• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زکوٰۃ کی ادائیگی سے قبل مفلس ہو جانا

شمولیت
فروری 05، 2019
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
30
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

شیخ محترم، ایک شخص صاحب نصاب تھا، اس پر زکوۃ واجب تھی، اس نے ادائیگی میں تاخیر کی اور کچھ دن بعد مفلس ہو گیا اب اس کے لئے شرعی حکم کیا ہے براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں
@اسحاق سلفی
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
أولا :نصاب پر ایک سال گذرنے کے بعد زکاة کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا درست نہیں اگر اس کی ادائیگی میں کوئی شرعی عذر مانع نہیں تھا اور اس کے بعد بھی تاخیر کی ہے تو ایسا شخص سخت گناہگار ہے اس کواپنے اس گناہ کی توبہ کرنا چاہئے اور کثرت سے نیکیاں کرنا چاہئے تاکہ اس کے گناہ کی کسی حد تک تلافی ہو سکے اور جب بھی اس کو دولت میسر ہو وہ اس کو ادا کرے
ثانیاً : اگر ادائیگی میں کوئی شرعی عذر مانع تھا مثلاً مصارف زکاة کی عدم فراہمی یا کسی شرعی عبادت میں مشغول ہونا اور اس کی وجہ سے فرصت کا نا ہونا تو ایسی صورت میں ایسا شخص گناہ گار نا ہوگا البتہ اس کو چاہیے جب بھی وہ مال کی فراوانی میں ہو تو اس کو اتنی زکاة جتنی اس پر واجب تھی ادا کرے گا، واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

شیخ محترم، ایک شخص صاحب نصاب تھا، اس پر زکوۃ واجب تھی، اس نے ادائیگی میں تاخیر کی اور کچھ دن بعد مفلس ہو گیا اب اس کے لئے شرعی حکم کیا ہے براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مسئلہ میں اہل علم کے دو موقف ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الموسوعة الفقهية الدرر السنية
موسوعۃ فقہیہ کا لنک متعلقہ صفحہ

هلاكُ المالِ بعد وُجوبِ الزَّكاةِ
مال میں زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع، تلف ہونا
اختَلف أهلُ العِلمِ في هلاكِ المالِ بعد وُجوبِ الزَّكاةِ على أقوالٍ ؛ منها:
زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہونے کی صورت میں اہل علم كا اختلاف ہے ،
القول الأوّل: أنَّ صاحِبَ الزَّكاةِ يضمَنُ الزَّكاةَ إذا هلَك المالُ بعد الوُجوبِ، سواءٌ فرَّط أو لم يُفرِّطْ، وهذا مذهَبُ الشافعيَّة ( المجموع شرح المہذب 5/333،الحاوی الکبیر)، والحَنابِلَة (الاقناع ،کشاف القناع ،المغنی) ، وبه قالتْ طائفةٌ مِنَ السَّلفِ (المغنی لابن قدامۃ) ، واختاره أبو عُبَيدٍ القاسِمُ بنُ سلَّامٍ (5) ، واللَّجنةُ الدَّائمة (المجلد 9 ص68) .
پہلا قول یہ ہے کہ : اگر کسی مال میں شرعاً زکوٰۃ واجب ہو جائے ،اور صاحبِ مال زکوٰۃ نہ دے اور مال ضائع ہوجائے ، تو زکاۃ کا مالک زکوۃ کا ضامن ہوگا، خواہ اس کی غلطی سے مال ضائع یا مال کے ضیاع میں اس کا ہاتھ نہیں تھا ،دونوں صورتوں میں وہ واجب الادا زکاۃ کا ضامن ہوگا ،. یہ شافعیہ (جیسا کہ امام نوویؒ نے المجموع شرح المہذب میں لکھا ہے) اور حنابلہ (3) اور سلف میں سے امام زہریؒ ،امام سفیان الثوریؒ ، امام حماد ،امام حکم وغیرہم اہل علم کا قول ہے.(جیسا کہ امام ابن قدامۃ ؒ نے "المغنی " میں نقل فرمایا ہے ، اور مشہور امام ابو عبیدؒ قاسم بن سلام اور سعودی علماء کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاویٰ کا بھی یہی کہنا ہے ۔
کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ :
سوال: حينما وقع لنا الحادث غرق مع من غرق في النيل حقيبة بها نقود لي، ومن ضمن هذه النقود كان معي مبلغ باقي من زكاة أموالي، قد نويت أن أخرجها في مصر، فهل يلزمني ؟
جواب : يجب عليك إخراج زكاة للفقراء بدلا من الزكاة التي تلفت في النهر؛ لأنها لم تصل إلى مستحقيها

(فتاوى اللجنة الدائمة ، جلد 9 ،ص68 )
سوال : ایک حادثہ میں میرا بیگ کھو گیا ،دریا میں ڈوب گیا جس میں میرے پیسے بھی تھے ، ان پیسوں میں میرے ذمہ واجب الادا زکاۃ کی رقم بھی تھی ،جس کی ادا کرنے کی میں نے نیت کی ہوئی تھی ،کیا یہ رقم کھوجانے کے بعد وہ زکوٰۃ ادا کرنا مجھ پر لازم ہے ؟

جواب :زکوٰۃ کی جو رقم مذکورہ حادثہ میں ضائع ہوگئی اس کے بدلے فقراء و مستحقین کو ان کا حق دینا آپ کے ذمہ واجب ہے ،کیونکہ اس رقم کے حقدار تھے جو ان تک نہ پہنچ پائی ، تواس کی دائیگی لازم ہے ۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ، جلد 9 ،ص68 )
اور سابقہ مذکور علماء کا یہ قول مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر ہے:
وذلك للآتي:
أوَّلًا: أنَّه حقٌّ متعيِّنٌ على ربِّ المالِ، تَلِف قبل وصولِه إلى مُستحِقِّه، فلم يبرَأْ منه بذلك، كدَينِ الآدميِّ، وصَدقةِ الفِطرِ
(دیکھئے حنفی فقہ کی کتاب "تبیین الحقائق و حاشیہ شلبی ،اور فقہ شافعی کی کتاب الحاوی للماوردی)
صاحب مال اس زکاۃ کا ضامن ہے اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ: یہ مال کا مالک پر متعین حق ہے ، جو اس حق کے مستحق تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہوگیا ، تو جس کے ذمہ اس حق کی ادائیگی تھی وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا، بلکل اس طرح جیسے کسی شخص کا قرض، اور صدقہ فطر ،
ثانيًا: أنَّه إذا تمكَّنَ ولم يؤدِّ صار بالتَّأخيرِ مُفرِّطًا، كالمُودَعِ عنده إذا طُولِبَ بردِّ الوديعةِ، فلم يردَّها حتى هلَكَتْ (دیکھئے حنفی فقہ کی کتاب "تبیین الحقائق و حاشیہ شلبی ،وفتح القدیر) .
دوسرا سبب یہ کہ : جب وہ زکاۃ کی ادائیگی پر قادر تھا تو اس نے ادائیگی میں تاخیر کرکے خود غلطی کی (تو مال ضائع ہونے کی صورت میں اسکی اپنی غلطی کو شرعی واجب ساقط کرنے کا عذر نہیں بنایا جاسکتا ) بلکہ اس زکوٰۃ کی ادائیگی تو اسی طرح ہے جیسے کسی کے پاس امانت رکھی جائے ،اور واپس مانگنے پر نہ دے بلکہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہے تا آنکہ وہ امانت ہی ضائع ہوجائے ،(تو ضائع ہونے کی صورت میں وہ اس کی ادائیگی سےبری الذمہ نہیں ہوجاتا )
ثالثًا: أنَّها زكاةٌ قَدَرَ على أدائِها بعد وُجودِها، فوجَبَ أن يلزَمَه ضمانُها، كما لو طالَبَه السَّاعي بها (9) . دیکھئے فقہ شافعی کی قدیم کتاب "الحاوی " للماوردی
تیسرا سبب یہ کہ : اس کے ذمہ یہ زکوٰۃ واجب تھی جس کی ادائیگی پر وہ بر وقت قادر تھا ،(لیکن بر وقت اس ادا نہیں کی ) تو اب لازم ہے کہ اس ضائع ہونے والے مال کا ضامن بھی یہ خود ہی بنے ، بالکل اسی طرح جیسے زکوٰۃ اکٹھی کرنے والا زکاۃ کے اموال کا ضامن ہوتا ہے ۔"
وذلك للآتي:
أوَّلًا: أنَّه لم يُفرِّط، وغايةُ ما هنالك أن تكونَ الزَّكاةُ في هذا المالِ كالأمانةِ التي لا تُضمَنُ إلَّا بالتَّفريطِ .
(المختارات الجلیۃ من المسائل الفقہیۃ )
ثانيًا: لو أنَّ فقيرًا وضَع عند شخصٍ دراهمَ له، ثم تلِفَت عند المودَعِ بلا تعدٍّ ولا تفريطٍ، فلا يلزَمُه أن يَضمَنَ للفقيرِ مالَه، فالزَّكاةُ مِن باب أوْلى، مع أنَّ الفقيرَ لا يملِكُ الزَّكاةَ إلَّا من جهة المزكِّي (15)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرا موقف :
القول الثاني: لا يَضمَنُ إلَّا إذا فرَّط، وهذا مذهبُ المالكيَّة (دیکھئے فقہ مالکیہ کی کتاب "مواہب الجلیل ") ، وهو اختيارُ ابنِ تَيميَّة : ولو تلف النصاب بغير تفريط من المالك لم يضمن الزكاة على ذلك من الروايتين واختاره طائفة من أصحاب أحمد
(الفتاوى الكبرى لابن تيمية 5/369)


وابنِ سعديٍّ : قرر الشيخ أنه يعتبر لوجوب الزكاة، بقاء المال إلى التمكن من الأداء، وأنه إذا تلف قبل ذلك بلا تفريط ولا ضمان على صاحبه.
كما صحح، جواز نقل الزكاة ولو لمسافة قصر، إذا كان ذلك لمصلحة. "المختارات الجلية، ص: 56، 58".

(منهج السالكين وتوضيح الفقة في الدين 1/100)
وابنِ عُثيمين : والصحيح في هذه المسألة أنه إن تعدى أو فرط ضمن، وإن لم يتعد ولم يفرط فلا ضمان؛ لأن الزكاة بعد وجوبها أمانة عنده، والأمين إذا لم يتعد ولم يفرط فلا ضمان عليه.
(الشرح الممتع على زاد المستقنع 6/45)
دوسرا قول :
مالکیہ اور امام احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہؒ (المتوفى: 728هـ) اور مشہور سعودی مفسر جناب عبدالرحمن بن ناصر السعدی (المتوفی 1376 ھ) اور علامہ محمد صالح العثیمینؒ (المتوفی 1421 ھ) کا کہنا ہے کہ :
اگر صاحب ِ مال کی غلطی اور قصور سے مال ضائع ہوا تو وہ ضامن ہوگا ،اور اس کی غلطی نہیں ہوا تو وہ زکاۃ کے پیسوں کا ضامن نہیں ہے ،(یعنی مال ضائع کے بعد ا ب اس کے ذمہ اس زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں )
واللہ تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top