آگ میں جلا کر سزا دینا صرف اللہ تعالی کا کام ہے ،کسی انسان کےلئے ایسا کرنا قطعاً جائز نہیں ،
اور جو اسلام کا نام لیکر ایسا کرے ،وہ جاہل بھی ہے اور اسلام کو بدنام کرنے والا بھی ،
صحیح البخاری
باب لا يعذب بعذاب الله:
باب: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا
حدیث نمبر: 3016
عن ابي هريرة رضي الله عنه انه قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعث فقال:"إن وجدتم فلانا وفلانا فاحرقوهما بالنار"ثم قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم"حين اردنا الخروج إني امرتكم ان تحرقوا فلانا وفلانا وإن النار لا يعذب بها إلا الله فإن وجدتموهما فاقتلوهما".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent us in a mission (i.e. am army-unit) and said, "If you find so-and-so and so-and-so, burn both of them with fire." When we intended to depart, Allah's Apostle said, "I have ordered you to burn so-and-so and so-and-so, and it is none but Allah Who punishes with fire, so, if you find them, kill them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 259
آگ میں جلا کر سزا دینا صرف اللہ تعالی کا کام ہے ،کسی انسان کےلئے ایسا کرنا قطعاً نہیں ،
اور جو اسلام کا نام لیکر ایسا کرے ،وہ جاہل بھی ہے اور اسلام کو بدنام کرنے والا بھی ،
صحیح البخاری
باب لا يعذب بعذاب الله:
باب: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا
حدیث نمبر: 3016
عن ابي هريرة رضي الله عنه انه قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعث فقال:"إن وجدتم فلانا وفلانا فاحرقوهما بالنار"ثم قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم"حين اردنا الخروج إني امرتكم ان تحرقوا فلانا وفلانا وإن النار لا يعذب بها إلا الله فإن وجدتموهما فاقتلوهما".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘ پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent us in a mission (i.e. am army-unit) and said, "If you find so-and-so and so-and-so, burn both of them with fire." When we intended to depart, Allah's Apostle said, "I have ordered you to burn so-and-so and so-and-so, and it is none but Allah Who punishes with fire, so, if you find them, kill them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 259
بھائی زرہ اس مضمون کا علمی جائزا لیں ۔تکفیر ی یہ دلائل دے رہیں ہیں
اب تک کی معلومات کا خلاصہ !
زندیق کسی پر ظلم نہیں کرتا مگر اپنے اپ پر . یعنی وہ الله سے بغاوت کرتا ہے اور دین اسلام سے نکل جاتا ہے . اس لیے رسول الله (ص) کا حکم کے کسی بھی شخص کو آگ میں نہ جلایا جاۓ سزا کے طور پر ، اس صورت میں نافذ ہو جاۓ گا اور کسی بھی زندیق کو آگ کی سزا نہیں دی جاسکتی
البتہ ، قرآن کا اصول قصاص یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ" ایک شخص کے کسی دوسرے شخص پر ظلم" کے مطلق ہے اس صورت میں رسول الله (ص) کا فرمان قرآن پر حجت نہیں بن سکتا یعنی رسول الله (ص) اس چیز کو حرام یا ناجائز نہیں کر سکتے جس کو الله نے حلال یا جائز کیا ہو .
اس لیے اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو زندہ جلا کر ہلاک کیا ہو تو اسے اصول قصاص یعنی "آنکھ کے بدلے آنکھ" پر زندہ جلایا جاۓ گا
کیونکے اس کا حق خود الله تعالیٰ نے قرآن میں عطا کیا ہے . رسول الله (ص) الله کی حدیث اس ماملے میں اختیار کی جاۓ گی جہاں قصاص کا معملا درپیش نہ ہو . زندقہ یا ارتداد کا معاملہ ہوا وہاں صرف قتل کیا جاۓ گا آگ میں جلایا نہ جاۓ گا. اس کی عقلی منطق بھی یہی ہے کے زندیق و مرتد تو قیامت میں دوزخ میں جلایا ہی جاۓ گا ہمیشہ.. دنیا میں اگر جلا دیا گیا تو یہ اس کے جرم کی سزا ہو جاۓ گی .. پھر قیامت میں وہ کس جرم میں جلایا جائے گا اگر دنیا میں سزا پا چکا ہو ؟؟؟ البتہ قصاص میں جلاۓ جانے والا اگر مسلمان ہو گا تو قیامت میں بچ جاۓ گا کیونکے وہ دنیا میں اپنی سزا پا چکا ہو گا !
اب اگر حضرت علی راضی الله کے عمل کو قیاس کی غلطی سمجھا جاۓ اور اسے ان کی احکام دین کے ماملے میں کم علمی سمجھا جاۓ تو بھی قصاص کے ماملے میں دولت کے پاس اصول قصاص کی دلیل موجودد ہے . مزید براں حضرت علی راضی الله عشرہ مبشرہ والے صحابی ہیں ، بدری صحابی ہیں ، ان کے علم کی سند میں رسول الله (ص) کی احادیث موجود ہیں ، ان کے شرعی علم کے مطلق حضرت عمر اور حضرت ابو بکر راضی الله کی شہادتیں موجود ہیں. اور سب سے بڑھ کر حضرت علی راضی الله خود خلیفہ اسلام تھے اور تعزیری اختیار رکھتے تھے. پھر جس وقت آگ میں جلانے کا واقع ہوا وہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان راضی الله کے بعد کا زمانہ ہے .. یہ کہنا کے حضرت علی راضی الله احکام دین سے مکمل واقف نہیں تھے اور انہوں نے مرتدوں کو آگ میں جلانے سے قبل کسی سے مشورہ نہ لیا ہو ، معقول بات سمھج نہیں آتی.
اور اگر حضرت علی راضی الله کے عمل کو ٹھیک سمجھا جاۓ اور حضرت ابن عباس کی حدیث کو حضرت علی کے مقابل اہمیت نہ دی جاۓ تو پھر کوئی اشکال ہی باقی نہیں.
"وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ " اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے
۔(النحل : 126)
" فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ "’’ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو‘‘۔ (البقرة : 194)
اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وه اس کے لئے کفاره ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ﻇالم ہیں