• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زکوۃ کے مسائل از شیخ عبد الوکیل ناصر

عمیراشرف

مبتدی
شمولیت
جولائی 30، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
0
زکوٰة کے مسائل

(اموال زکوٰة، نصاب زکوٰة، مصارف زکوٰة)

زکوٰة دین اسلام کا اہم ترین رکن ہے ، تقریباًاسی 80 مقامات پر قرآن مجید میں زکوٰة کا بیان ہوا ہے، زکوٰة ادا کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہیں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ورحمتی وسعت کل شئی فسأ کتبھا للذین یتقون و یؤ تون الزکاة ۔ الآیہ

اجروثواب کی بڑھو تری لوجہ اﷲ زکوٰة ادا کرنے سے ہی ممکن ہے وما آتیتم من زکوٰة تریدوں وجہ اﷲ فأ ولٰئک ھم المصعفون اور سب سے بڑھ اموال و ابدان کی تطہیر و تزکیہ اسی عمل کے اختیار کرنے سے ہو تا ہے۔

فرمایا گیا خذمن اموالہم صدقة تطہرھم و تزکیھم بھا … الآیہ

زکوٰة نہ صرف اس امت مسلمہ پر فرض ہے بلکہ سابقہ انبیاء علیہم السلام اور انکی امتوں کو زکوٰة ادا کرنے کی تعلیم دی گئی تھی۔جیسے ارشاد ہوا ہے وا و حینا الیہم فعل الخیرات و اقام الصلاةو ایتاء الزکواة ہم نے ان ( انبیائ) کو بذریعہ وحی اعمال حسنہ کرنے نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا۔

اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے '' وکان یا ٔ مر اہلہ بالصلاة و الزکاة''

وہ اپنے گھر والوں کو اقامة الصلاة اور ادائیگی زکواة کا حکم دیا کر تے تھے

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بار میں فرمایا گیا '' واوصانی بالصلاة و الزکاة مادمت حیاً''

الغرض زکوٰة ہر ہر امت میں رہی ہے اور ہم امت محمدیہ ( علی صاحبھا الصلاة و السلام) پر بھی یہ فریضہ عائد کیا گیاہے۔زکوٰة کی ادائیگی اگرچہ مکہ مکرمہ میں بھی تھی مگر باقاعدہ نصاب وغیرہ کے احکامات اور فرضیت کا بیان ہجرت مدینہ کے بعد ہوا۔ ذیل میں ادائیگی زکوٰة سے متعلق چند ضروری امور کی نشاندہی کی جا رہی ہے تاکہ علی وجہ البصیرة اس فریضہ پر عمل در آمد ہو سکے۔ واﷲ ولی التوفیق

مال زکوٰة:

اجمالاً اموال زکوٰة میں سونا، چاندی، مویشی، مال تجارت اور غلہ اناج وغیرہ کا ذکرملتا ہے، کچھ احادیث مبارکہ لکھی جاتی ہیں کہ جن میں مذکورہ اشیاء کی زکوٰة کا ذکر ہے۔

(١) سیدنا عبد اﷲ بن عمر اور سیدہ عائشہ ( دونوں) سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ہر بیس دینار یا اس سے کچھ زیادہ پر نصف دینار ( یعنی چالیسواں حصہ) (بطور زکوٰة کے) لیتے تھے اور ہر چالیس دینار سے ایک دینار ( یعنی چالیسواں حصہ) لیا کر تے تھے۔ ( سنن ابن ماجہ1448 )

(٢) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا '' وفی الر قة ربع العشر '' چاندی میں چالیسواں حصہ (2.5%) زکوٰة ہے ( سنن ابی دائود1567 )

(٣) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں ہے ۔ (بخاری ۔ الزکاة) نیز بکری کی زکوٰة کاذکر سنن ابی دائود حدیث نمبر 1561 میں آیا ہے اور اسی طرح گائے کی۔ زکوٰة کا ذکر سنن ابی دائود حدیث نمبر 1572 میں ہوا ہے۔ یاد رہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے اور اس پر اجماع امت ہے جیسا کہ علامہ ابن المنذر نے ذکر کیا ہے لہٰذا اگر بھینس کی تعداد بھی حولان حول کے بعد نصاب زکوٰة کو پہنچے تو زکوٰة ادا کرنی ہو گی۔

(٤) صحابہ کرام کو مال تجارت میں سے زکوٰة نکالنے کا حکم دیا جا تا تھا، ( سنن ابی دائود 1562 )

امیر عمر نے بھی مال تجارت کی قیمت لگا کر زکوٰة نکالنے کا حکم دیا تھا ( دار قطنی و بیہقی وغیرہ)

اور یہ بھی ظاہر بات ہے کہ انسان کا مال تجارتی اشیاء بھی ہو تی ہیں کہ جن سے وہ مال کما تا اور بڑھا تا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے '' یا ایھا الذین آمنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم '' الآیہ

(٥) غلہ اور اناج وغیرہ کی زکوٰة کا ذکر سنن نسائی، بخاری، مؤطا ، شرح معانی الآثار وغیرہ میں ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ '' یا ایھا الذین آمنو ا انفقوا من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنا لکم من الارض ( البقرہ) اور '' وآتو ا حقہ یوم حصادہ'' الآیہ

ان آیات میں خرچ اور حق ادا کرنے سے مراد ''زکوٰة '' ہی ادا کرنا ہے اور یہاں غلہ اور اناج ( پیداوار ارض) کا ذکر ہوا ہے۔

قارئین کرام یہ احادیث دلیل ہیں کہ اموال زکواة، سونا، چاندی، مویشی، مال تجارت اور غلہ و اناج وغیرہ ہیں کہ جن میں سے حولان حول اور بلوغ نصاب کے بعد زکوٰة ادا کرنی ہو گی۔

نصاب زکوٰة:

(١) سونے کا نصاب:

درج بالا احادیث میں سے سنن ابن ماجہ کی روایت '1448 میں سونے کا نصاب 20 دینار بیان ہوا ہے۔ آج اہل علم کی تحقیق کے مطابق یہ وزن ساڑھے سات تولہ بنتا ہے۔ لہٰذا جب اتنا سونا کسی کی ملکیت میں ہو تو سال گزرنے پر اسے 2.5% کے حساب سے زکوٰة دینی چاہیئے۔ (خواہ سونا کسی بھی شکل میں ہو)

(٢) چاندی کا نصاب:

صحیح بخاری میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ بیان ہوا ہے۔ جبکہ شرح معانی الآ ثار وغیرہ میں اس نصاب کو 200 درہم سے تعبیر کیا گیا ہے پانچ اوقیہ یا دو سو درہم کہیں بات ایک ہی ہے وزن برابر ہے اور آج اہل علم کے بقول اس کا وزن52½ تولہ بنتا ہے لہٰذا کسی کی ملکیت میں اگر اس مقدار کے برابر چاندی ہو ۔ (خواہ کسی بھی شکل میں ہو) تو سال گزرنے پر 2.5% کے حساب سے وہ زکوٰة ادا کرے۔

(٣) مویشی (بکری گائے ' اونٹ وغیرہ) کا نصاب:

صحیح بخاری کتاب الزکاة میں اونٹوں کا نصاب 5 اونٹ بیان ہوا ہے کہ اگر پانچ اونٹ ہوں تو ان پر ایک بکری زکوٰة ہے ، 5 سے24 اونٹ تک ہر 5 میں ایک بکری ہی ہو گی (صحیح بخاری۔ کتاب الزکاة ) 5 سے کم اونٹوں پر زکوٰة نہیں ہے۔

گائے کا نصاب سنن ابی دائود1572 اور جامع ترمذی وغیرہ میں 30 کے عدد سے بیان ہوا ہے اور یہ بھی کہ 30 گائیوں پر سال گزرنے کے حساب سے ایک سالہ بچھڑی یا بچھڑا بطور زکواة کے دیا جائے گا۔ 30 سے کم گائے پر زکواة نہیں ہے۔

بکری کی زکوٰة کا نصاب صحیح بخاری میں 40 بکریاں بیان ہوا ہے اس میں بکری زکوٰة ہے120 تک یہی نصاب رہے گا ۔ 40 سے کم بکریوں پر زکوٰة نہیں ہے۔

مویشیوں کی زکوٰة کے سلسلے میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہ جانور ''سائمہ'' ہوں، اس سے مراد یہ ہے کہ جو ( سال کا زیادہ حصہ ) قدرتی وسائل ( چارہ گھاس وغیرہ) پر گزارا کر تے ہوں جو مویشی مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کر تے ہوں اور ذاتی استعمال کیلئے ہوں تو ان پر کوئی زکوٰة نہیں، خواہ تعداد میں کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔البتہ جو مویشی تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں انکی آمدنی پر زکوٰة ہو گی۔

(٤) اناج اور غلہ کا نصاب:

صحیح بخاری شریف میں زرعی پیداوار کا نصاب 5 وسق بیان ہوا ہے جس کا وزن آج کے اعتبار سے 19 یا 20 من بنتا ہے۔ ( یا دوسرے لفظوں میں 725 یا 750 کلو) سنن نسائی میں بھی اسی وزن کا ذکر بطور نصاب کے کیا گیاہے۔

لہٰذا اگر زرعی پیداواری اس وزن کو پہنچ جائے تو زکوٰة ادا کرنی ہو گی بارانی پیداوار پر عشر ( یعنی دسواں حصہ) اور کنواں ، ٹیوب ویل،نہر وغیرہ سے خرید کر یا محنت شاقہ کر کے زمین سیراب کی گئی ہو تو پھر پیداوار کا پانچواں حصہ ( نصف العشر) زکواة ادا کرنی ہو گی ( صحیح بخاری، کتاب الزکاة)

یاد رہے کہ یہ عشر یا نصف العشر فصل کی کٹائی کے وقت ادا کیا جا تا ہے اور اگر فصل سال میں دو مرتبہ کٹتی ہے یا اس سے زیادہ مرتبہ زمین فصل دیتی ہے تو ہر فصل کی کٹائی پر نصف العشر یا عشر بصورت زکوٰة دینا ہو گا۔

نیز یہ بھی واضح ہو کہ ہر زرعی پیداوار پر زکوٰة ہو گی خواہ کچھ بھی ہو الایہ کہ دلیل کی بنیاد پر کسی چیز کو استثناء حاصل ہو جیسے سبزیاں وغیرہ ( کما فی الترمذی)

یا ایھا الذین آمنو انفقو ا من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنا لکم من الارض ( البقرہ) اس آیت میں عمومی حکم ہے کہ زمین کی پیداوار میں سے خرچ کرو ( یعنی زکوٰة دو) لہٰذا عموم کا تقاضہ ہے کہ ہر قسم کے غلہ و اناج پر زکوٰة دی جائے۔ واﷲ اعلم

(٥) مال تجارت کا نصاب:

مال تجارت کا نصاب نقد کرنسی کا نصاب ہے کیونکہ کرنسی سونے چاندی کا بدل ہے لہٰذا اگر مال تجارت کا حساب کر کے سال کے آخر میں اتنا مال با اعتبار قیمت کے ہو یا اتنا پیسہ ہو کہ ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکے تو اس پر 25% کے حساب سے زکواة دی جائے گی۔

چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کہ اس میں عوام کی منفعت زیادہ ہے کہ اقل االنصاب کو جلد پہنچنا ممکن ہے اور اس طرح غریب، غربائ، فقراء و مساکین زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مال تجارت ، سونا، چاندی، مویشی اور غلہ وغیرہ کے نصاب کو پہنچنے کی شرط کے ساتھ ساتھ یہ بھی (ادائیگی زکوٰة کیلئے) ضروری ہے کہ ان اشیاء پر حولان حول یعنی ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔

جیسا کہ جامع ترمذی وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ حاصل کر دہ مال پر ( مالک کی ملکیت میں) جب ایک سال گزر جائے تو زکوٰة ہے۔ اسکی تائید اس روایت سے بھی ہو تی ہے کہ جس میں آتا ہے کہ سیدنا عباس نے نبی علیہ السلام سے قبل الوقت زکوٰة دینے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اجازت مرحمت فرما دی ( جامع الترمذی)

تنبیہ: شہد کی پیداوار پر عشر دینے اور رکاز ( دفن شدہ خزانہ) حاصل ہونے پر خمس ( پانچواں حصہ) زکواة دینے کا ذکر احادیث مبارکہ میں ملتا ہے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الزکاة اور سنن ابن ماجہ)

زکوٰة سے مستثنیٰ چیزیں:

٭ بعض اشیاء پر زکوٰة نہ دینے کا ذکر ہوا ہے مثلاً صحیح بخاری شریف میں آتا ہے کہ ''مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکوٰة نہیں ہے ۔ (یاد رہے اس میں ذاتی استعمال کی اشیاء مثلاً رہائشی مکان، گاڑی، فرنیچر، فریزر یا دیگر استعمال کے برتن وغیرہ بھی شامل ہیں کیونکہ ان پر زکوٰة کی کوئی دلیل نہیں ملتی)

٭ مال بر داری کے جانور یا لوڈنگ گاڑیاں اور مشینیں جو کہ آلات کسب و تجارت ہیں ان پر کوئی زکوٰة نہیں بلکہ انکی آمدنی پر شرط معلومہ کے ساتھ زکوٰة عائد ہو گی صحیح ابن خزیمہ اور سنن ابی دائود وغیرہ میں ہے کہ '' یس علی العوامل شئی أو صدقہ'' عامل (آلہ تجارت) پر کوئی زکوٰة نہیں۔

٭ زرعی پیداوارمیں سے سبزیوں پر کوئی زکوٰة نہیں۔ جیسا کہ جامع ترمذی اور دار قطنی وغیرہ میں ذکر آیا ہے۔

مصارف زکوٰة:

مسلمان جس طرح کمانے میں آزاد نہیں بلکہ کمائی اور کسب میں شرعی تقاضوں اور آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا پابند ہے، اسی طرح خرچ کرنے میں بھی اسے بسا اوقات پابند کرکے آداب سکھائے گئے ہیں۔

زکوٰة خرچ کرنے کی مدیں، جگہیں قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہیں کہ یہ صدقات ( زکوٰة) فقرائ، مساکین، عاملین ( زکوٰة جمع کرنے والے ) مؤلفة القلوب یعنی جنکی تالیف قلب مقصود ہو) ، گردن آزاد کروانے مقروض کا بوجھ ہٹانے۔

جہاد فی سبیل اﷲ اور ضرورت مند مسافروں کے لیے ہیں۔ (سورة التوبہ)

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی زکوٰة کو مذکور بالا آٹھ حصوں اور مدوں میں تقسیم کریں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زکوٰة ان جگہوں یا ان مستحقین پر خرچ کر سکتے ہیں چاہے ضرورت کے تحت کسی ایک ہی مد میں ساری زکوٰة لگا دیں مذکورہ مدوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

(١) فقرائ: جو بالکل ہی تہی دست و خالی دامن ہوں

(٢) مساکین: جو کچھ مال و زر تو رکھتے ہوں مگر گزر اوقات مشکل ہو، نبی علیہ السلام نے فرمایا '' مسکین وہ چیز نہیں پا تا جو اسے (محتاجی سے) بے نیاز کر دے، نہ ہی اسکی حالت سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہ ضرورت مند ہے نہ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کر تا ہے۔ (صحیح بخاری )

قرآن مجید میں ایک دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ صدقات ( زکوٰة وغیرہ) ان فقراء کیلئے ہے جو اﷲ کے راستے میں اس طرح محصور کر دئیے گئے کہ زمین میں چل پھر کر اپنی روزی نہیں کما سکتے بے علم لوگ ان کی خاموشی کی بنا پر انہیں غنی، مال دار گمان کر تے ہیں ،انکی علامتوں سے آپ انہیں پہچان لیں گے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کر تے (البقرہ)

تقریباً تمام اہل علم و مفسر ین نے ان مذکورہ مدوں میں ، علماء خطبائ، واعظین ، مدرسین متعلمین مدارس دینیہ اور دینی امور کی ترویج و اشاعت سے وابستہ ادارہ جات احباب اور تمام فلاحی اداروں سے منسلک افراد کو شامل کیا ہے بشر طیکہ ان میں دینی پہلو نمایاں اور ترجیحات میں شامل ہو۔

یاد رہے ان طلبہ، علمائ، خطبائ، عاملین امور دینیہ اور دینی اداروں کی منفعت عموم پر ہے کہ ہر ایک اس سے مستفید ہو تا ہے لہٰذا ان سب کو ترجیح بنیادوں پر ادائیگی زکوٰة و صدقات میں یاد رکھنا چاہئے۔

(٣) عاملین علیہا: یہ وہ لوگ یا وہ ادارہ جات ہیں کہ جو لوگ زکواة و صدقات کے جمع کرنے پر مامور ہیں، انکی اعانت بھی زکوٰة کی مد سے کی جا سکتی ہے ، وظیفہ مشاہرہ یا کسی اور طریقے سے بھی جو ممکن العمل ہو۔

(٤) مؤلفة القلوب: ان سے مراد وہ اہل کفرة و الفجرة بھی ہو سکتے ہیں کہ جو مائل تو ہیں کہ مسلمان ہوجائیں مگر حالت ناگفتہ بہ کی وجہ سیرکے ہیں تو انہیں مدد دیکر اسلام کی راہ پر لگایا جا سکتا ہے اور ان سے مراد وہ مسلمان بھی ہو سکتے ہیں جو کمزور ایمان رکھتے ہیں خصوصاً غربت و ناداری کی وجہ سے اغیار کی طرف متوجہ رہتے ہیں تو انہیں زکوٰة کے ذریعے ثابت قدم رکھا جا سکتا ہے اس طرح کہ انکی اعانت مستقل بنیادوں پر کی جائے اور آج تو عیسائی مشنریاں ہسپتالوں ، اسکولوں اور نہ جانے کس طرح لوگوں کے دل جیتنے میں مصروف ہیں تو مسلمان بھی ا سطرح کی خدمات سر انجام دیکر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔

(٥) الرقاب: غلامی سے نجات دلوا کر آزادی دینا مراد ہے اور آج کے دور میں اس مد کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے کس مسلمان بھائی کو جو کہ اہل کفر کے ہاں قید ہو یا کسی جرم ناکردہ کی سزا کاٹ رہا ہو تو ہم اسے چھڑوانے کیلئے زکوٰة کی رقم سے بھی خرچ کر سکتے ہیں اور فدیہ دے سکتے ہیں۔

(٦) الغارمین: جو دیوالیہ ہوجائے، مال لٹنے یا جلنے کی شکل میں یا مقروض اس قدر ہو کہ مسکنت سے دو چار ہو گیا ( خواہ رہائشی گھر وغیرہ بھی رکھتا ہو ) تو اسکی اعانت بھی زکوٰة سے کی جا سکتی ہے۔

(٧) فی سبیل اﷲ: اس سے مراد قول جمہور کے مطابق جہاد و قتال فی سبیل اﷲ ہے کہ جس میں زکوٰة فورسز کی تیاری اور اسلحہ وغیرہ کی خریداری اور غازی و شہداء کے ورثاء کی امداد میں خرچ کی جا سکتی ہے۔

بعض اہل علم کے نزدیک '' فی سبیل اﷲ '' عام ہے ہر وہ کام جو دینی منفعت کا ہو اس میں زکوٰة خرچ کی جا سکتی ہے ۔ واﷲ اعلم

(٨) ابن السبیل: یہ وہ مسافر ہے جو دیا رغیر میں آکر لٹ بیٹھا یا کسی حادثہ کی بنا پر محتاج ہو گیا اب اگر اسکی اعانت زکوٰة ہی سے ممکن ہو تو یہ جائز ہے کہ اسے زکوٰة دی جائے خواہ یہ بھی علم ہو کہ یہ (متاثر) شخص اپنے شہر میں بہت مال رکھتا ہے۔

٭ یاد رہے عمومی قاعدہ یہ ہے کہ ''زکوٰة '' صرف '' مسلمان'' کو ہی دی جائے، البتہ بو قت ضرورت تالیف قلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی غیر مسلم / مشرک وغیرہ کو بھی زکوٰة دی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ محارب ( جنگجو ، فتنہ پرور ) نہ ہو۔

٭ آل رسول علیہ الصلاة و السلام، غیر مسلم، بے دین ، والدین، سگی اولاد، بیوی، مسجد وغیرہ، ان مذکورہ اشخاص و اما کن پر زکوٰة نہیں لگتی، عمومی قاعدہ یہی ہے۔

مزید معلومات کیلئے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اﷲ کی کتاب '' عشر ، زکوٰة ، صدقات ، فضائل و احکامات '' اور محترم اقبال کیلانی حفظہ اﷲ کی کتاب '' زکوٰة کے مسائل '' دیکھئے۔
 
Top