• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زیارت قبر نبوی

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
کتاب کا نام
زیارت قبر نبوی
مصنف
علامہ محمد بشیر سہسوانی
تحقیق و تخریج
حافظ شاہد محمود
ناشر
ام القریٰ پبلی کیشنز، گوجرانوالہ

تبصرہ​
امت ِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے او راس میں کسی قسم کی زیادتی او رکمی کرنا موجب کفر ہے ۔اس لیے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نےہم مسلمانوں پر صرف اللہ اور اس کے رسول کے امر کوواجب قرار دیا ہے کسی اور کی بات ماننا واجب اور فرضم نہیں خاص طور پر جب اس کی بات اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مخالف ہو۔زیارت ِ قبر نبوی سے متعلق سلف صالحین (- صحابہ ،تابعین،تبع تابعین) اور ائمہ کرام کا جو طرز عمل تھا وہ حدیث ،فقہ اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے فرمان نبویﷺ لاتشد الرحال إلا ثلاثة ( تین مسجدوں کے علاوہ عبادت اور ثواب کے لیے کسی اور جگہ سفر نہ کیا جائے ) کے پیشِ نظر قرونِ ثلاثہ میں کوئی رسول اللہ ﷺ یا کسی دوسرے کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نہیں کرتا تھا ،بلکہ مدینہ میں بھی لوگ قبرنبوی کی زیارت کے باوجود وہاں بھیڑ نہیں لگاتے او رنہ ہی وہاں کثرت سے جانے کو پسند کرتے تھے ۔قبر پرستی کی تردید اور زیارتِ قبر کے مسنون اور بدعی طریقوں کی وضاحت کےلیے علمائے اہل حدیث نےبے شمار کتابیں لکھیں اور رسائل شائع کیے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’زیارت قبر نبویﷺ‘‘ مقام انبیاء ،مزارات اولیاء اورمقامات مقدسہ کی طرف سفر اور زیارت کا حکم کو موضو ع برضغیر کے متبحر عالم دین سید نذیر محدث دہلوی کے شاگرد محدث العصر علامہ محمد بشیر سہسوانی  کی وہ کتاب جسے انہوں نے مولانا ابوالحسنات عبدالحی حنفی کی’’ الکلام المبرور فی رد القول المنصور‘‘ کے جواب میں إتمام الحجة علي من أوجب الزيارة مثل الحجة المعروف بالسعي المشكور‘‘کے نام سے دیا۔ علامہ سہسوانی اور مولاناعبد الحی لکھنوی کے مابین مسئلہ شد رحال کے موضوع ایک عرصہ تک تحریر وتقریری مباحثہ جاری ہے ۔کتاب ہذا مذکورہ مسئلہ پر علامہ سہسوانی کی طرف سے آخری جواب ہے جس میں مصنف موصوف نے مسئلہ شد رحال کا صحیح موقف قرآن وحدیث اورآثار سلف صالحین کی روشنی میں مدلل انداز میں واضح کیا ہے۔حافظ مولانا حافظ شاہد محمود(فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے اس بڑی محنت شاقہ سے تحقیق وتخریج کا کام کیا ۔اور فضیلۃ الشیخ عزیر شمس کا طویل مقدمہ بھی کتاب کے شروع میں شامل اشاعت ہے ۔ جس سے کتاب کی علمی اور استنادی حیثیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔اللہ تعالی اس کتاب کو عوام الناس کے عقیدہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔ مصنف اور کتاب کو تسہیل ، تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع کرنے شامل تمام احباب کی محنتوں کو قبول فرمائے اوران کےعلم وعمل میں اضافہ فرمائے (آمین) (م۔)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
فہرست مضامین
حرف اول
مقدمہ
سوانح علامہ محمد بشیر سہسوانی
عرض مولف
آغاز کتاب
سبب تالیف
مراتب بحث
مقدمہ
پہلی فصل زیارت مسنونہ
قبروں پر بدعات کے مراتب
قبر نبوی کی زیارت مسنونہ میں تین احتمالات
قائلین وجوب کے شبہات اور ان کا رد
زبان سے تعظیم کرنے کا معنی
حنفی علما کے اقوال
مالکی شافعی اور حنبلی علماء کرام کے اقوال
احادیث زیارت کی تحقیق
مولوی عبد الحئی صاحب کے مغالطات کا جواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔بہت مفید کتاب ہے۔
 

ظہیر احمد

مبتدی
شمولیت
دسمبر 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
6
یٰاَیَّھاَالنَّاسُ قََدْ جَائَ کُمْ بُرْ ھَا نُ مِّنْ رَّ بِِّکُمْ وَ اَ نْزَ لْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
النساء (174)
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے قوی دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف ہدایت دینے والا نور نازل کیا ہے۔
آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے پاس بر ہان یعنی قوی دلیل آگئی ہے۔ اِس سے مراد سیدنا حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تمہاری طرف نور مبین نازل کیاگیا ہے۔اِس سے مراد قرآن کریم ہے ۔
سیدنا حضرت محمدﷺ کو بر ہان فرمانے ہیں یہ اشارہ ہے کہ آپﷺ کو اپنی نبوت اور رسالت کو منوانے کیلئے کسی الگ اور خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ آپ کا وجود ِمسعوداور ذات گرامی بجائے خود آپﷺ کی نبوت اور رسالت پر دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے نبیوں اور رسولوں نے اپنی نبوت اور رسالت پر خارجی معجزات پیش کئے اور آپﷺ نے اپنی نبوت اور رسالت پر اپنی زندگی پیش کی۔
قرآن مجید میں ہے۔
فَََقَدْ لَبِِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًامِنْ قَبْلِہٖ اَ فََلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:16)
میں تم میں اس(نزول قرآن) سے پہلے اپنی عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں کیا تم نہیں سمجھتے۔
حضرت خدیجہ الکبٰری ؓ،حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت علی ؓاور حضرت زید بن حارث ؓیہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔اوریہ سب بغیر کسی معجزہ کے ایمان لائے تھے ۔ ان کیلئے یہی دلیل کافی تھی کہ انہوں نے آپﷺ کی زندگی کو دیکھا تھا۔اور حضور ﷺ کی زندگی ہی آپﷺ کے دعویٰ نبوت پر بہت قوی دلیل تھی۔
نبی کریم ﷺکا نام مبارک’’ محمد اور احمد ؐ‘‘ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے نازل فرمایا ھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں
جب چھ ماہ گزر گئے تو خواب میں کوئی آنے والا آیا اور اُس نے کہا
اِ نَّکَ حملت بخیر العالمیین فاذا ولدۃ فسمیہ محمد
(مواہب لدنیہ جلد: 1صفحہ 124)
یعنی اے آمنہ ؓ ! تیرے شکم پاک میں وہ ہے کہ سارے جہانوں سے افضل وا علیٰ ہے ۔ جب اس کی ولادت ہو تو اسکا نام محمد ﷺ رکھیں۔
نیز شفاء قاضی عیاض میںہے کہ رسول کریم ؐ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں میرا نام محمد اور احمدﷺ رکھا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ الصف آیت نمبر06میں آپ ﷺکے بارے میں حضرت عیسیٰؑ کی پیش گوئی اور اسم احمد کا ذکر ہے۔جبکہ سورۃ الفتح آیت نمبر29،سورۃ الاحزاب آیت نمبر40،سورۃمحمد آیت نمبر02، اور سورۃ آل عمران آیت نمبر 144میںآپ ﷺ کے اسم مبارک ’’محمدﷺ‘‘ کا ذکر ہے۔
آئیے اب آپ ﷺکے اسم گرامی کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
لفظ محمد، حمد سے مشق ہے اور حمد کا معنی ہے مدح ،تعریف،سراہنا۔ لہذامحمد کے معنی ہوئے وہ ذات جس کی مدح و تعریف کی جائے۔ جبکہ محمد مبالغہ کا صیغہ ہے۔(مبالغہ یعنی ایسا کام جو بڑھا چڑھا کر ضرورت سے زیاد ہ کیا جائے)اور مبالغہ مطلق اس بات کا متقاضی ہے کہ اِس (محمدﷺ)کی بار بار اور بہت زیادہ تعریف کی جائے ۔ اور تعریف کے لائق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی عیب یا کوئی نقص نہ ہو۔
مثال کے طور پر ایک موبائل فون ہے ۔کوئی شخص کہے یہ نہایت خوبصورت ہے، پائیدار اور مضبوط ہے اور بنانے والی کمپنی بھی مشہور و معروف اور ذمہ دار ہے۔نیز یہ موبائل فون ہر حیثیت سے بے مثال اور لاجواب ہے۔ سننے والے کو فوراً اعتبار آجائے گا ۔کہ واقعی یہ موبائل فون تعریف کے لائق ہے ۔لیکن کہنے والا اگر اِسکی تعریف کرتے کرتے یوںکہہ دے کہ یہ موبائل ہے تو ہر حیثیت سے لاجواب مگر اُسکی آواز صاف نہیں ہے ،آواز میں خلل آجاتا ہے تو صرف اس ایک عیب کی وجہ سے وہ موبائل فون تعریف کے قابل نہیں رہے گا ۔ پس جس ذات والا صفات کا نام مبارک اللہ تعالیٰ محمد ﷺ (تعریف کیا گیا)نازل کرے وہ ذات یقیناً ایسی ہو گی جس میں کوئی عیب ،کوئی نقص نہ ہو۔کیونکہ وہ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جس میں معمولی سا بھی عیب ہو وہ محمد نہیں ہو سکتا ۔
اب آگے چلیے کہ کسی چیز کا علم نہ ہوناجہالت کہلاتا ہے۔اور جہالت عیب ہے۔ اور جس کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو یہ مجبوری ہے اورمجبوری عیب ہے۔ اور جس میں عیب ہو وہ محمد (تعریف کیا گیا )نہیں ہو سکتا ۔اللہ تعا لیٰ جو بالذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے اُس نے اپنے حبیب حضور نبی کریم ﷺ کو محمد بنا کر بھیجا ہے تو اُن میں عیب و نقص کیو نکر ہو سکتا ہے۔ اور آپ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے اگر یوں کہیں کہ رسول ﷺ کو فلاں چیز کا علم نہیں تھا ۔ وہ کسی چیز کے مختارنہیں اور رسول ﷺ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا تو گویا ایسا کہنے والے آپ ﷺ کو محمد نہیں مان رہے ۔اور اُن کا ایمان کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔
ہاں ہاں بشر میں عیب ہو سکتے ہیں۔ محمد ﷺ میں نہیں ہوسکتے لیکن رحمت عالم نبی کریم ﷺ بشر بعد میں بنے۔ محمدﷺ پہلے تھے۔ بشریت کا سلسہ تو اُس وقت سے چلا جب اِس دنیا ء آب وگل میںآپ ﷺکا ظہورفرمایا۔
اور اللہ تعالیٰ نے نور مصطفیٰ ﷺ کو نام محمد پہلے ہی عطا فرمادیا تھا۔
صحابہ کرام ؓ بھی نبی کریم روف الرحیم ﷺ کو بے عیب مانتے تھے چنانچہ سید نا حضرت حسان بن ثابت ؓ عرض کرتے ہیں ۔
خَلَقْتَ مبراً مِنْ کُلِّ عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
یعنی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں ۔ گویا جیسے کہ آپ چاہتے تھے خالق کائنات نے آپ کو ویسا ہی پیدا کیا ہے۔
یہاں ایک مثال سے سمجھنے کی کو شش کریں۔ ایک کاریگر نے بہت سی اچھی اچھی چیزیں بنائیں بعد میں اُس نے اپنے فن کے اظہار کیلئے اپنی کاریگری کا ایک شاہکار نمونہ بنا کر چوراہے پر رکھ دیا تاکہ لوگ آئیں اور اِس شاہکار کو دیکھیں۔ چنانچہ اِس کاریگری کے مداح(Fans) یعنی اُسکی اپنی پارٹی کے لوگ آتے گئے اور دیکھ دیکھ حیران و قربان ہوتے گئے واہ واہ کیا عجیب چیز بنائی ہے اِس میں یہ بھی خوبی ہے یہ بھی کمال ہے الغرض کمال ہی کمال ہے ،حسن ہی حسن ہے کسی طرف سے کوئی نقص نہیں اور کاریگر کو مبارک بادیاں دیتے رہے ۔ پھر کچھ وہ لوگ بھی آئے جو مخالف پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے دیکھا تو بولے بھئی!چیز تو اچھی بنائی ہے مگر یہاں سے ٹھیک نہیں بنی دیکھو ،یہاں یوں نہیں ،یہاں یوں نہیں وغیرہ۔ حقیقت میں وہ اُس چیز میں عیب نہیں لگارہے بلکہ کاریگرکی کاریگری میں عیب لگارہے ہیں ۔اور جو کاریگر کی پارٹی والے ہیں ۔وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ اُس چیز کی تعریف کر رہے ہیں ۔ تو حقیقت میں اُس چیز کی تعریف نہیں کر رہے بلکہ وہ کاریگر کی تعر یفیں کر رہے ہیں کیونکہ اس چیز میں اسکا اپنا تو کوئی کمال نہیں تھابلکہ اس میں کمال آیا تو کاریگر کی کاریگری کی وجہ سے آیا ۔ بلکہ وہ کمال سارے کا سارا ہے ہی اس کاریگر کا۔
یوں ہی اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ کی مخلوق بنائی ،ولی بنائے،ابدال بنائے،اوتاد بنائے، قطب بنائے،امام بنائے ، غوث بنائے،صحابی بنائے، نبی بنائے ،رسول بنائے ،الوالعزم پیغبر بنائے (جن سے نادانستہ خطائیں بھی ہوئیں) اوربعد میں ایک شا ہکارِ قدرت بناکر بھیجا جس میں ہر حیثیت سے خو بیاں ہی خوبیاں ہیں ۔ اُس میں کسی قسم کا کوئی سقم یا عیب نہیں رہنے دیا ۔ کیونکہ یہ شاہکارِ قدرت ہے۔ قدرت کا نمونہ ہے اب اِس بنانے والے کی پارٹی کے لوگ ’’اولئک حزب‘‘ اللہ آئے۔ صدیق اکبر ؓ آئے ،فاروق اعظم ؓ آ ئے، ذوالنوینِؓ آئے، حیدر کرارؓ آئے ۔انہوںنے دیکھا تو سبحان اللہ سبحان اللہ انکی زبانوں پر جاری ہو گیا۔ واہ و اہ اس شاہکارِ قدرت میں کیسے کیسے کمالات اور کیسی کیسی خو بیاں ہیں ۔ یونہی غوث اعظم آئے،امام اعظم آئے، داتا گنج بخش علی ہجوری آئے،خواجہ غر یب نواز آ ئے،خواجہ فرید الد ین گنج شکر آ ئے ، بہائو الحق ملتانی آ ئے ، سیدی شاہ نقشبند آ ئے،امام مجددالف ثانی آ ئے،خواجہ نور محمد باواجی سرکارآئے،شیر ربانی آئے،سرکار گولڑوی آئے، سعید بادشاہ آئے، صوفی مسعود الحسن شاہ آ ئے اور اِس شاہکارِ قدرت کو دیکھ دیکھ کر قربان ہی ہوئے چلے گئے انہیں کوئی عیب و نقص نظر نہیں آیا۔یقینایہی لوگ تاقیامت امت مسلمہ کے آسمان پر درخشاں ستاروں کی طرح دمکتے رہیں گے۔پھر اُن لوگوں نے بھی دیکھا جو کسی دوسری پارٹی کے تھے دیکھ کر بولے۔ہیں تو اللہ کے نبی مگر ان کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ ہیں تو اللہ کے رسول مگر یہ کسی چیز کے مختار نہیں۔ان کے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔یہ تو آخر ہم جیسے بشر ہی تو ہیں ۔دیکھو یہ کھاتے پیتے بھی ہیں بلکہ ان میں تو سارے عوارضات بشر یہ بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو دراصل یہ لوگ اِس شاہکار ِقدرت میں عیب نہیں لگارہے بلکہ یہ بنانے والے کی قدرت کے ہی منکر ہیں۔
فانھم لا یکذ بو نک و لکنِ الظلمین بایات اﷲیجحدون
(قرآن مجید)
مجبوب یہ تجھے نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے ہی منکرہیں۔
ذرا سوچئے تو سہی جس کو اللہ رب العزت ہر نقص اور ہر عیب سے ،ہر خامی سے پا ک بنائے ،جس کے سر پر اللہ تعالیٰ شفاعت کا تاج سجائے ،جس کو رحمتہ للعا لمین کی خلعت سے نوازے، جس کو مقام محمود کی نوید سنائے، جس کو نبیوں ،رسولوں سے اور ملائکہ کرام سے اونچے سے اونچا کرکے سب کا سردار بنائے۔ جن کی شفا عت سے روز ِ قیامت ہزاروں نہیں لاکھوں ،لاکھوں نہیں کروڑوں ،اربوں،کھربوں کو مصیبتوں سے چھٹکار املے ۔ ایسے شاہکارِ قدرت میں عیب جوئی کر نا کہاں کی عقل مندی ہے۔یہ تو سراسر حماقت اوربے و قوفی ہے۔
اب آئیے عوارضات بشریہ کی طرف ! ہم عام انسان کھانے پینے کے محتاج ہیں ۔ اور یہ واقعی محتاجی ہے۔ مگر حبیب خدا ﷺ کھا نے پینے کے محتاج نہیں تھے احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے کئی دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ بلکہ وصال کے روز ے رکھتے تھے ۔(روزہ رکھا مگر افطاری کے وقت روزہ افطار نہ کیا۔رات بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا۔دوسرے دن پھر روزہ ۔یوں ہی کئی دن تک روزہ رکھا۔)اور آپ ﷺ کو کچھ بھی نہ ہوا ۔ نہ کمزوری نہ نقاہت وغیرہ۔ کیونکہ وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے۔ اور جب صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو انہوں نے وصال کے روزے رکھنا شروع کر دئیے ۔ چند دنوں کے بعد صحابہ کرام ؓ کمزور ہوگئے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے پوچھا اے میرے صحابہ تم کیوں کمزور ہوگئے۔ یہ سن کر عرض کی حضور ﷺ چونکہ آپ نے وصال کے روزے رکھے ہیں ۔ہم نے بھی وصال کے روزے رکھنے شروع کر دئیے ہیں یہ سن کر رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا ایکم مثلی یعنی تم میں سے میری مثل کون ہو سکتا ہے؟
ایک روایت میں فرمایا ــ ــــــــــــــلست کاحد کم میں تم میں سے کسی جیسا نہیں ہوں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے نبی ﷺ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے تو کھا یا پیا کیوں؟ ہاں امت کے والی ﷺ نے کھایا پیا ۔ مگر محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کو کھانے پینے کا طریقہ بتانے کیلئے۔اگر نہ کھاتے پیتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ کھانے پینے میں یہ باتیں سنت ہیں۔ یہ واجب ہیں۔ یہ مکروہ ہیں اور یہ حرام ہیں۔کھانے پینے کے ان آداب اور اصول و ضوابط سے یہ امت محروم رہ جاتی جن کی بدولت مدینے میں آکر بسنے والا حکیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا کہ اِس شہر میں کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا۔ وہی لا زوال اصول و ضوابط جو آج کی میڈیکل سائنس کی بنیاد ہیں۔اور اسلام جو انسان کی ہر پہلو سے راہنمائی کادعوایدار ہے۔انسانی زندگی کایہ پہلو بالکل تشنہ اور نامکمل رہ جاتا
وماینطق عن الھٰو ی ان ھو الاّ وحیّ یوحیٰ
میرے عزیز غور کریں بس یا ریل گاڑی پر یا جہاز پر سواریاں سوار ہوتی ہیں اور ڈرائیور پا ئلٹ وغیرہ بھی سوار ہوتے ہیں ۔ لیکن دونوں کے سوار ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سواریاں منزلِ مقصود تک پہنچنے کیلئے سوار ہوتی ہیں ۔لیکن ڈرائیو یا پائلٹ مقامِ مقصود پر پہنچانے کیلئے سوار ہیں ۔ اگر پہنچانے والے میں عیب یا نقص ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کامیابی کی کون ضحانت دے سکتا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سرکار دو عالم ﷺ ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے اور جب ولادت کے بعد عورتوں نے سرکار دوعالم ﷺ کو غسل دینے کاارادہ کیا تو آواز آئی غسل دینے کی ضرورت نہیں اِسکی وجہ بھی یہی تھی آپ ﷺ اپنی ماں کے شکم پاک میں بھی کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے لہذٰا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ناف بریدہ پیدا فرماکر ثابت کر دیا کہ یہ واقعیٰ محمد ﷺ ہیں ۔اور غسل دینے سے اِس لیے منع کیا گیا کہ غسل اس بچے کو دیا جاتا ہے جس کے گسم پر غلاظت ہو ۔اور غلاظت عیب ہے۔سرکار دو عالم کا خون مبارک ،آپ ﷺ کے فضلات مبارکہ پاک ہیں۔اور ہمہ وقت آپ ﷺ کے جسم اطہرے خوشبو مہکتی رہتی تھی۔نیز سرکار مدینہ حبیب خداﷺ کے جسم انور پر نجس مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔اور جوئیں نہیں پڑتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اَس مبارک نام اور اَس نام والے نبیوں کے نبی، رسولوں کے امام ﷺ کا ادب واحترام اور تعظیم کرنے کی تو فیق عطا کرے اور اگر مگر کے چکرسے بچائے آ مین
مندرجہ ذیل احادیث سے اندازہ کریں کہ یہ نام نامی اسم گرامی محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں کتنا معزز،کتنا محترم،کتنا معظم اور کتنا مکرم ہے۔
سیدنا ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے
’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام کی برکت حاصل کرنے کے لئے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ دونوں باپ اور بیٹا جنت میں جائیں گے‘‘
مولیٰ علی شیر خدا ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’جب تم بچے کانام محمد رکھو توپھر اس کی عزت کرو اور اس کیلئے جگہ فراخ کردو۔ اسکی قباحت و برائی مت کرو‘‘
علامہ حلبی فر ماتے ہیں ۔
’’کچھ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ایسے ہیں۔جو زمین پر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہواُ سکا پہرہ دیں۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں ۔اگر عمل میں کمی رہ جائے تو بخشش کی امید ہے مگر عقیدے میں نقص واقع ہو جائے تو بخشش کی امید نہیں ہو سکتی۔ (مکتوب نمبر 17 سوم دفتر)
 

ظہیر احمد

مبتدی
شمولیت
دسمبر 29، 2014
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
6
یٰاَیَّھاَالنَّاسُ قََدْ جَائَ کُمْ بُرْ ھَا نُ مِّنْ رَّ بِِّکُمْ وَ اَ نْزَ لْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
النساء (174)
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے قوی دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف ہدایت دینے والا نور نازل کیا ہے۔
آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے پاس بر ہان یعنی قوی دلیل آگئی ہے۔ اِس سے مراد سیدنا حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تمہاری طرف نور مبین نازل کیاگیا ہے۔اِس سے مراد قرآن کریم ہے ۔
سیدنا حضرت محمدﷺ کو بر ہان فرمانے ہیں یہ اشارہ ہے کہ آپﷺ کو اپنی نبوت اور رسالت کو منوانے کیلئے کسی الگ اور خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ آپ کا وجود ِمسعوداور ذات گرامی بجائے خود آپﷺ کی نبوت اور رسالت پر دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے نبیوں اور رسولوں نے اپنی نبوت اور رسالت پر خارجی معجزات پیش کئے اور آپﷺ نے اپنی نبوت اور رسالت پر اپنی زندگی پیش کی۔
قرآن مجید میں ہے۔
فَََقَدْ لَبِِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًامِنْ قَبْلِہٖ اَ فََلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:16)
میں تم میں اس(نزول قرآن) سے پہلے اپنی عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں کیا تم نہیں سمجھتے۔
حضرت خدیجہ الکبٰری ؓ،حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت علی ؓاور حضرت زید بن حارث ؓیہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔اوریہ سب بغیر کسی معجزہ کے ایمان لائے تھے ۔ ان کیلئے یہی دلیل کافی تھی کہ انہوں نے آپﷺ کی زندگی کو دیکھا تھا۔اور حضور ﷺ کی زندگی ہی آپﷺ کے دعویٰ نبوت پر بہت قوی دلیل تھی۔
نبی کریم ﷺکا نام مبارک’’ محمد اور احمد ؐ‘‘ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے نازل فرمایا ھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں
جب چھ ماہ گزر گئے تو خواب میں کوئی آنے والا آیا اور اُس نے کہا
اِ نَّکَ حملت بخیر العالمیین فاذا ولدۃ فسمیہ محمد
(مواہب لدنیہ جلد: 1صفحہ 124)
یعنی اے آمنہ ؓ ! تیرے شکم پاک میں وہ ہے کہ سارے جہانوں سے افضل وا علیٰ ہے ۔ جب اس کی ولادت ہو تو اسکا نام محمد ﷺ رکھیں۔
نیز شفاء قاضی عیاض میںہے کہ رسول کریم ؐ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں میرا نام محمد اور احمدﷺ رکھا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ الصف آیت نمبر06میں آپ ﷺکے بارے میں حضرت عیسیٰؑ کی پیش گوئی اور اسم احمد کا ذکر ہے۔جبکہ سورۃ الفتح آیت نمبر29،سورۃ الاحزاب آیت نمبر40،سورۃمحمد آیت نمبر02، اور سورۃ آل عمران آیت نمبر 144میںآپ ﷺ کے اسم مبارک ’’محمدﷺ‘‘ کا ذکر ہے۔
آئیے اب آپ ﷺکے اسم گرامی کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
لفظ محمد، حمد سے مشق ہے اور حمد کا معنی ہے مدح ،تعریف،سراہنا۔ لہذامحمد کے معنی ہوئے وہ ذات جس کی مدح و تعریف کی جائے۔ جبکہ محمد مبالغہ کا صیغہ ہے۔(مبالغہ یعنی ایسا کام جو بڑھا چڑھا کر ضرورت سے زیاد ہ کیا جائے)اور مبالغہ مطلق اس بات کا متقاضی ہے کہ اِس (محمدﷺ)کی بار بار اور بہت زیادہ تعریف کی جائے ۔ اور تعریف کے لائق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی عیب یا کوئی نقص نہ ہو۔
مثال کے طور پر ایک موبائل فون ہے ۔کوئی شخص کہے یہ نہایت خوبصورت ہے، پائیدار اور مضبوط ہے اور بنانے والی کمپنی بھی مشہور و معروف اور ذمہ دار ہے۔نیز یہ موبائل فون ہر حیثیت سے بے مثال اور لاجواب ہے۔ سننے والے کو فوراً اعتبار آجائے گا ۔کہ واقعی یہ موبائل فون تعریف کے لائق ہے ۔لیکن کہنے والا اگر اِسکی تعریف کرتے کرتے یوںکہہ دے کہ یہ موبائل ہے تو ہر حیثیت سے لاجواب مگر اُسکی آواز صاف نہیں ہے ،آواز میں خلل آجاتا ہے تو صرف اس ایک عیب کی وجہ سے وہ موبائل فون تعریف کے قابل نہیں رہے گا ۔ پس جس ذات والا صفات کا نام مبارک اللہ تعالیٰ محمد ﷺ (تعریف کیا گیا)نازل کرے وہ ذات یقیناً ایسی ہو گی جس میں کوئی عیب ،کوئی نقص نہ ہو۔کیونکہ وہ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جس میں معمولی سا بھی عیب ہو وہ محمد نہیں ہو سکتا ۔
اب آگے چلیے کہ کسی چیز کا علم نہ ہوناجہالت کہلاتا ہے۔اور جہالت عیب ہے۔ اور جس کو کسی چیز کا اختیار نہ ہو یہ مجبوری ہے اورمجبوری عیب ہے۔ اور جس میں عیب ہو وہ محمد (تعریف کیا گیا )نہیں ہو سکتا ۔اللہ تعا لیٰ جو بالذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے اُس نے اپنے حبیب حضور نبی کریم ﷺ کو محمد بنا کر بھیجا ہے تو اُن میں عیب و نقص کیو نکر ہو سکتا ہے۔ اور آپ ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے اگر یوں کہیں کہ رسول ﷺ کو فلاں چیز کا علم نہیں تھا ۔ وہ کسی چیز کے مختارنہیں اور رسول ﷺ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا تو گویا ایسا کہنے والے آپ ﷺ کو محمد نہیں مان رہے ۔اور اُن کا ایمان کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔
ہاں ہاں بشر میں عیب ہو سکتے ہیں۔ محمد ﷺ میں نہیں ہوسکتے لیکن رحمت عالم نبی کریم ﷺ بشر بعد میں بنے۔ محمدﷺ پہلے تھے۔ بشریت کا سلسہ تو اُس وقت سے چلا جب اِس دنیا ء آب وگل میںآپ ﷺکا ظہورفرمایا۔
اور اللہ تعالیٰ نے نور مصطفیٰ ﷺ کو نام محمد پہلے ہی عطا فرمادیا تھا۔
صحابہ کرام ؓ بھی نبی کریم روف الرحیم ﷺ کو بے عیب مانتے تھے چنانچہ سید نا حضرت حسان بن ثابت ؓ عرض کرتے ہیں ۔
خَلَقْتَ مبراً مِنْ کُلِّ عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
یعنی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں ۔ گویا جیسے کہ آپ چاہتے تھے خالق کائنات نے آپ کو ویسا ہی پیدا کیا ہے۔
یہاں ایک مثال سے سمجھنے کی کو شش کریں۔ ایک کاریگر نے بہت سی اچھی اچھی چیزیں بنائیں بعد میں اُس نے اپنے فن کے اظہار کیلئے اپنی کاریگری کا ایک شاہکار نمونہ بنا کر چوراہے پر رکھ دیا تاکہ لوگ آئیں اور اِس شاہکار کو دیکھیں۔ چنانچہ اِس کاریگری کے مداح(Fans) یعنی اُسکی اپنی پارٹی کے لوگ آتے گئے اور دیکھ دیکھ حیران و قربان ہوتے گئے واہ واہ کیا عجیب چیز بنائی ہے اِس میں یہ بھی خوبی ہے یہ بھی کمال ہے الغرض کمال ہی کمال ہے ،حسن ہی حسن ہے کسی طرف سے کوئی نقص نہیں اور کاریگر کو مبارک بادیاں دیتے رہے ۔ پھر کچھ وہ لوگ بھی آئے جو مخالف پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے دیکھا تو بولے بھئی!چیز تو اچھی بنائی ہے مگر یہاں سے ٹھیک نہیں بنی دیکھو ،یہاں یوں نہیں ،یہاں یوں نہیں وغیرہ۔ حقیقت میں وہ اُس چیز میں عیب نہیں لگارہے بلکہ کاریگرکی کاریگری میں عیب لگارہے ہیں ۔اور جو کاریگر کی پارٹی والے ہیں ۔وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ اُس چیز کی تعریف کر رہے ہیں ۔ تو حقیقت میں اُس چیز کی تعریف نہیں کر رہے بلکہ وہ کاریگر کی تعر یفیں کر رہے ہیں کیونکہ اس چیز میں اسکا اپنا تو کوئی کمال نہیں تھابلکہ اس میں کمال آیا تو کاریگر کی کاریگری کی وجہ سے آیا ۔ بلکہ وہ کمال سارے کا سارا ہے ہی اس کاریگر کا۔
یوں ہی اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ کی مخلوق بنائی ،ولی بنائے،ابدال بنائے،اوتاد بنائے، قطب بنائے،امام بنائے ، غوث بنائے،صحابی بنائے، نبی بنائے ،رسول بنائے ،الوالعزم پیغبر بنائے (جن سے نادانستہ خطائیں بھی ہوئیں) اوربعد میں ایک شا ہکارِ قدرت بناکر بھیجا جس میں ہر حیثیت سے خو بیاں ہی خوبیاں ہیں ۔ اُس میں کسی قسم کا کوئی سقم یا عیب نہیں رہنے دیا ۔ کیونکہ یہ شاہکارِ قدرت ہے۔ قدرت کا نمونہ ہے اب اِس بنانے والے کی پارٹی کے لوگ ’’اولئک حزب‘‘ اللہ آئے۔ صدیق اکبر ؓ آئے ،فاروق اعظم ؓ آ ئے، ذوالنوینِؓ آئے، حیدر کرارؓ آئے ۔انہوںنے دیکھا تو سبحان اللہ سبحان اللہ انکی زبانوں پر جاری ہو گیا۔ واہ و اہ اس شاہکارِ قدرت میں کیسے کیسے کمالات اور کیسی کیسی خو بیاں ہیں ۔ یونہی غوث اعظم آئے،امام اعظم آئے، داتا گنج بخش علی ہجوری آئے،خواجہ غر یب نواز آ ئے،خواجہ فرید الد ین گنج شکر آ ئے ، بہائو الحق ملتانی آ ئے ، سیدی شاہ نقشبند آ ئے،امام مجددالف ثانی آ ئے،خواجہ نور محمد باواجی سرکارآئے،شیر ربانی آئے،سرکار گولڑوی آئے، سعید بادشاہ آئے، صوفی مسعود الحسن شاہ آ ئے اور اِس شاہکارِ قدرت کو دیکھ دیکھ کر قربان ہی ہوئے چلے گئے انہیں کوئی عیب و نقص نظر نہیں آیا۔یقینایہی لوگ تاقیامت امت مسلمہ کے آسمان پر درخشاں ستاروں کی طرح دمکتے رہیں گے۔پھر اُن لوگوں نے بھی دیکھا جو کسی دوسری پارٹی کے تھے دیکھ کر بولے۔ہیں تو اللہ کے نبی مگر ان کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ ہیں تو اللہ کے رسول مگر یہ کسی چیز کے مختار نہیں۔ان کے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔یہ تو آخر ہم جیسے بشر ہی تو ہیں ۔دیکھو یہ کھاتے پیتے بھی ہیں بلکہ ان میں تو سارے عوارضات بشر یہ بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو دراصل یہ لوگ اِس شاہکار ِقدرت میں عیب نہیں لگارہے بلکہ یہ بنانے والے کی قدرت کے ہی منکر ہیں۔
فانھم لا یکذ بو نک و لکنِ الظلمین بایات اﷲیجحدون
(قرآن مجید)
مجبوب یہ تجھے نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے ہی منکرہیں۔
ذرا سوچئے تو سہی جس کو اللہ رب العزت ہر نقص اور ہر عیب سے ،ہر خامی سے پا ک بنائے ،جس کے سر پر اللہ تعالیٰ شفاعت کا تاج سجائے ،جس کو رحمتہ للعا لمین کی خلعت سے نوازے، جس کو مقام محمود کی نوید سنائے، جس کو نبیوں ،رسولوں سے اور ملائکہ کرام سے اونچے سے اونچا کرکے سب کا سردار بنائے۔ جن کی شفا عت سے روز ِ قیامت ہزاروں نہیں لاکھوں ،لاکھوں نہیں کروڑوں ،اربوں،کھربوں کو مصیبتوں سے چھٹکار املے ۔ ایسے شاہکارِ قدرت میں عیب جوئی کر نا کہاں کی عقل مندی ہے۔یہ تو سراسر حماقت اوربے و قوفی ہے۔
اب آئیے عوارضات بشریہ کی طرف ! ہم عام انسان کھانے پینے کے محتاج ہیں ۔ اور یہ واقعی محتاجی ہے۔ مگر حبیب خدا ﷺ کھا نے پینے کے محتاج نہیں تھے احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے کئی دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ بلکہ وصال کے روز ے رکھتے تھے ۔(روزہ رکھا مگر افطاری کے وقت روزہ افطار نہ کیا۔رات بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا۔دوسرے دن پھر روزہ ۔یوں ہی کئی دن تک روزہ رکھا۔)اور آپ ﷺ کو کچھ بھی نہ ہوا ۔ نہ کمزوری نہ نقاہت وغیرہ۔ کیونکہ وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے۔ اور جب صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو انہوں نے وصال کے روزے رکھنا شروع کر دئیے ۔ چند دنوں کے بعد صحابہ کرام ؓ کمزور ہوگئے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے پوچھا اے میرے صحابہ تم کیوں کمزور ہوگئے۔ یہ سن کر عرض کی حضور ﷺ چونکہ آپ نے وصال کے روزے رکھے ہیں ۔ہم نے بھی وصال کے روزے رکھنے شروع کر دئیے ہیں یہ سن کر رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا ایکم مثلی یعنی تم میں سے میری مثل کون ہو سکتا ہے؟
ایک روایت میں فرمایا ــ ــــــــــــــلست کاحد کم میں تم میں سے کسی جیسا نہیں ہوں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے نبی ﷺ کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے تو کھا یا پیا کیوں؟ ہاں امت کے والی ﷺ نے کھایا پیا ۔ مگر محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کو کھانے پینے کا طریقہ بتانے کیلئے۔اگر نہ کھاتے پیتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ کھانے پینے میں یہ باتیں سنت ہیں۔ یہ واجب ہیں۔ یہ مکروہ ہیں اور یہ حرام ہیں۔کھانے پینے کے ان آداب اور اصول و ضوابط سے یہ امت محروم رہ جاتی جن کی بدولت مدینے میں آکر بسنے والا حکیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا کہ اِس شہر میں کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا۔ وہی لا زوال اصول و ضوابط جو آج کی میڈیکل سائنس کی بنیاد ہیں۔اور اسلام جو انسان کی ہر پہلو سے راہنمائی کادعوایدار ہے۔انسانی زندگی کایہ پہلو بالکل تشنہ اور نامکمل رہ جاتا
وماینطق عن الھٰو ی ان ھو الاّ وحیّ یوحیٰ
میرے عزیز غور کریں بس یا ریل گاڑی پر یا جہاز پر سواریاں سوار ہوتی ہیں اور ڈرائیور پا ئلٹ وغیرہ بھی سوار ہوتے ہیں ۔ لیکن دونوں کے سوار ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سواریاں منزلِ مقصود تک پہنچنے کیلئے سوار ہوتی ہیں ۔لیکن ڈرائیو یا پائلٹ مقامِ مقصود پر پہنچانے کیلئے سوار ہیں ۔ اگر پہنچانے والے میں عیب یا نقص ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کامیابی کی کون ضحانت دے سکتا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سرکار دو عالم ﷺ ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے اور جب ولادت کے بعد عورتوں نے سرکار دوعالم ﷺ کو غسل دینے کاارادہ کیا تو آواز آئی غسل دینے کی ضرورت نہیں اِسکی وجہ بھی یہی تھی آپ ﷺ اپنی ماں کے شکم پاک میں بھی کھانے پینے کے محتاج نہیں تھے لہذٰا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ناف بریدہ پیدا فرماکر ثابت کر دیا کہ یہ واقعیٰ محمد ﷺ ہیں ۔اور غسل دینے سے اِس لیے منع کیا گیا کہ غسل اس بچے کو دیا جاتا ہے جس کے گسم پر غلاظت ہو ۔اور غلاظت عیب ہے۔سرکار دو عالم کا خون مبارک ،آپ ﷺ کے فضلات مبارکہ پاک ہیں۔اور ہمہ وقت آپ ﷺ کے جسم اطہرے خوشبو مہکتی رہتی تھی۔نیز سرکار مدینہ حبیب خداﷺ کے جسم انور پر نجس مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔اور جوئیں نہیں پڑتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اَس مبارک نام اور اَس نام والے نبیوں کے نبی، رسولوں کے امام ﷺ کا ادب واحترام اور تعظیم کرنے کی تو فیق عطا کرے اور اگر مگر کے چکرسے بچائے آ مین
مندرجہ ذیل احادیث سے اندازہ کریں کہ یہ نام نامی اسم گرامی محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں کتنا معزز،کتنا محترم،کتنا معظم اور کتنا مکرم ہے۔
سیدنا ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے
’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام کی برکت حاصل کرنے کے لئے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ دونوں باپ اور بیٹا جنت میں جائیں گے‘‘
مولیٰ علی شیر خدا ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’جب تم بچے کانام محمد رکھو توپھر اس کی عزت کرو اور اس کیلئے جگہ فراخ کردو۔ اسکی قباحت و برائی مت کرو‘‘
علامہ حلبی فر ماتے ہیں ۔
’’کچھ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ایسے ہیں۔جو زمین پر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہواُ سکا پہرہ دیں۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں ۔اگر عمل میں کمی رہ جائے تو بخشش کی امید ہے مگر عقیدے میں نقص واقع ہو جائے تو بخشش کی امید نہیں ہو سکتی۔ (مکتوب نمبر 17 سوم دفتر)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اوپر ظہیر احمد کی پوسٹوں میں کئی باتیں ثبوت کے بغیر اور کئی باتیں سراسر اسلامی عقیدہ کے بالکل خلاف ہیں ۔
فی الحال اختصار سے عرض ہے ، کہ:
’’غوث اعظم ‘‘ مخلوق میں کوئی نہیں ہوسکتا۔
اور نہ ہی مخلوق میں کوئی ’’داتا گنج بخش ‘‘ ہو سکتا ہے ،
اور امت میں کوئی ’’امام اعظم ‘‘ نہیں ہے ،
اورصرف نام ’’ محمد ‘‘ رکھ لینے سے کوئی جنت نہیں جاسکتا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
غلو اور مبالغہ آرائی ،گمراہی کا بڑا سبب


اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق» النساء ۱۷۱
”کتاب والو! اپنے دین میں غلو نہ کرو ، (یعنی کسی چیز کو حد سے مت بڑھاو )“
اہل کتاب کا ’‘ غلو ’‘کیا تھا؟
عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ سیدہ مریم کو ان کی حد سے بڑھا کر خدا مان لیا،
حالانکہ یہ دونوں اللہ کے بندےتھے ۔۔اور اتنے بے اختیار کہ ::
جب جناب عیسی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا ،تو سیدہ مریم رونے لگیں اور کہنے لگیں
(مت قبل ہذا )کہ کاش میں اس دن کے آنے سے پہلے مرگئی ہوتی،،
پھر اللہ کی طرف سے ان کو تسلی ،دلاسہ دلایا گیا ،
اور جناب عیسی علیہ السلام کہ حد درجہ جدوجہد کے باوجود یہودیوں کو راہ راست پر نہ لا سکے ،بلکہ الٹا یہودی ان کے قتل پر آمادہ
ہوگئے ،تو اللہ عزوجل نے ان کو آسمانوں پر اٹھا لیا ؛
اور صرف یہ دونوں حضرات ہی نہیں بلکہ ہر نبی و رسول اپنی تمام تر فضیلت و عظمت کے باوجود
اللہ کا بندہ ،ہی ہوتا ہے اور تمام بشری عوارض بیماری ، موت ،وغیرہ کا سامنا اسے ہر صورت کرنا پڑتا ہے

اسیلئے تو رحمت دوعالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس سمع عمر رضي الله عنه يقول:‏‏‏‏ على المنبر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا:‏‏‏‏ عبد الله ورسوله".
عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ (صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 3445 )
لا تغلوا4.jpg

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سابقہ پوسٹوں میں چند فوت شدہ صوفیاء کے ۔۔مبالغہ آمیز اور غلو زدہ۔ نام گنوائے گئے ہیں
غوث اعظم آئے،امام اعظم آئے، داتا گنج بخش علی ہجوری آئے،خواجہ غر یب نواز آ ئے،خواجہ فرید الد ین گنج شکر آ ئے ، بہائو الحق ملتانی آ ئے ، سیدی شاہ نقشبند آ ئے،امام مجددالف ثانی آ ئے،خواجہ نور محمد باواجی سرکارآئے،شیر ربانی آئے،سرکار گولڑوی آئے، سعید بادشاہ آئے،
اور اتنے بڑے بڑے نام رکھنے سے ،ان فوت شدہ لوگوں کی ایسی عظمت منوانا مقصود ہے ،جس سے ان کا خدائی رتبہ اور درجہ جھلکے ۔
اہل شرک کا یہ قدیم مرض ،جس میں مخلوق ،اور اللہ کے بندوں کے مبالغہ آرائی پر مبنی نام رکھ کر انہیں اللہ کی صفات کا حامل مانا اور منوایا جاتا
ہے۔
گنج بخش ،،داتا فلاں ،، غریب نواز۔جیسے خودساختہ القاب دے کر انہیں ’’مختار کل ‘‘ منوانے کی مشرکانہ کوشش کی جاتی ہے۔
یاد رکھو اصل گنج بخش اللہ عزوجل نے صاف صاف اعلان کر رکھا ہے ::
(( إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ ))
یہ صرف (خود ساختہ ) نام ہی ہیں ،جو تم نے اور تمہارے جاہل آباء نے ان لوگوں کے رکھ لئے ہیں ۔اللہ تعالی نے ان (مبالغہ آمیز ) ناموں کی کوئی دلیل نازل تو نہیں کی ۔یہ لوگ صرف اپنے گمان کی پیروی اور اپنی (جاہلانہ ) خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔
 
Top