• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع " از آل شیخ حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
" زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع "


از آل شیخ حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 30-جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع " ارشاد فرمایا :،

جس میں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، ان کی زندگی کا اولین مقصد دنیا ہے، ان کی سوچ دنیا سے بالا تر ہو نے کی سکت نہیں رکھتی، ان کے ہاں دوستی اور تعلق داری کا یہی ایک معیار ہے، حالانکہ کامیاب شخص آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اللہ تعالی کے فرامین کی عملی شکل بن کر زندگی گزارتا ہے، اللہ کا فرمان یہ ہے کہ آخرت کی تیاری رکھو اور دنیا کیلیے بقدر ضرورت تگ و دو کرو، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے مختلف دعاؤں میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں طلب کرنے کا حکم دیا ہے، دنیا کیلیے جینے والا شخص ہمیشہ ذہنی اسیری والی زندگی گزارتا ہے، اس کی فکری یکجہتی مفقود ہوتی ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ آخرت کو اپنا ہدف بنانے سے بہت سے معاملات آسان ہو جاتے ہیں پھر اس کے نتیجے میں دنیا بھی ذلیل ہو کر اسے ملتی ہے، فرامین الہیہ کے مطابق آخرت کو بھول جانے والا انتہائی خسارے میں ہے، اور دنیا کے اسیر کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا ملنے پر خوش وگرنہ ناراض رہتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کا اس دنیا سے تعلق ایک مسافر جیسا تھا جو سستانے کیلیے کسی سایے دار درخت کے نیچے بیٹھے اور پھر روئے منزل چل دے اور یہی طرزِ زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آخر میں انہوں نے سب کیلیے جامع دعائیں فرمائیں۔

عربی خطبہ کی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلیے جس کا فرمان ہے: {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى} بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہترین اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} اور زاد راہ ساتھ لو، بیشک بہترین زاد راہ تقوی ہے۔[البقرة: 197]

مسلمانو!

آج کچھ لوگوں کے حالات کو گہری نگاہ سے دیکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ وہ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، حصولِ دنیا میں مگن ہیں، یا ان کا ہدفِ زندگی صرف دنیا ہے جس کی وجہ سے وہ صرف دنیا کیلیے ہی سوچتے ہیں، ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار یہی دنیا ہے، ان کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی اسی دنیا کی خاطر ہوتی ہے، ان کے بارے میں کسی نے سچ کہا کہ:

وَمِنَ الْبَلَاءِ وَللَبَلَاءِ عَلاَمَة ٌ

أَنْ لا يُرَى لَكَ عنْ هَوَاكَ نَزُوْعُ

ہر آفت زدگی کی علامت ہوتی ہے، اور تمہاری علامت ہے کہ تم ہوس پرستی سے باہر نکلتے نظر نہیں آ رہے۔

جبکہ کامیاب مومن شخص اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے، اور اپنی زندگی اسی نہج پر گزارتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں منظر کشی کی اور فرمایا: {وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ} جو مال اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور اپنا دنیاوی حصہ بھی فراموش نہ کر۔ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ [القصص: 77] اسی لیے مومن حصول رزق حلال کیلیے اسباب اپنا کر مقدور بھر کوشش کرتا ہے، اور اس دھرتی کو رضائے الہی کا موجب بننے والے کردار سے آباد رکھتا ہے۔

پھر دنیا سے صرف اتنا مستفید ہوتا ہے کہ اس کا مذہبی تشخص اور آخرت متاثر نہ ہو یہی اللہ تعالی کے فرمان: {وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا} اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو [القصص: 77] کے دو معنوں میں سے ایک معنی ہے۔

مزید اللہ تعالی نے کا فرمان ہے: {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی ، نیز ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [البقرة: 201]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس دعا نے دنیا کی تمام بھلائیاں سمولی ہیں اور ہر قسم کی برائی کو مٹا کر رکھ دیا ہے؛ کیونکہ اس دعا میں " حَسَنَةً " سے صحت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشادہ رزق، علم نافع، بہترین کارکردگی اور اچھی سواری سمیت ناموری جیسی تمام ضروریات مراد ہیں "

اسلامی بھائیو!

جو شخص اپنا بنیادی مقصد آخرت کو بنا لے، اسی کیلیے تگ و دو کرے تو اللہ تعالی اس کی دنیاوی ضروریات خود ہی پوری فرما دیتا ہے، لیکن جس کے دل پر دنیاوی فکر قابض ہو جائے، اس کا بنیادی مقصد دنیا ہی بن جائے تو وہ ہمیشہ ذہنی غلامی کی زندگی گزارتا ہے، اس کی سوچ بکھری ہوئی ہوتی ہے، وہ ذہنی یک سوئی سے محروم ہوتا ہے، اس کا فراوانی میں بھی پیٹ نہیں بھرتا، اور تھوڑی چیز پر خوش نہیں ہوتا۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس کا مقصودِ زندگی آخرت ہو اللہ اس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ اور جس کا مقصود دنیا ہو، اللہ تعالی اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے معاملات بکھیر دیتا ہے، اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے) اس حدیث کو احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، عراقی رحمہ اللہ کے مطابق اس کی سند جید ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالی کا یہ فرمان مسلمان کا شعار ہوتا ہے: {قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ} کہہ دو: دنیا کا ساز و سامان معمولی ہی ہے۔[النساء: 77] اس لیے مسلمان اس دنیا کو اپنی آخرت کیلیے کھیتی سمجھتا ہے، آخرت پر دنیا کو ترجیح نہیں دیتا، اپنی شہوت یا ہوس میں مست ہو کر دنیا کے پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اللہ کے اس فرمان کا عملی نمونہ بنتا ہے کہ: {قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا} کہہ دو: دنیا کا ساز و سامان معمولی ہی ہے اور آخرت متقی لوگوں کیلیے بہترین ہے، اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔[النساء: 77] ایسے ہی فرمایا:{وَإِنْ كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ} اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا ساز و سامان ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کیلیے ہے۔ [الزخرف: 35]

اس لیے مسلمان!

اس دنیا کے دھوکے میں آنے سے بچنا، اپنے آپ کو غفلت اور شہوت سے دور رکھنا، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ} اے ایمان والو! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، اس لیے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں کوئی دھوکے باز [شیطان] تمہیں دھوکے میں ڈالے۔[فاطر: 5] اور فرمایا: {وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ}اور دنیا کی زندگی تو سامانِ غرور ہی ہے۔[آل عمران: 185]

اللہ کے بندو!

جو شخص آخرت بھول کر اپنی شہوت کے پیچھے لگ جائے اور اللہ تعالی کی شریعت سے رو گردانی شروع کر دے تو وہ بہت بڑے خسارے میں پڑ گیا ہے، وہ بڑی بدبختی میں ملوث ہو چکا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ} اے ایمان والو! تمہیں تمہارے اموال اور اولاد ذکرِ الہی سے غافل نہ کر دیں، اور جو غافل ہو گیا تو وہ ہی خسارہ پانے والے ہیں۔[المنافقون: 9]

اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے: {فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا} پھر ان کے بعد ان کی نالائق اولاد ان کی جانشین بنی جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ وہ عنقریب گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ [59] البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہو گی۔ [مريم: 59، 60]

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (دیناروں کا غلام تباہ ہو گیا، درہموں کا غلام تباہ ہو گیا، لباس کا غلام تباہ ہو گیا، وہ بار بار گرنے کیلیے تیار رہتا ہے، اور جب اس کو کانٹا بھی چبھ جائے تو کوئی اس کا کانٹا نکالنے والا نہیں ہوتا۔ اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر کچھ نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے۔)

اس لیے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈور، اور ایسے کسی بھی اقدام سے احتراز کرو جو تمہیں رضائے الہی سے دور لے جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى} بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہتر اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن و سنت کو بابرکت بنائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اپنے سمیت تمام مسلمانوں کے لیے گناہوں کی بخشش اللہ تعالی سے مانگتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش مانگیں، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

میں اللہ تعالی کی پاکیزہ اور بابرکت الفاظ میں ڈھیروں حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! ان پر ان کی آل اورصحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

اس وقت بہت سے لوگوں کے دلوں پر دنیا کی چکا چوند کا قبضہ ہے، دنیاوی رنگینیوں اور لذتوں کیلیے بہت سے مسلمانوں کے دل ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، تو ایسے میں مسلمان کو محاسبۂ نفس والی نگاہ سے دیکھنا چاہیے تا کہ حقائق واضح ہو سکیں اور ممکنہ نتائج کی آشنائی ملے؛ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:{الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا} مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں آپ کے رب کے ہاں جو باقی رہنے والا ہے وہ نیک اعمال ہیں ان پر امید رکھنا بھی بہتر ہے۔ [الكهف: 46]

اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (میرا دنیا سے کیا لینا دینا!؟ میری اور دنیا کی مثال تو ایک سوار کی سی ہے جو گرمی میں سایہ دار درخت کے نیچے دوپہر کے وقت آرام کیلیے سستائے اور پھر درخت وہیں چھوڑ کر اپنی منزل کی جانب چل دے) احمد، ترمذی

اور یہ نبوی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلیے گوش گزار فرمائیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ ﷺ نے میرے کندھے سے پکڑا اور وصیت میں فرمایا: (دنیا میں ایسے رہو کہ گویا تم اجنبی ہو یا راہ گزرتے مسافر)" اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی کہا کرتے تھے: "جب تم شام کر لو تو [اخروی عمل کیلیے]صبح کا انتظار مت کرو، اور جب صبح کر لو تو شام کا انتظار مت کرو، اپنی صحت کے ایام میں بیماری کیلیے اور زندگی میں موت کیلیے کچھ اسباب اپناؤ" بخاری

اور اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، یا اللہ! ہمارے نبی اور حبیب محمد ﷺ پر ڈھیروں رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔

یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت ،صحابہ کرام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! تیری بخشش ہمارے گناہوں سے کہیں وسیع ہے، تیری رحمت کی ہمیں اپنے اعمال سے زیادہ امید ہے؛ اس لیے یا اللہ! ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ یا غفور! یا رحیم!

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! یا الہ الحق! مسلمانوں کے دشمنوں پر کٹرا عذاب نازل فرما، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے تو یا اللہ! اس کے بارے میں ہمیں اپنی قدرت کے نظارے دکھا ، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر بن جا، یا اللہ! ان کی مدد اور نصرت فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں کو تقوی پر متحد فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں کو تقوی پر متحد فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں کو تقوی پر متحد فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمارے حکمران اور ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! تمام مسلمان اور مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، زندہ اور فوت شدگان سب کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کیلیے ان کی مشکلات آسان فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کیلیے ان کی مشکلات آسان فرما دے۔

یا اللہ! غریب مسلمانوں کو غنی بنا دے، یا اللہ! نافرمانوں کو ہدایت نصیب فرما، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! نیک لوگوں کو نیکی پر ثابت قدم فرما، یا ذالجلال والا کرام! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! تو ہی غنی اور حمید ہے! یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔ یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ یا اللہ! تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! تمام مسلم خطوں میں بارشیں نازل فرما۔

یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! ہم پر رحم فرما، یا اللہ! اس وقت ہم تکلیف میں ہیں اور تو ہی ارحم الراحمین ہے، یا اللہ! اس وقت ہم تکلیف میں ہیں اور تو ہی ارحم الراحمین ہے، یا اللہ! اس وقت ہم تکلیف میں ہیں اور تو ہی ارحم الراحمین ہے، اس لیے یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں جلد از جلد بارش عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو بارش عطا فرما، یا حیی! یا قیوم! جلد از جلد ہمیں بارش عطا فرما۔

اللہ کے بندو!

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ / پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں۔
 
Top