• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زکوۃ کے متعلق چند سوال

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب حفظہ اللہ ایک بھائی کا سوال ہے. براہ کرم جواب عنایت فرمائیں.
میری بہن جاب کرتی ہے. اور چاہتی ہے کے ہر مہینے زکوۃ کے پیسے نکال دے تاکہ سال کے پورے ہونے تک جو بچے حساب کر کے باقی بھی دے دیں.
ہاں ایک بات یہ کے اس کی نظر میں جو مستحق ہے ان کو وہ ہر مہینے دے دے تو کیا زکوۃ ہو جائے گی
یا کسی کے مہینے کے پیسے باندھ دے زکوۃ کی نیت سے اور سال کے آخر میں حساب کر لے.
یا زکوۃ کے پیسے جمع کرتے میں اچانک کوئی ایسا مستحق مل جائے جس کو ضرورت ہو تو کیا وہ زکوۃ کے پیسے دے سکتی ہیں جب کے ابھی سال پورا نہیں ہوا . پلیز اِس کے بارے میں بتائیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور چاہتی ہے کے ہر مہینے زکوۃ کے پیسے نکال دے تاکہ سال کے پورے ہونے تک جو بچے حساب کر کے باقی بھی دے دیں.
ہاں ایک بات یہ کے اس کی نظر میں جو مستحق ہے ان کو وہ ہر مہینے دے دے تو کیا زکوۃ ہو جائے گی
سوال: کیا میں ماہانہ وصول ہونے والی تنخواہ میں سے 2.5٪ کے اعتبار سے زکاۃ ادا کر سکتا ہوں؟ کیونکہ میں صرف نصف دورانیہ کی ڈیوٹی کرتا ہوں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ سال کے آخر میں زکاۃ یک بار ادا کرنا مشکل ہوگا، اور کیا وقتاً فوقتاً جو خیرات وغیرہ میں کسی کو دے دیتا ہوں اسے زکاۃ میں شمار کر سکتا ہوں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب

الحمد للہ:
اول:
کسی بھی مال پر زکاۃ اس وقت تک لاگو نہیں ہوتی جب تک شرعی نصاب مکمل نہ ہو جائے، اور اس پر سال نہ گزر جائے، اسی میں ماہانہ تنخواہ بھی شامل ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ کی تنخواہ میں سے اتنی مقدار پر سال گزر جائے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے تو آپ کو اس کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور اگر نصاب کی مقدار سے کم ہو تو پھر اس پر زکاۃ نہیں ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (14 / 135)

دوم:
سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کرنا جمہور علمائے کرام کے ہاں جائز ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ وقت سے پہلے زکاۃ ادا نہ کرے، لیکن اگر ضرورت اور مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ واجب ہونے کے اسباب پائے جانے کے بعد زکاۃ کی پیشگی ادائیگی جمہور اہل علم کے ہاں جائز ہے، ان اہل علم میں ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد شامل ہیں، چنانچہ مویشیوں ، سونے چاندی، اور سامانِ تجارت کی زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ نصاب مکمل ہو" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 25 / 85 ، 86 )

سوم:
ماہانہ اقساط وغیرہ کی شکل میں زکاۃ ادا کرنا بھی جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ زکاۃ ادا کرنے کا وقت آنے سے پہلے مکمل زکاۃ ادا ہو جائے، چنانچہ سال مکمل ہونے پر بقیہ زکاۃ کو مزید مؤخر کرنا جائز نہیں ہے کہ انہیں بھی ماہانہ اقساط کی شکل میں ادا کرتا رہے، بلکہ سال مکمل ہونے پر مکمل مال کی زکاۃ فوری ادا کرنا ضروری ہوگا۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کا کہنا ہے کہ: "اپنے رشتہ داروں میں زکاۃ ماہانہ تقسیم مت کرے"، یعنی کہ: زکاۃ ادا کرنے کا وقت آنے کے بعد بھی ماہانہ اقساط کی صورت میں تقسیم مت کرے، تا ہم اپنے رشتہ داروں یا غیروں میں اگر زکاۃ کا وقت آنے سے پہلے ماہانہ اقساط کی صورت میں تقسیم کرے تو یہ جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا رہی ہے، مقررہ وقت سے مؤخر نہیں ہے" انتہی
"المغنی" (2/290)

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے استفسار کیا گیا:
"کیا میرے لئے زکاۃ کی پیشگی ادائیگی پورے سال میں ماہانہ اقساط کی شکل میں کرنا جائز ہے؟ یعنی ، میں ہر مہینے غریب گھرانوں میں زکاۃ کی رقم پیشگی تقسیم کروں، تو کیا یہ جائز ہے؟"

تو کمیٹی کے علمائے کرام نے جواب دیا:
"زکاۃ کا مالی سال مکمل ہونے سے پہلے ایک یا دو سالہ زکاۃ پیشگی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کی ضرورت بھی ہو، نیز زکاۃ پیشگی ادا کرتے ہوئے فقراء میں ماہانہ وظیفہ کی شکل میں بھی تقسیم کی جا سکتی ہے" انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة" ( 9 / 422 )

مندرجہ بالا تفصیلات کے بعد:

اگر آپ کیلئے ماہانہ زکاۃ ادا کرنا آسانی اور سہولت کا باعث ہے، اور پورے سال کے بعد زکاۃ ادا کرنا آپ کو مشکل محسوس ہوتا ہے تو آپ ماہانہ زکاۃ ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ کی تنخواہ نصاب کو پہنچتی ہو، تو پھر آپ اس میں سے 2.5٪ کے اعتبار سے زکاۃ ادا کر سکتے ہیں، اور اگر آپ کی تنخواہ نصاب تک نہیں پہنچتی تو پھر آپ اپنے پاس موجود مال کے نصاب تک پہنچنے کا انتظار کریں، چنانچہ جب نصاب مکمل ہو جائے تو مذکورہ تناسب سے زکاۃ ادا کرنا شروع کر دیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ماہانہ تنخواہ سے پیشگی زکاۃ ادا کرنے کا کیا حکم ہے، اور اگر اس ملازم پر قرضہ بھی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے، یہ پیشگی زکاۃ ادا کرنے کے زمرے میں شامل ہوتا ہے، یعنی : اگر کوئی شخص اپنی تنخواہ ملتے ہی اس میں سے زکاۃ ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
[تنخواہ میں سے پیشگی زکاۃ ادا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ] جب پہلی تنخواہ حاصل کیے ہوئے پورا سال گزر جائے تو سابقہ تمام تنخواہوں کی زکاۃ ادا کر دے، اس طرح پہلی تنخواہ کی زکاۃ وقت پر اد اہوگی اور بقیہ مہینوں میں حاصل شدہ تنخواہ کی زکاۃ پیشگی ادا ہوگی، اور اس طرح پیشگی تنخواہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ طریقہ کار آسان اور سہولت والا ہے، اس کیلئے زکاۃ کی ادائیگی کا ایک مہینہ مقرر کر لے، یہ وہ مہینہ ہوگا جس میں پہلی تنخواہ پر زکاۃ واجب ہوئی، چنانچہ اسی ترتیب پر چلتا رہے، اس طرح جس تنخواہ پر زکاۃ واجب ہو چکی ہے اس کی زکاۃ وقت پر ادا ہو جائے گی، اور بقیہ کی زکاۃ پیشگی ادا ہو جائے گی۔
سائل نے جو صورت ذکر کی ہے وہ بھی آسان ہے، کہ جیسے ہی تنخواہ ملے فوری طور پر اس کی زکاۃ ادا کر دے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (204 / 4)

چہارم:
وقتاً فوقتاً جو خیرات وغیرہ کی مد میں آپ نے لوگوں کو دیا ہے، اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ نے وہ مال نفلی صدقہ کی نیت سے دیا ، زکاۃ کی نیت سے نہیں دیا اور آپ کی گفتگو سے بھی یہی محسوس ہو رہا ہے تو اسے زکاۃ میں شامل مت کریں، کیونکہ فرض زکاۃ ادا کرتے ہوئے فرض زکاۃ کی نیت ہونا لازمی امر ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انسان اپنے سارے مال کو نفلی صدقہ کی صورت میں تقسیم کر دے ، زکاۃ کی نیت نہ کرے تو یہ نفلی صدقہ اس کی زکاۃ سے کفایت نہیں کریگا، اسی موقف کے امام شافعی قائل ہیں، تاہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ: "مستحب طور پر اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی" لیکن یہ موقف درست نہیں ہے؛ کیونکہ صدقہ کرنے والے نے فرض زکاۃ کی ادائیگی کی نیت نہیں کی، یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ اپنے مال کا کچھ حصہ صدقہ کر دے، یا ایک سو رکعت پڑھ لے لیکن فرائض ادا کرنے کی نیت نہ کرے[تو جس طرح اس کے فرائض نہیں ہونگے، اسی طرح اُس کی زکاۃ بھی ادا نہیں ہوگی]" انتہی

"المغنی" (2/265)

اور اگر آپ نے یہ صدقہ خیرات اس نیت سے کیے تھے کہ یہ فرض زکاۃ میں سے ہے، تو پھر اسے آپ فرض زکاۃ میں شمار کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ نے انہیں زکاۃ کے معتبر مصارف میں خرچ کیا ہو، کیونکہ ہر قسم کے رفاہی اور فلاحی کام میں زکاۃ کا مال نہیں لگتا؛ بلکہ زکاۃ خرچ کرنے کی محدود اور مخصوص جگہیں ہے، اسی طرح ان کی اقسام و انواع بھی شرعی طور پر مقرر شدہ ہیں۔
اس بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (1966) ، (98528) ، (126075) کے جوابات ملاحظہ کریں۔
اسی طرح مزید سوالات کے جوابات دیکھنے کیلئے آپ ہماری ویب سائٹ پر زکاۃ کی ذیلی سرخی "زکاۃ کے مصارف" میں دیکھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وقت سے قبل زكاۃ كى ادائيگى كرنا

كيا وقت سے قبل زكاۃ كى ادائيگى كى جاسكتى ہے؟
( مثلا اگر سال جولائى ميں ختم ہو رہا ہو اور ميں سارى يا زكاۃ كا كچھ حصہ اپريل ميں نكالنا چاہوں ) ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ:
جى ہاں زكاۃ كے وجوب سے قبل زكاۃ كى ادائيگى كرنا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عباس بن عبد المطلب رضى اللہ تعالى عنہ سے دو برس كى زكاۃ پہلے ہى لے لى تھى.

اور يہاں ايك تنبيہ كى جاتى ہے كہ زكاۃ ہجرى يعنى اسلامى سال كے پورا ہونے پر واجب ہوتى ہے نہ كہ ميلادى اور عيسوى سال پر، اور ان دونوں كے مابين فرق بھى ہر ايك كو معلوم ہے.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ur/1966
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تنخواہ میں سے ماہانہ بچت پر زکاۃ کس طرح ادا کرے؟

سوال:
میں ایک کمپنی میں تقریبا دو سال سے ملازمت کر رہا ہوں، اور ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بچت کے طور پر جمع کرتا ہوں، اور اس طرح سے دسویں ماہ میں میرے پاس اُسوقت کے مطابق نصابِ زکاۃ کے برابر رقم جمع ہوگئی تھی ، اور اس کے بعد میرے پاس موجود رقم کم زیادہ ہوتی رہی لیکن نصابِ زکاۃ سے کم نہیں ہوئی، اب میں اکیسویں مہینے میں ہوں، اور اب میرے پاس تقریبا دو گنا رقم جمع ہوچکی ہے، اور نصاب بھی بدل چکا ہے، جسکی وجہ سے میرے لئے معاملات خلط ملط ہوگئے ہیں، اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں کہ کس نصاب پر اعتماد کروں؟ پرانا نصاب یا نیا؟ میرے پاس موجود رقم کو بنیاد بناوں ، یا جس رقم پر سال گزرا ہے صرف اسی رقم کا اعتبار ہوگا؟ از راہِ کرم !مجھے وضاحت سے بتلائیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
جواب
الحمد للہ:
ایک مسلمان کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کی بچت میں سے زکاۃ دینے کا آسان اور محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کہ :

ماہانہ تنخواہ سے کی جانے والی بچت جس مہینے میں زکاۃ کے نصاب کے برابر ہوجائے تو اس ماہ سے لیکر ایک اسلامی ہجری سال کے بعد جتنی بھی رقم آپکے پاس ہے ، ساری رقم کی زکاۃ ادا کریں، حتی کہ سب سے آخری مہینے میں کی جانے والی بچت کو بھی زکاۃ کیلئے شامل کرے، جس کو آپ نے ابھی چند دن پہلے ہی بچت کھاتہ میں شامل کیا ہے۔

چنانچہ جس نصاب پر ایک سال کی زکاۃ واجب تھی اسکی زکاۃ آپ نے ادا کردی ہے۔
اور اسکے بعد والے مہینوں میں آپکی جمع شدہ بچت کی زکاۃ آپ نے قبل از وقت ادا کردی ہے، اور زکاۃ وقت سے پہلے ادا کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہانہ تنخواہ کی زکاۃ دینے کیلئے اچھا، بہترین، اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ آپ کسی ماہ کو مقرر کر لیں، اور اس ماہ میں اپنے سارے مال کی زکاۃ دے دیں۔

مثال کے طور پر: ایک انسان کی عادت ہے کہ وہ ہر رمضان میں زکاۃ دیتا ہے، تو وہ ماہِ رمضان میں اپنے پاس موجود سارے مال کی زکاۃ نکال دیتا ہے، حتی کہ شعبان میں حاصل ہونے والی رقم کی بھی زکاۃ دے دیتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ بہت اچھا ہے، اور انسان اس طریقے کی بنا پر زکاۃ کے معاملے میں پر سکون رہتا ہے، اس سے پرسکون طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ شعبان میں ملنے والی تنخواہ پر تو ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں؟
تو ہم اسے کہیں گے: اس رقم کی زکاۃ ایڈوانس ادائیگی میں شمار ہوگی، اور انسان اپنے مال کی زکاۃ ایک یا دو سال قبل بھی ادا کر سکتا ہے۔

چنانچہ ہم کہیں گے کہ بہتر یہ ہے کہ انسان کسی بھی ایک ماہ کو متعین کر لے، اور اس مہینے میں اپنے سارے مال کو جمع کر کے اسکی زکاۃ ادا کر دے ، چاہے کچھ مال پر سال گزر چکا ہو اور کچھ پر ابھی سال گزرنا باقی ہو" انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین " (18/175)

واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
https://islamqa.info/ur/160574
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ.
اللہ آپکے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے آمین
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
شیخ میں سمجه نہیں سکا. تنخواہ تو عموما آتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے. یعنی اس پر سال کہاں گزرتا ہے.یعنی عام طور پر پوری تنخواہ تو سال بهر ہر مہینے کی تو رکتی ہی نہیں پهر تنخواہ میں سے زکات کا فیصد کیسے نکلے گا.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تنخواہ تو عموما آتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے. یعنی اس پر سال کہاں گزرتا ہے.یعنی عام طور پر پوری تنخواہ تو سال بهر ہر مہینے کی تو رکتی ہی نہیں پهر تنخواہ میں سے زکات کا فیصد کیسے نکلے گا.
معاملہ حسب ذیل ہے :
ماہانہ تنخواہ سے کی جانے والی بچت جس مہینے میں زکاۃ کے نصاب کے برابر ہوجائے تو اس ماہ سے لیکر ایک اسلامی ہجری سال کے بعد جتنی بھی رقم آپکے پاس ہے ، ساری رقم کی زکاۃ ادا کریں،
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
@اسحاق سلفی محترم شیخ
ماہانہ تنخواہ اگر نصاب تک ہے تو بھی اس کی زکوٰۃ تو سال گزرنے پر فرض ہوگی۔یا ہر ماہ فرض ہوگی۔
مثال کے طور پر اگر میری تنخواہ 50000 ہزار ماہانہ ہے اور میں ہر ما ہ اپنی تنخواہ مکمل خرچ کر دیتا ہوں تواس پر کسطرح زکوۃ ہوگی۔
میں تو ہر سال ماہ رمضان میں اپنی جمع شدہ رقم اور زوجہ کے زیورات کی مالیت اور اگر اکاؤنٹ میں یکم رمضان سے پہلے سیلری آگئی تو اس کو بھی شامل کرکے اس رقم کی زکوۃ ادا کر تا ہوں۔کیا یہ طریقہ صحیح ہے۔؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
۱۔ زکوِۃ آمدن پر نہیں بلکہ بچت پر لاگو ہوتا ہے۔ ماہانہ بچت پر نہین بلکہ سالانہ بچت پر۔ یعنی اگر نصاب کے مساوی کل بچت بشمول سونا چاندی ہجری سال بھر تک آپ کے پاس رہے تب آپ پر کل بچت کا ڈھائی فیصد زکوِۃ عاءد ہوگا۔

۲۔ پیشگی زکوۃ دینے کے خواہشمند یہ تخمینہ لگا لیں ، کہ اگلے سال تک ان کی کل بچت کتنی ہوگی۔ سونا چاندی تو عموما٘ فکسڈ ہی رہتا ہے اگر سال کے دوران خرید و فروخت نہ کیا گیا ہو تو، بس اپنی متوقع بچت اور سونے چاندی کی مالیت کے حساب سے متوقع زکوۃ کا تخمینہ لگا لیجئے اور اسی تخمینہ شدہ رقم کو قسطوں میں ہر ماہ یا جب جب سہولت ہو یا جب جب کسی کو ضرورت ہو زکوۃ کی نیت سے ادا کرتے جائیے اور اس کا حساب بھی رکھتے جائیے۔

۳۔ سال کے اختتام پر موجود کل بچت مع سونا چاندی کی اصل زکوۃ کیلکولیٹ کیجئے۔ اگر سال بھر کے دوران اس اصل زکوۃ سے کم رقم ادا کی ہے تو بقیہ رقم بطور زکوۃ ادا کردیجئے۔ اگر زیادہ ادا کردی ہے تو اس زائد رقم کو اگلے برس کی پیشگی زکوۃ کے حساب میں لکھ لیجئے یا اس اضافی ادا شدہ رقم کونفلی صدقہ کردیجئے

واللہ اعلم بالصواب
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
افضلیت کس کی ہے ۔پیشگی ادائیگی کی یا سال پورا ہونے پر۔
 
Top