ابو جماز
رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 95
- پوائنٹ
- 64
عام طور پر جس شخص کو اللہ تعالی نبی کی پیاری سنت داڑھی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی طرح اسکی عبادات کی بھی اصلاح فرما دے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اسکی زندگی بدل گئ اور ایمان کا اس پر اثر ہونے لگا۔ یہ بات درست ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کے یہ ایمان کے ابتدائ درجات میں سے ہے۔ اصلا اثر کا تب پتا چلتا ہے جبکہ ایمان انسان کی عادات اور مزاج پر اثر ڈالنا شروع کردے۔ یہ وہ اثر ہے جوکہ بہت ہی گہرا اور دیرپا اور اسکے ساتھ ساتھ بڑی ہی محنت سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کو کوئ ایسا شخص ملے جوکہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ پاتا ہو اور ایمان کا اثر ایسا ہو کہ وہ غصے پر قابو رکھنے لگے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی بدل گئ ہے۔ اسی طرح ایک شخص پہلے تو بے حیاء ہو لیکن ایمان اسمیں حیاء کی روشنی بھر دے تو سمجھ جائیں کہ زندگی بدل گئ ہے۔ اسی طرح ایک شخص جو پہلے تو مال کا حریص تھا لیکن ایمان نے ایسا اثر کیا کہ وہ ایثار سے مالا مالا گیا ہو تو سمجھ جائیں کے زندگئ بدل گئ ہے۔ اسی طرح ماں باپ کی نافرمانی، چغلی کھانے کی بری عادت، وقت ضائع کرنے کی خصلت اور علی ہذا القیاس...
عجیب بات یہ ہے ظاہری اعمال کو بعض اوقات بدلنا آسان ہوتا ہے لیکن افعال القلوب (یعنی دلوں کے اعمال) کی اصلاح بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔
اسکا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ انسان باطنی اعمال کی اوڑھ میں ظاہری اعمال سے بچنا شروع کردے جیسا کہ ہمیں بعض صوفیاء یہ کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ کہ ظاہری اعمال ہمیشہ باطنی اعمال کے لیے سبب یا پھر سیڑھی کا درجہ رکہتے ہیں۔ قرآن مجید نے کیا خوب کہا:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ، سورۃ حجرات
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
اور آپ نے پتا نہیں یہ نوٹ کیا ہے کہ نہیں بعض اوقات علماء کے فتووں پر بھی انکے مزاج کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ بعض فتوے بجائے شریعت کے علماء کے مزاجوں کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں اسی لیے میرے استاذ شیخ حمزہ مدنی کی بات یاد آتی ہے اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ایک مفتی کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ فتوے کی مسند پر بیٹھنے سے پہلے وہ دین کا مزاج کو سمجھے کیونکہ ہر چیز کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور شریعت کا اپنا ایک مزاج ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ جس میں فقہ الاولویات اور اسی طرح مقاصد شریعت کو گہرائ سے سمجھنا نہایت اہم ہے۔
اس اعتبار سے سلف میں سے جنہوں نے باقاعدہ اس پر کام کیا ہے ان میں ابن تیمیۃ اور انکے تلمیذ ابن قیم ایک نمایاں مقام رکھتے نظر آتے ہیں۔
اسی کو قرآن یوں بھی بیان کرتا ہے:
صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ * البقرة
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں-
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اگر آپ کو کوئ ایسا شخص ملے جوکہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ پاتا ہو اور ایمان کا اثر ایسا ہو کہ وہ غصے پر قابو رکھنے لگے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی بدل گئ ہے۔ اسی طرح ایک شخص پہلے تو بے حیاء ہو لیکن ایمان اسمیں حیاء کی روشنی بھر دے تو سمجھ جائیں کہ زندگی بدل گئ ہے۔ اسی طرح ایک شخص جو پہلے تو مال کا حریص تھا لیکن ایمان نے ایسا اثر کیا کہ وہ ایثار سے مالا مالا گیا ہو تو سمجھ جائیں کے زندگئ بدل گئ ہے۔ اسی طرح ماں باپ کی نافرمانی، چغلی کھانے کی بری عادت، وقت ضائع کرنے کی خصلت اور علی ہذا القیاس...
عجیب بات یہ ہے ظاہری اعمال کو بعض اوقات بدلنا آسان ہوتا ہے لیکن افعال القلوب (یعنی دلوں کے اعمال) کی اصلاح بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔
اسکا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ انسان باطنی اعمال کی اوڑھ میں ظاہری اعمال سے بچنا شروع کردے جیسا کہ ہمیں بعض صوفیاء یہ کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ کہ ظاہری اعمال ہمیشہ باطنی اعمال کے لیے سبب یا پھر سیڑھی کا درجہ رکہتے ہیں۔ قرآن مجید نے کیا خوب کہا:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ، سورۃ حجرات
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
اور آپ نے پتا نہیں یہ نوٹ کیا ہے کہ نہیں بعض اوقات علماء کے فتووں پر بھی انکے مزاج کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ بعض فتوے بجائے شریعت کے علماء کے مزاجوں کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں اسی لیے میرے استاذ شیخ حمزہ مدنی کی بات یاد آتی ہے اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ایک مفتی کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ فتوے کی مسند پر بیٹھنے سے پہلے وہ دین کا مزاج کو سمجھے کیونکہ ہر چیز کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور شریعت کا اپنا ایک مزاج ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ جس میں فقہ الاولویات اور اسی طرح مقاصد شریعت کو گہرائ سے سمجھنا نہایت اہم ہے۔
اس اعتبار سے سلف میں سے جنہوں نے باقاعدہ اس پر کام کیا ہے ان میں ابن تیمیۃ اور انکے تلمیذ ابن قیم ایک نمایاں مقام رکھتے نظر آتے ہیں۔
اسی کو قرآن یوں بھی بیان کرتا ہے:
صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ * البقرة
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں-
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین