رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
سائنسی طریقہ علم کیا ہے؟
سائنٹیفک میتھڈ اور مذہب
محمد زاہد صدیق مغل
بعض علمائے کرام اور اکثر دینی مفکرین اپنی گفتگو مضامین میں اسلام کو سائنسی مذہب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جدید سائنس کو خیر جانبدار علم تصور کرتے ہوئے اسے جو حقانیت اسلام اور فروغ اسلام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سائنسی طریقہ علم سے قطعاً ناواقف ہیں۔ذیل کے مضمون میں جدید مغربی سائنس کے دعوؤں اور طریقہ علم سے متعلق معلومات مغربی مفکرین کے الفاظ میں پیش کیے گئے ہیں جس سے اس علم کی اصل حقیقت سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، ہمارے مفکرین مغربی فلسفے سے قطعاً ناواقف ہیں، لہٰذا وہ سائنس کے منہاج سے واقف نہیں، لیکن اس سے بے حد متاثر ہیں۔ جدید سائنس اپنی اساس میں لادینی، دنیا پرست حاسد اور حریص فطرت رکھتی ہے اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے ساحل جون 2005ء، جولائی 2005ء، اگست ستمبر 2005ءکے شمارے خصوصی طور پر ملاحظہ کیجیے تاکہ جدید مغربی سائنسی ترقی کی اصل حقیقت اور اس کے مقاصد اور اس ترقی کی بنیادوں میں کروڑوں لوگوں کے خون کی کہانی معلوم ہوسکے۔
مغربی سائنس کیا ہے؟
مغربی سائنس کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لیے نہیں کہ اس کا جواب اب تک تلاش نہیں کیا جاسکا بلکہ اس لیے کہ ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگ اس کے جواب سے واقف نہیں۔ آج بھی ہمارے مفکرین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغربی سائنس ایک غیراقداری [Value Nutral]اور ٹیکنیکل قسم کا علم ہے۔جس کی بنیاد خالصتاً عقل انسانی ہے اور عقل بھی وہ جو آفاقی ہے یہ دعویٰ اپنے تئیں بذات خود محلِ نزاع ہے کہ کیا عقل مقاصد کی ترتیب میں ممد ثابت ہوسکتی ہے یا نہیں [اس مضمون میں ہم اس سوال سے بحث نہیں کریں گے]۔
حق تک رسائی سائنس کے ذریعے:
کیا روز مرہ زندگی میں سائنس کو دی جانے والی اہمیت سائنس کا منہ بولتا ہوا ثبوت نہیں؟ اور تو اور اب تو ہمارے علمائے اکرام بھی قرآن و سنت کو سائنس سے ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چناں چہ اس قسم کے بیانات آپ پڑھ اور سُن سکتے ہیں کہ قرآن و سنت کی فلاں فلاں بات سائنس کے مطابق ہے لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ قرآن و سنت حق ہیں۔ گویا حق تک رسائی کا حتمی طریقہ سائنس ہی ہے۔اس قسم کی دلیل قائم کرتے ہوئے علمائے کرام یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس طرز استدلال کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ عقل انسانی وحی پر حاکم ہے یعنی عقل کا وحی کے نہیں بلکہ وحی کا عقل کے مطابق ہونا وحی کے حق ہونے کی دلیل ہے اور یہ وہ بات ہے جس کا دعویٰ ہمارے پورے علم کلام میں سوائے معتزلہ کے شاید کسی اور نے نہیں کیا۔ نیز یہ کہ سائنس تو آئے دن اپنے نظریات تبدیل کرلیتی ہے تو کیا اِن نظریات کے بدلنے سے قرآن و سنت کے معانی بھی بدلتے جائیں گے؟
مغربی سائنس آفاقی نوعیت نہیں رکھتی: نئے دور کا مذہب ہے:
اس مضمون کا مقصد ماضی قریب میں ہونے والے اُن مباحث کی تلخیص بیان کرنا ہے جن کے نتیجے میں یہ بات تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے کہ سائنس کوئی غیر اقداری اور آفاقی نوعیت کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے آفاقی ہونے کے حق میں کوئی عقلی دلیل دی جاسکتی ہے، اس طرح یہ دعویٰ کے سائنس کی بنیاد مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں جن کی مدد سے نظر یات کی صحت کو جانچا جاسکتا ہے غلط دعوے ہیں۔ ایسی ہی یہ کہنا کہ سائنس کوئی ایسا علم ہے جو انسانی تاریخ میں تحلیل کرتا ہوامختلف تہذیبوں سے منتقل ہوتے ہوئے اورہر تہذیب کی صہبا کشید کرتے کرتے آج مغرب تک آپہنچا ہے مغربی سائنس کی مخصوص تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔مغرب کے جدید علمائے سائنس کے مطابق تو سائنس نئے دور کا مذہب ہے جس کا کردار مغربی دنیا میں وہی ہے جو یورپ میں عیسائیت کا ہوا کرتا تھا۔اُن کے خیال میں سائنسی علم کی دوسرے طریقہء علوم پر برتری ثابت کرنے کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے اور یہ کہ موجودہ سائنس اگر مغرب میں پروان چڑھی ہے تو اس کی کچھ تاریخی اور معاشرتی وجوہات ہیں جومغرب میں رونما ہوئیں۔ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو خود مغربی علمائے سائنس اپنے گھر کی سائنس کے بارے میں کہتے اور لکھتے ہیں ان کی ان باتوں کا جواب مغرب کے وہ علمائے سائنس نہیں دے پاتے جو خود عقل پرستی کے زبردست حامی ہیں۔
سائنس مغرب میں اپنی وقعت کھوچکی ہے:
ایسی صورت حال میں کہ جب سائنسی علم اپنی وقعت خود مغرب میں کھوچکا ہے ہمارے ہاں ایسے مجتہد دین پیدا ہوگئے ہیں جو سائنس کو قرآن اور سنت سے بھی بالا تر معیار خیرو شر مانتے ہیں اور اس بات پر مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں کہ انھوں نے سائنسی ترقی مغرب سے پہلے کیوں نہ حاصل کرلی۔ ان کا یہ گریہ وزاری درحقیقت کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مغربی علوم و فکر سے ناواقفیت اور مغرب کی بظاہر مادی ترقی سے مرعوبیت کی بناءپر ہے چناں چہ اس مضمون میں ہم سائنس کی کہانی خود اُن کے علماءکی زبانی بیان کریں گے۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ ہر اہم نظریے کی وضاحت آسان مثالوں کے ذریعے کریں اور ہر قسم کی تلخیص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاں تفصیل کی ضرورت ہوگی تلخیص سے کام نہ لیںگے۔ تاکہ بات سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔
سب سے پہلے ہم سائنس کے استقرائی نظریے پر بحث کریں گے ۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمارے مجتہدین درحقیقت سائنس کے اسی نظریے سے واقف اور مرعوب ہیں۔اس کے بعد ہم اس نظریے کی تنقید بیان کرکے سائنس کے اُس نظریے کی وضاحت اور تنقید پیش کریں گے جسے کارل پاپر[Popper] سے منسوب کیا جاتا ہے۔پھر ہم سائنس کی ساختی تو جیہہ بیان کرنے والے علماءکے خیالات کی تلخیص بیان کریں گے۔ آخر میں ہم فیئر ا بینڈ کے نظریات کا خلاصہ بیان کریں گے جو در حقیقت ساری بحث کے لیے بمنزل نتیجہ ہوگا۔
علم کی تشکیل وحی کے بغیر ممکن ہے:مغربی دعوی:
چناں چہ بات کا آغاز یہاں سے کیا جاسکتا ہے کہ 17 ویں اور 18 ویں صدی کے مفکرین نے مغرب میں برپاہونے والی مذہب [عیسائیت] اور جدیدیت کی کشمکش کے دوران اس بات کا دعویٰ کیا کہ علم کی تشکیل وحی کے بغیر خالصتاً عقل کی بنیادوں پر کی جاسکتی ہے۔ اس دعوے کا اصل محرک وہ بے اطمینانی تھی جو ان مفکرین کو مذہب عیسائیت کے ایمانیات سے تھی یعنی انھیں مذہب سے یہ شکایت تھی کہ اس میں ایمان پہلے لایا جاتا ہے اور عقل کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ لہذا انھیں اس بات پر اصرار تھا کہ عقل کو بنیاد بنا کر ایک ایسے علم کی تعمیر کی جاسکتی ہے جو نہ صرف یہ کہ آفاقی ہوگا بلکہ ہر قسم کے ایمانیات، نظریات و مفروضات سے پاک ہوگا۔ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی کو علم کی بنیاد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں اور انسان کو ہر قسم کی مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد کرکے ایک ایسے برتر اور اعلیٰ مقصد کے حصول کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے جو سب کی فلاح کا باعث ہوگا۔ ذیل میں ہم اس دعوے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے دیے گئے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
استقرائی نظریہء سائنس:
استقرائی منطق، کے نظریے کے مطابق سائنس کا آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے، یعنی سائنس حصولِ علم کا ایسا طریقہ ہے جس میں مشاہدات کی بنیاد پر نظریات [Theories]قائم کیے جاتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنیاد انسان کے حواس خمسہ پر ہے یعنی سماعت، بصارت، لمس، سونگھنا اور چکھنا، دعوی یہ ہے کہ ان حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات کوبنیاد بنا کر آفاقی نوعیت کے نظریات قائم کرنا ممکن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مثالوں پر غور کریں:
[1] 9 اپریل 2006ءکو پاکستان میں سورج گرہن ہوا۔
[2] میری پینسل اگر پانی میں جزوی طور پرڈ بوئی جائے تو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔
[3] اس لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہو کر پھیل گیا۔
حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کردہ علم:
ان مثالوں پر غور کرنے سے ایک خاص واقعہ کا کسی خاص مقام اور خاص وقت پر وقوع پذیر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً پہلی مثال سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک خاص تاریخ [9 اپریل]کو ایک خاص مقام [پاکستان] پر ایک واقعے کا مشاہدہ کیا گیا۔ اسی طرح تیسری مثال سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ایک خاص لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہوگیا۔ چناں چہ ایک ایسا بیان [Statement] جس میں کسی خاص واقعے کا کسی خاص وقت اور مقام پر مشاہدے کا دعویٰ کیا جائے ایک Singular Proposition [خاص یا منفرد قضیہ] کہلاتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوجانی چاہیے اور وہ یہ کہ تمام مشاہداتی بیانات [Observative Statement]بنیادی طور پر Singular Propositionہی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی بنیاد وہ مشاہدات ہیں جو کوئی شخص اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔
کیاسائنسی بیانات مقامی نہیں آفاقی ہوتے ہیں؟:
خیال رہے کہ مندرجہ بالا بیانات درحقیقت سائنسی بیانات نہیں ہیں۔ یہ اس لیے کہ سائنسی بیانات درحقیقت آفاقی [universal]نوعیت کے ہوتے ہیں اس بات کو ہم ذیل کی مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔
[1] تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی شکل میں چکر لگاتے ہیں۔
[2] روشنی جب شیشے سے گزرتی ہے تو اس کی سمت بدل جاتی ہے۔
[3] انسان بنیادی طور پر خود غرض ہوتا ہے۔
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک خاص نوع کے وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات کا مشاہدہ ہر مقام اور ہر وقت یکسا ں رہتا ہے ۔ مثال کے طو رپر پہلی مثال میں یہ بات کہی گئی کہ تمام سیارے چاہے وہ جہاں بھی ہوں بیضوی انداز سے چکر لگاتے ہیں۔ اسی طرح تیسری مثال میں یہ بات کہی گئی کہ تمام انسانوں کے تمام اعمال کی بنیاد خود غرضانہ سوچ پر مبنی ہوتی ہے چاہے وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام کے دور کا ہو یا آج کا۔ چناں چہ ایسے بیانات جن میں کسی شے کے بارے میں آفاقی [universal]نوعیت کا دعویٰ کیا جائے یا حکم لگایا جائے universal proposition] [کہلاتے ہیں۔ سائنس کے استقرائی نظریے کے مطابق ایسے ہی آفاقی دعوے یا نظریات درحقیقت سائنسی نظریات ہوتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد وہ خاص قضیے ہوتے ہیں جو مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں۔
جزوی نتائج سے کلی نتائج کا استخراج کیوں؟
مسئلہ: اس مقام پر ایک شبہ ذہن میں آتا ہے۔ اگر سائنسی نظریات کی بنیاد ایسے انفرادی قضیے ہوتے ہیں جو تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں تو ان انفرادی قضیوں سے آفاقی دعوے تک کا سفر کیسے طے ہوسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انفرادی نوعیت کے مشاہدوں اور تجربوں سے آفاقی نوعیت کے دعووں کی صحت کا علم کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے۔اس بات کا جواب اس مسئلے کی مزید وضاحت کردے گا۔ استقرائی نظریہ سائنس کے علماءکے مطابق اگر درج ذیل تین شرائط پوری ہوجائیں تو جزوی نوعیت کے مشاہدات سے آفاقی نظریات تعمیر کیے جاسکتے ہیں:
[1] انفرادی نوعیت کے مشاہدات کی تعداد بہت زیادہ ہو۔
[2] مشاہدات مختلف قسم کے حالات کے تحت روبہ عمل ہوں۔
[3] کوئی بھی مشاہدہ آفاقی دعوے کے خلاف نہ ہو۔
استقرائی منطق کیا ہے؟
پہلی شرط کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کہ تمام لوہے گرم کرنے پر پگھلنے لگتے ہیں، محض ایک یا دو مشاہدات یا تجربات کافی نہیں ہیں بلکہ کثیر تعداد میں مشاہدات کے بعد ہی یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا۔ اس طرح نتیجے کی صحت کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ کتنے اقسام کے لوہے کو مختلف درجہ حرارت، مقامات اور مختلف اوقات میں گرم کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ اور تیسری شرط واضح ہے یعنی اگر کوئی لوہا ایسا پایا جائے جو گرم کرنے پر نہ پگھلے تو پھر آفاقی دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ چناں چہ انفرادی مشاہدات کو دلیل کے لیے بطور مقدمہ [Premes] استعمال کرکے آفاقی نظریات تعمیر کرنے کے طریقے کار کا نام استقرائی منطق کہلاتا ہے اسے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں:
”اگر کسی شے ’الف‘ کا مختلف حالات میں کثیر تعداد میں مشاہد ہ کیا جائے اور ہر مشاہدے میں شے الف کسی وصف ’ب‘ سے متصف ہو تو یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا کہ تمام ’الف‘ صفت ’ب‘ سے متصف ہیںدوسرے لفظوں میں تمام ’الف‘ پر صفت ’ب‘ کا حکم لگانا عقلاً درست ہے“۔
استخراجی منطق اور پیشن گوئی:
سائنسی نظریات کا ایک بڑا مقصد نظر آنے والے حوادث و واقعات کی تشریح اور وضاحت کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا مقصد آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کرنا، یعنی اگر ہم یہ جان لیں کہ ایک انسان کے عمل کی بنیاد خود غرضی ہوتی ہے تو ہم یہ بتانے کے قابل ہوسکتے ہیں کہ کسی پیش آنے والے واقعے میں وہ کیا طرزِ عمل اختیار کرے گا۔ اسی طرح اگر ہم یہ معلوم کرلیں کہ گرم کرنے سے لوہا پگھل جاتا ہے۔ تو ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ اگر کسی آنے والے وقت میں کوئی شخص لوہے کو آگ میں ڈالے گا تو وہ پگھل جائے گا آفاقی نوعیت کے سائنسی نظریات کو بنیاد بنا کر واقعات و حوادثات کی وضاحت و پیشن گوئی کرنے کے لیے استخراجی منطق کی مد دلی جاتی ہے۔
استخراجی منطق کی وضاحت ہم ذیل کی مثال سے کرتے ہیں:
[1] ہر انسان فانی ہے۔
[2] زید انسان ہے۔
نتیجہ: زید فانی ہے۔
اس مثال میں اگر پہلی اور دوسری بات درست ہو تو نتیجہ بھی درست ہوگا۔ چوں کہ ہمارا مقصد منطق سمجھانا نہیں ہے لہٰذا ہم وہ تمام شرائط یہاں نقل نہیں کرسکتے کہ جن میں استخراجی منطق کی مدد سے درست نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے البتہ ہم مزید وضاحت کے لیے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ذیل کی مثال پر غور کریں:
[1] اکثر انسان خود غرض ہیں۔
[2] زید ایک انسان ہے۔
نتیجہ: زیدلازماً خود غرض ہے۔
معمولی تامل سے اس نتیجے کا عقلاً باطل ہونا ظاہر ہے یعنی اکثر انسانوں کی خود غرضی سے زید کا خود غرض ہونا لازم نہیں آتا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہوئی کہ مقدمات کی صحت سے نتیجہ کی صحت کا علم حاصل ہونا لازم نہیں آتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی مثال میں اگر دونوں مقدمات درست ہوں اور ہم نتیجے کا انکار کریں تو اس سے لازماً مقدمات اور نتیجے میں تضاد لازم آئے گا۔ جبکہ دوسری مثال میں ایسا نہیں ہے یعنی یہ بات مان لینے کے بعدکہ اکثر انسان خود غرض ہیں اور زید انسان ہے اگر ہم یہ کہیں کہ زید خود غرض نہیں ہے تو کسی قسم کا تضاد نہیں ہوا۔ جبکہ یہ بات مان لینے کے بعد کہ تمام انسان فانی ہیں اور زید انسان ہے اگر ہم اس بات کا انکار کریں کہ زید فانی ہے تو عقلاً تضاد لازم آئے گا کیوں کہ اگر زید فانی نہیں ہے تو یاوہ انسان نہیں یا پھر تمام انسان فانی نہیں۔
استخراجی منطق حقیقت کے ادراک کا ذریعہ نہیں:
دوسری اہم بات یہ ہے کہ استخراجی منطق میں بطور مقدمات استعمال ہونے والے دعووں کی صحت اور درستگی کا علم خود استخراجی منطق کی مدد سے نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ اس بات کو ہم ایک آسان مثال سے بیان کرتے ہیں:
[1] ہرمرغی کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔
[2] میرا قلم ایک مرغی ہے۔
نتیجہ: میرے قلم کی تین ٹانگیں ہیں۔
یہ نتیجہ استخراجی منطق کی رو سے درست ہے البتہ حقیقت واقعہ نہیں۔چناں چہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گو کہ عقلاً ان مقدمات سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہے البتہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ استخراجی منطق ہمیں یہ تو بتاسکتی ہے کہ اگر ہمارے مقدمات درست ہوں تو کن حالات میں کیا نتیجہ نکالنا عقلاً درست ہے البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ مقدمات صحیح ہیں یا غلط ۔ مقدمات کی صحت کا تعلق مشاہدے، تجربے یا کسی اور ذریعہ علم سے ہوتا ہے نہ کہ استخراجی منطق سے۔ استخراجی منطق ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آیا مرغی کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں اور میرا قلم مرغی ہے یا نہیں۔چناں چہ استقرائی نظریہ سائنس کے مطابق حقیقت کے ادراک کا ذریعہ منطق نہیں بلکہ تجربہ اور مشاہدہ ہے جو در حقیقت بنیاد بنتا ہے سائنسی نظریات کی جن کی مدد سے واقعات وحوادثات کی وضاحت اور پیشن گوئی کی جاتی ہے۔ ذیل کی شکل میں استقرائی نظریہ سائنس کی وضاحت دیکھی جاسکتی ہے۔
استقرائی نظریہ علم میں پائی جانے والی بظاہر خوبی اس کا یہ دعویٰ ہے کہ حواس خمسہ پر مبنی تجربات اور مشاہدات اور استخراجی منطق دونوں ہی معروضی نوعیت کی اشیاءمیں یعنی دونوں میں سے کسی کا تعلق بھی انسان کی خواہشات ، امیدوں ، ذاتی رائے یا رحجانات سے نہیں۔ اس لیے اس طریقہ علم سے حاصل ہونے والے نظریات ہی اصل علم ہیں جبکہ باقی سب خرافات اور تواہمات ہیں۔ البتہ اس دعوت کی صحت اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مشاہدات اور استقرائی عمل دونوں ہی معروضی [Objective]نوعیت کی اشیاءہیں ۔ ذیل میں ہم ان دونوں پر تفصیلاً گفتگو کریں گے لیکن اس سے قبل استقرائی نظریہ سائنس کی ایک بنیادی کمزوری کی وضاحت ضروری ہے۔
مسئلہ استقرائیت[Problem of Induction]:
استقرائی طریقے کی کم زوری:
اگر سائنس تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر آفاقی نظریے قائم کرنے کا نام ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہے کہ کیا ایسے نظریات منطقی اعتبار سے درست ہوتے ہیں؟ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ استقرائی علمائے سائنس کے مطابق اگر کثیر تعداد میں تجربات جمع کردیے جائیں تو آفاقی نظریات کی تعمیر کرنا منطقی اعتبار سے درست ہوگا۔ مگر ذرا سے غور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ منطق درست نہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ تمام کوے کالے ہیں اور اس کی دلیل یہ پیش کرے کہ اس نے کثیر تعداد میں مختلف اوقات اور مقامات پر صرف کا لے ہی کو وں کا مشاہدہ کیا ہے تو اس دلیل کا ضعف عین واضح ہے۔ اس شخص کے پاس ایسی کونسی منطقی دلیل ہے جس سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہو کہ اگلاکوا جس کا مشاہدہ کیا جائے گا وہ کالا نہیں ہوسکتا؟ کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں کالے کووں کے مشاہدے سے یہ لازم آجائے گا کہ کوئی کوا بھی کالے رنگ کے سوا کہیں نہیں پایا جاتا؟ نہیں اور ہر گز نہیں اور بالفرض کوئی شخص کوے کے مشاہدہ کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے اور دنیا بھر کی سیر کرکے کروڑوں کالے کووں کا مشاہدہ کرلے، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے اس بات کا علم کس ذریعے سے ہوسکتا ہے کہ اُس نے تمام کووں کا مشاہدہ کرلیا ہے؟ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ تجربات و مشاہدات، چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں جمع کرلیے جائیں، کسی آفاقی نظریے کی منطقی صحت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
اگر استقرائی نظریات کو منطقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر کیا کیا جائے؟ استقرائی علمائے سائنس ایک اور طریقے سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ استقرائی طریقہ علم سے حاصل ہونے والے نظریات ماضی میں ایک کثیر تعداد میں کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں، لہٰذا ہم یہ بات قریب قریب یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ صحیح ہے، مثلاً ہم نے کئی مرتبہ اپنی روز مرہ زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب کسی شے کو ہوا میں چھوڑا جائے تو وہ زمین کی طرف گرتی ہے، لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ چیزیں ہمیشہ زمین کی طرف گرتی ہیں۔لیکن یہ دلیل ایک داخلی تضاد لیے ہوئے ہے وہ ایسے کہ اس میں استقرائیت کو ثابت کرنے کے لیے استقرائی منطق سے مدد لی گئی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا اس دلیل کی ساخت پر غور کریں۔
1] استقرائی طریقہ علم مثال ’الف‘ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
2] استقرائی طریقہ علم مثال ’ب‘ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
نتیجہ: استقرائی طریقہ علم ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔
یہ ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ استقرائی طریقہ علم کی صحت ثابت کرنے کے لیے استقرائی منطق استعمال کرنا لا یعنی بات ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ میں کہہ رہا ہوں۔ چناں چہ استقرائی علمائے سائنس 17 ویں صدی سے لے کر آج تک اس مشکل کا کوئی حل پیش نہیں کرسکے۔ استقرائی منطق کی صحت منطقی اعتبار سے ثابت نہ کرسکنے کو Problem of Induction [مسئلہ استقرائیت] کہتے ہیں۔
اسی ضمن میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ کثیر، تعداد سے مراد کیاہے۔یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ کثیر مشاہدات کی بنیاد پر آفاقی نظریہ قائم کیا جاسکتا ہے تو کثیر سے مراد کتنے مشاہدات ہوتے ہیں: سو ،ہزار یا لاکھ؟ ہماری عام زندگیوں میں کئی مثالیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کوئی آفاقی نوعیت کا نظریہ محض چند مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے مثال کے طور پر ایٹم بم کی تباہی کا نظریہ صرف ایک مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔ کیا یہ بھی سائنسی نظریہ ہے؟ آخر کتنی تعداد میں مشاہدات اور تجربات کثیر کہلانے کے لائق ہیں؟
استقرائیت کی مزید کمزوریاں:ہر مشاہدہ ایک نظریے کا محتاج ہے:
اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ استقرائی نظریہ سائنس کی بظاہر چمک دمک مشاہدے کی معروضیت کے مفروضے پر قائم ہے۔اب ہم اس مفروضے پر کچھ کلام کرتے ہیں۔ استقرائی علماءسائنس کے مطابق سائنس کا آغاز تجربہ یا مشاہدہ ہے اور یہ مشاہدہ در حقیقت ایک ایسی معروضی بنیاد فراہم کرتاہے جس پر آفاقی نظریات قائم کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں ہی دعوے غلط ہیں۔ در حقیقت ہر مشاہدہ ایک نظریے کا محتاج ہوتاہے لہٰذا نظریہ یا مفروضہ یا عقیدہ پہلے آتا ہے جس کی بنیاد پر مشاہد ہ کیا جاتاہے اور اس کی تین وجوہات ہیں:
1۔ مشاہدات صرف حواس خمسہ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق مشاہدہ کرنے والے شخص کی امیدوں اور پہلے سے حاصل شدہ علم سے بھی ہوتا ہے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی شے کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں حالاں کہ وہ ایک ہی شے ہوتی ہے [نفسیات دانوں نے اس کی بہت سی مثالیں دی ہیں ہم یہاں اُس تمام عمل کا احاطہ نہیں کرسکتے جو مشاہدے کے دوران وقوع پذیر ہوتا ہے] چناں چہ اگر آپ ایک ایسے شخص کے سامنے آم رکھ دیں جس نے زندگی میں کبھی بھی آم کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو وہ یہ نہیں بتاسکتا کہ اس نے کس شے کا مشاہدہ کیا ہے ۔
مشاہدہ کے نتائج علم کا تناظر بدلنے سے بدل جاتے ہیں :
حو اس خمسہ، مثلاً آنکھ، سے مشاہدہ کی جانے والی شے کا عکس ہماری آنکھ کے پردے پر بنتا ہے لیکن اس عکس کی صفات اور حقیقت تک رسائی حواس سے نہیں بلکہ انسانی دماغ سے ہوتی ہے۔ چناں چہ اس شے کی حقیقت اور صفات تک رسائی اس علم کے بغیر ممکن نہیں جو پہلے سے حاصل شدہ ہو اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آپ کسی شخص کا ایکس رے [X-Ray]کسی ان پڑھ شخص کو پکڑا دیں تو وہ یہی کہے گا کہ یہ بے معنی تصویر ہے اور محض ایک کالے رنگ کا صفحہ ہے جبکہ ایک ڈاکٹر اسی ایکسرے کو دیکھ کر طر ح طرح کی باتیں بتانے لگتا ہے۔ یہ فرق کس لیے ہوا؟ لہٰذا یہ کہنا کہ سائنس کا آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے ایک غلط بات ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی شے کا مشاہدہ معاشرتی ، ثقافتی تناظر اور پہلے سے حاصل کردہ علم کے بدلنے سے بدل جاتا ہے جیسے پاکستانی معاشرے میں کسی عریاں لباس کی عورت کے مشاہدے سے ایک مسلمان شخص میں بے حیائی کا تصور آتا ہے جبکہ ایک یورپی یا امریکی کے ذہن میں آزادی کا۔
ہرمشاہدہ کی ایک خاص زبان اور خاص علم ہوتاہے
مشاہدات کے لئے تیقنات، ایمانیات لازمی ہیں:
2۔ ہر مشاہدہ درحقیقت ایک زبان میں بیان کیا جاتا ہے اور ہر زبان در حقیقت خاص قسم کے نظریات ہی کو بیان کرتی ہے، چاہے وہ نظریات کتنے ہی معمولی نوعیت کے ہوں ۔مثال کے طور پر اگر ہم یہ بات کہیں کہ” دیکھو بھائی، بریک لگاؤ، سامنے دیوار ہے گاڑی ٹکرا جائے گی“،تو گو کہ بظاہر یہ ایک سادہ بات ہے مگر اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے کئی باتیں فرض کرنا لازم ہیں
[الف] کوئی شے بریک ہے
[ب] جس کے ذریعے رفتار کم کی جاسکتی ہے۔
[ج] کوئی رگڑ کا قانون بھی ہے جس کے تحت یہ بریک کام کرتی ہے ۔
[د] سامنے جو نظر آرہا ہے وہ دیوار ہے جو ایک ٹھوس شے ہے۔
[ہ] اور یہ کہ اس سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ دیکھو بھائی ہوا چل رہی ہے بچے کا جھولا کہیں گر ہی نہ جائے تو در حقیقت وہ اس بات کو مانتا ہے کہ
[الف] ہوا کوئی شے ہے
[ب] جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے راستے میں آنے والی شے کو ہلا سکتی ہے
[ج] اور بچے کا جھولا گرنے سے بچے کو نقصان ہوسکتاہے۔چناں چہ ہر مشاہدہ کسی نہ کسی زبان میں ادا کیا جائے گااور ہر زبان چند نظریات کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے اُن نظریات کو مانے بغیر کبھی بھی کوئی مشاہدہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے اس بات پر غور کریں کہ کسی بھی لفظ میں پائے جانے والے معنی اور مفہوم تک رسائی کیسے حاصل ہوتی ہے۔
سائنسی تجربات معروضی نہیں ہوتے ان کا تعلق نظریے سے ہوتاہے:
اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ڈکشنری ، یعنی ہم ڈکشنری دیکھ کر اس کا معنی جانتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈکشنری لکھنے کے لیے کچھ الفاظ کے معنیٰ پہلے سے معلوم ہو نا چاہیے کہ جن کی مدد سے دوسرے الفاظ کی تعریف کی جائے گی۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہو گا کہ پھر ان الفاظ کے معنیٰ کیسے معلوم ہوں گے۔ ایک دوسرا جواب [جو استقرائی علمائے سائنس رکھتے ہیں] یہ ہوسکتا ہے کہ الفاظ کے معنیٰ در اصل تجربے یا مشاہدے سے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا باطل ہونا تو بالکل واضح ہے اس کے لیے اس بات پر غور کریں کہ لفظ سفید کا مفہوم کیسے سمجھ میں آیا۔ استقرائی علماءاس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ چند اشیاءکے مشاہدے سے ان میں ایک ایسی شے نظر آئے گی جو سب میں پائی جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر ہمیں سفید ی کا مفہوم سمجھ میں آئے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سفیدی کا مفہوم کیسے ذہن میں آیا یعنی یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس یکساں شے کا نام سفید ہے۔ اس بات کو ایک اور طرح سے یوں سمجھیں کہ فرض کریں کہ ایک ایسا شخص ہو جسے کسی رنگ میں کوئی تمیز نہ کرنا آتی ہو اور نہ ہی اُن کے نام معلوم ہوں اگر ایسے شخص کے سامنے چند مختلف رنگوں کی مختلف اشیاءرکھ دی جائیں اور اس سے کہا جائے کہ سفید رنگ کی اشیاءایک طرف کردو تو وہ کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ چوں کہ وہ لفظ سفید کے مفہوم سے آگاہ نہیںہے تو وہ سفید رنگ کی اشیاءعلیحدہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر آپ سے اس عمل کے لیے کہا جائے تو باآسانی یہ عمل کرلیں گے۔ چناں چہ آپ اپنے مشاہدے میں آنے والی مختلف الانواع اشیاءمیں سے جب صرف سفید کو علیحدہ کرتے ہیں تو در حقیقت سفیدی کا مفہوم آپ کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے چناں چہ یہ دعوی کا الفاظ کا مفہوم ان کے مشاہدے سے واضح ہوتا ہے ایک غلط دعوی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ مشاہدے کا تعلق نظریات سے نہیں ہوتاایک غیر منطقی بات ہے ۔ در حقیقت ہر مشاہدہ کسی نظریے کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استقرائی علماءکا یہ دعویٰ کہ تجربات معروضی شے ہیں اور ان کا کسی شخص کے خیالات و نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک احمقانہ بات ہے۔
سائنسی علم کی بنیاد صرف مشاہدہ نہیں ہوسکتی:
مشاہدات کے لئے کون سے حالات ہوں؟
3۔ ایک اور اہم بات جس سے مشاہدے کا نظریے کے تحت ہونا ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ استقرائی علماءمشاہدات سے حاصل شدہ آفاقی نظریات کی صحت کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ مشاہدات و تجربات مختلف حالات کے تحت رونما ہونے چاہئیں [دیکھیے تین شرطوں میں سے شرط نمبر دو]۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کون سے حالات کسی مشاہدے کے لیے ضروری ہیں اور کن حالات میں تبدیلی سے مشاہدے میں تبدیلی آسکتی ہے؟ مثلاً فرض کریں ایک سائنس دان اپنی لیبارٹری میں پانی بنانے کا تجربہ کررہا ہے۔اسے اس بات کا کیسے علم ہوگا کہ کن حالات کے بدل جانے سے اس کے مشاہدے اور تجربات کے نتائج بدل جائیں گے؟ کیا وہ برتن جس میں تجربہ کیا جارہا ہے اس کا رنگ یا سائز بدلنے سے نتائج بدلیں گے؟ کیا لیبارٹری کا سائز یا اس کی جغرافیائی حیثیت کی تبدیلی سے کوئی اثر پڑے گا؟کیا تجربہ کرنے والے سائنس دان کے رنگ و نسل یا اس کے نام، کپڑوں کے رنگ، جوتوں کے رنگ وغیرہ کی تبدیلی نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ کیا کمرے کے درجہ حرارت سے کوئی فرق پڑے گا؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے صرف آخری بات اُس کے تجربے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ باقی تمام سوالا ت لاتعلق ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اس بات کا علم کیسے ہوگا کہ کون سے حالات مشاہدے کے نتائج کے لحاظ سے اہم ہیں جبکہ باقی غیر اہم؟ ظاہر بات ہے کہ سارے حالات کو باری باری بدل کر تجربہ دہرانا عقلاً محال اور عملاً مہمل بات ہے کیوں کہ ایسے حالات و واقعات جو ممکنہ طور پر بدلے جاسکتے ہیں ان کی فہرست تو کروڑوں بلکہ شاید غیر فانی چیزوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشاہدے کے نتیجے میں کون سے حالات اہم اور کون سے غیر اہم ہیں اس کا فیصلہ کیسے ہوا؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا علم کسی بھی زیر غور مشاہدے کی Theoretical Knowledge سے ہوتا ہے۔درحقیقت مشاہدات اور تجربات تو کسی طے شدہ نظریات کی صداقت جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور یہ نظریات ہی ہوتے ہیں۔ جن کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کون سے حالات کس تجربے کے لیے اہم ہیں اور کون سے غیر اہم چنانچہ اگر آپ سے کہا جائے کہ تجربہ کرو تو آپ پہلا سوال یہی پوچھیں گے کہ کس لیے؟
سائنس کی بنیاد نظریات ہے: یہ نظریہ سائنس کی موت ہے:
سائنس علم حاصل کرنے کاایک واحد عقلی طریقہ کار نہیں :
علم کی بنیادمحض تجربہ نہیں ہوسکتی:
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سائنسی علم کی بنیاد مشاہدہ نہیں ہوسکتی کیوں کہ مشاہدہ تو بذات ِ خود نظریے کا محتاج ہے اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر اس بات کے مان لینے میں کیا مضائقہ ہے کہ سائنس کی بنیاد نظریات ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ سائنس کے لیے موت ہے۔ درحقیقت استقرائی علمائے سائنس اسی بات پر تو سائنس کو ایک اعلیٰ علم سمجھتے ہیں کہ چوں کہ سائنس کی بنیاد مشاہدات و تجربات ہیں اور تجربات لا محالہ معروضی [Objective] ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی فرد یا جماعت کے نظریات یا ایمانیات سے نہیں ہوتالہٰذا سائنس ہی علم حاصل کرنے کا ایک واحد عقلی [rational] طریقہ کار ہے جو آفاقی [universal] ہے اور اس کے علاوہ جتنے طریقہ ہائے علم ہیں [بشمول وحی] وہ آفاقی طور پر عقلی نہیں ہیں۔ لہذا علم صرف وہ ہے جو سائنس کے استقرائی طریقے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی تمام طریقہ حصول علم غیر عقلی [irrational] ہیں لہٰذا توھمات،خرافات اور ماضی کی بھولی بسری کہانیاں ہیں۔ لہٰذا اس بات کا اقرار کہ سائنس نظریات سے ابتداءکرتی ہے در حقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ سائنس کوئی اعلیٰ طریقہ حصول علم نہیں ہے بلکہ جیسے اور کہانیاں ہیں ویسے ہی غیر عقلی نظریات پر قائم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن ہم نے تفصیلاً اس بات کو سمجھا کہ یہ دعویٰ کہ علم کی بنیاد تجربہ ہوسکتاہے ایک لغو دعویٰ ہے۔
استقرائی علمائے سائنس کی سائنسی علم کی برتری ثابت کرنے کی ناکامی کو پورا کرنے کے لیے کارل پاپر [popper] نے سائنسی علم کی ایک مختلف تو جیہہ بیان کی جسے ficationsimیاfals [تردیدیت تکذیبیت] کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم اس نظریہ سائنسی کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا اس نظریے کی مدد سے سائنسی علم کی برتری دوسرے علوم پر ثابت کی جاسکتی ہے۔
(بقیہ اگلی پوسٹ میں)