 میں نربھیا کا کیس، پھر آصفہ معصوم بچی کا واقعہ ،پھر حیدرآباد کا واقعہ،پھر ہتھرس کا واقعہ،اور اب 27 اگست کو دہلی کی مسلم لیڈی پولیس کا دردناک و خوفناک طریقے سے ریپ و قتل کےواردات نے سب کے ہوش اڑا دئے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر ہمارا ملک کس اُور جارہا ہے ،جب ہمارے ملک میں ایک پولیس کی جان وعزت ہی محفوظ نہیں تو عوام پبلک کی عزتیں اور جانیں کیسے محفوظ ہوسکتی ہیں۔
محترم قارئین!!
ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے اب ہر کوئی اس کی روک تھام کے سد اسباب کے بارے میں سوچ رہاہے،کوئی کہہ رہا ہے کہ ایسے لوگوں کو گولی مار دینی چاہیے،کوئی کہہ رہاہے کہ ایسے لوگوں کو پھانسی دے دینی چاہیے،کوئی کہہ رہاہے کہ ایسے لوگوں کو نامرد بنادینی چاہیے گویا کہ اہل زمانہ چاروناچار دبے الفاظ میں ریپ کے بڑھتے ہوئے کیس کو دیکھتے ہوئے اسلامی قانون کی بات کررہے ہیں،کل تک جو لوگ اسلام کے اوپر انگلی اٹھارہے تھے آج وہی لوگ اسی تعلیم اور اسی کی قانون کی راگ الاپ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک اسلامی قانون پر عمل نہ کیا جائے گا اسی طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا،اسلام صرف قانون ہی بتاتا نہیں ہے بلکہ اسلام تو سب سے پہلے یہ حکم دیتا ہے کہ وہ تمام راستے کو ہی بند کردیا جائے جس کی وجہ سے یہ سارے جرائم وجود پذیر ہوتے ہیں،سوچنے اور غوروفکر کرنے والی بات ہے کہ آخر اس کے اسباب و علاج کیا ہیں؟آخر وہ کون سے اسباب ہیں جس کی وجہ سے ریپ کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے؟اور وہ کون سے علاج کے طریقے ہیں جن کو اپنانے سے ہمارے ملک کی خواتین کی عزتین وجانیں محفوظ ہوسکتی ہیں؟آئیے اب اس بارے میں جانتے ہیں کہ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اسباب وعلاج کیا کیا ہیں؟میری نظر میں اس کے دس بڑے اسباب وجوہات ہیں،مندرجہ ذیل میں اسباب کے ساتھ ساتھ اس کے خاتمے کا علاج بھی ہم نے بیان کردیا ہے :
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا
(1) پہلا سبب: شراب نوشی:۔
ہمارے ملک میں ریپ وقتل کے بڑھتے ہوئے واقعات میں سب سے زیادہ جو اضافہ کرنے والی چیز ہے وہ ہے شراب نوشی،ہمارے ملک میں کھلے عام شراب بیچی جاتی ہے اورحکومت ہی تو شراب کا لائسنس دیتی ہے جس کا نتیجہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہیں کہ جتنے بھی ریپ اور پھر وحشیانہ طریقے سے مرڈر ہوتے ہیں آپ نے سنا اور دیکھا ہوگا کہ واردات کے انجام دینے والوں نے شراب کے نشے میں ایسااورایسا کیا، اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ ایک شرابی نشے کی حالت میں اپنی ماں ،بہن اور بیٹی کو بھی اپنی ہوس کا شکار بنا سکتا ہےاور اس طرح کے کئی واقعات اخبار کے زینت بن چکے ہیں ،جب شراب کا معاملہ ایسا ہے تو پھر غیروں کی بیٹیاں کیسےبچ سکتی ہیں؟ ایسی بات نہیں ہے کہ حکومت اس بات سے واقف نہیں ہے وہ سب جانتی ہے مگر خاموش تماشہ بنی بیٹھی رہتی ہے کیونکہ انہیں شراب سے بھاری سرمایہ حاصل ہوتا ہے،شراب کے انہیں انفرادی واجتماعی خرابیاں و ہلاکت خیز یاں کی وجہ سے تو اسلام نے اسے حرام قراردیتے ہوئے اسے ام الخبائث قراردیا ،اسلام کا کوئی بھی قانون فطرت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے جتنے بھی حرام کردہ چیزیں ہیں اس میں پوری انسانیت کے لیے امن وامان ہے۔
علاج:ریپ ومرڈر کے واردات کو اگر حکومت روکناچاہتی ہےاور اپنے عوام کی جان ومال کو بچانی چاہتی تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے شراب کے اڈوں کو بندکردے اور شراب کا لائسنس دینا بندکرے۔
(2) دوسرا سبب:اشلیل گانے وپوسٹرس اور گندی فلمیں:۔
ریپ وقتل کے بڑھتے ہوئے اسباب میں سے ایک سبب آج کل بننے والی فلمیں اور ان فلموں کے پوسٹرس اور گانے ہیں جن کے اندر جذبات کو بھڑکانے کا پورا سازوسامان موجود ہوتا ہے،فلموں کے اندر ہیرو او ر ہیروئینوں کے کے بوس و کنار کے جومناظر دکھائے جارہے ہیں اور پھر ان مناظر کے جو پوسٹرس بازاروں کے چوک چوراہوں پر لگائے اور دکھائےجاتے ہیں اس کو دیکھنے کے بعد آج کا انسان ظالم بھیڑیا نہیں بنے گا تو کیا بنے گا، یوں سمجھئے کہ بس نام کا فرق ہےہیرواور ہیروئن پردے کے پیچھے کرتے ہیں تو انہیں ایکٹر اور ایکٹرس کہا جاتا ہے اور وہی چیزیں سماج ومعاشرے کا کوئی فرد ریئل لائف میں انجام دے تو وہ بلتکاری اور قاتل کہلاتا ہے۔
علاج:حکومت اگر اپنے عوام کا بھلاچاہتی ہے اور انہیں جان ومال کا تحفظ دیناچاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ اشلیل گانوں ا ور نیم عریاں پوسٹرس اور فلموں و سیریلوں میں جذبات کو بھڑکانے والی مناظر پر روک لگائے، فحاشی اور عریانیت کے اڈوں کا لائسنس دینا بند کرے،افسوس صد افسوس کہ یہ سب مناظر بھی حکومت کی پرمیشن کے ماتحت ہی بنائے جاتے ہیں ،جب حکومت ہی اس طرح کے مناظر کو عام کرنے کی اجازت دے گی تو پھر عوام کی جانیں وعزتیں کیسے محفوظ ہوسکتی ہیں؟
(3) تیسرا سبب: مخلوط تعلیم اور فرینڈشپ :۔
ہمارے ملک میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات میں اضافہ کرنے والی ایک چیز اور ایک سبب مخلوط تعلیم بھی،مخلوط تعلیم کے مطابق اسکول اور کالج میں بالغ لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتی ہیں، کھیل کود میں ایک ساتھ حصہ لیتی ہیں، پارکوں اورسنیماؤں میں ساتھ رہتی ہیں،خلوت اور جلوت میں ایک ساتھ رہتی ہیں،راتیں ایک ساتھ گذارتی ہیں ،بازاروں میں سیروتفریح ایک ساتھ کرتی ہیں تو بھلاایسے کیسے ممکن ہے کہ ایک ساتھ آگ بھی ہو اور سوکھی گھاس بھی ہو اور اس میں آنچ نہ لگے،اکثروبیشتر مخلوط تعلیم میں اعلی ڈگریاں حاصل کرنے والی لڑکیاں زنا یا پھر زنا بالجبر کا شکار ضرور بالضرور ہوجاتی ہیں ، انہیں مخلوط تعلیم کے اندر عشق ومعاشقے کے پاٹھ لڑکے اور لڑکیاں لیتے ہیں اور اپنی عزت بھی گنواتے ہیں اور اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں،اور اسی چکر میں آج کل کی کثیر تعداد میں مسلم لڑکیاں مرتد بھی ہوتی جارہی ہیں تبھی تو اکبرالہ آبادی نے کہا تھا کہ:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علاج :اس کا علاج یہی ہے کہ اگر ہم ہندوستانی اپنی اپنی بیٹیوں کی عزت وجان کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو سب اپنی اپنی لڑکیوں کو ایسی جگہ تعلیم دلائیں جہاں مخلوط تعلیم نہ ہو،الحمد اللہ آج بھی بڑے بڑے سرکاری وغیرسرکاری ادارے ایسے ہیں جہاں پر صرف لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے، ہم اس کی طرف رخ کریں اور اعلی سے اعلی تعلیم دلائیں کیونکہ اعلی تعلیم دلانے سے نہ تو اسلام روکتا ہے اور نہ ہی کوئی اہل علم اس سے منع کرتے ہیں بلکہ اسلام تو یہی چاہتا ہے کہ سب پڑھیں اور آگے بڑھیں ہاں بنی نوع انسانیت کی بقا ،عزت وجان کی سلامتی اور سماج ومعاشرے ،قوم وملت اور ملک وشہر اور قصبے کے امن ومان کے لیے اسلام کااتنا کہنا ہے کہ ہراس جگہ سے دوری اختیار کی جائے جہاں پر جان ومال اور عزتیں محفوظ نہ ہوں۔
(4) چوتھا سبب: نیم عریاں لباس وبے پردگی:۔
ہمارے ملک میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اسباب ووجوہات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اگر میں یہ کہہ دوں کہ اس میں بے پردگی اور نیم عریاں لباس کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے تو یہ بیجا نہ ہوگا ،اسی عریانی وبے پردگی کی وجہ سےہی ہرآئے دن ریپ وقتل ہورہے ہیں ،جب لڑکیاں نیم برہنہ چست وفٹنگ ادھورے کپڑوں میں ملبوس ہوکراپنے حسن کی نمائش کرتی ہوئی بازاروں میں اورسڑکوں پر چلتے ہوئے نظر آئیں گی تو کیا ہوگا،یہی سب ہوگا جو آج کل ہمارے ملک میں ہورہا ہے،اس کی مثال آپ کچھ یوں سمجھیں کہ کتوں اور درندوں کے سامنے میں اگر گوشت کا لوتھڑا پھینکا جائے تو کیا کتےاور درندے اس کو کھانے سے باز آئیں گے ہر گز نہیں بلکہ گوشت کے لوتھڑے کو پھینکتے ہی چہارجانب سے کتے اور درندے اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور ایسا ہی کچھ نیم عریاں لباس زیب تن کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ انہیں اس طرح سے دیکھ کر درندہ صفت لوگ انہیں اپنے ہوس کا شکار بناتے ہیں اور پھر درندوں کی طرح چیرپھاڑکرتےہیں،افسوس صد افسوس ایک طرف ملک میں بڑھتے ہوئے اس طرح کے دلخراش واقعات ہورہے ہیں اور دوسری طرف کرناٹک کا ایک سابق وزیرشیونا حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ برقعے پر پابندی عائد کردیا جائے کیونکہ یہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے،(منصف اخبار کا پہلا صفحہ بتاریخ: 8/ ستمبر 2021)تف ہے ایسے لوگوں کے عقلوں اور پھر ان کی بیان بازی پرکہ انہیں برقع نظر آرہاہے مگر ملک میں ہر پندرہ منٹ میں ایک ریپ ہورہاہے ،ملک کی بیٹیوں کا کڈنیپ ہورہاہے ،ملک کی خواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیا جارہا ہے وہ انہیں نظر نہیں آرہاہے،موجودہ حکومت کو کسانوں کے خلاف بل بنانے تو آتا ہے مگر بلتکاریوں کو سزادینے کے لیے کوئی قانون بنانا نہیں آتا ہے،طلاق کے خلاف بڑے ہی زوروشور سے بل کو پاس کیا گیا مگر ملک میں ہردن 95 ریپ ہورہاہے اس پر کوئی بل نہیں،موجودہ حکومت کو سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کا قانون بنانے میں مزہ آتا ہے مگر ملک کی بیٹیاں وحشیانہ طریقے سے ریپ اور پھر مرڈر کیا جارہا ہے،جہیز نہ لانے کی پاداش میں زندہ جلائی جارہی ہیں اس پر انہیں بل پاس کرنے کی فکر تو دور کی بات ہے ان سب واقعات سے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔اے اہل وطن عقل کے ناخن لو۔
علاج:ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات وواردات کو اگر اہل ملک روکنا چاہتے ہیں اور اپنی اپنی بیٹیوں کی عزت وجان کو بچانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے وہ مگرمچھ کے آنسوبہانے اور سیاست کے توے پر اپنی سیاسیت کی روٹی سینکنے والےلیڈروں کے بیان بازی میں نہ آئیں اور اپنی اپنی بیٹیوں کو پردہ کرائیں کیونکہ اسلام کا یہ کہنا اور ماننا ہے اور يه حقیقت ہےکہ جو پردہ کرتی ہیں انہیں نہ تو اس طرح کے واردات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی عزت گنوانی پڑتی ہے ۔(القرآن:سورہ احزاب:59)
(5)پانچواں سبب: خواتین کا اکیلے سفر کرنا:۔
ریپ اور پھر وحشیانہ طریقے سے قتل کے واردات کے پیچھے ایک اہم سبب لڑکیوں کا اکیلے سفر کرنا بھی شامل ہے،آج کل لڑکیاں اور خواتین کبھی تعلیم کے نام پر تو کبھی نوکری کے نام پریا پھر کبھی آزادی کے نام پر دوردراز کا سفر تن تنہابسوں اور ٹرینوں اور آؤٹو میں کرتی ہیں،سنسان راہوں سے گذرتی ہیں اور جب غنڈے اور لٹیرے انہیں اس طرح سے اکیلے سفر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کے اوپر حملہ کردیتے ہیں۔
علاج: قربان جائیں اسلام کے تمام احکام پر کہ اسلام نے دنیا کو کتنا پاکیزہ نظام دیا ہے مگر اہل دنیا خود اس کی تعلیم کو لینا نہیں چاہتے ہیں نتیجہ اپنے برے انجام کو بھگت رہے ہیں اب اسی چیز کی مثال لے لیجیے کہ اسلام نے بہت پہلے ہی اس بات کی تلقین کردی ہے کہ کوئی بھی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی محرم یعنی باپ،بھائی،بیٹا،چچا یا مامو وغیرہ نہ ہو،اسلام کا یہ حکم کتنا اہم ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سےبھی لگا سکتے ہیں کہ حج جیسی عظیم فریضہ بھی ایک عورت بغیر محرم ادا نہیں کرسکتی ہے ، اسلام کی تعلیمات کو فرسودہ سمجھنے اور قرار دینےوالوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے کہ موجودہ دور کی انہیں خرابیوں اور ہلاکتوں کی وجہ سے ہی تو اسلام نے برسوں پہلے ایک عورت کو اکیلے سفر کرنے سے منع کیا ہے،دنیا کے انہیں سب خدشات وہلاکت خیزیاں کی وجہ سے ہی تو اسلام نے عورتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ گھروں میں زیادہ رہاکریں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ جایا کریں کیونکہ جو عورت اپنے گھر میں جتنی زیادہ ٹکے گی اتنی ہی زیادہ وہ سیف (محفوظ) رہے گی۔(الاحزاب:33)
علاج:اس کا سد باب یہی ہے کہ اگر ہندوستانی افراد اپنی بہو ،بیٹیوں اور اپنی خواتین کی عزتوں او رجانوں کی سلامتی چاہتے ہیں تو پھر اپنی اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو اکیلے کہیں نہ بھیجیں چاہے اسکول ہوں یا پھرکالج ، ٹیوشن سینٹر ہوں یا پھر کسی سہیلی کے گھر ،بازار ہوں یا پھرکہیں اورغرض کہ ایک لڑکی جب بھی گھر سے باہر نکلے تب اس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ کوئی اپنا ضرور ہو۔
(6) چھٹا سبب:خواتین کا تاخیر سے گھر لوٹنا:۔
پچھلے کچھ دنوں میں ریپ ومرڈر کے جو واقعات پیش آئے ان سب میں ایک بات یکسانیت طور پر پائی گئی کہ ریپ ان کے ساتھ اس وقت ہوا جب وہ دیر رات اکیلے اپنے گھر لوٹ رہی تھی،جب عورتیں ونوجوان لڑکیاں اپنی اپنی جاب سے دیررات اکیلے گھر کے لیے نکلتی ہے اور جب وہ سنسان علاقوں اور گلیوں اور سڑکوں سے گذرتی ہے تو ان کے اوپر حملہ کیا جاتا ہے،ظاہر سی بات ہے کہ لڑکیوں کو اکیلا دیکھ کر غنڈے اور موالیوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ بلاجھجک ان کے اوپر حملہ کردیتے ہیں،ویسے بھی رات جب تاریک ہو اورانسان اکیلا ہو تو کتا بھی دوڑا دیتا ہے۔
علاج: قربان جائیں اسلام کی ایک اورتعلیم پر کہ اسلام نے پہلے ہی لوگوں کو اس بات کی تعلیم دے دی ہے کہ جب رات تاریک ہوجائے تو اپنے اپنے گھروں سے نہ نکلا کرو کیونکہ رات کی تاریکیوں میں اللہ ایسی ایسی مخلوق کو نکالتا ہے جن کو تم دیکھ بھی نہیں سکتے ہو،بنابریں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں محفوظ رہیں تو پھر اپنی عورتوں کو تاخیر سے گھر لوٹنے پر پابندی لگادیں،شام ہونے سے پہلے پہلے انہیں اپنے گھر میں رہنے کا پابند بنائیں۔
ایسی بات نہیں ہے کہ اسلام اور اسلام کے تمام احکام صرف مسلمانوں کے لیے ہے نہیں بلکہ اسلام کا پیغام اور اسلام کی تمام تعلیمات پوری دنیا کے لیے ہے ،جب تک اہل دنیا اس کے احکام کونہیں اپنائیں گے تب تک وہ اسی طرح سے ذلت ورسوائی کے عمیق گڑھے میں گر کر اپنی دنیا وآخرت تباہ وبرباد کرتے رہیں گے۔
(7) ساتواں سبب: آزادیٔ نسواں :۔
ریپ کے بڑھتے ہوئے معاملات اور واردات کے پیچھے ایک سبب عورتوں اور خواتین کی آزادی ہے،والدین اپنی اپنی بچیوں کو حد سے زیادہ آزادی دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جائیں اور آئیں ،جس سے چاہے دوستیاں اور یاریاں کریں ،آج کے ماڈرن والدین یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں پر پورا بھروسہ ہے وہ ایسا ویسا کچھ نہیں کرے گی اور جب کچھ ہوجاتا ہے تو پھر یہی والدین سسکتے اور بلکتے اور روتے دھوتے رہ جاتے ہیں اور یہ چیز روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ جو عورت بھی جتنی زیادہ باہر کا چکر لگاتی ہے اتنی ہی زیادہ وہ اپنے لیے ہلاکت وبرادی کا سامان مہیا کراتی ہےمزید اس طرح کی سوچوں اور فکروں کو بڑھاوا دینے میں سب سے زیادہ آزادیٔ نسواں اور حقوق نسواں کی تحریکیں اور ان کے پرفریب نعرے ہیں کہ لڑکیوں کو ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ رہنی چاہیے،لڑکیوں کو بھی کمانا چاہیے ،اور جب سے آزادیٔ نسواں کی تحریکیں اٹھی اور خواتین کو یہ نعرے دئے گئے کہ ہماری جسم ہماری مرضی،ہم جو چاہیں پہنیں ،ہم جہاں چاہیں وہاں جائیں ،ہم جس سے چاہیں اس سے اپنا تعلقات بنائیں کسی مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں روکیں تبھی سے ریپ اور قتل کے کیسوں میں اضافہ ہونے لگا ہے،کاش کہ بنت حوا اس پرفریب نعرے کے پیچھے دجالی فتنوں کو سمجھ پائے۔
علاج: زنابالجبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے یہ بے حدضروری ہے عورت کے اوپر جو جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں بس وہ انہیں ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مصروف عمل رہیں،مردوں کے لیے کھلونا نہ بنیں بلکہ اپنے گھر کی چہاردیواری میں ملکہ بن کر زندگی گذاریں اور یہی ان کے لیے سود مند ہیں اور اسی میں ان کی عزتیں اور جانیں محفوظ رہ سکتی ہیں،انہیں سب ہلاکتوں وبربادیوں کی وجہ سے ہی تو اسلام نے عورتوں کو کماکر لانے کا مکلف نہیں کیا بلکہ مردوں کوان کا محافظ ونگراں بنا کر یہ مکلف کیا کہ تم انہیں کھلاؤ پلاؤ اور ان کی دیکھ ریکھ کرو۔
(8) آٹھواں سبب:موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیا:۔
تاریخ گواہ ہے کہ سائنس نے جتنی زیادہ لوگوں کو سہولیتیں دی ہیں اس سے کہیں زیادہ انہیں نقصان سے دوچار کیا ہےیہ اور بات ہے کہ انسانوں کو اس بات کا احساس ہویا پھرنہ ہو،سائنس کی ایجادات میں سے ایک اہم چیز موبائل وانٹرنیٹ ہےاس چیز نے جہاں ایک طرف لوگوں کو فائدپہنچایا وہیں پر نئی نسل کو ہلاکت وبربادی کے راستے پر لا کھڑاکردیا ہے معصوم بچوں سے لے کر جوان وبوڑھے مرد وخواتین سب کے سب اس کے زلفوں کے اسیر ہوچکے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ کھائے پیئے بغیر تو رہ سکتے ہیں مگر اس کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتےہیں،نوجوان لڑکیاں شوشل میڈیا پر فرینڈ لسٹ اور اپنے فالورس کوبڑھانے کے چکر میں اپنی خوبصورت تصاویراپلوڈ کرتی ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے آئی ڈی کو دیکھ کر کوئی ہوس کا پچاری ان کا تعاقب کرتا ہےاور پھر موقع دیکھ کر ان پر کاری ضرب لگادیتا ہےاور یہ کوئی ڈھکی اور چھپی ہوئی بات نہیں ہے یقینا :
اسی موبائل وانٹرنیٹ اورشوشل میڈیانے لوگوں اور بالخصوص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک دوسرے سے تعلقات بنانا آسان کیا۔
اسی موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیانے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بے حیائی کاسبق سکھایا ہے۔
اسی موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیانے لوگوں کو ناجائز تعلقات قائم کرنے کا راستہ سکھایاہے۔
اسی موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیانے آج مسلم لڑکیوں کو بغاوت پر آمادہ کررکھا ہے۔
اسی موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیانے آج مسلم لڑکیوں کو مرتد بننے پر مجبور کردیا ہے۔
اسی موبائل وانٹرنیٹ اور شوشل میڈیاکی وجہ سے لڑکیاں ظالموں اور درندوں کے ہوس کا شکار ہوجارہی ہیں۔
علاج:ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ وقتل کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ہر والدین کی یہ پہلی وآخری ذمے داری ہے وہ اپنے اپنے بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ اور شوشل میڈیاسے دور رکھیں،مہنگا سے مہنگا موبائل ان کے ہاتھ میں نہ دے کر ان کی عزت وجان کی حفاظت کردیں یہی ان کے لیے اور آپ کے لیےسب سےبڑا قیمتی سرمایہ ہوگا۔
(9) نواں سبب:محکمۂ پولیس کی رشوت خوریاں:۔
ریپ کے بڑھتے ہوئے واردات میں ایک بڑا سبب محکمۂ پولیس کی رشوت خوریاں ہیں،جہاں پر پیسے دے کر بلتکاریوں کو بچایا جاتا ہےاور مظلوموں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کردیا جاتا ہے،پولیس رشوت لے کر کبھی بیان کو بدل دیتی ہے تو کبھی گواہ کو ہی غائب کردیتی ہے،اور کبھی تو ایسا بھی پولس کردیتی ہے کہ الٹے مظلوموں کو ہی پھنسا دیتی ہے اور ایسا سب پیسہ لے اور دے کر کیا جاتا ہے اب ذرا سوچئے کہ جب بلتکاریوں کو اس طرح سے چھوڑدیا جائے گا تو وہ اس طرح کی حرکت دوسروں کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں گے کہ نہیں،وہ ضرور کریں گےکیونکہ انہیں اس بات پر یقین ہے کہ ہم اپنی دولت سے محکمۂ پولس کو خرید لیں گے۔
علاج: اس کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ ڈرے بغیر رشوت خوری کرنے والوں کے خلاف قانون کی مدد لی جائے اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ کسی پولیس والے نے رشوت لے کر کسی ظالم کو بچانے کی کوشش کی ہے تو پھر اس کے خلاف ہائی کورٹ اورپھر سپریم کورٹ میں کیس درج کیے جائیں،ان تنظیموں کی مدد لی جائے جو کرپٹ لوگوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے،خود گورنمینٹ نے بھی ایسے شعبےاور محکمے بنارکھے ہیں جن کا کام ہی ہوتا ہے کرپٹ لوگوں کو دبوچناتو کیوں نہ ایسے محکمے کی مدد سے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو اس کے برے انجام سے دوچارکیا جائے،اگر اہل وطن تھوڑی سے ہمت دکھائیں اور قانون کا سہارا لیں تو ایسے کرپٹ لوگوں کو کیفرِکردارتک پہنچانا کوئی مشکل معاملہ نہیں کیونکہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ جو لوگ تھوڑی سی ہمت دکھاتے ہیں اور قانون جانتے ہیں ویسے لوگوں کے سامنے میں یہ پولیس بھیگی بلی بن جاتی ہے۔
(10) دسواں سبب:ہمارے ملک کےعدلیہ نظام کا سسٹم:۔
ہمارے ملک میں دن بدن ریپ وقتل اور خواتین کے ہراسمینٹ کے کیسیس میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہمارے ملک کے عدلیہ نظام کا سسٹم ہے ،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارےملک کا آئین ودستور ایک بہترین آئین ودستور ہےجس میں بلتکاریوں،قاتلوں اور رہزنوں کے لئے سخت سزائیں بھی مقرر گئی ہیں اور مظلوموں کو بلاتفریق انصاف دینے کی بات بھی لکھی گئی ہے،اور منشور کی اسی بات کو درشانے اوروضاحت کرنے کے لئے قانون وانصاف کا جو نشان ہوتا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے تاکہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ ہندوستان کا آئین ودستور اور قانون وانصاف اونچ نیچ،ذات وپات،دھرم ومذہب نہیں دیکھتی ہے،مگر ہائے افسوس آج اسی قانون وانصاف کی گدی پر ایسے لوگوں نے قبضہ جمالیا ہے جو خود قانون کے زد میں آتے ہیں،اس قانون وانصاف کے آج ایسے لوگ ٹھیکدار بن بیٹھے ہیں جن کے اوپر خود کئی کئی ریپ وقتل کے مقدمات درج ہوتے ہیں،جب ایسے لوگ ہی منصف بن کر جج کی کرسی پر براجمان ہوجائیں اور پھرلوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبر بن جائیں تو انصاف کا خون ہونا ایک یقینی اور بدیہی امر ہے۔
ہمارے عدلیہ نظام کا ایک سسٹم یہ بھی ہے کہ ظالموں اور بلتکاریوں اور قاتلوں کو سزا دینے میں بہت ہی زیادہ تاخیر کی جاتی ہے ،تاریخ پر تاریخ دئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک کیس کی سنوائی ہونے میں کم ازکم 15/20 سال کا عرصہ تو لگ ہی جاتا ہے۔
آج ہمارے عدلیہ نظام کا سسٹم اتنا بگڑچکا ہے کہ دن دہاڑے آنکھوں کے سامنے میں اثرورسوخ کا ناجائز استعمال کرکے غریبوں کو انصاف ملنے سے ہی روک دیا جاتا ہے یا پھر کورٹ کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ انسان آتے اور جاتے دم توڑدیتا ہے مگر اسے انصاف نہیں مل پاتی ہے، بہت سارے مجرموں کو بچایا جاتا ہےیا پھر غریب کو ہی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اس کی واضح مثال اگر آپ کو دیکھنی ہو تو پچھلے سال کا ہتھرس کا واقعہ یاد کرلیں جہاں پر پولس نے پورے ثبوت کا مٹانے کی بھرپور کوشش کی اورمتأثرہ لڑکی کی تحقیقات ہونے سے پہلے ہی جلادیا کیوں کہ اس کانڈ کے پیچھے کئی اہل ثروت کے ہاتھ تھے وہیں پر ایسا ہی ایک معاملہ اس سے پہلے شہر حیدرآباد کے اندر پیش آیا تھا جس کے اندر چار غریب افراد ملوث تھے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ان چاروں کو بہت جلد انکاؤنٹر میں ماردیا گیا،انصاف کا یہی وہ معیار ہے جس کی وجہ سے دن بدن ریپ وقتل میں اضافہ ہورہاہےاورآج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے ملک میں ریپ ومرڈر کرنے والوں کو اعزاز سے نوازا جارہاہے،پھولوں کا ہار پہنا کر ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے،انہیں اعلی سے اعلی عہدے دئے جارہے ہیں، جب قانون وانصاف کا خون ہوگا تو اس طرح کے واردات ریپ ومرڈر اور کڈنیپنگ کے معاملات میں اضافہ ہونا ایک یقینی امر ہے۔
علاج:ریپ ومرڈر اور کڈنیپنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شکنچہ کسنے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ عدالت کے فیصلے کو جلدی نافذ کیا جائے،فیصلے میں تاخیر سے کام نہ لیا جائےبلکہ جگہ جگہ پر اس طرح کے معاملات پر سنوائی کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے،رشوت لے کر فیصلہ بدلنے والے ججوں اور حکام کو ہمیشہ کے لیے معطل کردیا جائے،دستور وآئین ہند کے قوانین کو عملی جامہ پہنایا جائے،اگرایسا ہوتا ہے تو ہم ایک بدلتا ہندوستان دیکھ سکتے ہیں ورنہ ایک ایسا دور آئے گا ہندوستان کی کسی بھی دھرم اور ذات کی بیٹی وبہو کی عزتیں وجانیں محفوظ نہیں رہیں گی۔
انجام
محترم قارئین!!ہمارے ملک میں ریپ ومرڈر کے بڑھتے ہوئے واردات کے اسباب کو جاننے کے بعد اب آیئے اس بارے میں کچھ جان لیتے ہیں کہ جس ملک وشہر کے اندر زنا عام ہوجائے تو اس ملک وشہر کا کیا انجام ہوتا ہےاور وہاں کے رہنے اور بسنے والوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہےاور انہیں کیسی کیسی سزائیں دی جاتی ہیں:۔
خداوندقدوس کےطرف سے بھیجے گئے اس دنیا کے لیے سب سے آخری نبی ورسول نے اپنے مقدس فرمان کے اندر اس بات کی جانکاری دے دی ہے کہ جہاں اور جس جگہ اور جس ملک وشہر میں بھی زنا عام ہوگا اس جگہ اور اس ملک وشہر کو ہلاک وبرباد ہونے سے کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ہے،جیسا کہ حاکم کے اندر یہ حدیث موجود ہے کہ ’’ إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِي قَرْيَةٍ فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللَّهِ ‘‘ جب کسی ملک وشہر،گاؤں وبستی کے اندر زنا او رسود عام ہوجائے تو ان کے اوپر اللہ کا عذاب ضرور بالضرور نازل ہوتا ہے۔(حاكم:2261،اسناده صحيح)
یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے اہل دنیا کو اس بات کی بھی جانکاری دے دی ہے کہ ’’ لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا ‘‘ جب کبھی بھی اہل دنیا زنا کا ارتکاب کریں گے اور برائی وبے حیائی کاہرطرف دوردورہ ہوگا ،لوگ علی الاعلان زنا کا ارتکاب کریں گےتب تب اللہ ان کے درمیان طاعون (کرونا) بھوک کی تکلیفیں اور ایسی ایسی بیماریاں نازل کردے گا جن کے نام تک کو ان کے باپ داداؤں نے نہیں سنا ہوگااور نہ ہی ان کے اندر وہ بیماریاں تھیں۔(ابن ماجہ:4019 اسنادہ حسن)
زنا کے عام ہوجانے سے صرف یہی سزا نہیں دی جاتی ہے بلکہ اس کائنات کے آخری رسولﷺ نے اس بات کی بھی خبردی ہے کہ جب جب زنا عام ہوگا تب تب لوگوں میں کثرت اموات ہوں گی،ہرطرف موت ہی موت اور ہرچہارجانب لاشوں کا ڈھیر ہی ڈھیر ہوگاجیسا کہ حاکم کی یہ راویت ہے’’ وَلَا ظَهَرَتِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْمَوْتَ ‘‘ کہ جس جگہ اور جس قوم کے اندر بے حیائی اورزنا عام ہوجائے گی اس قوم کے اوپر کثرت اموات کو اللہ مسلط کردے گا۔(حاکم:2577،اسنادہ:صحیح)اسی طرح کی ایک موقوفا حدیث مؤطا امام مالک کے اندر بھی موجود ہےابن عباسؓ نے کہا کہ :’’ وَلَا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ ‘‘ جس قوم کے اندربھی زنا عام ہوجائے تو وہاں پر موت عام ہوجاتی ہے۔(مؤطاامام مالک:927)۔۔۔سبحان اللہ قدصدق اللہ ورسولہ۔۔۔ آج اہل دنیا نے اپن آنکھوں سے دیکھ اور اپنی کانوں سے سن لیامگر پھر بھی عبرت ونصیحت لینے سے قاصر ہیں۔
محترم قارئین!
مذکورہ بالا فرمان مصطفیﷺکو باربار پڑھیں اور اپنے ایمان کو تازہ کرلیں ،ہمارے جانیں اور ہمارے ماں باپ آپﷺ کے اس فرمان کے صداقت پر قربان ہوجائےکہ جس بات کی گواہی اورشہادت آپﷺ نے برسوں پہلے دی تھی آج ہم نے اور آپ نے بلکہ پوری دنیا نےاپنی آنکھوں سے دیکھ لیاکہ کم وبیش پچھلے دوسالوں سے کرونا وبا نے کس طرح سے پوری دنیا کے اندرواہی وتباہی بچارکھی ہے،روئے زمین کے اوپر یہ ایک ایسی بیماری پیداہوئی یا پھر کی گئی جس کے نام تک سے ہمارے آباء واجداد واقف نہیں تھےمزید اس وبا کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن ہوا اور پھر اس لاک ڈاؤن کے دوران جو لوگوں کو کمانے کھانے اور رزق کی تکالیف جھیلنی پڑی وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے،کتنے ہی لوگوں نے بھوک کی وجہ سے خودکشی کرلی،اور اسی وبا کی وجہ سےہی ہم نے اور پوری دنیا نے موت اور لاشوں کا وہ منظر دیکھا کہ اس کی مثال پچھلے سوسالوں میں بھی نہ ملے ، لاکھوں اور کڑوڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئےاور ایسا کیوں ہوا ؟اس کا سبب کیا تھا؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ اہل دنیا نے یہ وبا اور یہ سزا خود اپنے کرتوت سے خریدی کہ جب لوگوں نے زنا وسود کی عادتیں بنالیں ،ہر کوئی ظلم وسرکشی پر اتر آیا، زمین پر ناحق فیصلے کرنے لگےتوپوری دنیا قہر الہی کی شکار ہوگئ اور رب نے انہیں ڈروخوف کا وہ مزہ چکھایا اور وہ منظر دکھایا جس کو دنیا کے ہرفرد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اوراس کی تکلیف وشدت کو محسوس کیااور یقینا اس پوری وبا کے اندر ان لوگوں کے لئے عبرتیں ونصیحتیں موجود ہیں جن کے دل زندہ ہیں،سچ فرمایا میرے رب نے’’ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ‘‘ کہ اس میں ہرصاحب دل کے لیے عبرت ہے اور اس کے لیے جو دل سے متوجہ ہوکر کان لگائے اور وہ حاضر ہو۔(ق:37)
اب بھی اہل دنیا کے پاس موقع ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو اپنا کرجہاں دنیا میں اپنی اور اپنی بہو بیٹیوں کی جان ومال اورعزتوں کو لٹنےو پٹنے اور ہلاک وبرباد ہونے سے بچاسکتے ہیں وہیں پر اپنے ملک وشہر میں بھی امن وامان قائم کرسکتے ہیں ۔واللہ المستعان