مون لائیٹ آفریدی
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 30، 2011
- پیغامات
- 640
- ری ایکشن اسکور
- 409
- پوائنٹ
- 127
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
عزت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے ہےاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور مؤمنین ہی کے لیے ہے لیکن منافقین اس با ت کو نہیں جانتے ۔
"اسلام ویب " جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور جسے آل سعود کی سرپرستی میں سعودیہ کے علماء چلارہے ہیں۔
اس ویب سائٹ پر ایک سوال کیا گیا کہ کس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی حدیث آگ سے جلانے کی ممانعت اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتدین کیخلاف جنگ میں ایاس بن عبد یالیل کو آگ سے جلانے عمل کے درمیان کس طرح مطابقت کرسکتے ہیں۔
فروری 2006 ۔
اس سوال کے جواب میں کافر ومرتد کو بدلہ وقصاص لینے اور کئی دیگر حالتوں میں جائز ہونے کا جو فتوی دیا، اس فتوی کو آج اردنی مرتد پائلٹ کے نذرآتش ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اس پائلٹ کی تصویر لگاکر اس فتوی کو نشر کیا:
السؤال: كيف نوفق بين نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن التحريق بالنار وبين إحراق أبي بكر الصديق رضي الله عنه إياس بن عبد ياليل بالنار في حرب الردة؟
الإجابۃ
جزاكم الله خيرا…
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن التحريق بالنار ثابت، فقد ورد في حديثه الشريف أنه – صلى الله عليه وسلم – قال: لا يعذب بالنار إلا رب النار. رواه أبو داود وأحمد في المسند.
وقد اختلف أهل العلم فيما إذا كان هذا النهي للتحريم أم أنه لمجرد التواضع. قال ابن حجرفي فتح الباري: … وقال المهلب ليس هذا النهي على التحريم بل على سبيل التواضع. ويدل على جواز التحريق فعل الصحابة وقد سمل النبي صلى الله عليه وسلم أعين العرنيين بالحديد المحمى، وقد حرق أبو بكر البغاة بالنار بحضرة الصحابة، وحرق خالد بن الوليد بالنار ناسا من أهل الردة، وأكثر علماء المدينة يجيزون تحريق الحصون والمراكب على أهلها، قاله الثوري والأوزاعي. وقال ابن المنير وغيره: لا حجة فيما ذكر للجواز. لأن قصة العرنيين كانت قصاصا أو منسوخة كما تقدم وتجويز الصحابي معارض بمنع صحابي آخر، وقصة الحصون والمراكب مقيدة بالضرورة إلى ذلك، إذا تعين طريقا للظفر بالعدو…
ثم إن قصة إحراق أبي بكر الصديق رضي الله عنه إياس بن عبد ياليل بالنار، واردة في كتب السير والتاريخ. ففي الكامل: أن إياس بن عبد ياليل جاء إلى أبي بكر فقال له: أعني بالسلاح أقاتل به أهل الردة. فأعطاه سلاحا وأمره إمرة، فخالف إلى المسلمين وخرج حتى نزل بالجواء، وبعث نخبة بن أبي الميثاء من بني الشريد وأمره بالمسلمين، فشن الغارة على كل مسلم في سليم وعامر وهوازن. فبلغ ذلك أبا بكر -رضي الله عنه- فأرسل إليه من أسره وبعث به إليه. فأمر أبو بكر أن توقد له نار في مصلى المدينة ثم رمي به فيها مقموطا.
وإذا كان أهل العلم قد اختلفوا في تحريم الإحراق بالنار كما بينا، وأن القائل منهم بالحرمة قد استثنى حالات يجوز فيها ذلك، فلاشك أن ما أقدم عليه إياس بن عبد ياليل يستحق به ما فعل به من الإحراق. فجزى الله خليفة رسول الله – صلى الله عليه وسلم – على غيرته للإسلام.
والله أعلم.
اب اس فتوی کو آل سعود کی خواہشات پر ہٹادیا گیا ہے تاکہ دین اسلام کا یہ عمل اب آل سعود کی نیندیں حرام کرنے کا باعث بنا ہے۔
اس لیے آل سعود کی خواہشات کے مطابق دین اسلام میں ردوبدل کرکے اسلام کے ان احکامات کو چھوڑنے کا سلسلہ تیز کردیا ہے جو ان کے حکمرانوں کو ناپسند ہو۔
اس طرح یہود ونصاری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام میں تحریک کرنے کا سلسلہ سعودیہ نے تیز کردیاہے۔
سعودی حکومت نےاپنی نیم سرکاری آن لائن فتوی ویب سائٹ’’اسلام ویب‘‘ پر موجود کافرومرتد کو آگ سے جلاناجائز ہونے کا قدیم فتوی آج بطور دلیل مجاہدین کے حامی انصار کی طرف سے استعمال ہونے کی وجہ سے ہٹادیا۔
یہ گوگل سرچ انجن کے کیش پر محفوظ اس فتوی کا لنک ۔
یہ اسلام ویب پر موجود فتوی کا عکس ،، جسے اب آل سعود اور ان کے ماتحت رہ کر کام کرنے والے علماء نے اپنی ویب سائٹ سے ہٹادیا ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
عزت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے ہےاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور مؤمنین ہی کے لیے ہے لیکن منافقین اس با ت کو نہیں جانتے ۔
"اسلام ویب " جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور جسے آل سعود کی سرپرستی میں سعودیہ کے علماء چلارہے ہیں۔
اس ویب سائٹ پر ایک سوال کیا گیا کہ کس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی حدیث آگ سے جلانے کی ممانعت اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتدین کیخلاف جنگ میں ایاس بن عبد یالیل کو آگ سے جلانے عمل کے درمیان کس طرح مطابقت کرسکتے ہیں۔
فروری 2006 ۔
اس سوال کے جواب میں کافر ومرتد کو بدلہ وقصاص لینے اور کئی دیگر حالتوں میں جائز ہونے کا جو فتوی دیا، اس فتوی کو آج اردنی مرتد پائلٹ کے نذرآتش ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اس پائلٹ کی تصویر لگاکر اس فتوی کو نشر کیا:
السؤال: كيف نوفق بين نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن التحريق بالنار وبين إحراق أبي بكر الصديق رضي الله عنه إياس بن عبد ياليل بالنار في حرب الردة؟
الإجابۃ
جزاكم الله خيرا…
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن التحريق بالنار ثابت، فقد ورد في حديثه الشريف أنه – صلى الله عليه وسلم – قال: لا يعذب بالنار إلا رب النار. رواه أبو داود وأحمد في المسند.
وقد اختلف أهل العلم فيما إذا كان هذا النهي للتحريم أم أنه لمجرد التواضع. قال ابن حجرفي فتح الباري: … وقال المهلب ليس هذا النهي على التحريم بل على سبيل التواضع. ويدل على جواز التحريق فعل الصحابة وقد سمل النبي صلى الله عليه وسلم أعين العرنيين بالحديد المحمى، وقد حرق أبو بكر البغاة بالنار بحضرة الصحابة، وحرق خالد بن الوليد بالنار ناسا من أهل الردة، وأكثر علماء المدينة يجيزون تحريق الحصون والمراكب على أهلها، قاله الثوري والأوزاعي. وقال ابن المنير وغيره: لا حجة فيما ذكر للجواز. لأن قصة العرنيين كانت قصاصا أو منسوخة كما تقدم وتجويز الصحابي معارض بمنع صحابي آخر، وقصة الحصون والمراكب مقيدة بالضرورة إلى ذلك، إذا تعين طريقا للظفر بالعدو…
ثم إن قصة إحراق أبي بكر الصديق رضي الله عنه إياس بن عبد ياليل بالنار، واردة في كتب السير والتاريخ. ففي الكامل: أن إياس بن عبد ياليل جاء إلى أبي بكر فقال له: أعني بالسلاح أقاتل به أهل الردة. فأعطاه سلاحا وأمره إمرة، فخالف إلى المسلمين وخرج حتى نزل بالجواء، وبعث نخبة بن أبي الميثاء من بني الشريد وأمره بالمسلمين، فشن الغارة على كل مسلم في سليم وعامر وهوازن. فبلغ ذلك أبا بكر -رضي الله عنه- فأرسل إليه من أسره وبعث به إليه. فأمر أبو بكر أن توقد له نار في مصلى المدينة ثم رمي به فيها مقموطا.
وإذا كان أهل العلم قد اختلفوا في تحريم الإحراق بالنار كما بينا، وأن القائل منهم بالحرمة قد استثنى حالات يجوز فيها ذلك، فلاشك أن ما أقدم عليه إياس بن عبد ياليل يستحق به ما فعل به من الإحراق. فجزى الله خليفة رسول الله – صلى الله عليه وسلم – على غيرته للإسلام.
والله أعلم.
اب اس فتوی کو آل سعود کی خواہشات پر ہٹادیا گیا ہے تاکہ دین اسلام کا یہ عمل اب آل سعود کی نیندیں حرام کرنے کا باعث بنا ہے۔
اس لیے آل سعود کی خواہشات کے مطابق دین اسلام میں ردوبدل کرکے اسلام کے ان احکامات کو چھوڑنے کا سلسلہ تیز کردیا ہے جو ان کے حکمرانوں کو ناپسند ہو۔
اس طرح یہود ونصاری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام میں تحریک کرنے کا سلسلہ سعودیہ نے تیز کردیاہے۔
سعودی حکومت نےاپنی نیم سرکاری آن لائن فتوی ویب سائٹ’’اسلام ویب‘‘ پر موجود کافرومرتد کو آگ سے جلاناجائز ہونے کا قدیم فتوی آج بطور دلیل مجاہدین کے حامی انصار کی طرف سے استعمال ہونے کی وجہ سے ہٹادیا۔
یہ گوگل سرچ انجن کے کیش پر محفوظ اس فتوی کا لنک ۔
یہ اسلام ویب پر موجود فتوی کا عکس ،، جسے اب آل سعود اور ان کے ماتحت رہ کر کام کرنے والے علماء نے اپنی ویب سائٹ سے ہٹادیا ہے