• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زکوٰۃ کا نصاب

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
  1. ساڑھے باون تولہ چاندی = 35700 روپے
  2. ساڑھے سات تولہ سونا= 3 لاکھ 46 ہزار تقریباً
  3. پانچ من کھجور = 80 ہزار تقریباً
  4. پانچ اونٹ = 5 لاکھ اوسطاً
  5. چالیس بکریاں = (15 ہزار فی بکری) = 6 لاکھ
یہ اوسط قیمتیں کراچی کی مارکیٹ کے حساب سے اکتوبر 2014 کی ہیں)
پیپر کرنسی کا کوئی نصاب قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس دور میں سونے چاندی کی ”کرنسی“ رائج تھی۔ اور ان کا نصاب بھی اوپر دئے گئے وزن کے حساب کے عین مطابق تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ آج اگر کسی فرد کے پاس پیپر کرنسی میں دولت موجود ہو تو وہ اس کا نصاب کس حساب سے طے کرے۔ ایک فقہ والے تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ پیپر کرنسی کا کوئی نصاب قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں لہٰذا آج کی پیپر کرنسی پر کوئی زکوٰۃ ہی نہیں ہے۔ ہم پیپر کرنسی پر زکوٰۃ کے منکر نہیں ہیں۔ لیکن مکالمہ یہ مقصود ہے کہ پیپر کرنسی کو مندرجہ بالا کس حساب سے طے کیا جائے۔

حکومت پاکستان تو چاندی کو نصاب بنا کر بنکوں سے زبردستی زکوٰۃ کاٹ لیتی ہے۔ گویا حکومت 36 ہزار روپے پر بھی زکوٰۃ کاٹ لیتی ہے۔ لیکن حکومت کا یہ عمل کوئی دینی سند نہیں کہ وہ تو محض زیادہ سے زیادہ فنڈ حاصل کرنے کے چکر میں ہوتی ہے۔

عام آدمی کیا کرے۔ اگر اس کے پاس پیپر کرنسی میں رقوم موجود ہوں تو وہ کون سا حساب لگائے، سونے کا ، چاندی کا یا کسی اور کا۔ اور منتخب کردہ نصاب کا شرعی جواز کیا ہو گا۔ اصحاب علم سے مکالمہ کی درخواست ہے

نوٹ: مندرجہ بالا رقوم محض ایک رَف فیگر ہے۔ کوئی اس کی تصحیح کرنے نہ بیٹھ جائے۔ مسکراہٹ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پیپر کرنسی کا نصاب بھی اصولا تو چاندی والا ہی ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسی میں احتیاط کا پہلو غالب ہے۔ اور اسی کے حق میں میں نے فتاویٰ وغیرہ پڑھے تھے۔ لیکن آپ مکالمہ کرنے کے خواہشمند ہیں تو پھر اہل علم کی جانب سے وضاحت ہی مناسب ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پیپر کرنسی کا نصاب بھی اصولا تو چاندی والا ہی ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسی میں احتیاط کا پہلو غالب ہے۔ اور اسی کے حق میں میں نے فتاویٰ وغیرہ پڑھے تھے۔ لیکن آپ مکالمہ کرنے کے خواہشمند ہیں تو پھر اہل علم کی جانب سے وضاحت ہی مناسب ہے۔
میں یہی ”اصول“ تو جاننے کا خواہشمند ہوں۔ ابتسامہ
احتیاط اور تقویٰ ایک انفرادی شئے ہے۔ لیکن فتویٰ تو کسی نہ کسی ”اصول“ پر مبنی ہونا چاہئے۔

اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اس کا کوئی حکم انسانوں پر بوجھ نہیں بن سکتا۔ اگر چاندی کو نصاب بنایا جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی میں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا کہ اگر 36 ہزار کسی کی سالانہ بچت ہے تو وہ اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کردے۔

لیکن اگر کسی کی تنخواہ ہی 36 ہزار روپے ہو اور اسے یہ تنخواہ عید الاضحیٰ سے ایک آدھ روز قبل ملے تب بھی وہ ”صاحب نصاب“ ہوجائے گا۔ اور اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ آج کراچی کے کسی بھی چار پانچ افراد پر مشتمل سفید پوش گھرانے کا 36 ہزار روپے میں گزر بسر کا بجٹ بنا کر دیکھ لیجئے۔ بڑی مشکل سے بنے گا۔ ایسے میں آپ اسے کم از کم آٹھ دس ہزار کی حصہ والی قربانی واجب کر رہے ہیں تو سوچئے کہ کیا کرے گا۔

اگر گستاخی نہ ہو تو ایک ”تلخ حقیقت“ بتلاتا چلوں کہ علمائے کرام اور ان کے اداروں کی اکثریت زکوٰۃ اور قربانی کی کھالیں وصول کرنے والوں میں سے ہیں۔ لہٰذا حکومت کی طرح ان کا بھی ”فائدہ“ اسی میں ہے کہ عوام پر ”چاندی کا نصاب“ نافذ کیا جائے۔

ویسے پیپر کرنسی والی جدید معیشت کا طے شدہ ”اصول“ یہ ہے کہ پیپر کرنسی چھاپنے والی ”اتھارٹی“ اپنے پاس موجود ”سونے کے ذخائر“ کی قیمت کے مساوی پیپر کرنسی چھاپنے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اگر کوئی اتھارٹی اس سے زائد نوٹ چھاپتی ہے تو وہ ”غیر قانونی“ کام ہے، جو کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے یہ اصول نہیں بدلتا کہ ”سونے کے مساوی پیپر کرنسی“ چھاپی جائے۔ واضح رہے کہ پیپر کرنسی، حقیقی نوٹ نہیں ہوتا بلکہ نوٹ کی ”رسید“ ہوتا ہے۔ جیسے پاکستان کے 100 روپے کے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ: اسٹیٹ بنک ایک سو روپے حامل ھٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا“
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
پیپر کرنسی کا نصاب بھی اصولا تو چاندی والا ہی ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسی میں احتیاط کا پہلو غالب ہے۔ اور اسی کے حق میں میں نے فتاویٰ وغیرہ پڑھے تھے۔ لیکن آپ مکالمہ کرنے کے خواہشمند ہیں تو پھر اہل علم کی جانب سے وضاحت ہی مناسب ہے۔
یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہماری کرنسی سونے کے قیمت پر ہے اس لیے سونے والے نصاب کےتحت زکوۃ دی جائے واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لیکن اگر کسی کی تنخواہ ہی 36 ہزار روپے ہو اور اسے یہ تنخواہ عید الاضحیٰ سے ایک آدھ روز قبل ملے تب بھی وہ ”صاحب نصاب“ ہوجائے گا۔ اور اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ آج کراچی کے کسی بھی چار پانچ افراد پر مشتمل سفید پوش گھرانے کا 36 ہزار روپے میں گزر بسر کا بجٹ بنا کر دیکھ لیجئے۔ بڑی مشکل سے بنے گا۔ ایسے میں آپ اسے کم از کم آٹھ دس ہزار کی حصہ والی قربانی واجب کر رہے ہیں تو سوچئے کہ کیا کرے گا۔
قربانی کے وجوب کو زکوۃ کے نصاب کے ساتھ معلق کرنا یہ کوئی حدیث کا مسئلہ نہیں ہے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
’’من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا ‘‘(ابن ماجۃ ، حسنہ الألبانی )
جو وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔
حدیث میں ’’ وسعت ‘‘ کے الفاظ ہیں ، علماء احناف سے اس سے مراد ’’صاحب نصاب ‘‘ ہونا مراد لیا ہے ، جبکہ کئی علماء نے اس کو ’’ صدقۃ الفطر ‘‘ کےساتھ منسلک کیا ہے ۔ بہترین بات ان علماء کی لگتی ہے جنہوں نے وسعت کو اس کے عام معنی و مفہوم میں رکھا ہے ۔ کہ جو شخص بھی اپنی روزمرہ ضروریات سے زائداتنا مال رکھتا ہے کہ اس سے قربانی کی جاسکے تو اس کو کرنی چاہیے چاہے وہ نصاب کو پہنچے یا نہ پہنچے ۔

رہا زکاۃ کے نصاب کو چاندی کے ساتھ منسلک کرنا باوجویکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سونا چاندی دونوں ہی بطور نقدی کے استعمال ہوتے تھے تو اس کی وجہ ’’ احتیاط ‘‘ ہے ۔ کیونکہ اگر اس کو سونے کے ساتھ منسلک کریں تو بہت سارے ایسے لوگ جو چاندی کے ساتھ صاحب نصاب بنتے ہیں وہ زکاۃ ادا نہیں کریں گے ۔ یہ معاملہ صرف زکاۃ کا ہی نہیں ، شریعت میں اور بہت سارے مسائل میں دو پہلوؤں میں سے احتیاط کا پہلو اختیار کیا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم۔
محترم یوسف ثانی صاحب آپ جو اصول ڈھونڈ رہے ہیں اس کانام ’’ احتیاط ‘‘ ہی ہے ۔
 
Top