اور چاہتی ہے کے ہر مہینے زکوۃ کے پیسے نکال دے تاکہ سال کے پورے ہونے تک جو بچے حساب کر کے باقی بھی دے دیں.
ہاں ایک بات یہ کے اس کی نظر میں جو مستحق ہے ان کو وہ ہر مہینے دے دے تو کیا زکوۃ ہو جائے گی
سوال: کیا میں ماہانہ وصول ہونے والی تنخواہ میں سے 2.5٪ کے اعتبار سے زکاۃ ادا کر سکتا ہوں؟ کیونکہ میں صرف نصف دورانیہ کی ڈیوٹی کرتا ہوں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ سال کے آخر میں زکاۃ یک بار ادا کرنا مشکل ہوگا، اور کیا وقتاً فوقتاً جو خیرات وغیرہ میں کسی کو دے دیتا ہوں اسے زکاۃ میں شمار کر سکتا ہوں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:
اول:
کسی بھی مال پر زکاۃ اس وقت تک لاگو نہیں ہوتی جب تک شرعی نصاب مکمل نہ ہو جائے، اور اس پر سال نہ گزر جائے، اسی میں ماہانہ تنخواہ بھی شامل ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ کی تنخواہ میں سے اتنی مقدار پر سال گزر جائے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے تو آپ کو اس کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور اگر نصاب کی مقدار سے کم ہو تو پھر اس پر زکاۃ نہیں ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (14 / 135)
دوم:
سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنا جمہور علمائے کرام کے ہاں جائز ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ وقت سے پہلے زکاۃ ادا نہ کرے، لیکن اگر ضرورت اور مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ واجب ہونے کے اسباب پائے جانے کے بعد زکاۃ کی پیشگی ادائیگی جمہور اہل علم کے ہاں جائز ہے، ان اہل علم میں ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد شامل ہیں، چنانچہ مویشیوں ، سونے چاندی، اور سامانِ تجارت کی زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ نصاب مکمل ہو" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 25 / 85 ، 86 )
سوم:
ماہانہ اقساط وغیرہ کی شکل میں زکاۃ ادا کرنا بھی جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ زکاۃ ادا کرنے کا وقت آنے سے پہلے مکمل زکاۃ ادا ہو جائے، چنانچہ سال مکمل ہونے پر بقیہ زکاۃ کو مزید مؤخر کرنا جائز نہیں ہے کہ انہیں بھی ماہانہ اقساط کی شکل میں ادا کرتا رہے، بلکہ سال مکمل ہونے پر مکمل مال کی زکاۃ فوری ادا کرنا ضروری ہوگا۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کا کہنا ہے کہ: "اپنے رشتہ داروں میں زکاۃ ماہانہ تقسیم مت کرے"، یعنی کہ: زکاۃ ادا کرنے کا وقت آنے کے بعد بھی ماہانہ اقساط کی صورت میں تقسیم مت کرے، تا ہم اپنے رشتہ داروں یا غیروں میں اگر زکاۃ کا وقت آنے سے پہلے ماہانہ اقساط کی صورت میں تقسیم کرے تو یہ جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا رہی ہے، مقررہ وقت سے مؤخر نہیں ہے" انتہی
"المغنی" (2/290)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے استفسار کیا گیا:
"کیا میرے لئے زکاۃ کی پیشگی ادائیگی پورے سال میں ماہانہ اقساط کی شکل میں کرنا جائز ہے؟ یعنی ، میں ہر مہینے غریب گھرانوں میں زکاۃ کی رقم پیشگی تقسیم کروں، تو کیا یہ جائز ہے؟"
تو کمیٹی کے علمائے کرام نے جواب دیا:
"زکاۃ کا مالی سال مکمل ہونے سے پہلے ایک یا دو سالہ زکاۃ پیشگی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کی ضرورت بھی ہو، نیز زکاۃ پیشگی ادا کرتے ہوئے فقراء میں ماہانہ وظیفہ کی شکل میں بھی تقسیم کی جا سکتی ہے" انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة" ( 9 / 422 )
مندرجہ بالا تفصیلات کے بعد:
اگر آپ کیلئے ماہانہ زکاۃ ادا کرنا آسانی اور سہولت کا باعث ہے، اور پورے سال کے بعد زکاۃ ادا کرنا آپ کو مشکل محسوس ہوتا ہے تو آپ ماہانہ زکاۃ ادا کر سکتے ہیں،
بشرطیکہ آپ کی تنخواہ نصاب کو پہنچتی ہو، تو پھر آپ اس میں سے 2.5٪ کے اعتبار سے زکاۃ ادا کر سکتے ہیں، اور اگر
آپ کی تنخواہ نصاب تک نہیں پہنچتی تو پھر آپ اپنے پاس موجود مال کے نصاب تک پہنچنے کا انتظار کریں، چنانچہ جب نصاب مکمل ہو جائے تو مذکورہ تناسب سے زکاۃ ادا کرنا شروع کر دیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ماہانہ تنخواہ سے پیشگی زکاۃ ادا کرنے کا کیا حکم ہے، اور اگر اس ملازم پر قرضہ بھی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے، یہ پیشگی زکاۃ ادا کرنے کے زمرے میں شامل ہوتا ہے، یعنی : اگر کوئی شخص اپنی تنخواہ ملتے ہی اس میں سے زکاۃ ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
[تنخواہ میں سے پیشگی زکاۃ ادا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ] جب پہلی تنخواہ حاصل کیے ہوئے پورا سال گزر جائے تو سابقہ تمام تنخواہوں کی زکاۃ ادا کر دے، اس طرح پہلی تنخواہ کی زکاۃ وقت پر اد اہوگی اور بقیہ مہینوں میں حاصل شدہ تنخواہ کی زکاۃ پیشگی ادا ہوگی، اور اس طرح پیشگی تنخواہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ طریقہ کار آسان اور سہولت والا ہے، اس کیلئے زکاۃ کی ادائیگی کا ایک مہینہ مقرر کر لے، یہ وہ مہینہ ہوگا جس میں پہلی تنخواہ پر زکاۃ واجب ہوئی، چنانچہ اسی ترتیب پر چلتا رہے، اس طرح جس تنخواہ پر زکاۃ واجب ہو چکی ہے اس کی زکاۃ وقت پر ادا ہو جائے گی، اور بقیہ کی زکاۃ پیشگی ادا ہو جائے گی۔
سائل نے جو صورت ذکر کی ہے وہ بھی آسان ہے، کہ جیسے ہی تنخواہ ملے فوری طور پر اس کی زکاۃ ادا کر دے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (204 / 4)
چہارم:
وقتاً فوقتاً جو خیرات وغیرہ کی مد میں آپ نے لوگوں کو دیا ہے، اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ نے وہ مال نفلی صدقہ کی نیت سے دیا ، زکاۃ کی نیت سے نہیں دیا اور آپ کی گفتگو سے بھی یہی محسوس ہو رہا ہے تو اسے زکاۃ میں شامل مت کریں، کیونکہ فرض زکاۃ ادا کرتے ہوئے فرض زکاۃ کی نیت ہونا لازمی امر ہے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انسان اپنے سارے مال کو نفلی صدقہ کی صورت میں تقسیم کر دے ، زکاۃ کی نیت نہ کرے تو یہ نفلی صدقہ اس کی زکاۃ سے کفایت نہیں کریگا، اسی موقف کے امام شافعی قائل ہیں، تاہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ: "مستحب طور پر اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی" لیکن یہ موقف درست نہیں ہے؛ کیونکہ صدقہ کرنے والے نے فرض زکاۃ کی ادائیگی کی نیت نہیں کی، یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ اپنے مال کا کچھ حصہ صدقہ کر دے، یا ایک سو رکعت پڑھ لے لیکن فرائض ادا کرنے کی نیت نہ کرے[تو جس طرح اس کے فرائض نہیں ہونگے، اسی طرح اُس کی زکاۃ بھی ادا نہیں ہوگی]" انتہی
"المغنی" (2/265)
اور اگر آپ نے یہ صدقہ خیرات اس نیت سے کیے تھے کہ یہ فرض زکاۃ میں سے ہے، تو پھر اسے آپ فرض زکاۃ میں شمار کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ نے انہیں زکاۃ کے معتبر مصارف میں خرچ کیا ہو، کیونکہ ہر قسم کے رفاہی اور فلاحی کام میں زکاۃ کا مال نہیں لگتا؛ بلکہ زکاۃ خرچ کرنے کی محدود اور مخصوص جگہیں ہے، اسی طرح ان کی اقسام و انواع بھی شرعی طور پر مقرر شدہ ہیں۔
اس بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (1966) ، (98528) ، (126075) کے جوابات ملاحظہ کریں۔
اسی طرح مزید سوالات کے جوابات دیکھنے کیلئے آپ ہماری ویب سائٹ پر زکاۃ کی ذیلی سرخی "زکاۃ کے مصارف" میں دیکھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب